مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دردمندی—‏مہربانی اور رحمدلی کی کُنجی

دردمندی—‏مہربانی اور رحمدلی کی کُنجی

دردمندی‏—‏مہربانی اور رحمدلی کی کُنجی

ہیلن کیلر نے لکھا،‏ ”‏جب تک آپ کسی دوسرے کا درد بانٹتے ہیں آپکی زندگی بےمقصد نہیں ہوتی۔‏“‏ کیلر واقعی جذباتی تکلیف کو سمجھتی تھی۔‏ اُسے ۱۹ سال کی عمر میں ایک بیماری نے مکمل طور پر اندھا اور بہرا کر دیا۔‏ تاہم ایک ہمدرد اُستانی نے ہیلن کو بریل پڑھنالکھنا اور بعدازاں بولنا سکھایا۔‏

کیلر کی اُستانی این سلیوان ایک جسمانی معذوری سے نپٹنے کی پریشانی سے اچھی طرح واقف تھی۔‏ وہ خود بھی کسی حد تک نابینا تھی۔‏ تاہم این نے تحمل سے ہیلن کے ہاتھ پر ہجوں کی ”‏شناخت“‏ کرنے سے اس سے رابطے کا ایک ذریعہ تشکیل دیا۔‏ ہیلن نے اپنی اُستانی کی دردمندی سے تحریک پاکر اپنی زندگی اندھوں اور بہروں کی مدد کرنے کے لئے مخصوص کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ بڑی جدوجہد سے اپنی معذوری سے نپٹنے کے بعد وہ ایسے ہی حالات کا شکار لوگوں کیلئے ہمدردی محسوس کرنے لگی۔‏ وہ اُن کی مدد کرنا چاہتی تھی۔‏

آپ نے غور کِیا ہوگا کہ اس خودغرض دُنیا میں ”‏رحم کرنے میں دریغ“‏ کرنا اور دوسروں کی ضروریات کو نظرانداز کرنا کتنا آسان ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۷‏)‏ تاہم مسیحیوں کو اپنے پڑوسی سے اور ایک دوسرے سے گہری محبت رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔‏ (‏متی ۲۲:‏۳۹؛‏ ۱-‏پطرس ۴:‏۸‏)‏ غالباً آپ اس حقیقت سے واقف ہونگے:‏ ایک دوسرے سے محبت رکھنے کے مخلصانہ ارادے کے باوجود ہم دوسروں کی تکلیف کم کرنے کے مواقع کو اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔‏ یہ محض اسلئے ہو سکتا ہے کہ ہم اُنکی ضروریات سے واقف نہیں ہوتے۔‏ دردمندی ایسی کُنجی ہے جو ہماری مہربانی اور رحمدلی کو قابلِ‌رسائی بنا سکتی ہے۔‏

دردمندی کیا ہے؟‏

ایک ڈکشنری بیان کرتی ہے کہ دردمندی ”‏دوسرے کی صورتحال،‏ احساسات اور محرکات کو سمجھنے اور اس میں مماثلت پیدا کرنے“‏ کی خوبی ہے۔‏ اسکا بیان خود کو دوسرے شخص کی جگہ تصور کرنے کے طور پر بھی کِیا گیا ہے۔‏ لہٰذا دردمندی ہم سے پہلے دوسرے شخص کے حالات کو سمجھنے اور دوم ان حالات کے باعث اسکے اندر پیدا ہونے والے احساسات کیلئے ہمدردی محسوس کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ دردمندی میں تکلیف میں مبتلا شخص کیلئے اپنے دل میں درد محسوس کرنا شامل ہے۔‏

لفظ ”‏دردمندی“‏ بائبل میں نظر نہیں آتا لیکن صحائف اس خوبی کا بالواسطہ حوالہ دیتے ہیں۔‏ پطرس رسول نے مسیحیوں کو ’‏ہمدردی،‏ برادرانہ محبت نرم دلی‘‏ ظاہر کرنے کی نصیحت کی۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۸‏)‏ ”‏ہمدردی“‏ کیلئے استعمال ہونے والے یونانی لفظ کے لغوی معنی ”‏دوسرے کا درد بانٹنا“‏ یا ”‏رحم ظاہر کرنا“‏ ہے۔‏ پولس رسول نے ایسے ہی جذبات ظاہر کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے ساتھی مسیحیوں کو ’‏خوشی کرنے والوں کے ساتھ خوشی کرنے اور رونے والوں کے ساتھ رونے‘‏ کی مشورت دی۔‏ پولس نے مزید بیان کِیا،‏ ”‏آپس میں یکدل رہو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ پس کیا آپ اتفاق نہیں کرتے کہ اگر ہم خود کو اپنے پڑوسی کی جگہ نہ رکھیں تو اُس سے اپنی مانند محبت رکھنا ناممکن ہے؟‏

