مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا سب قوموں کو قبول کرتا ہے

خدا سب قوموں کو قبول کرتا ہے

خدا سب قوموں کو قبول کرتا ہے

جان مالی کے اپنے پہلے دورے پر،‏ ماماڈو اور اُس کے خاندان کی مہمان‌نوازی سے بڑا متاثر ہوا۔‏ جان بمشکل زمین پر بیٹھ کر اپنے میزبان کیساتھ ایک ہی تھال میں کھانا کھاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر وہ اپنے میزبان کو ایک انمول تحفہ—‏خدا کے کلام بائبل سے بادشاہتی خوشخبری کا پیغام دے سکتا۔‏ اگرچہ جان کو مالی میں بولی جانے والی فرانسیسی زبان آتی تھی توبھی وہ پریشان تھا کہ ایک بالکل فرق مذہب اور نقطۂ‌نظر رکھنے والے خاندان سے وہ کیسے رابطہ کر سکتا ہے۔‏

اچانک سے جان کے ذہن میں بابل شہر سے متعلق بائبل کی سرگزشت کا خیال آیا۔‏ اس مقام پر خدا نے سرکش لوگوں کی زبان میں اختلاف ڈالا تھا۔‏ (‏پیدایش ۱۱:‏۱-‏۹‏)‏ نتیجتاً مختلف زبان،‏ مذاہب اور اندازِفکر رکھنے والی آبادیاں زمین کے مختلف حصوں میں پھیل گئی تھیں۔‏ آجکل،‏ سیروسیاحت اور نقل‌مکانی کے عام ہو جانے کے باعث بہتیرے لوگ اپنے آس‌پڑوس کے سلسلے میں جان کی طرح کی آزمائش کا سامنا کرتے ہیں:‏ ایک فرق پسِ‌منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بائبل پر مبنی اُمید کی بابت کیسے بتایا جا سکتا ہے؟‏

ایک قدیم مثال

اسرائیل کے دوسرے نبیوں کی طرح یوناہ نے بنیادی طور پر اسرائیلیوں سے رابطہ رکھا۔‏ اُس نے ایک ایسے وقت میں پیشینگوئی کی جب برگشتہ دس قبائلی سلطنت سرِعام خدا کی تحقیر کرنے والے کاموں میں حصہ لے رہی تھی۔‏ (‏۲-‏سلاطین ۱۴:‏۲۳-‏۲۵‏)‏ یوناہ کے ردِعمل کا تصور کریں جب اُسے اپنا ملک چھوڑنے اور اسور جاکر نینوہ میں ایک مختلف مذہب اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو منادی کرنے کی خاص تفویض سونپی گئی۔‏ یوناہ شاید نینوہ کی زبان سے بھی اچھی طرح واقف نہیں تھا۔‏ معاملہ خواہ کچھ بھی ہو،‏ یوناہ کو یہ تفویض اسقدر مشکل لگی کہ وہ جان چھڑا کر بھاگ گیا۔‏—‏یوناہ ۱:‏۱-‏۳‏۔‏

واضح طور پر،‏ یوناہ کو یہ سیکھنے کی ضرورت تھی کہ یہوواہ خدا ظاہری شکل‌وصورت کی بجائے دل کو جانچتا ہے۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۷‏)‏ یوناہ کو ایک معجزے کے ذریعے ڈوبنے سے بچانے کے بعد،‏ یہوواہ نے اُسے ایک بار پھر نینوہ کے لوگوں کو منادی کرنے کا حکم دیا۔‏ یوناہ نے اس حکم پر عمل کِیا اور نتیجتاً نینوہ کے لوگوں نے مجموعی طور پر توبہ کر لی۔‏ اس کے باوجود،‏ یوناہ درست نقطۂ‌نظر قائم کرنے میں ناکام رہا۔‏ ایک ٹھوس مثال کے ذریعے یہوواہ نے یوناہ کو سکھایا کہ اُسے اپنے رُجحان میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔‏ یہوواہ نے یوناہ سے پوچھا:‏ ”‏کیا مجھے لازم نہ تھا کہ مَیں اتنے بڑے شہر نینوؔہ کا خیال کروں جس میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے؟‏“‏ (‏یوناہ ۴:‏۵-‏۱۱‏)‏ آج ہماری بابت کیا ہے؟‏ ہم ایک مختلف پس‌منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

