مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا مسیح کی پیشوائی آپ کیلئے حقیقی ہے؟‏

کیا مسیح کی پیشوائی آپ کیلئے حقیقی ہے؟‏

کیا مسیح کی پیشوائی آپ کیلئے حقیقی ہے؟‏

‏”‏نہ تم ہادی کہلاؤ کیونکہ تمہارا ہادی ایک ہی ہے یعنی مسیح۔‏“‏ —‏متی ۲۳:‏۱۰‏۔‏

۱.‏ سچے مسیحیوں کا واحد پیشوا کون ہے؟‏

یہ منگل نیسان ۱۱ کا دن تھا۔‏ تین دن بعد یسوع مسیح کو ہلاک کر دیا جائیگا۔‏ اِس دن یسوع آخری مرتبہ ہیکل گیا اور وہاں جمع بِھیڑ اور اپنے شاگردوں کو نہایت اہم تعلیم دی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏تم ربّی نہ کہلاؤ کیونکہ تمہارا اُستاد ایک ہی ہے اور تم سب بھائی ہو۔‏ اور زمین پر کسی کو اپنا باپ نہ کہو کیونکہ تمہارا باپ ایک ہی ہے جو آسمانی ہے۔‏ اور نہ تم ہادی کہلاؤ کیونکہ تمہارا ہادی ایک ہی ہے یعنی مسیح۔‏“‏ (‏متی ۲۳:‏۸-‏۱۰‏)‏ واقعی،‏ یسوع مسیح سچے مسیحیوں کا پیشوا ہے۔‏

۲،‏ ۳.‏ یہوواہ کی بات سننا اور اُس کے مقررہ پیشوا کو قبول کرنا ہماری زندگی پر کیا اثر ڈالتا ہے؟‏

۲ یسوع کی پیشوائی قبول کر لینے سے ہماری زندگی پر اُس کے کیا ہی مفید اثرات ہوتے ہیں!‏ اس پیشوا کی آمد کی پیشینگوئی میں یہوواہ خدا نے یسعیاہ نبی کی معرفت اعلان کِیا:‏ “‏اَے سب پیاسو پانی کے پاس آؤ اور وہ بھی جسکے پاس پیسہ نہ ہو۔‏ آؤ مول لو اور کھاؤ۔‏ ہاں آؤ!‏ مے اور دودھ اور بےزر اور بےقیمت خریدو۔‏ .‏ .‏ .‏ تم غور سے میری سنو اور وہ چیز جو اچھی ہے کھاؤ اور تمہاری جان فربہی سے لذت اُٹھائے۔‏ .‏ .‏ .‏ دیکھو مَیں نے اُسے اُمتوں کے لئے گواہ مقرر کِیا بلکہ اُمتوں کا پیشوا اور فرمانروا۔‏“‏—‏یسعیاہ ۵۵:‏۱-‏۴‏۔‏

۳ یسعیاہ نے یہ ظاہر کرنے کیلئے عام مائع—‏پانی،‏ دودھ اور مے—‏کا استعارہً ذکر کِیا کہ یہوواہ کی بات سننے اور ہمارے لئے مقرر کئے گئے اُس کے لیڈر اور کمانڈر کی راہنمائی میں چلنے کا ہماری زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے۔‏ اس کا اثر بالکل ایک گرم دن پر ٹھنڈے پانی کے گلاس کی مانند تازگی‌بخش ہے۔‏ اس سے سچائی اور راستبازی کے لئے ہماری پیاس بجھتی ہے۔‏ جس طرح دودھ بچوں کو تقویت بخشتا اور اُن کی نشوونما میں مددگار ثابت ہوتا ہے ویسے ہی ’‏کلام کا دودھ‘‏ ہمیں مضبوط کرنے کے علاوہ خدا کے ساتھ ہمارے رشتے میں روحانی افزائش کا باعث بناتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱-‏۳‏)‏ نیز کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ مے خوشی کے مواقع پر ہماری خوشی کو دوبالا کرتی ہے؟‏ اسی طرح،‏ سچے خدا کی پرستش کرنا اور اُس کے مقررہ پیشوا کے نقشِ‌قدم پر چلنا ہماری زندگی کو ”‏خوشی“‏ سے معمور کرتا ہے۔‏ (‏استثنا ۱۶:‏۱۵‏)‏ پس،‏ ہم سب—‏پیروجوان،‏ مردوزن—‏کے لئے یہ ظاہر کرنا نہایت ضروری ہے کہ مسیح کی پیشوائی ہمارے لئے حقیقی ہے۔‏ لیکن ہم اپنی روزمرّہ زندگی میں کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ مسیحا ہمارا پیشوا ہے؟‏

