مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہمیں اچھی قیادت کہاں مل سکتی ہے؟‏

ہمیں اچھی قیادت کہاں مل سکتی ہے؟‏

ہمیں اچھی قیادت کہاں مل سکتی ہے؟‏

بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خدا ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۳:‏۴؛‏ مکاشفہ ۴:‏۱۱‏)‏ سچا خدا یہوواہ ہمارا خالق ہونے کی وجہ سے ”‏ہماری سرِشت سے واقف ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۳:‏۱۴‏)‏ وہ ہماری حدود اور ضروریات کا بخوبی علم رکھتا ہے۔‏ چنانچہ ایک شفیق خدا کے طور پر وہ ان ضروریات کو پورا کرنا چاہتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۴۵:‏۱۶؛‏ ۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏)‏ اچھی قیادت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔‏

یسعیاہ نبی کی معرفت یہوواہ نے اعلان کِیا:‏ ”‏دیکھو مَیں نے اُسے اُمتوں کے لئے گواہ مقرر کیا بلکہ اُمتوں کا پیشوا اور فرمانروا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۴‏)‏ آجکل کی قیادت کے بحران کا حل ازخود قادرِمطلق خدا کے مقررکردہ اس لیڈر کی شناخت کرنے اور اس کی قیادت قبول کرنے میں ہے۔‏ تاہم پیشینگوئی میں بیان‌کردہ پیشوا اور فرمانروا کون ہے؟‏ ایک پیشوا کے طور پر اس کی لیاقتیں کیا ہیں؟‏ وہ ہماری راہنمائی کیسے کریگا؟‏ اس کی قیادت سے استفادہ کرنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

موعودہ لیڈر آتا ہے

تقریباً ۵۰۰،‏۲ سال پہلے جبرائیل فرشتہ دانی‌ایل نبی کے پاس آیا اور اس نے اُس سے بیان کِیا:‏ ”‏پس تُو معلوم کر اور سمجھ لے کہ یرؔوشلیم کی بحالی اور تعمیر کا حکم صادر ہونے سے ممسوح فرمانروا تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے ہونگے۔‏ تب پھر بازار تعمیر کئے جائینگے اور فصیل بنائی جائیگی مگر مصیبت کے ایّام میں۔‏“‏—‏دانی‌ایل ۹:‏۲۵‏۔‏

بِلاشُبہ،‏ فرشتہ دانی‌ایل کو یہوواہ کے برگزیدہ لیڈر کے آنے کے وقت کی بابت بیان کر رہا تھا۔‏ ”‏ممسوح فرمانروا“‏ کا ظہور ۶۹ ہفتوں یا ۴۵۵ ق.‏س.‏ع.‏ سے شمار کرتے ہوئے ۴۸۳ سال بعد ہونا تھا جب یروشلیم کو دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم صادر ہوا۔‏ * (‏نحمیاہ ۲:‏۱-‏۸‏)‏ اس دَور کے آخر پر کیا واقع ہوا؟‏ انجیل‌نویس لوقا بیان کرتا ہے:‏ ”‏تبریسؔ قیصر کی حکومت کے پندرھویں برس جب پُنطیُسؔ پیلاطُس یہوؔدیہ کا حاکم تھا اور ہیرؔودیس گلیلؔ کا [‏۲۹ س.‏ع.‏]‏ .‏ .‏ .‏ اُس وقت خدا کا کلام بیابان میں زکرؔیاہ کے بیٹے یوؔحنا پر نازل ہؤا۔‏ اور وہ یرؔدن کے سارے گردونواح میں جا کر گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کے بپتسمہ کی منادی کرنے لگا۔‏“‏ اس وقت ”‏لوگ“‏ مسیحا کے ”‏منتظر“‏ تھے۔‏ (‏لوقا ۳:‏۱-‏۳،‏ ۱۵‏)‏ اگرچہ لوگ یوحنا کے پاس آتے تھے تاہم وہ لیڈر نہیں تھا۔‏

