مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

الہٰی تقاضوں کی پابندی یہوواہ کو جلال بخشتی ہے

الہٰی تقاضوں کی پابندی یہوواہ کو جلال بخشتی ہے

الہٰی تقاضوں کی پابندی یہوواہ کو جلال بخشتی ہے

‏”‏مَیں .‏ .‏ .‏ شکرگذاری کے ساتھ اُسکی تمجید کرونگا۔‏“‏—‏زبور ۶۹:‏۳۰‏۔‏

۱.‏ یہوواہ تمجید کا مستحق کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم شکرگذاری کے ساتھ اُس کی تمجید کیسے کرتے ہیں؟‏

یہوواہ قادرِمطلق خدا،‏ کائنات کا حاکمِ‌اعلیٰ اور خالق ہے۔‏ لہٰذا،‏ اُس کا نام اور مقاصد تمجید کے لائق ہیں۔‏ یہوواہ کی تمجید کرنے کا مطلب اُسے عزت‌وتعظیم دینا اور اپنے اقوال‌وافعال کے ذریعے اُس کی بڑائی اور ستائش کرنا ہے۔‏ ہمیں ”‏شکرگذاری“‏ کیساتھ ایسا کرنے کے لئے اب اور آئندہ اُس کے کاموں کے لئے ہمیشہ شکرگزار رہنے کی ضرورت ہے۔‏ ہمیں مکاشفہ ۴:‏۱۱ میں متذکرہ رُجحان اپنانے کی ضرورت ہے جہاں آسمان میں وفادار روحانی خلائق یہ اعلان کرتے ہیں:‏ ”‏اَے ہمارے [‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ خدا تُو ہی تمجید اور عزت اور قدرت کے لائق ہے کیونکہ تُو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھیں اور پیدا ہوئیں۔‏“‏ ہم یہوواہ کی تمجید کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہم اُس کی بابت سیکھنے اور پھر اُس کے تقاضوں کو پورا کرنے سے اُس کی تمجید کر سکتے ہیں۔‏ ہمیں زبورنویس کی طرح محسوس کرنا چاہئے جس نے کہا:‏ ”‏مجھے سکھا کہ تیری مرضی پر چلوں اسلئےکہ تُو میرا خدا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۴۳:‏۱۰‏۔‏

۲.‏ یہوواہ اپنی تمجید کرنے اور نہ کرنے والوں کیساتھ کیسا سلوک کرتا ہے؟‏

۲ یہوواہ ان لوگوں کی قدر کرتا ہے جو اُس کی تمجید کرتے ہیں۔‏ اِسی وجہ سے وہ ”‏اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۶‏)‏ وہ بدلہ کیا ہے؟‏ یسوع نے اپنے آسمانی باپ سے دُعا میں کہا:‏ ”‏ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِ‌واحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ ”‏شکرگذاری کے ساتھ [‏یہوواہ]‏ کی تمجید“‏ کرنے والے ”‏زمین کے وارث ہونگے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہینگے۔‏“‏ (‏زبور ۳۷:‏۲۹‏)‏ اس کے برعکس،‏ ”‏بدکردار کے لئے کچھ اجر نہیں۔‏“‏ (‏امثال ۲۴:‏۲۰‏)‏ اِسکے علاوہ ان آخری ایّام میں،‏ یہوواہ کی تمجید کرنا نہایت اہم ہے کیونکہ وہ بہت جلد بدکاروں کو تباہ‌وبرباد کرے گا اور راستبازوں کو بچا لے گا۔‏ ”‏دُنیا اور اُس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہیگا۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۷؛‏ امثال ۲:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

۳.‏ ہمیں ملاکی کی کتاب پر کیوں دھیان دینا چاہئے؟‏

۳ بائبل یہوواہ کی مرضی کی بابت بتاتی ہے کیونکہ ”‏ہر ایک صحیفہ .‏ .‏ .‏ خدا کے الہام سے ہے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶‏)‏ خدا کے کلام میں کئی سرگزشتیں بیان کرتی ہیں کہ یہوواہ کی تمجید کرنے والوں کو اُس نے کیسے برکت بخشی اور تمجید نہ کرنے والوں کیساتھ کیا واقع ہوا۔‏ ان میں سے ایک واقعہ ملاکی نبی کے زمانہ میں اسرائیل میں پیش آیا تھا۔‏ جب نحمیاہ تقریباً ۴۴۳ ق.‏س.‏ع.‏ میں یہوداہ کا حاکم تھا تو ملاکی نے اپنے نام کی حامل کتاب لکھی۔‏ اس پُرزور اور دلچسپ کتاب کی معلومات اور پیشینگوئیاں ”‏ہم آخری زمانہ والوں کی نصیحت کے واسطے لکھی گئیں۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۱‏)‏ ملاکی کے الفاظ پر دھیان دینے سے ہمیں ”‏[‏یہوواہ]‏ کے بزرگ اور ہولناک دن“‏ کے لئے تیار رہنے میں مدد مل سکتی ہے جب وہ اس بدکار نظام‌اُلعمل کا خاتمہ کریگا۔‏—‏ملاکی ۴:‏۵‏۔‏