نوجوانو—‏’‏حکمت میں بڑھتے‘‏ جاؤ

۴.‏ (‏ا)‏ فسح کے موقع پر،‏ جب ۱۲ سالہ یسوع یروشلیم گیا تو کیا واقع ہوا تھا؟‏ (‏ب)‏ یسوع کا ۱۲ سال کی عمر میں بھی کیسا علم تھا؟‏

۴ ہمارے پیشوا کی طرف سے نوجوانوں کیلئے قائم‌کردہ نمونے پر غور کریں۔‏ یسوع کے بچپن کی بابت زیادہ معلومات دستیاب نہ ہونے کے باوجود ایک واقعہ کافی کچھ آشکارا کرتا ہے۔‏ جب یسوع ۱۲ برس کا تھا تو اُس کے والدین اُسے سالانہ عیدِفسح کے لئے اپنے ساتھ یروشلیم لیکر گئے۔‏ اس موقع پر وہ صحیفائی گفتگو میں مشغول ہو گیا اور اُسکا خاندان نادانستہ طور پر اُسے وہاں چھوڑ کر چلا گیا۔‏ تین دن بعد پریشانی میں مبتلا اُسکے والدین،‏ یوسف اور مریم نے اُسے ہیکل میں ”‏اُستادوں کے بیچ میں بیٹھے اُن کی سنتے اور اُن سے سوال کرتے ہوئے پایا۔‏“‏ مزیدبرآں،‏ ”‏جتنے اُسکی سُن رہے تھے اُسکی سمجھ اور اُسکے جوابوں سے دنگ تھے۔‏“‏ ذرا تصور کریں کہ صرف ۱۲ سال کی عمر میں یسوع خیال‌آفرین روحانی سوال پوچھنے کے علاوہ دانشمندانہ جواب بھی دینے کے قابل تھا!‏ اس سلسلے میں اُسکے والدین کی تربیت یقیناً بہت مفید ثابت ہوئی ہوگی۔‏—‏لوقا ۲:‏۴۱-‏۵۰‏۔‏

۵.‏ نوعمر خاندانی بائبل مطالعے کیلئے اپنے رویے کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟‏

۵ شاید آپ نوعمر ہیں۔‏ اگر آپکے والدین خدا کے عقیدتمند خادم ہیں تو آپکے گھر میں بائبل مطالعے کا خاندانی پروگرام ضرور ہوگا۔‏ آپکا خاندانی مطالعے کے سلسلے میں رویہ کیسا ہے؟‏ کیوں نہ ایسے سوالات پر غور کِیا جائے:‏ ’‏کیا مَیں اپنے خاندان میں بائبل مطالعے کے بندوبست کی پورے دل‌وجان سے حمایت کرتا ہوں؟‏ کیا مَیں معمول میں کسی رکاوٹ کے بغیر تعاون کا مظاہرہ کرتا ہوں؟‏‘‏ (‏فلپیوں ۳:‏۱۶‏)‏ ’‏کیا مَیں مطالعے میں سرگرم شرکت کرتا ہوں؟‏ جب موزوں ہو تو کیا مَیں مطالعے کے مواد کی بابت سوال پوچھتا اور اسکے اطلاق پر تبصرہ کرتا ہوں؟‏ روحانی ترقی کرتے ہوئے کیا مَیں ”‏سخت غذا“‏ کیلئے خواہش رکھتا ہوں جو ”‏پوری عمر والوں کیلئے“‏ ہوتی ہے؟‏‘‏—‏عبرانیوں ۵:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

۶،‏ ۷.‏ روزانہ بائبل پڑھائی کا پروگرام نوجوانوں کیلئے کتنا قابلِ‌قدر ثابت ہوتا ہے؟‏