اس کے بعد،‏ یسوع تقریباً اکتوبر ۲۹ س.‏ع.‏ میں،‏ یوحنا کے پاس بپتسمہ لینے آیا۔‏ لہٰذا یوحنا نے یہ کہتے ہوئے گواہی دی:‏ ”‏مَیں نے رُوح کو کبوتر کی طرح آسمان سے اُترتے دیکھا ہے اور وہ اُس پر ٹھہر گیا۔‏ اور مَیں تو اسے پہچانتا نہ تھا مگر جس نے مجھے پانی سے بپتسمہ دینے کو بھیجا اُسی نے مجھ سے کہا کہ جس پر تُو رُوح کو اُترتے اور ٹھہرتے دیکھے وہی روح‌القدس سے بپتسمہ دینے والا ہے۔‏ چنانچہ مَیں نے دیکھا اور گواہی دی ہے کہ یہ خدا کا بیٹا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱:‏۳۲-‏۳۴‏)‏ اپنے بپتسمے پر،‏ یسوع،‏ ممسوح فرمانروا—‏مسیحا یا مسیح—‏بن گیا۔‏

جی‌ہاں،‏ یسوع مسیح ”‏اُمتوں کا“‏ موعودہ ”‏پیشوا اور فرمانروا“‏ ثابت ہوا۔‏ نیز جب ہم ایک فرمانروا کے طور پر اس کی خوبیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ اس کی قیادت بڑی حد تک زمانۂ‌جدید کے پسندیدہ لیڈروں کے تقاضوں پر سبقت رکھتی ہے۔‏

مسیحا—‏ایک پسندیدہ فرمانروا

ایک اچھا فرمانروا واضح ہدایت فراہم کرتا اور اپنے مطیع اشخاص کو ذاتی طاقت اور لیاقت حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے تاکہ وہ کامیابی سے اپنے مسائل حل کر سکیں۔‏ کتاب 21 سنچری لیڈرشپ:‏ ڈائیلاگ وِد 100 ٹاپ لیڈرز بیان کرتی ہے،‏ ‏’‏یہ ۲۱ ویں صدی کے کامیاب لیڈر کے لئے انتہائی ضروری ہے۔‏‘‏ یسوع نے روزمرّہ کی حالتوں کیساتھ نپٹنے کیلئے اپنے سامعین کو کیا خوب تیار کِیا!‏ ذرا اس کے انتہائی مشہور خطاب—‏پہاڑی وعظ—‏پر غور کریں۔‏ متی ۵ تا ۷ ابواب میں درج الفاظ عملی مشورت سے معمور ہیں۔‏

مثال کے طور پر،‏ ذاتی اختلافات نپٹانے کے سلسلے میں یسوع کی مشورت پر غور کریں۔‏ اس نے کہا:‏ ”‏پس اگر تُو قربانگاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے۔‏ تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔‏ تب آکر اپنی نذر گذران۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ دوسروں کے ساتھ میل‌ملاپ کرنے کے لئے پہل کرنا سب سے ضروری بات ہے،‏ اسے یروشلیم میں ہیکل کی قربانگاہ پر نذر گذراننے کے مذہبی فریضے پر بھی فوقیت دی گئی ہے جس کا تقاضا موسوی شریعت نے کِیا تھا۔‏ بصورتِ‌دیگر،‏ خدا کے حضور اس کی پرستش قابلِ‌قبول نہیں ہے۔‏ یسوع کی مشورت آجکل بھی اُتنی ہی عملی ہے جتنی یہ صدیوں پہلے تھی۔‏

یسوع نے اپنے سامعین کی بداخلاقی کے پھندے سے بچنے میں بھی مدد کی تھی۔‏ اس نے انہیں فہمائش کی:‏ ”‏تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا۔‏ لیکن مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کر چکا۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۲۷،‏ ۲۸‏)‏ کیا ہی موزوں انتباہ!‏ ہم کیوں زناکاری کی بابت سوچنے سے اس کا ارتکاب کرنے کی راہ پر گامزن ہوں؟‏ یسوع نے فرمایا کہ حرامکاری اور زناکاری دل ہی سے نکلتی ہیں۔‏ (‏متی ۱۵:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ دانشمندی اسی میں ہے کہ ہم اپنے دل کی حفاظت کریں۔‏—‏امثال ۴:‏۲۳‏۔‏