سامریوں اور غیریہودیوں کا خیرمقدم کرنا

پہلی صدی میں،‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو سب قوموں کو شاگرد بنانے کا حکم دیا تھا۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹‏)‏ یہ تفویض اُن کیلئے آسان نہیں تھی۔‏ یسوع کے شاگرد یہودی تھے اور یوناہ کی طرح وہ بھی ایک ہی پس‌منظر اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات‌چیت کرنے کے عادی تھے۔‏ قدرتی بات ہے کہ اُنہوں نے بھی اپنے زمانے میں پائے جانے والے تعصّبات کا دباؤ محسوس کِیا ہوگا۔‏ تاہم،‏ یہوواہ نے معاملات کی راہنمائی کی تاکہ اُسکے خادم جلدازجلد یہ بات سمجھ سکیں کہ اُن کیلئے اُسکی مرضی کیا تھی۔‏

سب سے پہلا قدم یہودیوں اور سامریوں کے درمیان تعصّب پر غالب آنا تھا۔‏ یہودی سامریوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے تھے۔‏ تاہم،‏ یسوع نے ایک سے زیادہ مرتبہ سامریوں کیلئے مستقبل میں خوشخبری قبول کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔‏ اُس نے ایک سامری عورت سے بات‌چیت کرکے اپنی غیرجانبداری کا ثبوت دیا تھا۔‏ (‏یوحنا ۴:‏۷-‏۲۶‏)‏ ایک دوسرے موقع پر اُس نے حقِ‌ہمسائیگی ادا کرنے والے سامری کی تمثیل کے ذریعے ایک مذہبی یہودی پر ظاہر کِیا کہ غیریہودی بھی پڑوسی کیلئے محبت دکھانے کے قابل تھے۔‏ (‏لوقا ۱۰:‏۲۵-‏۳۷‏)‏ جب یہوواہ کا سامریوں کو مسیحی کلیسیا میں لانے کا وقت نزدیک آیا تو فلپس،‏ پطرس اور یوحنا—‏جو سب یہودی تھے—‏سامریہ کے لوگوں میں منادی کرنے لگے۔‏ اُنکا پیغام اُس شہر میں بڑی خوشی کا باعث بنا۔‏—‏اعمال ۸:‏۴-‏۸،‏ ۱۴-‏۱۷‏۔‏

اگر سامریوں کیساتھ دُور کی رشتہ‌داری رکھنے والے یہودی مسیحیوں کیلئے محبت ظاہر کرنا مشکل تھا توپھر اُن کیلئے غیریہودیوں یا غیرقوموں کیلئے محبت ظاہر کرنا تو اَور بھی مشکل تھا کیونکہ یہودی انہیں حقیر جانتے اور اُن سے نفرت کِیا کرتے تھے۔‏ اسکے باوجود،‏ یسوع کی وفات کے بعد یہودی مسیحیوں اور غیرقوموں کے درمیان موجود رکاوٹ کو ختم کِیا جا سکتا تھا۔‏ (‏افسیوں ۲:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ یہوواہ نے پطرس کی اس نئے بندوبست کو قبول کرنے میں مدد کیلئے اُسے ایک رویا کے ذریعے بتایا کہ ”‏جنکو خدا نے پاک ٹھہرایا ہے تُو اُنہیں حرام نہ کہہ۔‏“‏ یہوواہ کی روح اُسے ایک غیرقوم شخص کرنیلیس کے پاس لے گئی۔‏ جب پطرس خدا کا نقطۂ‌نظر سمجھ گیا—‏کہ اُسے اس غیرقوم شخص کو ناپاک خیال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہوواہ نے اسے پاک کِیا ہے—‏تو اُس نے الہام سے بیان کِیا:‏ ”‏اب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ خدا کسی کا طرفدار نہیں۔‏ بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُسکو پسند آتا ہے۔‏“‏ (‏اعمال ۱۰:‏۹-‏۳۵‏)‏ پطرس کسقدر حیران ہوا ہوگا جب خدا نے روح‌القدس نازل کرنے سے یہ ظاہر کر دیا کہ اُس نے کرنیلیس اور اُسکے خاندان کو قبول کر لیا تھا!‏