۶ روزانہ بائبل پڑھائی کا پروگرام بھی قابلِ‌قدر ہے۔‏ زبورنویس نے اپنے گیت میں یوں اظہارِخیال کِیا:‏ ”‏مبارک ہے وہ آدمی جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا .‏ .‏ .‏ بلکہ [‏یہوواہ]‏ کی شریعت میں اُسکی خوشنودی ہے اور اُسی کی شریعت پر دن رات اُسکا دھیان رہتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱:‏۱،‏ ۲‏)‏ موسیٰ کا جانشین یشوع ’‏شریعت کی کتاب دن اور رات پڑھتا تھا۔‏‘‏ اس سے وہ دانشمندانہ کام کرنے اور اپنی خداداد تفویض میں کامیاب ہونے کے قابل ہوا تھا۔‏ (‏یشوع ۱:‏۸‏)‏ ہمارے پیشوا یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہیگا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی ہے۔‏“‏ (‏متی ۴:‏۴‏)‏ اگر ہمیں ہر روز جسمانی غذا کی ضرورت ہے توپھر ہمیں باقاعدہ روحانی غذا کی کتنی زیادہ ضرورت ہوگی!‏

۷ اپنی روحانی ضرورت کو بھانپتے ہوئے ۱۳ سالہ نیکول نے ہر روز بائبل پڑھنا شروع کر دی۔‏ * اب ۱۶ سال کی عمر میں وہ ایک مرتبہ پوری بائبل پڑھائی مکمل کرکے دوسری مرتبہ پھر آدھی بائبل پڑھ چکی ہے۔‏ اُس کا طریقۂ‌کار بہت ہی سادہ ہے۔‏ وہ بیان کرتی ہے کہ ”‏مَیں کم‌ازکم ہر روز ایک باب پڑھنے کا عزم کرتی ہوں۔‏“‏ اُسکی روزانہ بائبل پڑھائی اُس کے لئے کیسے مفید ثابت ہوئی ہے؟‏ وہ جواب دیتی ہے:‏ ”‏آجکل بُرے اثرات کی بھرمار ہے۔‏ مجھے ہر روز سکول اور دیگر جگہوں پر ایمان کو خطرے میں ڈالنے والی آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے۔‏ ہر روز بائبل پڑھنا ان آزمائشوں کی مزاحمت کرنے کا حوصلہ دینے والے بائبل احکام اور اصولوں کو فوراً یاد کرنے میں میری مدد کرتا ہے۔‏ نتیجتاً مَیں یہوواہ اور یسوع کی قربت محسوس کرتی ہوں۔‏“‏

۸.‏ عبادتخانہ کے سلسلے میں یسوع کا دستور کیا تھا اور نوعمر اُسکی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۸ عبادتخانہ میں صحائف کی پڑھائی سننا اور اس میں شرکت کرنا یسوع کا دستور تھا۔‏ (‏لوقا ۴:‏۱۶؛‏ اعمال ۱۵:‏۲۱‏)‏ بچوں کیلئے اس نمونے کی پیروی میں مسیحی اجلاسوں پر باقاعدگی سے حاضر ہونا کتنا اچھا ہوگا جہاں بائبل کی پڑھائی اور مطالعہ کِیا جاتا ہے!‏ ایسے اجلاسوں کیلئے قدردانی کا اظہار کرتے ہوئے ۱۴ سالہ رچرڈ نے بیان کِیا:‏ ”‏اجلاس میرے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔‏ مجھے یہاں نیک‌وبد،‏ اخلاقی اور غیراخلاقی،‏ مسیحی اور غیرمسیحی کاموں میں فرق سمجھایا جاتا ہے۔‏ اسی لئے مجھے کسی تلخ تجربے سے نہیں گزرنا پڑتا۔‏“‏ واقعی،‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی شہادت برحق ہے۔‏ نادان کو دانش بخشتی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۹:‏۷‏)‏ نیکول بھی ہفتہ‌وار پانچ اجلاسوں پر حاضر ہوتی ہے۔‏ وہ انکی تیاری میں دو تا تین گھنٹے بھی صرف کرتی ہے۔‏—‏افسیوں ۵:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