پہاڑی وعظ میں،‏ کسی شخص کے اپنے دشمنوں سے محبت رکھنے،‏ فیاضی دکھانے،‏ مادی اور روحانی چیزوں اور اسی طرح کی دیگر باتوں کی بابت مناسب نظریہ رکھنے کے سلسلے میں شاندار مشورت پائی جاتی ہے۔‏ (‏متی ۵:‏۴۳-‏۴۷؛‏ ۶:‏۱-‏۴،‏ ۱۹-‏۲۱،‏ ۲۴-‏۳۴‏)‏ یسوع نے اپنے سامعین کو دُعا کرنے کا طریقہ سکھانے سے ظاہر کِیا کہ وہ خدا کی مدد کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏ (‏متی ۶:‏۹-‏۱۳‏)‏ مسیحا یعنی پیشوا اپنے پیروکاروں کو نوعِ‌انسان کے عام مسائل کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار اور مضبوط کرتا ہے۔‏

پہاڑی وعظ میں چھ مرتبہ یسوع اپنے بیان کا آغاز اس اظہار سے کرتا ہے،‏ ”‏تم سُن چکے ہو“‏ یا ”‏یہ بھی کہا گیا تھا“‏ تاہم اس کے بعد وہ یہ کہتے ہوئے ”‏لیکن مَیں تم سے کہتا ہوں“‏ ایک اَور خیال پیش کرتا ہے۔‏ (‏متی ۵:‏۲۱،‏ ۲۲،‏ ۲۷،‏ ۲۸،‏ ۳۱-‏۳۴،‏ ۳۸،‏ ۳۹،‏ ۴۳،‏ ۴۴‏)‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے سامعین فریسیوں کی روایات کے مطابق ایک خاص طریقے سے کام کرنے کے عادی ہو چکے تھے۔‏ لیکن یسوع انہیں ایک اَور طریقہ بتا رہا تھا،‏ ایک ایسا طریقہ جس نے موسوی شریعت کی اصل روح کو منعکس کِیا۔‏ یوں یسوع ایک تبدیلی متعارف کروا رہا تھا اور اس نے ایسا طریقہ اپنایا جس سے اس کے شاگردوں کیلئے اسے قبول کرنا آسان ہوگیا ۔‏ جی‌ہاں،‏ یسوع نے لوگوں کو روحانی اور اخلاقی طور پر اپنی زندگیوں میں ڈرامائی تبدیلیاں پیدا کرنے کی تحریک دی۔‏ سچے پیشوا یا فرمانروا کی یہی پہچان ہوتی ہے۔‏

ایک انتظامی درسی کتاب نشاندہی کرتی ہے کہ ایسی تبدیلی انتہائی مشکل ہے۔‏ یہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏تبدیلی لانے والے [‏لیڈر]‏ کو سماجی کارکن جیسے احساسات،‏ ماہرِنفسیات کی سی بصیرت،‏ میراتھون کے لئے درکار قوتِ‌برداشت،‏ ایک بل‌ڈاگ کی سی مستقل‌مزاجی،‏ ایک تارک‌الدنیا شخص جیسی خوداعتمادی اور ایک زاہد شخص جیسے صبر کی ضرورت ہے۔‏ لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود بھی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔‏“‏

‏”‏لیڈروں کو ایسا ہی طرزِعمل دکھانا چاہئے جس کی وہ اپنے حامیوں سے توقع کرتے ہیں،‏“‏ ایک مضمون بعنوان ”‏لیڈرشپ:‏ کیا اوصاف اہمیت رکھتے ہیں؟‏“‏ نے بیان کِیا۔‏ واقعی،‏ ایک اچھا لیڈر جس بات کا پرچار کرتا ہے اسے عمل میں بھی لاتا ہے۔‏ یسوع مسیح کی بابت یہ بات کتنی سچ تھی!‏ جی‌ہاں،‏ اُس نے اپنے ساتھیوں کو فروتنی کی تعلیم دی لیکن اُس نے ان کے پاؤں دھونے سے ان کیلئے ٹھوس مثال بھی قائم کی تھی۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۵-‏۱۵‏)‏ اس نے اپنے شاگردوں کو خدا کی بادشاہت کی منادی کیلئے بھیجنے کے علاوہ خود بھی اس کام میں بڑی جانفشانی کی تھی۔‏ (‏متی ۴:‏۱۸-‏۲۵؛‏ لوقا ۸:‏۱-‏۳؛‏ ۹:‏۱-‏۶؛‏ ۱۰:‏۱-‏۲۴؛‏ یوحنا ۱۰:‏۴۰-‏۴۲‏)‏ اس کے علاوہ پیشوائی کے سلسلے میں بھی جوابی‌عمل دکھاتے ہوئے،‏ یسوع نے ایک نمونہ قائم کِیا تھا۔‏ ”‏پس یسوؔع نے اُن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سوا اسکے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جن کاموں کو وہ کرتا ہے اُنہیں بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہے۔‏“‏—‏یوحنا ۵:‏۱۹‏۔‏