پولس—‏قوموں کیلئے چُنا ہوا وسیلہ

پولس کی خدمتگزاری ایک نمایاں مثال ہے کہ یہوواہ کیسے اپنے خادموں کو تمام قسم کے لوگوں سے محبت رکھنے اور اُنکی مدد کرنے کیلئے بتدریج تیار کرتا ہے۔‏ پولس کے تبدیلیٔ‌مذہب کے بعد یسوع نے کہا،‏ پولس قوموں پر اُسکا نام ظاہر کرنے کیلئے اُسکا چُنا ہوا وسیلہ ہوگا۔‏ (‏اعمال ۹:‏۱۵‏)‏ اِسکے بعد پولس عرب چلا گیا شاید وہ قوموں میں خوشخبری کی منادی کرنے کے لئے استعمال کئے جانے کی بابت خدا کے مقصد پر غوروخوض کرنا چاہتا تھا۔‏—‏گلتیوں ۱:‏۱۵-‏۱۷‏۔‏

اپنے پہلے مشنری دَورے کے دوران پولس نے غیریہودیوں میں منادی کرنے کے لئے گرمجوشی ظاہر کی تھی۔‏ (‏اعمال ۱۳:‏۴۶-‏۴۸‏)‏ یہوواہ نے پولس کی خدمتگزاری کو برکت دی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ رسول یہوواہ کے بندوبست کے مطابق کام کر رہا تھا۔‏ جب پطرس نے جانبداری ظاہر کرتے ہوئے غیریہودی بھائیوں کی رفاقت سے اجتناب کِیا تو پولس نے دلیری کے ساتھ اُس کی اصلاح کرنے سے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کے نقطۂ‌نظر کو پوری طرح سمجھ رہا تھا۔‏—‏گلتیوں ۲:‏۱۱-‏۱۴‏۔‏

پولس کے دوسرے مشنری دَورے کے دوران جب روح‌القدس نے اُسے روم کے صوبے بتوؔنیہ میں منادی کرنے کی اجازت نہ دی تو اس بات کا مزید ثبوت مل گیا کہ اُس کی کوششوں کو خدا کی حمایت حاصل تھی۔‏ (‏اعمال ۱۶:‏۷‏)‏ بظاہر اس کام کے لئے وقت موزوں نہیں تھا۔‏ تاہم،‏ بعدازاں بتونیہ کے کچھ لوگ مسیحی بن گئے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۱‏)‏ ایک رویا میں ایک مکدنی آدمی نے پولس سے منت کی:‏ ”‏پار اُتر کر مکدؔنیہ میں آ اور ہماری مدد کر۔‏“‏ پولس نے نتیجہ اخذ کِیا کہ اس رومی صوبے میں خوشخبری سنانے کے لئے اُسے اپنے سفر کا رخ بدلنا چاہئے۔‏—‏اعمال ۱۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

اتھینے میں منادی کرتے وقت پولس کی مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت کی سخت آزمائش ہوئی۔‏ یونانی اور رومی قانون غیرقوم دیوتاؤں اور نئی مذہبی رسومات متعارف کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔‏ لوگوں کیلئے پولس کی محبت نے اُسے اُنکی مذہبی رسومات کا بغور جائزہ لینے کی تحریک دی۔‏ اتھینے میں اُس نے ایک قربانگاہ دیکھی جس پر لکھا تھا ”‏نامعلوم خدا کیلئے۔‏“‏ اُس نے گواہی دیتے وقت اس بات کا ذکر کِیا۔‏ (‏اعمال ۱۷:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ اپنے پیغام کو مشفقانہ اور بااحترام طریقے سے پیش کرنے کا کیا ہی شاندار طریقہ تھا!‏

پولس بطور غیرقوم رسول اپنے کام کے نتائج پر غور کرکے کتنا خوش ہوا ہوگا!‏ اُس نے کرنتھس،‏ فلپی،‏ تھسلنیکے اور گلتیہ کے شہروں میں غیریہودی پس‌منظر رکھنے والے بیشمار مسیحیوں کی کلیسیائیں قائم کرنے میں مدد کی تھی۔‏ اُس نے دمرس،‏ دیونسی‌یس،‏ سرگیس پولس اور ططس جیسے ایماندار مردوزن کی بھی مدد کی تھی۔‏ یہوواہ اور بائبل سے ناواقف لوگوں کو سچی مسیحیت قبول کرتے دیکھنا کتنا بڑا شرف تھا!‏ سچائی کا علم حاصل کرنے میں غیریہودیوں کی مدد کرنے میں اپنے کردار کی بابت پولس نے بیان کِیا:‏ ”‏مَیں نے یہی حوصلہ رکھا کہ جہاں مسیح کا نام نہیں لیا گیا وہاں خوش خبری سناؤں .‏ .‏ .‏ بلکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی ہو کہ جنکو اُسکی خبر نہیں پہنچی وہ دیکھینگے اور جنہوں نے نہیں سنا وہ سمجھیں گے۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ کیا ہم ایسے لوگوں میں خوشخبری کی منادی کر سکتے ہیں جو ہماری ثقافت سے تعلق نہیں رکھتے؟‏