تقریباً تمام لوگ فطری طور پر کسی حد تک دردمندی محسوس کرتے ہیں۔‏ فاقہ‌زدگی کا شکار بچوں یا پریشان‌حال پناہ‌گزینوں کو دیکھ کر کسے ترس نہیں آتا؟‏ کیا ایک شفیق ماں اپنے روتے ہوئے بچے کو نظرانداز کر سکتی ہے؟‏ تاہم ہر تکلیف کو سمجھنا آسان نہیں۔‏ اگر ہم نے ایسے مسائل کا ذاتی تجربہ نہ کِیا ہو تو افسردگی،‏ غیرواضح علامات والی بیماری یا کھانےپینے میں بےاعتدالی کا تجربہ کرنے والے شخص کے جذبات کو سمجھنا کتنا مشکل ہے!‏ اسکے باوجود صحائف واضح کرتے ہیں کہ ہم ایسے لوگوں کیلئے دردمندی ظاہر کر سکتے ہیں جنکے حالات ہم سے فرق ہیں اور ہمیں ایسا کرنا بھی چاہئے۔‏

دردمندی کی صحیفائی مثالیں

دردمندی کے سلسلے میں یہوواہ سب سے بڑا نمونہ ہے۔‏ وہ کامل ہونے کے باوجود،‏ ہم سے کاملیت کی توقع نہیں کرتا ”‏کیونکہ وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔‏ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۳:‏۱۴؛‏ رومیوں ۵:‏۱۲‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ ہماری کمزوریوں سے واقف ہونے کی وجہ سے وہ ’‏ہمیں کسی ایسی آزمایش میں پڑنے کی اجازت نہیں دیتا جو ہماری برداشت سے باہر ہو۔‏‘‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳‏)‏ وہ اپنے خادموں اور اپنی روح کے ذریعے ہمیں مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔‏—‏یرمیاہ ۲۵:‏۴،‏ ۵؛‏ اعمال ۵:‏۳۲‏۔‏

یہوواہ ذاتی طور پر اپنے لوگوں کی تکلیف محسوس کرتا ہے۔‏ اُس نے بابل سے لوٹنے والے یہودیوں سے کہا:‏ ”‏جو کوئی تم کو چھوتا ہے میری آنکھ کی پتلی کو چھوتا ہے۔‏“‏ (‏زکریاہ ۲:‏۸‏)‏ خدا کی دردمندی سے اچھی طرح واقف زبورنویس داؤد نے اُس کی بابت بیان کِیا:‏ ”‏میرے آنسوؤں کو اپنے مشکیزہ میں رکھ لے۔‏ کیا وہ تیری کتاب میں مندرج نہیں ہیں؟‏“‏ (‏زبور ۵۶:‏۸‏)‏ یہ جاننا کتنا تسلی‌بخش ہے کہ یہوواہ راستی برقرار رکھنے کی جدوجہد کرنے والے اپنے وفادار خادموں کے آنسوؤں کو یاد رکھتا ہے۔‏—‏گویا کہ وہ ایک کتاب میں قلمبند ہوں!‏

اپنے آسمانی باپ کی طرح یسوع مسیح دوسروں کے جذبات کی فکر رکھتا ہے۔‏ اُس نے ایک بہرے شخص کو بِھیڑ سے الگ لیجا کر شفا دی تاکہ اُسکی معجزانہ شفا اُسے حد سے زیادہ پریشانی یا حیرت میں نہ ڈال دے۔‏ (‏مرقس ۷:‏۳۲-‏۳۵‏)‏ ایک اَور موقع پر،‏ یسوع نے ایک بیوہ پر غور کِیا جو اپنے اکلوتے بیٹے کو دفنانے جا رہی تھی۔‏ اُسے فوراً اُسکی تکلیف کا احساس ہوا،‏ وہ جنازے کے پاس گیا اور اُس نے نوجوان شخص کو دوبارہ زندہ کر دیا۔‏—‏لوقا ۷:‏۱۱-‏۱۶‏۔‏