۹.‏ نوجوان ’‏حکمت میں ترقی‘‏ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۹ جوانی ’‏خدایِ‌واحد اور برحق اور اُس کے بھیجے ہوئے یسوع مسیح کا علم‘‏ حاصل کرنے کا بہترین وقت ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۳‏)‏ آپ غالباً ایسے نوجوانوں کو جانتے ہیں جو مزاحیہ کتابیں پڑھنے،‏ ٹیلیویژن دیکھنے،‏ ویڈیو گیمز کھیلنے یا انٹرنیٹ پر خاصا وقت صرف کرتے ہیں۔‏ جب آپ کے پاس اپنے پیشوا کا کامل نمونہ ہے توپھر آپکو انکی نقل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‏ یسوع بچپن میں بھی یہوواہ کی بابت سیکھنے سے خوشی حاصل کرتا تھا۔‏ چنانچہ اسکا نتیجہ کیا تھا؟‏ روحانی چیزوں سے محبت کے باعث،‏ ”‏یسوع حکمت .‏ .‏ .‏ میں ترقی کرتا گیا۔‏“‏ (‏لوقا ۲:‏۵۲‏)‏ آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔‏

‏”‏ایک دوسرے کے تابع رہو“‏

۱۰.‏ کونسی چیز خاندانی زندگی کو امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنا سکتی ہے؟‏

۱۰ گھر یا تو امن‌واطمینان کا گہوارہ یا پھر جھگڑے اور فساد کا اکھاڑہ ہو سکتا ہے۔‏ (‏امثال ۲۱:‏۱۹؛‏ ۲۶:‏۲۱‏)‏ مسیح کی پیشوائی قبول کرنا خاندان میں امن اور خوشحالی کو فروغ دیتا ہے۔‏ دراصل یسوع خاندانی رشتوں کیلئے بھی ایک عمدہ نمونہ ہے۔‏ صحائف بیان کرتے ہیں:‏ ”‏مسیح کے خوف سے ایک دوسرے کے تابع رہو۔‏ اَے بیویو!‏ اپنے شوہروں کی ایسی تابع رہو جیسے خداوند کی۔‏ کیونکہ شوہر بیوی کا سر ہے جیسےکہ مسیح کلیسیا کا سر ہے اور وہ خود بدن کا بچانے والا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ اَے شوہرو!‏ اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کرکے اپنے آپ کو اُسکے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔‏“‏ (‏افسیوں ۵:‏۲۱-‏۲۵‏)‏ کُلسّے کی کلیسیا کو پولس نے لکھا:‏ ”‏اَے فرزندو!‏ ہر بات میں اپنے ماں باپ کے فرمانبردار رہو کیونکہ یہ خداوند میں پسندیدہ ہے۔‏“‏—‏کلسیوں ۳:‏۱۸-‏۲۰‏۔‏

۱۱.‏ شوہر کیسے ظاہر کر سکتا ہے کہ مسیح کی پیشوائی اُس کیلئے حقیقی ہے؟‏

۱۱ اس مشورت پر عمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شوہر خاندان میں پیشوائی کرے،‏ بیوی وفاداری سے اُس کی حمایت کرے اور بچے والدین کی فرمانبرداری کریں۔‏ لہٰذا،‏ مرد کی سرداری مناسب طریقے سے عمل میں لائے جانے کی صورت میں خوشی پر منتج ہوتی ہے۔‏ دانشمند شوہر کو اپنے سر اور پیشوا مسیح یسوع کی نقل کرتے ہوئے سرداری کو عمل میں لانا سیکھنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳‏)‏ اگرچہ یسوع کو بعدازاں ”‏سب چیزوں کا سردار بنا کر کلیسیا کو دے دیا“‏ گیا توبھی وہ زمین پر ”‏اسلئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اسلئے کہ خدمت کرے۔‏“‏ (‏افسیوں ۱:‏۲۲؛‏ متی ۲۰:‏۲۸‏)‏ اسی طرح،‏ ایک مسیحی شوہر اپنے خودغرضانہ مفادات کی بجائے اپنے بیوی بچوں—‏جی‌ہاں،‏ اپنے پورے خاندان کے مفاد کیلئے اپنی سرداری کو عمل میں لاتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۴،‏ ۵‏)‏ وہ اپنے سر،‏ یسوع مسیح کی نیک صفات کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ یسوع کی طرح،‏ وہ بھی حلیم اور دل کا فروتن ہوتا ہے۔‏ (‏متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰‏)‏ جب اُس سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ ”‏معاف کیجئے“‏ یا ”‏آپ درست ہیں“‏ جیسے الفاظ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔‏ اُسکا اچھا نمونہ بیوی کیلئے ”‏مددگار،‏“‏ ایک ”‏تکملہ“‏ اور ایک ایسے مرد کی ”‏رفیق“‏ بننا اور اُس سے سیکھنا اور اُس کیساتھ ملکر کام کرنا آسان بناتا ہے۔‏—‏پیدایش ۲:‏۲۰؛‏ ملاکی ۲:‏۱۴‏۔‏

