مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بپتسمہ کیوں لیں؟‏

بپتسمہ کیوں لیں؟‏

بپتسمہ کیوں لیں؟‏

‏”‏جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُنکو .‏ .‏ .‏ بپتسمہ دو۔‏“‏—‏متی ۲۸:‏۱۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ بعض لوگوں نے کن حالات کے تحت بپتسمے لئے؟‏ (‏ب)‏ بپتسمے سے متعلق کونسے سوال پیدا ہوتے ہیں؟‏

فرینکی بادشاہ شارلمین نے ۷۷۵-‏۷۷۷ س.‏ع.‏ میں جرمن لوگوں کو فتح کرکے تمام کو بپتسمہ لینے پر مجبور کِیا۔‏ مؤرخ جان لارڈ نے لکھا،‏ ”‏اُس نے نام‌نہاد مسیحیت قبول کرنے کیلئے اُن پر دباؤ ڈالا۔‏“‏ اسی طرح،‏ روسی حاکم ولاڈیمیر اوّل نے ایک یونانی آرتھوڈکس شہزادی سے شادی کرنے کے بعد یہ فیصلہ کِیا کہ اُسکی رعایا کو ”‏مسیحی“‏ ہونا چاہئے۔‏ اُس نے لوگوں کو مجموعی طور پر بپتسمہ لینے اور نافرمانی کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا حکم صادر کر دیا!‏

۲ کیا یہ بپتسمے واجب تھے؟‏ کیا ان کا کوئی حقیقی مقصد تھا؟‏ کیا ہر کوئی بپتسمہ لے سکتا ہے؟‏

بپتسمہ—‏کیسے؟‏

۳،‏ ۴.‏ پانی کا چھڑکاؤ یا سر پر پانی انڈیلنا واجب مسیحی بپتسمے کا طریقہ کیوں نہیں؟‏

۳ شارلمین اور ولاڈیمیر اوّل نے لوگوں کو بپتسمہ لینے پر مجبور کِیا مگر یہ حکمران خدا کے کلام کے مطابق نہیں چل رہے تھے۔‏ درحقیقت،‏ صحیفائی سچائی سکھائے بغیر لوگوں کو پانی کے چھڑکاؤ،‏ سر پر پانی انڈیلنے یا اُنہیں پانی میں غوطہ دیکر بپتسمہ دینے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔‏

۴ غور کریں کہ ۲۹ س.‏ع.‏ میں جب یسوع ناصری یوحنا بپتسمہ دینے والے کے پاس گیا تو کیا واقع ہوا۔‏ یوحنا دریائےیردن میں لوگوں کو بپتسمہ دے رہا تھا۔‏ وہ رضامندی سے اُس کے پاس آئے تھے۔‏ کیا اُس نے محض انہیں دریائےیردن میں کھڑا کرکے اُن پر تھوڑا سا پانی چھڑکا یا اُنکے سر پر پانی انڈیلا تھا؟‏ جب یوحنا نے یسوع کو بپتسمہ دیا تو کیا واقع ہوا؟‏ متی کے بیان کے مطابق بپتسمے کے بعد ”‏یسوؔع .‏ .‏ .‏ فی‌الفور پانی کے پاس سے اُوپر گیا۔‏“‏ (‏متی ۳:‏۱۶‏)‏ وہ دریائےیردن کے پانی میں ڈبکی لینے کے بعد باہر نکلا تھا۔‏ اسی طرح،‏ خداپرست حبشی خوجہ نے ”‏پانی کی جگہ“‏ پر بپتسمہ لیا تھا۔‏ پانی کی ایسی جگہیں ضروری تھیں اسلئےکہ یسوع اور اُسکے شاگردوں نے بپتسمے کیلئے مکمل ڈبکی لی تھی۔‏—‏اعمال ۸:‏۳۶‏۔‏