اپنی قیامت کے بعد یسوع دمشق کی سڑک پر ساؤل سے ملا اور اُس نے ساؤل پر آشکارا کِیا کہ وہ شاگردوں کی اذیت کی بابت کیسا محسوس کرتا ہے۔‏ اُس نے ساؤل سے کہا،‏ ”‏مَیں یسوؔع ہوں جسے تُو ستاتا ہے۔‏“‏ (‏اعمال ۹:‏۳-‏۵‏)‏ اپنے بیمار بچے کی تکلیف کو محسوس کرنے والی ماں کی طرح،‏ یسوع اپنے شاگردوں کی تکلیف کو ذاتی طور پر محسوس کرتا تھا۔‏ اسی طرح یسوع ہمارے آسمانی سردار کاہن کے طور پر ’‏ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد ہے‘‏ یا روتھرہیم کے ترجمے کے مطابق ”‏اُسے ہماری کمزوریوں کا احساس ہے۔‏“‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۵‏۔‏

پولس رسول نے بھی دوسروں کی تکلیف اور احساسات کے لئے ہمدردی محسوس کرنا سیکھ لیا تھا۔‏ اُس نے استفسار کِیا،‏ ”‏کس کی کمزوری سے مَیں کمزور نہیں ہوتا؟‏ کس کے ٹھوکر کھانے سے میرا دل نہیں دُکھتا؟‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۲۹‏)‏ جب ایک فرشتے نے فلپی کے ایک قیدخانہ سے پولس اور سیلاس کو معجزانہ طور پر آزاد کِیا تو پولس کی پہلی فکر داروغہ کو یہ خبر دینا تھی کہ کوئی قیدی قیدخانہ سے فرار نہیں ہوا۔‏ اُس نے ہمدردی میں ایسا کِیا کیونکہ اُسے یہ احساس ہوا کہ داروغہ خودکشی کر سکتا تھا۔‏ پولس جانتا تھا کہ رومی رسم کے مطابق کسی قیدی کے فرار ہونے پر داروغہ کو سخت سزا مل سکتی تھی—‏بالخصوص جب اُسے سخت پہرہ دینے کے لئے کہا گیا ہو۔‏ (‏اعمال ۱۶:‏۲۴-‏۲۸‏)‏ پولس کے اس مہربانہ زندگی بچانے والے کام نے داروغہ کو اس قدر متاثر کِیا کہ اُس نے اپنے گھرانے سمیت مسیحی بننے کا فیصلہ کر لیا۔‏ —‏اعمال ۱۶:‏۳۰-‏۳۴‏۔‏

دردمندی کو کیسے فروغ دیں

صحائف ہمارے آسمانی باپ اور اُس کے بیٹے یسوع مسیح کی نقل کرنے میں ہماری حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں لہٰذا ہمیں دردمندی کی خوبی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہم تین بنیادی طریقوں سے دوسروں کی ضروریات اور احساسات کیلئے اپنی حساسیت کو بڑھا سکتے ہیں:‏ سننے،‏ مشاہدہ کرنے اور تصور کرنے سے ایسا کِیا جا سکتا ہے۔‏

سنیں۔‏ ہم دوسروں کی باتیں توجہ سے سننے سے اُن کے مسائل کی بابت سیکھ سکتے ہیں۔‏ نیز ہم اُن کی باتوں پر جتنی زیادہ توجہ دیں گے وہ اتنا ہی زیادہ اپنے دلوں کا حال بیان کرنے اور اپنے احساسات واضح کرنے کی طرف مائل ہونگے۔‏ مریم بیان کرتی ہے،‏ ”‏اگر مجھے یہ اعتماد حاصل ہو کہ کوئی بزرگ میری بات سننے کے لئے تیار ہے تو مَیں اُس سے بات کر سکتی ہوں۔‏ مَیں جاننا چاہتی ہوں کہ وہ واقعی میرے مسئلے کو سمجھتا ہے۔‏ اُس کے تفتیشی سوالات جب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اُس نے میری بات غور سے سنی ہے تو اُس پر میرا اعتماد اَور بھی بڑھ جاتا ہے۔‏“‏

مشاہدہ کریں۔‏ تمام لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرنا یا یہ بیان کرنا آسان نہیں پاتے کہ وہ کس تجربے سے گزر رہے ہیں۔‏ تاہم جب کوئی ساتھی مسیحی افسردہ،‏ ایک نوجوان شخص خاموش یا ایک سرگرم خادم اپنا جوش کھو دیتا ہے تو ایک محتاط مشاہد کو پتا چل جاتا ہے۔‏ ابتدائی مراحل میں ہی مسئلے کی شناخت کرنے کی یہ صلاحیت والدین کے لئے اہم ہے۔‏ ماری بیان کرتی ہے،‏ ”‏میری ماں نہ جانے کیسے میرے بولنے سے پہلے ہی سمجھ جاتی ہے کہ مَیں کیا محسوس کر رہی ہوں لہٰذا اُس سے اپنے مسائل کی بابت آزادی سے بات‌چیت کرنا میرے لئے آسان ہوتا ہے۔‏“‏