۱۲.‏ کونسی چیز بیوی کی سرداری کے اصول کی تابعداری کرنے میں مددگار ثابت ہوگی؟‏

۱۲ بیوی کو بھی اپنے شوہر کے تابع رہنا ہے۔‏ تاہم،‏ اگر وہ دُنیا کی روح سے متاثر ہو جاتی ہے تو سرداری کے اصول کی بابت اُس کا نظریہ بھی متاثر ہو سکتا ہے اور کسی مرد کی تابعداری کرنے کا خیال اُسے بالکل نہیں بھاتا۔‏ صحائف مرد کے تحکمانہ ہونے کی دلالت نہیں کرتے لیکن یہ بیویوں سے شوہروں کی تابعداری کا تقاضا ضرور کرتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۲۴‏)‏ بائبل شوہر یا والد کو جوابدہ بھی ٹھہراتی ہے اور جب اس کی مشورت کا اطلاق کِیا جاتا ہے تو یہ خاندان میں امن‌وسلامتی کا باعث بنتا ہے۔‏—‏فلپیوں ۲:‏۵‏۔‏

۱۳.‏ یسوع نے تابعداری کے سلسلے میں بچوں کے لئے کونسا نمونہ قائم کِیا؟‏

۱۳ بچوں پر اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنا فرض ہے۔‏ اس سلسلے میں،‏ یسوع نے ایک بہت ہی عمدہ نمونہ قائم کِیا۔‏ یسوع کے ۱۲ سال کی عمر میں تین دن تک ہیکل میں رہ جانے کے واقعہ کے بعد ”‏وہ [‏اپنے والدین]‏ کے ساتھ روانہ ہو کر ناؔصرۃ میں آیا اور اُنکے تابع رہا۔‏“‏ (‏لوقا ۲:‏۵۱‏)‏ والدین کیلئے بچوں کی تابعداری خاندان میں امن‌وسکون کا باعث بنتی ہے۔‏ جب خاندان کے تمام افراد مسیح کی پیشوائی کی تابعداری کرتے ہیں تو خاندان خوشی حاصل کرتا ہے۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ گھر کے اندر پیدا ہونے والی مشکلات کو حل کرنے میں کونسی چیز ہماری مدد کریگی؟‏ مثال دیں۔‏

۱۴ جب گھر میں مشکلات برپا ہو جائیں توبھی یسوع کی تقلید کرنا اور اُس کی راہنمائی قبول کرنا کامیابی کی کُنجی ثابت ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ۳۵ سالہ جیری نے جب ایک نوعمر بچی کی ماں لیانا سے شادی کی تو ایک ایسی مشکل صورتحال پیدا ہو گئی جسکی بابت اُنہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔‏ جیری وضاحت کرتا ہے:‏ ”‏مَیں جانتا تھا کہ کامیاب اور اچھا سردار بننے کیلئے مجھے اُنہی بائبل اصولوں پر عمل کرنا ہوگا جو دیگر خاندانوں کی کامیابی میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔‏ لیکن جلد ہی مَیں یہ سمجھ گیا کہ مجھے زیادہ حکمت اور بصیرت سے کام لیتے ہوئے ان اصولوں کو کام میں لانا ہوگا۔‏“‏ اُس کی سوتیلی بیٹی نے سوچا کہ اِس شخص کے آنے سے تو اُس میں اور اُس کی ماں میں خلا پیدا ہو گیا ہے اس لئے وہ اُس سے نفرت کرنے لگی۔‏ جیری کو یہ سمجھنے کے لئے فہم کی ضرورت تھی کہ یہی سوچ دراصل اُس کے ہر قول‌وفعل کا سبب تھی۔‏ اُس نے اس صورتحال پر کیسے قابو پایا؟‏ جیری نے جواب دیا:‏ ”‏مَیں نے اور لیانا نے یہ طے کِیا کہ کچھ دیر کے لئے لیانا تادیب‌وتربیت کے حلقے پر کام کرے جبکہ مَیں اپنی سوتیلی بیٹی کے ساتھ اچھا رشتہ پیدا کرنے کی کوشش کروں گا۔‏ کچھ وقت بعد اس کے بہت عمدہ نتائج حاصل ہوئے۔‏“‏