۵.‏ ابتدائی مسیحی لوگوں کو بپتسمہ کیسے دیتے تھے؟‏

۵ جن یونانی الفاظ کا ترجمہ ”‏بپتسمہ“‏ کِیا جاتا ہے وہ ڈبکی،‏ غوطے یا جسم کو مکمل طور پر پانی میں ڈبونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ سمتھز بائبل ڈکشنری بیان کرتی ہے:‏ ”‏بپتسمے کا صحیح اور لغوی مطلب ڈبکی ہے۔‏“‏ پس بعض بائبل ترجمے ”‏یوحنا ڈبکی دینے والا“‏ اور ”‏یوحنا غوطہ دینے والا“‏ کا حوالہ دیتے ہیں۔‏ (‏متی ۳:‏۱‏،‏ روتھرہم؛‏ ڈایاگلوٹ،‏ انٹرلینئر)‏ اوگوستُس نیانڈر کی کتاب ہسٹری آف دی کرسچین ریلیجن اینڈ چرچ،‏ ڈیورنگ دی تھری فرسٹ سنچریز میں بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏ابتدا میں پانی میں ڈبکی دیکر بپتسمہ دیا جاتا تھا۔‏“‏ مشہورومعروف فرانسیسی تحریر لاروس ڈیو eXX سیاکلے ‏(‏پیرس،‏ ۱۹۲۸)‏ بیان کرتی ہے:‏ ”‏ابتدائی مسیحی ڈبکی کے ذریعے ہر اُس جگہ پر بپتسمہ لیا کرتے تھے جہاں پانی دستیاب ہوتا تھا۔‏“‏ نیز نیو کیتھولک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے:‏ ”‏اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی چرچ میں پانی میں ڈبکی کے ذریعے بپتسمہ دیا جاتا تھا۔‏“‏ (‏۱۹۶۷،‏ جِلد II،‏ صفحہ ۵۶)‏ لہٰذا آجکل یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ لینا ایک رضاکارانہ عمل ہے جس میں مکمل ڈبکی دی جاتی ہے۔‏

بپتسمہ کی ایک نئی وجہ

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ یوحنا نے کس مقصد کے تحت بپتسمے دئے؟‏ (‏ب)‏ یسوع کے شاگردوں کے ذریعے دئے جانے والے بپتسموں میں کیا نئی بات تھی؟‏

۶ یوحنا کے ذریعے دئے جانے والے بپتسموں کا مقصد یسوع کے شاگردوں کے بپتسموں سے بالکل فرق تھا۔‏ (‏یوحنا ۴:‏۱،‏ ۲‏)‏ یوحنا لوگوں کو شریعت کے خلاف کئے گئے گناہوں سے توبہ کے علانیہ اظہار کے طور پر بپتسمہ دیتا تھا۔‏ * (‏لوقا ۳:‏۳‏)‏ تاہم یسوع کے شاگردوں کے بپتسمے میں ایک نیا پہلو شامل تھا۔‏ پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ میں پطرس رسول نے اپنے سامعین کو نصیحت کی:‏ ”‏توبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کی معافی کے لئے یسوؔع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے۔‏“‏ (‏اعمال ۲:‏۳۷-‏۴۱‏)‏ اگرچہ پطرس یہودیوں اور نومریدوں سے مخاطب تھا توبھی وہ شریعت کے خلاف کئے گئے گناہوں سے توبہ کی علامت میں بپتسمہ لینے کی بات نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی اُسکا یہ مطلب تھا کہ یسوع کے نام سے بپتسمہ گناہوں سے پاک کئے جانے کی تصویرکشی کرتا ہے۔‏—‏اعمال ۲:‏۱۰‏۔‏

۷ پطرس نے اُس موقع پر ’‏آسمان کی بادشاہی کی کُنجیوں‘‏ میں سے پہلی کُنجی استعمال کی۔‏ کس لئے؟‏ تاکہ وہ اپنے سامعین کو آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونے کے موقع کی بابت علم فراہم کر سکے۔‏ (‏متی ۱۶:‏۱۹‏)‏ یہودیوں کو یسوع کو مسیحا کے طور پر رد کرنے کی وجہ سے خدائی رحم حاصل کرنے کے لئے توبہ کرکے یسوع پر ایمان ظاہر کرنا تھا۔‏ وہ ایسے ایمان کا علانیہ اظہار کرنے کے لئے یسوع مسیح کے نام سے پانی میں ڈبکی لے سکتے تھے۔‏ اس طرح وہ مسیح کے ذریعے خدا کے لئے اپنی ذاتی مخصوصیت کا اظہار کر سکتے تھے۔‏ آجکل الہٰی خوشنودی کے خواہاں تمام لوگوں کو ایسا ہی ایمان ظاہر کرنے،‏ خود کو یہوواہ خدا کے لئے مخصوص کرنے اور بلندوبالا خدا کے لئے غیرمشروط مخصوصیت کی علامت میں مسیحی بپتسمہ لینے کی ضرورت ہے۔‏