زمین کی سب قوموں کی مدد کرنا

سلیمان نے یروشلیم کی ہیکل میں پرستش کیلئے آنے والے غیراسرائیلیوں کیلئے بھی یہوواہ سے دُعا کی تھی۔‏ اُس نے درخواست کی:‏ ”‏تُو آسمان پر سے جو تیری سکونت‌گاہ ہے سُن لینا اور جس جس بات کے لئے وہ پردیسی تجھ سے فریاد کرے تُو اُسکے مطابق کرنا تاکہ زمین کی سب قومیں تیرے نام کو پہچانیں۔‏“‏ (‏۱-‏سلاطین ۸:‏۴۱-‏۴۳‏)‏ آجکل بہتیرے ممالک سے ہزاروں بادشاہتی مُناد ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔‏ وہ نینوہ کے باشندوں جیسے لوگوں سے ملتے ہیں جو روحانی معاملات کے سلسلے میں ’‏اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے۔‏‘‏ نیز بادشاہتی مُناد مختلف ممالک سے سچے پرستاروں کے جمع ہونے کی بابت پیشینگوئیوں کی تکمیل میں حصہ لینے کے مشتاق ہیں۔‏—‏یسعیاہ ۲:‏۲،‏ ۳؛‏ میکاہ ۴:‏۱-‏۳‏۔‏

جس طرح دُنیائےمسیحیت کے لوگوں نے بائبل کے پیغامِ‌اُمید کو قبول کِیا ہے اُسی طرح دوسرے مذہبی پس‌منظروں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ایسا کر رہے ہیں۔‏ اسے آپکی ذات پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے؟‏ دیانتداری سے اپنا جائزہ لیں۔‏ اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ تعصّب آپ کے اندر گہری جڑ پکڑے ہوئے ہے تو محبت سے اس پر غالب آنے کی کوشش کریں۔‏ * ایسے لوگوں کو رد نہ کریں جنہیں خدا قبول کرنے کیلئے تیار ہے۔‏—‏یوحنا ۳:‏۱۶‏۔‏

فرق پس‌منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات‌چیت کرنے سے پہلے خود کو ذہنی طور پر تیار کریں۔‏ اُنکے اعتقادات،‏ دلچسپیوں اور اندازِفکر سے واقف ہونے اور ایک مشترکہ بنیاد قائم کرنے کی کوشش کریں۔‏ دوسروں کیلئے نیکی اور مہربانی ظاہر کریں۔‏ بحث‌وتکرار سے گریز کریں،‏ لچکدار اور مثبت بننے کی کوشش کریں۔‏ (‏لوقا ۹:‏۵۲-‏۵۶‏)‏ ایسا کرنے سے آپ یہوواہ کو خوش کرینگے جو ”‏چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۴‏۔‏

ہم کتنے خوش ہیں کہ ہماری کلیسیاؤں میں مختلف پس‌منظر سے تعلق رکھنے والے بیشمار لوگ موجود ہیں!‏ (‏یسعیاہ ۵۶:‏۶،‏ ۷‏)‏ آجکل میری،‏ جان،‏ سٹیون اور ٹام کیساتھ ساتھ ماماڈو،‏ خان،‏ رضا اور یانگ جیسے نام سننا کسقدر خوش‌کُن تجربہ ہے!‏ واقعی،‏ ہمارے لئے ”‏ایک وسیع اور کارآمد دروازہ کھلا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۶:‏۹‏)‏ دُعا ہے کہ ہم غیرجانبدار خدا یہوواہ کی پیش‌کردہ دعوت کو سب قوموں تک پہنچانے کیلئے ہر موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں!‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 19 اویک!‏،‏ جولائی ۸،‏ ۱۹۹۶ کے شمارے کے صفحہ ۵-‏۷ پر مضمون ”‏رابطہ منقطع کرنے والی دیواریں“‏ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویریں]‏

پولس نے مطابقت پیدا کرتے ہوئے ہر جگہ کے لوگوں کو خوشخبری سنائی

‏.‏ .‏ .‏اتھینے میں

‏.‏ .‏ .‏فلپی میں

‏.‏ .‏ .‏دورانِ‌سفر