۱۵ جب گھر میں مشکلات کا سامنا ہو تو ہمیں یہ جاننے کیلئے فہم کی ضرورت ہوتی ہے کہ خاندان کے افراد کے ایسے قول‌وفعل کی وجہ کیا ہے۔‏ ہمیں خدائی اصولوں کا موزوں اطلاق کرنے کیلئے بھی حکمت درکار ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یسوع یہ سمجھ گیا تھا کہ جریانِ‌خون میں مبتلا عورت نے اُسے کیوں چھؤا ہے اسلئے وہ اُس کیساتھ بڑی عقلمندی اور شفقت سے پیش آیا۔‏ (‏احبار ۱۵:‏۲۵-‏۲۷؛‏ مرقس ۵:‏۳۰-‏۳۴‏)‏ حکمت اور فہم ہمارے پیشوا کی نمایاں خصوصیات ہیں۔‏ (‏امثال ۸:‏۱۲‏)‏ ہم اُس کی طرح عمل کرکے خوش رہینگے۔‏

‏’‏پہلے بادشاہت کی تلاش کریں‘‏

۱۶.‏ ہماری زندگی میں کس چیز کو پہلا درجہ حاصل ہونا چاہئے اور یسوع نے اپنے نمونے سے کیسے یہ ثابت کِیا؟‏

۱۶ یسوع نے بالکل واضح کر دیا کہ اُس کی پیشوائی قبول کرنے والے لوگوں کی زندگیوں میں کونسی چیز کو پہلا درجہ حاصل ہونا چاہئے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏تم پہلے اُسکی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تمکو مل جائینگی۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۳۳‏)‏ اُس نے اپنے نمونے سے یہ ثابت بھی کِیا کہ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں۔‏ اپنے بپتسمے کے بعد چالیس روزہ فاقے،‏ غوروخوض اور دُعا کے اختتام پر یسوع کو آزمائش کا سامنا ہوا۔‏ شیطان ابلیس نے اُسے ”‏دُنیا کی سب سلطنتیں“‏ پیش کیں۔‏ ذرا تصور کریں کہ ابلیس کی پیشکش قبول کر لینے سے یسوع کیسی زندگی گزار سکتا تھا۔‏ تاہم،‏ مسیح اپنے باپ کی مرضی پوری کرنے کیلئے پُرعزم تھا۔‏ وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ شیطان کی دُنیا میں ایسی زندگی نہایت مختصر ہوگی۔‏ اُس نے فوراً ابلیس کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏لکھا ہے کہ تُو [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر۔‏“‏ اِسکے بعد،‏ ”‏یسوؔع نے منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کِیا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔‏“‏ (‏متی ۴:‏۲،‏ ۸-‏۱۰،‏ ۱۷‏)‏ اِسکے بعد اپنی پوری زمینی زندگی میں مسیح خدا کی بادشاہت کا کُل‌وقتی مُناد تھا۔‏

۱۷.‏ ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں بادشاہتی مفادات کو پہلا درجہ حاصل ہے؟‏

۱۷ اپنے پیشوا کی نقل کرنا اور شیطان کو ہمیں زیادہ تنخواہ والی ملازمت یا کسی اعلیٰ پیشے کو اپنی زندگی کا نصب‌العین بنانے کے جھانسے میں مبتلا کرنے کی اجازت نہ دینا ہمارے لئے مفید ہوگا۔‏ (‏مرقس ۱:‏۱۷-‏۲۱‏)‏ اگر ہم دُنیاوی حاصلات کے جال میں پھنس کر بادشاہتی مفادات کو دوسرا درجہ دیتے ہیں تو یہ بہت بڑی حماقت ہوگی!‏ یسوع نے ہمیں بادشاہتی منادی اور شاگرد بنانے کا کام سونپا ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ واقعی،‏ ہماری خاندانی اور دیگر ذمہ‌داریاں تو ہیں مگر کیا ہم شام کے اوقات یا ویک‌اینڈز کو منادی اور تعلیم دینے کی مسیحی ذمہ‌داری پوری کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں؟‏ یہ نہایت حوصلہ‌افزا بات ہے کہ ۲۰۰۱ کے خدمتی سال میں ۰۰۰،‏۸۰،‏۷ اشخاص کُل‌وقتی خادم یا پائنیروں کے طور پر کام کرنے کے قابل ہوئے تھے!‏