صحیح علم ضروری ہے

۸.‏ مسیحی بپتسمہ ہر خاص‌وعام کے لئے کیوں نہیں؟‏

۸ مسیحی بپتسمہ ہر خاص‌وعام کے لئے نہیں ہے۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا:‏ ”‏تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُنکو باپ اور بیٹے اور رُوح‌اُلقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔‏ اور اُنکو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تم کو حکم دیا۔‏“‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ بپتسمے سے پہلے لوگوں کو ’‏ان سب باتوں پر عمل کرنے کی تعلیم دینا‘‏ ضروری ہے جنکا یسوع نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا تھا۔‏ لہٰذا خدا کے کلام کے صحیح علم پر مبنی ایمان کے بغیر دباؤ کے تحت دئے جانے والے بپتسمے بےفائدہ اور اس حکم کے خلاف ہیں جو یسوع نے اپنے سچے شاگردوں کو دیا تھا۔‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۶‏۔‏

۹.‏ ’‏باپ کے نام سے‘‏ بپتسمہ لینے کا کیا مطلب ہے؟‏

۹ ‏’‏باپ کے نام سے‘‏ بپتسمہ لینے کا کیا مطلب ہے؟‏ اسکا مطلب ہے کہ بپتسمے کا اُمیدوار ہمارے آسمانی باپ کے مرتبے اور اختیار سے اچھی طرح واقف ہے۔‏ یوں ہم یہوواہ خدا کو اپنا خالق،‏ ”‏تمام زمین پر بلندوبالا“‏ اور حاکمِ‌اعلیٰ تسلیم کرتے ہیں۔‏—‏زبور ۸۳:‏۱۸؛‏ یسعیاہ ۴۰:‏۲۸؛‏ اعمال ۴:‏۲۴‏۔‏

۱۰.‏ ’‏بیٹے کے نام سے‘‏ بپتسمے کا کیا مطلب ہے؟‏

۱۰ ‏’‏بیٹے کے نام سے‘‏ بپتسمہ لینے کا مطلب خدا کے اکلوتے بیٹے کے طور پر یسوع کے عہدے اور اختیار کو تسلیم کرنا ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۴:‏۹‏)‏ بپتسمے کے لائق اشخاص یسوع کی خدا کی طرف سے ”‏بہتیروں کے بدلے فدیہ“‏ کے طور پر فراہمی کو قبول کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۲:‏۵،‏ ۶‏)‏ بپتسمے کے اُمیدواروں کو اُس ”‏سربلند“‏ مقام کو بھی تسلیم کرنا چاہئے جو خدا نے اپنے بیٹے کو عطا کِیا ہے۔‏—‏فلپیوں ۲:‏۸-‏۱۱؛‏ مکاشفہ ۱۹:‏۱۶‏۔‏

۱۱.‏ ”‏رُوح‌اُلقدس کے نام سے بپتسمہ“‏ لینے کا مطلب کیا ہے؟‏

۱۱ ‏”‏رُوح‌اُلقدس کے نام سے“‏ بپتسمے کی کیا اہمیت ہے؟‏ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بپتسمے کے اُمیدوار جانتے ہیں کہ رُوح‌اُلقدس یہوواہ کی سرگرم قوت ہے جسے وہ اپنے مقصد کی مطابقت میں مختلف طریقوں سے استعمال کرتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲؛‏ ۲-‏سموئیل ۲۳:‏۱،‏ ۲؛‏ ۲-‏پطرس ۱:‏۲۱‏)‏ بپتسمے کے لائق اشخاص مانتے ہیں کہ رُوح‌اُلقدس ”‏خدا کی تہ کی باتیں“‏ سمجھنے،‏ بادشاہتی منادی کے کام کو پورا کرنے اور ”‏محبت،‏ خوشی،‏ اطمینان،‏ تحمل،‏ مہربانی،‏ نیکی،‏ ایمانداری،‏ حلم،‏ پرہیزگاری“‏ جیسے روح کے پھل ظاہر کرنے میں اُن کی مدد کرتی ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۰؛‏ گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳؛‏ یوایل ۲:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

