کیا ایمان کو منطق پر مبنی ہونا چاہئے؟
کیا ایمان کو منطق پر مبنی ہونا چاہئے؟
”ایسے بہتیرے ’مذہبی‘ لوگ ہیں جو محض استدلال سے بچنے کی خاطر کوئی بھی مذہب اختیار کر لیتے ہیں،“ ریاستہائےمتحدہ میں ایک مذہبی درسگاہ کا نگران لکھتا ہے۔ وہ مزید بیان کرتا ہے، ”وہ بغیر کسی ثبوت کے تمام عقائد کو قبول کر لینا چاہتے ہیں۔“
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی عقائد پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرنے والے بیشتر لوگ نہ تو اپنے ایمان کی بابت زیادہ سوچبچار کرتے ہیں اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ آیا اُنکے ایمان کی معقول بنیاد ہے یا نہیں۔ کچھ عجب نہیں کہ مذہب ایک ایسا موضوع بن گیا ہے جس کی بابت باتچیت کرنے سے بہتیرے لوگ ہچکچاتے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ مذہبی علامات کا استعمال اور بِلاسوچےسمجھے دہرائی جانے والی دُعاؤں جیسی رسومات بھی استدلال کی حوصلہافزائی نہیں کرتیں۔ ایسی رسومات کے علاوہ ہزاروں لوگوں کا مذہب شاندار عمارتوں، رنگدار شیشے والی خوبصورت کھڑکیوں اور سحرانگیز موسیقی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اگرچہ بعض چرچ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنکا ایمان بائبل پر مبنی ہے تاہم اُنکا پیغام کہ ’یسوع پر ایمان لانے سے تم بچ جاؤ گے‘ بائبل کے گہرے مطالعے کی حوصلہشکنی کرتا ہے۔ دیگر سماجی یا سیاسی تعلیمات کا پرچار کرتے ہیں۔ اس سب کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟
شمالی امریکہ میں پائی جانے والی صورتحال کی بابت ایک مذہبی مصنف نے کہا: ”مسیحیت . . . سطحی بن کر رہ گئی ہے [اور] اسکے حمایتی اپنے ایمان کی بابت بہت کم علم رکھتے ہیں۔“ رائےشماری کرنے والے ایک شخص نے ریاستہائےمتحدہ کے بارے میں بیان کِیا کہ یہ ”بائبل سے لاعلم لوگوں کا ملک“ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان بیانات کا اطلاق ایسے تمام ممالک پر بھی ہوتا ہے جہاں برائےنام مسیحیت رائج ہے۔ اسی طرح بہتیرے غیرمسیحی مذاہب بھی منطقی اور حوصلہافزا سوچبچار کی بجائے مذہبی گیتوں، رسوماتی دُعاؤں اور تصوف پر مبنی مختلف قسم کے مراقبوں کی حوصلہافزائی کرتے ہیں۔
تاہم یہی لوگ جو اپنے مذہبی اعتقادات کی درستی اور سچائی پر بہت کم توجہ دیتے ہیں اکثر اپنی روزمرّہ زندگی کے دیگر معاملات پر نہایت محتاط طریقے سے غوروفکر کرتے ہیں۔ کیا آپکو یہ عجیب نہیں لگتا کہ ایک شخص جو محض ایک گاڑی خریدنے کیلئے—جو کہ ایک دن ناکارہ ہو جائیگی—بہت زیادہ تحقیقوتفتیش کرتا ہے لیکن اپنے مذہب کی بابت کہتا ہے: ’اگر میرے والدین اس سے مطمئن تھے تو یہ میرے لئے بھی صحیح ہی ہوگا‘؟
اگر ہم واقعی خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو کیا ہمیں اس بات پر سنجیدہ غوروفکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم اُسکی بابت کیا ایمان رکھتے ہیں؟ پولس رسول نے اپنے زمانہ کے بعض مذہبی لوگوں کا ذکر کِیا جو ”خدا کے بارے میں غیرت تو رکھتے [تھے] مگر سمجھ کیساتھ نہیں۔“ (رومیوں ۱۰:۲) ایسے لوگوں کو اُجرت لینے والے ایک پینٹر سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے جو ایک گھر کو رنگوروغن کرنے کیلئے سخت محنت کرتا ہے لیکن مالک کی ہدایات پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے وہ غلط رنگوں کا انتخاب کرتا ہے۔ پینٹر اپنے کام سے خوش ہو سکتا ہے لیکن کیا مالک اُسکے کام سے خوش ہوگا؟
سچی پرستش کے سلسلے میں کیا چیز خدا کی نظر میں قابلِقبول ہے؟ بائبل جواب دیتی ہے: ”یہ ہمارے مُنجی خدا کے نزدیک عمدہ اور پسندیدہ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔“ (۱-تیمتھیس ۲:۳، ۴) بعض لوگ محسوس کر سکتے ہیں کہ آجکل اتنے زیادہ مذاہب ہونے کی وجہ سے ایسا علم تلاش کرنا ناممکن ہے۔ لیکن ذرا سوچیں—اگر خدا کی مرضی ہے کہ لوگ سچائی کی پہچان تک پہنچیں تو کیا وہ ناانصافی سے یہ علم ان سے پوشیدہ رکھیگا؟ ایسی سوچ بائبل کی مطابقت میں نہیں جو کہ بیان کرتی ہے: ”اگر تُو اُسے [خدا کو] ڈھونڈے تو وہ تجھکو مل جائیگا۔“—۱-تواریخ ۲۸:۹۔
خدا خود کو اُن لوگوں پر کیسے ظاہر کرتا ہے جو خلوصدلی سے اُسے تلاش کرتے ہیں؟ اگلا مضمون اسکا جواب فراہم کریگا۔