اپنے تخیل کو استعمال کریں۔‏ دردمندی کو تحریک دینے کا سب سے ذی‌اثر طریقہ خود سے استفسار کرنا ہے:‏ ’‏اگر مَیں اس صورتحال میں ہوتا تو کیسا محسوس کرتا؟‏ میرا جوابی‌عمل کیا ہوتا؟‏ مجھے کس چیز کی ضرورت ہوتی؟‏‘‏ ایوب کو جھوٹی تسلی دینے والے اُسکے تین ساتھی خود کو اُسکی جگہ تصور کرنے میں ناکام رہے۔‏ لہٰذا اُنہوں نے فرضی گناہوں کیلئے اُسے قصوروار ٹھہرایا۔‏

ناکامل انسان اکثر دوسروں کے احساسات کو سمجھنے کی بجائے اُن کی غلطیوں پر تنقید کرنا آسان پاتے ہیں۔‏ تاہم اگر ہم کسی مصیبت‌زدہ شخص کی پریشانی کو تصور کرنے کی بھرپور کوشش کریں تو یہ ہمیں انہیں قصوروار ٹھہرانے کی بجائے اُن کیلئے ہمدردی دکھانے کے قابل بنائے گی۔‏ ایک تجربہ‌کار بزرگ کوآن بیان کرتا ہے،‏ ”‏تجاویز پیش کرنے سے پہلے توجہ سے سننے اور پوری صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرنا مجھے بہتر نصیحت دینے کے قابل بناتا ہے۔‏“‏

یہوواہ کے گواہوں کی مطبوعات نے اس سلسلے میں بہتیروں کی مدد کی ہے۔‏ مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ رسالے افسردگی اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی جیسے پیچیدہ مسائل کو زیرِغور لائے ہیں۔‏ یہ بروقت معلومات ایسی تکالیف کا سامنا کرنے والوں کے احساسات کو سمجھنے میں سامعین کی مدد کرتی ہیں۔‏ اسی طرح،‏ کتاب کوسچنز ینگ پیپل آسک—‏آنسرز دیٹ ورک نے بہتیرے والدین کی اپنے بچوں کے مسائل کو سمجھنے میں مدد کی ہے۔‏

دردمندی مسیحی کارگزاریوں میں مددگار

اگر ہمارے پاس کھانا دستیاب ہو تو ہم میں سے بہت ہی کم لوگ ایک بھوکے بچے کی حالت کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔‏ اگر ہم دردمندی کا احساس رکھتے ہیں تو ہم ایک شخص کی روحانی حالت کو بھی جان سکتے ہیں۔‏ بائبل یسوع کی بابت بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب اُس نے بِھیڑ کو دیکھا تو اُسکو لوگوں پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہ‌حال اور پراگندہ تھے۔‏“‏ (‏متی ۹:‏۳۶‏)‏ آجکل کے لاکھوں لوگوں کی روحانی حالت ایسی ہی ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے۔‏

یسوع کے زمانہ کی طرح بعض لوگوں کے دلوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ہمیں کسی تعصّب یا پرانی رسم سے نپٹنا پڑ سکتا ہے۔‏ ایک مہربان خادم اپنے پیغام کو زیادہ مؤثر بنانے کے لئے مشترکہ بنیاد قائم کرنے یا ایسے موضوعات پر بات‌چیت کرنے کی کوشش کرتا ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں ہیں۔‏ (‏اعمال ۱۷:‏۲۲،‏ ۲۳؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۰-‏۲۳‏)‏ فلپی داروغہ کی طرح دردمندی سے تحریک پاکر کئے جانے والے مہربانہ کاموں کی وجہ سے ہمارے سامعین بادشاہتی پیغام کیلئے مثبت جوابی‌عمل ظاہر کر سکتے ہیں۔‏