توبہ کرنے اور رجوع لانے کی اہمیت

۱۲.‏ مسیحی بپتسمے کا توبہ سے کیا تعلق ہے؟‏

۱۲ ماسوا یسوع کے جو گناہ سے مبرا تھا،‏ بپتسمہ خدا کی پسندیدگی کی علامت ہے جو کہ توبہ سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔‏ جب ہم توبہ کرتے ہیں تو ہم دراصل کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی بابت گہرا افسوس یا ندامت محسوس کرتے ہیں۔‏ خدا کی خوشنودی کے طالب پہلی صدی کے یہودیوں کو یسوع کے خلاف کئے گئے گناہوں سے توبہ کرنے کی ضرورت تھی۔‏ (‏اعمال ۳:‏۱۱-‏۱۹‏)‏ کرنتھس کے بعض غیرقوم ایمانداروں نے حرامکاری،‏ بُت‌پرستی،‏ چوری اور دوسرے سنگین گناہوں سے توبہ کی تھی۔‏ اپنی توبہ کی وجہ سے وہ یسوع کے خون سے ”‏دُھل گئے“‏ تھے،‏ خدا کی خدمت کیلئے الگ یا ”‏پاک“‏ کئے گئے اور مسیح کے نام اور خدا کی روح سے ’‏راستباز ٹھہرے‘‏ تھے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹-‏۱۱‏)‏ توبہ پاک ضمیر اور گناہ سے پیدا ہونے والے جرم کے احساس سے الہٰی نجات حاصل کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۲۱‏۔‏

۱۳.‏ جہاں تک بپتسمے کا تعلق ہے،‏ رجوع لانے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۳ یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہمارے لئے بپتسمے سے پہلے رجوع لانا ضروری ہے۔‏ رجوع لانا ایک ایسا رضاکارانہ قدم ہے جو مسیح یسوع کے نقشِ‌قدم پر چلنے کا مخلصانہ فیصلہ کرنے والا شخص اپنی مرضی سے اُٹھاتا ہے۔‏ ایسے اشخاص اپنی سابقہ غلط روش کو ترک کرکے خدا کی نظر میں درست کام کرنے کا عزم کرتے ہیں۔‏ صحائف میں رجوع لانے سے متعلق عبرانی اور یونانی فعل واپس لوٹنے،‏ واپس پھرنے کا مفہوم پیش کرتے ہیں۔‏ یہ عمل ایک غلط راہ کو چھوڑ کر خدا کی جانب واپس لوٹنے کا اشارہ دیتا ہے۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۸:‏۳۳،‏ ۳۴‏)‏ رجوع لانا ”‏توبہ کے موافق کام“‏ کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔‏ (‏اعمال ۲۶:‏۲۰‏)‏ یہ ہم سے جھوٹی پرستش کو ترک کرنے،‏ خدا کے احکام کی مطابقت میں چلنے اور یہوواہ کیلئے بِلاشرکتِ‌غیرے عقیدت ظاہر کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔‏ (‏استثنا ۳۰:‏۲،‏ ۸-‏۱۰؛‏ ۱-‏سموئیل ۷:‏۳‏)‏ رجوع لانا ہماری سوچ،‏ مقاصد اور شخصیت میں تبدیلی پر منتج ہوتا ہے۔‏ (‏حزقی‌ایل ۱۸:‏۳۱‏)‏ جب نئی انسانیت گنہگارانہ خصائل کی جگہ لے لیتی ہے تو یہ دراصل ”‏رُجوع“‏ لانے کے مترادف ہے۔‏—‏اعمال ۳:‏۱۹؛‏ افسیوں ۴:‏۲۰-‏۲۴؛‏ کلسیوں ۳:‏۵-‏۱۴‏۔‏

مخلص مخصوصیت ضروری ہے

۱۴.‏ یسوع کے شاگردوں کی مخصوصیت کس بات کی علامت ہے؟‏

۱۴ یسوع کے شاگردوں کے بپتسمے سے پہلے خدا کیلئے اُن کی مخلص مخصوصیت نہایت ضروری ہے۔‏ مخصوصیت پاک مقصد کے لئے الگ کئے جانے کی نشاندہی کرتی ہے۔‏ یہ قدم اس قدر اہم ہے کہ ہمیں دُعا میں یہوواہ خدا کے حضور اپنے اس فیصلے کا اظہار کرنا چاہئے کہ ہم ہمیشہ اُسے بِلاشرکتِ‌غیرے عقیدت دینگے۔‏ (‏استثنا ۵:‏۹‏)‏ واقعی،‏ ہماری مخصوصیت کسی خاص کام یا انسان کی بجائے صرف خدا کیلئے ہے۔‏