یسوع کے قول‌وفعل پر مذکورہ‌بالا غوروفکر واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک مثالی پیشوا ہے۔‏ درحقیقت،‏ وہ اچھی قیادت کے تمام انسانی معیاروں پر سبقت رکھتا ہے۔‏ یسوع کامل ہے۔‏ اپنی موت اور قیامت کے بعد غیرفانیت حاصل کرنے سے،‏ وہ ہمیشہ زندہ رہیگا۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۸؛‏ مکاشفہ ۱:‏۱۳-‏۱۸‏)‏ کونسا انسانی پیشوا ان لیاقتوں پر پورا اُتر سکتا ہے؟‏

ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

خدا کی بادشاہت کے حکمران بادشاہ کے طور پر،‏ ”‏ممسوح فرمانروا“‏ فرمانبردار نوعِ‌انسانی پر برکات نازل کرے گا۔‏ اس سلسلے میں صحائف وعدہ کرتے ہیں:‏ ”‏جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین [‏یہوواہ]‏ کے عرفان سے معمور ہوگی۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۱۱:‏۹‏)‏ ”‏لیکن حلیم ملک کے وارث ہونگے اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہینگے۔‏“‏ (‏زبور ۳۷:‏۱۱‏)‏ ”‏ہر ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھیگا اور اُنکو کوئی نہ ڈرائے گا کیونکہ ربُ‌الافواج نے اپنے مُنہ سے یہ فرمایا ہے۔‏“‏ (‏میکاہ ۴:‏۴‏)‏ ”‏پھر مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکونت کریگا اور وہ اُس کے لوگ ہونگے اور خدا آپ اُن کے ساتھ رہیگا اور اُنکا خدا ہوگا۔‏ اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔‏ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔‏ نہ آہ‌ونالہ نہ درد۔‏ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔‏“‏—‏مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏۔‏

آجکل کی دُنیا قیادت کے سلسلے میں بحران کا تجربہ کر رہی ہے۔‏ جبکہ یسوع مسیح حلیم لوگوں کی پیشوائی پُرامن نئی دُنیا کی طرف کر رہا ہے جہاں فرمانبردار نوعِ‌انسان یہوواہ کی پرستش میں متحد ہو کر کاملیت کی جانب گامزن ہونگے۔‏ یہ کسقدر اہم ہے کہ ہم سچے خدا اور اس کے مُتعیّنہ پیشوا کی بابت علم حاصل کرنے کیلئے وقت نکالیں اور پھر اس علم کی مطابقت میں عمل کریں!‏—‏یوحنا ۱۷:‏۳‏۔‏

ایک شخص کی سب سے زیادہ توقیر یہ ہے کہ ہم اس کی نقل کریں۔‏ چنانچہ کیا ہمیں انسانی تاریخ کے عظیم‌ترین پیشوا—‏یسوع مسیح—‏کی نقل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے؟‏ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ اس کی پیشوائی قبول کرنے کا ہماری زندگیوں پر کیا اثر ہوگا؟‏ اگلے دو مضامین میں اسی طرح کے دیگر سوالوں پر بات‌چیت کی جائے گی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ پےاٹینشن ٹو ڈینیئلز پرافیسی!‏ کے ۱۸۶-‏۱۹۲ صفحات کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

دانی‌ایل نے خدا کے برگزیدہ پیشوا کی بابت پیشینگوئی کی تھی

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

یسوع کی تعلیمات نے لوگوں کو زندگی کے مسائل کیساتھ نپٹنے کیلئے تیار کِیا

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

یسوع فرمانبردار لوگوں کو پُرامن نئی دُنیا میں لے جائیگا