دردمندی کلیسیا کے اندر دوسروں کی کمزوریوں کو برداشت کرنے میں ہمارے لئے بیش‌قیمت ثابت ہوتی ہے۔‏ اگر ہم ایک ایسے بھائی کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس نے ہمیں ناراض کِیا ہے تو ہم یقیناً اُسے معاف کرنا آسان پائینگے۔‏ اگر ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہوتا اور ہمارا پس‌منظر اُس بھائی جیسا ہوتا تو ممکن ہے کہ ہم نے بھی اُسی جیسا ردِعمل ظاہر کِیا ہوتا۔‏ یہوواہ کی دردمندی نے اُسے تحریک دی کہ وہ ’‏یاد رکھے کہ ہم خاک ہیں‘‏ لہٰذا کیا ہماری دردمندی کو ہمیں دوسروں کی ناکاملیتوں کو برداشت کرنے اور اُنکے ”‏قصور معاف“‏ کرنے کی تحریک نہیں دینی چاہئے؟‏—‏زبور ۱۰۳:‏۱۴؛‏ کلسیوں ۳:‏۱۳‏۔‏

اگر خطاکار کو نصیحت کرنا مقصود ہو تو ہم اُس کے احساسات اور جذبات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک مہربانہ طریقہ سے ایسا کریں گے۔‏ ایک ہمدرد مسیحی بزرگ خود کو یاد دلاتا ہے:‏ ’‏یہ غلطی مجھ سے بھی ہو سکتی تھی۔‏ مَیں بھی ایسی صورتحال میں مبتلا ہو سکتا تھا جس کا سامنا یہ شخص کر رہا ہے۔‏‘‏ پس پولس نے نصیحت کی کہ ایسے شخص کو ”‏حلم‌مزاجی سے بحال کرو اور اپنا بھی خیال رکھ۔‏ کہیں تُو بھی آزمایش میں نہ پڑ جائے۔‏“‏—‏گلتیوں ۶:‏۱‏۔‏

اگر ہمارے اختیار میں ہو تو دردمندی ہمیں ایک ایسے ساتھی مسیحی کو عملی مدد پیش کرنے کی تحریک دیتی ہے جو مدد حاصل کرنے سے ہچکچاتا ہے۔‏ یوحنا رسول لکھتا ہے:‏ ”‏جس کسی کے پاس دُنیا کا مال ہو اور وہ اپنے بھائی کو محتاج دیکھ کر رحم کرنے میں دریغ کرے تو اُس میں خدا کی محبت کیونکر قائم رہ سکتی ہے؟‏ .‏ .‏ .‏ ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت کریں۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۷،‏ ۱۸‏۔‏

‏”‏کام اور سچائی“‏ کے ذریعہ محبت کرنے میں ہمیں سب سے پہلے اپنے بھائی کی مخصوص ضروریات سے باخبر ہونا چاہئے۔‏ کیا ہم دوسروں کی مدد کرنے کے نقطۂ‌نظر سے اُنکی ضروریات پر محتاط طریقے سے غور کرتے ہیں؟‏ دردمندی اسی کا نام ہے۔‏

ہمدردی کو فروغ دیں

شاید ہم فطرتاً بہت ہمدرد نہ ہوں،‏ لیکن ہم اس احساس کو پیدا کر سکتے ہیں۔‏ اگر ہم توجہ سے سنیں،‏ بغور مشاہدہ کریں اور خود کو دوسرے شخص کی جگہ تصور کریں تو ہماری دردمندی فروغ پائے گی۔‏ نتیجتاً ہم اپنے بچوں،‏ ساتھی مسیحیوں اور اپنے پڑوسیوں کے لئے زیادہ محبت،‏ مہربانی اور رحم ظاہر کریں گے۔‏

کبھی بھی خودغرضی کو دردمندی پر غالب آنے کی اجازت نہ دیں۔‏ پولس نے لکھا،‏ ”‏ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی نظر رکھے۔‏“‏ (‏فلپیوں ۲:‏۴‏)‏ ہمارے ابدی مستقبل کا انحصار یہوواہ اور اُسکے سردار کاہن یسوع مسیح کی دردمندی پر ہے۔‏ پس اس خوبی کو بڑھانا ہماری اخلاقی ذمہ‌داری ہے۔‏ ہماری دردمندی ہمیں بہتر خادم اور والدین بننے میں مدد دیگی۔‏ سب سے بڑھکر دردمندی یہ سمجھنے میں ہماری مدد کریگی کہ ”‏دینا لینے سے مبارک ہے۔‏“‏—‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

دردمندی میں دوسروں کی مدد کرنے کے نقطۂ‌نظر سے اُن کی ضروریات پر محتاط طریقے سے غور کرنا شامل ہے

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

کیا ہم ایسی دردمندی ظاہر کرنا سیکھیں گے جو ایک شفیق ماں فطرتی طور پر اپنے بچے کیلئے محسوس کرتی ہے