۱۵.‏ بپتسمے کے اُمیدوار ڈبکی کیوں لیتے ہیں؟‏

۱۵ جب ہم مسیح کے وسیلے سے خود کو خدا کیلئے مخصوص کرتے ہیں تو ہم صحائف میں بیان‌کردہ الہٰی مرضی کی مطابقت میں زندگی بسر کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔‏ اس مخصوصیت کے اظہار میں بپتسمے کے اُمیدوار پانی میں ڈبکی لیتے ہیں بالکل اُسی طرح جیسے یسوع نے بھی خود کو خدا کے حضور پیش کرنے کی علامت میں دریائےیردن میں بپتسمہ لیا تھا۔‏ (‏متی ۳:‏۱۳‏)‏ قابلِ‌غور بات یہ ہے کہ اُس اہم موقع پر یسوع دُعا کر رہا تھا۔‏—‏لوقا ۳:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

۱۶.‏ جب ہم لوگوں کو بپتسمہ لیتے دیکھتے ہیں تو ہم موزوں طور پر اپنی خوشی کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ یسوع کا بپتسمہ ایک سنجیدہ لیکن خوشگوار موقع تھا۔‏ موجودہ زمانے میں مسیحی بپتسمہ بھی ایسا ہی ہے۔‏ جب ہم لوگوں کو خدا کیلئے اپنی مخصوصیت کا اظہار کرتے دیکھتے ہیں تو ہم مؤدبانہ انداز میں تالی بجانے اور پُرتپاک تعریف کرنے سے اپنی خوشی کا اظہار کر سکتے ہیں۔‏ ایمان کے اس پاکیزہ اظہار کے احترام میں نعرے مارنے،‏ سیٹیاں بجانے اور اس قسم کے دیگر اظہارات سے گریز کِیا جانا چاہئے۔‏ ہمیں اپنی خوشی کا اظہار باوقار طریقے سے کرنا چاہئے۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ بپتسمے کیلئے لائق اشخاص کا تعیّن کیسے کِیا جاتا ہے؟‏

۱۷ بچوں پر پانی کے چھڑکاؤ یا صحائف سے ناواقف لوگوں کو مجموعی طور پر بپتسمے کیلئے مجبور کرنے والوں کے برعکس یہوواہ کے گواہ بپتسمہ لینے کیلئے کبھی کسی پر دباؤ نہیں ڈالتے ہیں۔‏ درحقیقت،‏ وہ اُن اشخاص کو بپتسمہ نہیں دیتے جو روحانی طور پر اسکے لائق نہیں ہوتے۔‏ ایک شخص کے خوشخبری کے غیربپتسمہ‌یافتہ مُناد بننے سے پہلے مسیحی بزرگ اس بات کا یقین کر لیتے ہیں کہ وہ بائبل کی بنیادی سچائیوں سے واقف ہے،‏ اُنکی مطابقت میں زندگی بسر کرتا ہے اور ”‏کیا آپ واقعی یہوواہ کے گواہ بننا چاہتے ہیں؟‏“‏ جیسے سوال کا ہاں میں جواب دیتا ہے۔‏

۱۸ اکثراوقات جب لوگ بادشاہتی منادی کے کام میں خاطرخواہ حصہ لیتے ہیں اور بپتسمہ لینے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں تو مسیحی بزرگ اس بات کا یقین کرنے کیلئے اُن کیساتھ بات‌چیت کرتے ہیں کہ آیا وہ خود کو یہوواہ کیلئے مخصوص کرنے اور بپتسمہ لینے کے سلسلے میں ایمانداروں کیلئے وضع‌کردہ الہٰی تقاضوں پر پورا اُترتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۴:‏۴؛‏ ۱۸:‏۸‏)‏ بائبل تعلیمات پر مبنی ۱۰۰ سے زائد سوالات کے ذاتی جوابات کی مدد سے بزرگ اس بات کا تعیّن کرتے ہیں کہ آیا جواب دینے والے اشخاص بپتسمے کے صحیفائی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔‏ بعض لوگ لائق نہیں ٹھہرتے اور نتیجتاً انہیں مسیحی بپتسمہ لینے کی اجازت نہیں دی جاتی۔‏