۱۸.‏ خدمتگزاری میں خوشی حاصل کرنے میں کونسی چیز ہماری مدد کرتی ہے؟‏

۱۸ انجیلی بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع بہت شفیق اور باعمل شخص تھا۔‏ روحانی طور پر حاجتمند لوگوں کو دیکھ کر اُسے اُن پر ترس آتا تھا اور بڑی خوشی سے اُنکی مدد کرتا تھا۔‏ (‏مرقس ۶:‏۳۱-‏۳۴‏)‏ جب ہم محبت اور مدد کی مخلصانہ خواہش کیساتھ خدمتگزاری میں حصہ لیتے ہیں تو یہ نہایت خوش‌کُن بن جاتی ہے۔‏ لیکن ہمارے اندر ایسی خواہش کیسے پیدا ہوتی ہے؟‏ جاسن نامی ایک شخص بیان کرتا ہے کہ ”‏اپنی نوعمری میں مجھے خدمتگزاری میں کوئی خاص مزہ نہیں آتا تھا۔‏“‏ کس چیز نے اس کام کیلئے اُس میں محبت پیدا کی؟‏ جاسن بیان کرتا ہے:‏ ”‏میرا خاندان ہفتے کی صبح کو ہمیشہ میدانی خدمت کے کام میں حصہ لیتا تھا۔‏ یہ میرے لئے نہایت مفید ثابت ہوا کیونکہ مَیں جتنا زیادہ خدمت میں جاتا اُتنی ہی اِسکی افادیت دیکھ کر مجھے خوشی حاصل ہوتی۔‏“‏ ہمیں بھی خدمتگزاری میں مستعدی کیساتھ باقاعدہ شرکت کرنی چاہئے۔‏

۱۹.‏ مسیح کی پیشوائی کے سلسلے میں ہمارا عزم کیا ہونا چاہئے؟‏

۱۹ مسیح کی پیشوائی کی اطاعت کرنا واقعی تازگی‌بخش اور بااجر ہے۔‏ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو جوانی علم اور حکمت میں ترقی کرنے کا وقت بن جاتی ہے۔‏ خاندانی زندگی امن اور خوشحالی کا گہوارہ اور خدمتگزاری خوشی اور اطمینان کا ماخذ ثابت ہوتی ہے۔‏ پس،‏ اپنی روزمرّہ زندگی اور فیصلوں میں مسیح کی پیشوائی کو اپنے لئے حقیقی خیال کرنے کا عزم کریں۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ تاہم،‏ مسیح ایک اَور حلقے—‏مسیحی کلیسیا—‏میں بھی پیشوائی کرتا ہے۔‏ اگلا مضمون اس بات پر روشنی ڈالیگا کہ ہم اس فراہمی سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 بعض نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• خدا کے مقررکردہ پیشوا کی اطاعت ہمیں کیسے فائدہ پہنچاتی ہے؟‏

‏• نوجوان کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ وہ یسوع کی پیشوائی میں چلنا چاہتے ہیں؟‏

‏• مسیح کی پیشوائی میں چلنے والوں کی خاندانی زندگی پر اسکا کیا اثر ہوتا ہے؟‏

‏• ہماری خدمتگزاری سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح کی پیشوائی ہمارے لئے حقیقی ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویروں]‏

جوانی خدا اور اُسکے مقررہ پیشوا کی بابت علم حاصل کرنے کا بہترین وقت ہے

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

مسیح کی پیشوائی کی اطاعت کرنا خاندانی خوشحالی کو فروغ دیتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویروں]‏

یسوع نے پہلے بادشاہت کی تلاش کی۔‏ کیا آپ ایسا کرتے ہیں؟‏