کیا کوئی چیز آپکو روک رہی ہے؟‏

۱۹.‏ یوحنا ۶:‏۴۴ کے مطابق کون یسوع کے ہم‌میراث ہونگے؟‏

۱۹ دباؤ کے تحت اجتماعی طور پر بپتسمہ لینے والے کئی لوگوں کو شاید یہ بتایا گیا ہو کہ وہ مرنے کے بعد آسمان پر جائینگے۔‏ تاہم یسوع نے اپنے پیروکاروں سے کہا تھا:‏ ”‏کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لے۔‏“‏ (‏یوحنا ۶:‏۴۴‏)‏ یہوواہ نے ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ اشخاص کو مسیح کے پاس کھینچا ہے جو آسمانی بادشاہت میں یسوع کے ہم‌میراث ہونگے۔‏ دباؤ کے تحت بپتسمے نے کسی کو بھی خدا کے بندوبست میں یہ جلالی مقام حاصل کرنے کا شرف نہیں بخشا۔‏—‏رومیوں ۸:‏۱۴-‏۱۷؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۱۳؛‏ مکاشفہ ۱۴:‏۱‏۔‏

۲۰.‏ بعض اشخاص کی بپتسمہ لینے میں مدد کیسے ہو سکتی ہے؟‏

۲۰ بالخصوص ۱۹۳۰ کے وسط سے ”‏بڑی مصیبت“‏ سے بچنے اور زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھنے والے بیشمار لوگ یسوع کی ’‏دوسری بھیڑوں‘‏ میں شامل ہو گئے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۴؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۶‏)‏ وہ بپتسمے کے لائق ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنی زندگیوں کو خدا کے کلام کے مطابق ڈھالا ہے اور ’‏اپنے سارے دل‌وجان،‏ طاقت اور عقل‘‏ کیساتھ اُس سے محبت رکھتے ہیں۔‏ (‏لوقا ۱۰:‏۲۵-‏۲۸‏)‏ اگرچہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ ’‏روح اور سچائی سے خدا کی پرستش‘‏ کرتے ہیں توبھی اُنہوں نے ابھی تک یسوع کے نمونے کی تقلید اور یہوواہ کیلئے بِلاشرکتِ‌غیرے عقیدت کے علانیہ اظہار میں بپتسمہ نہیں لیا ہے۔‏ (‏یوحنا ۴:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ استثنا ۴:‏۲۴؛‏ مرقس ۱:‏۹-‏۱۱‏)‏ اس اہم قدم کی بابت مخلص اور خاص دُعا خدا کے کلام سے مکمل مطابقت پیدا کرنے،‏ خود کو غیرمشروط طور پر یہوواہ خدا کیلئے مخصوص کرنے اور بپتسمہ لینے کی تحریک اور طاقت عطا کریگی۔‏

۲۱،‏ ۲۲.‏ بعض لوگ کن وجوہات کی بِنا پر مخصوصیت اور بپتسمے کیلئے تیار نہیں ہوتے؟‏

۲۱ بعض لوگ بپتسمے اور مخصوصیت کے لئے اس لئے تیار نہیں ہوتے کہ وہ دُنیاوی معاملات یا دولت کی جستجو میں اسقدر مگن ہیں کہ روحانی چیزوں کیلئے اُن کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔‏ (‏متی ۱۳:‏۲۲؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ اپنے نظریات اور اغراض‌ومقاصد میں تبدیلی لانے سے وہ کسقدر خوش ہو سکتے ہیں!‏ یہوواہ کے قریب جانے سے وہ روحانی تقویت حاصل کرینگے جو اُنہیں پریشانی سے نپٹنے کے علاوہ اطمینان اور تسکین حاصل کرنے میں مدد دیگی جو کہ اُنکے الہٰی مرضی پوری کرنے پر منتج ہوگا۔‏—‏زبور ۱۶:‏۱۱؛‏ ۴۰:‏۸؛‏ امثال ۱۰:‏۲۲؛‏ فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

۲۲ بعض لوگ یہوواہ سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن مخصوصیت اور بپتسمہ اسلئے نہیں لیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسطرح وہ خدا کے حضور جوابدہ نہیں ہونگے۔‏ لیکن ہم سب خدا کے حضور جوابدہ ہیں۔‏ یہ ذمہ‌داری تو ہم پر یہوواہ کا کلام سننے کیساتھ ہی آ گئی تھی۔‏ (‏حزقی‌ایل ۳۳:‏۷-‏۹؛‏ رومیوں ۱۴:‏۱۲‏)‏ ”‏مُقدس قوم“‏ کے طور پر قدیم اسرائیلی یہوواہ کی مخصوص‌شُدہ قوم میں پیدا ہوئے تھے اور یوں وہ اُسکے احکام کے مطابق وفاداری سے اُسکی خدمت کرنے کے پابند تھے۔‏ (‏استثنا ۷:‏۶،‏ ۱۱‏)‏ آج کوئی بھی پیدائشی طور پر اس قوم کا حصہ نہیں لیکن اگر ہم نے درست صحیفائی تعلیم پائی ہے تو ہمیں ایمان کیساتھ اس پر عمل کرنا ہوگا۔‏

۲۳،‏ ۲۴.‏ لوگوں کو کن خدشات کو اپنے بپتسمے کی راہ میں حائل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے؟‏

۲۳ ناکافی علم کا خدشہ بھی بعض لوگوں کو بپتسمے سے روکتا ہے۔‏ تاہم،‏ ہم سب کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اسلئےکہ ”‏انسان اُس کام کو جو خدا شروع سے آخر تک کرتا ہے دریافت نہیں کر سکتا۔‏“‏ (‏واعظ ۳:‏۱۱‏)‏ حبشی خوجہ کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ نومرید کے طور پر صحائف کا کچھ علم تو رکھتا تھا لیکن اُسے خدا کے مقاصد کی پوری سمجھ حاصل نہیں تھی۔‏ تاہم یسوع کے فدیے کی قربانی کے ذریعے نجات کیلئے یہوواہ کی فراہمی کی بابت سیکھنے کے بعد حبشی خوجہ نے فوراً پانی کا بپتسمہ لیا۔‏—‏اعمال ۸:‏۲۶-‏۳۸‏۔‏

۲۴ بعض لوگ ناکامی کے ڈر سے خود کو خدا کیلئے مخصوص نہیں کرتے۔‏ سترہ سالہ مونیک بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں اس خوف سے بپتسمہ نہیں لیتی تھی کہ مَیں اپنی مخصوصیت پر پورا نہیں اُتر پاؤنگی۔‏“‏ تاہم اگر ہم پورے دل سے یہوواہ پر بھروسا رکھتے ہیں تو وہ ’‏ہماری راہنمائی کریگا۔‏‘‏ وہ اپنے وفادار مخصوص‌شُدہ خادموں کے طور پر ”‏حق پر چلتے“‏ رہنے میں ہماری مدد کریگا۔‏—‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶؛‏ ۳-‏یوحنا ۴‏۔‏

۲۵.‏ اب کونسا سوال غوروخوض کا مستحق ہے؟‏

۲۵ یہوواہ پر مکمل بھروسے اور دلی محبت کے باعث ہر سال لاکھوں لوگ خود کو مخصوص کرنے اور بپتسمہ لینے کی تحریک پاتے ہیں۔‏ واقعی،‏ خدا کے تمام مخصوص‌شُدہ خادم وفاداری سے اُسکی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‏ تاہم،‏ کیونکہ ہم بُرے دنوں میں رہ رہے ہیں لہٰذا ہمیں ایمان کی مختلف آزمائشوں کا سامنا ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ ہم یہوواہ کیلئے اپنی مخصوصیت پر پورا اُترنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟‏ اگلے مضمون میں اس پر غور کِیا جائیگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 یسوع کے بےگناہ ہونے کی وجہ سے اُسکا بپتسمہ توبہ کی علامت میں نہیں تھا۔‏ اُسکا بپتسمہ اپنے باپ کی مرضی پوری کرنے کیلئے خود کو پیش کرنے کی علامت تھا۔‏—‏عبرانیوں ۷:‏۲۶؛‏ ۱۰:‏۵-‏۱۰‏۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• مسیحی بپتسمہ کیسے دیا جاتا ہے؟‏

‏• بپتسمہ کے اُمیدوار کیلئے کونسا علم ضروری ہے؟‏

‏• کونسے اقدام سچے مسیحیوں کے بپتسمے کی جانب راہنمائی کرتے ہیں؟‏

‏• بعض اشخاص بپتسمہ کیوں نہیں لیتے تاہم اُن کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویریں]‏

کیا آپ جانتے ہیں کہ ’‏باپ،‏ بیٹے اور رُوح‌اُلقدس کے نام سے‘‏ بپتسمہ لینے کا کیا مطلب ہے؟‏