۴.‏ ملاکی ۱ باب میں کن چھ نکات پر ہماری توجہ مبذول کرائی گئی ہے؟‏

۴ ملاکی کی کتاب جو ۴۰۰،‏۲ سال سے بھی پہلے لکھی گئی تھی اس ۲۱ ویں صدی میں یہوواہ کے بزرگ اور ہولناک دن کیلئے تیار رہنے میں ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟‏ پہلا باب کم‌ازکم چھ نکات پر ہماری توجہ مبذول کراتا ہے جو ہمارے لئے یہوواہ کی مقبولیت اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کیلئے شکرگزاری کیساتھ اُسکی تمجید کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں:‏ (‏۱)‏ یہوواہ اپنے لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔‏ (‏۲)‏ ہمیں پاک چیزوں کی قدر کرنی چاہئے۔‏ (‏۳)‏ یہوواہ ہم سے توقع کرتا ہے کہ ہم اُسے اپنی بہترین چیزیں پیش کریں۔‏ (‏۴)‏ سچی پرستش لالچ کی بجائے خودایثارانہ محبت سے فروغ پاتی ہے۔‏ (‏۵)‏ یہوواہ کی قابلِ‌قبول پرستش کوئی رسمی بوجھ نہیں ہے۔‏ (‏۶)‏ ہم میں سے ہر ایک یہوواہ کے حضور جوابدہ ہے۔‏ پس آئیے ملاکی کی کتاب پر مشتمل تین مضامین میں سے پہلے مضمون میں ملاکی ۱ باب کا قریبی جائزہ لیتے ہوئے ان نکات پر غور کریں۔‏

یہوواہ اپنے لوگوں سے محبت رکھتا ہے

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ یہوواہ نے یعقوب سے محبت کیوں رکھی؟‏ (‏ب)‏ یعقوب کی ایمانداری کی نقل کرنے سے ہم کیا توقع کر سکتے ہیں؟‏

۵ ملاکی کی کتاب کی ابتدائی آیات میں یہوواہ کی محبت کو واضح کِیا گیا ہے۔‏ کتاب ان الفاظ کیساتھ شروع ہوتی ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی طرف سے .‏ .‏ .‏ اِؔسرائیل کے لئے بارِنبوت۔‏“‏ علاوہ‌ازیں،‏ خدا فرماتا ہے:‏ ”‏مَیں نے تم سے محبت رکھی۔‏“‏ اسی آیت میں ایک مثال کا حوالہ دیتے ہوئے یہوواہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں نے یعقوؔب سے محبت رکھی۔‏“‏ یعقوب کا یہوواہ پر پُختہ ایمان تھا۔‏ وقت آنے پر یہوواہ نے یعقوب کا نام بدل کر اسرائیل رکھا اور وہ اسرائیل قوم کا جد بنا۔‏ یہوواہ نے یعقوب کے ایمان کی وجہ سے اُس سے محبت رکھی تھی۔‏ یہوواہ نے یعقوب جیسا رُجحان رکھنے والے لوگوں سے بھی محبت رکھی تھی۔‏—‏ملاکی ۱:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۶ اگر ہم یہوواہ سے محبت رکھیں اور اُسکے لوگوں کیساتھ وفادار رہیں تو ہم ۱-‏سموئیل ۱۲:‏۲۲ میں درج بیان سے تسلی حاصل کر سکتے ہیں:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے بڑے نام کے باعث اپنے لوگوں کو ترک نہیں کریگا۔‏“‏ یہوواہ اپنے لوگوں سے محبت رکھتا ہے اور انجام‌کار انہیں ہمیشہ کی زندگی کا اجر عطا کرتا ہے۔‏ لہٰذا ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور نیکی کر۔‏ ملک میں آباد رہ اور اُسکی وفاداری سے پرورش پا۔‏ [‏یہوواہ]‏ میں مسرور رہ اور وہ تیرے دل کی مُرادیں پوری کریگا۔‏“‏ (‏زبور ۳۷:‏۳،‏ ۴‏)‏ ہمارا پُرمحبت خدا یہوواہ ملاکی ۱ باب میں دوسرا نکتہ ہماری توجہ میں لاتا ہے۔‏

پاک چیزوں کی قدر کریں

۷.‏ یہوواہ نے عیسو سے نفرت کیوں رکھی؟‏

۷ ہم ملاکی ۱:‏۲،‏ ۳ میں پڑھتے ہیں،‏ ”‏مَیں نے یعقوب سے محبت رکھی،‏“‏ اِس کے بعد یہوواہ کہتا ہے،‏ ”‏عیسوؔ سے عداوت رکھی۔‏“‏ اس فرق کی کیا وجہ تھی؟‏ یعقوب نے یہوواہ کی بڑائی کی لیکن اُسکے جڑواں بھائی عیسو نے ایسا نہیں کِیا۔‏ عیسو کو ادوم بھی کہا گیا تھا۔‏ ملاکی ۱:‏۴ میں ادوم کے علاقے کو شرارت کا ملک کہا گیا ہے جسکے لوگوں پر خداوند کا قہر تھا۔‏ عیسو کو نام ادوم (‏یعنی ”‏لال“‏)‏ اُس وقت دیا گیا جب اُس نے اپنے پہلوٹھے کے بیش‌قیمت حق کو تھوڑی سی لال دال کے عوض یعقوب کو بیچ دیا تھا۔‏ پیدایش ۲۵:‏۳۴ بیان کرتی ہے،‏ ”‏عیسوؔ نے اپنے پہلوٹھے کے حق کو ناچیز جانا۔‏“‏ پولس رسول نے ساتھی ایمانداروں کو نصیحت کی کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان میں ”‏نہ کوئی حرامکار یا عیسوؔ کی طرح بےدین ہو جس نے ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنے پہلوٹھے ہونے کا حق بیچ ڈالا۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۲:‏۱۴-‏۱۶‏۔‏

۸.‏ پولس نے عیسو کو ایک حرامکار سے تشبِیہ کیوں دی؟‏

۸ پولس نے عیسو کے کاموں کو حرامکاری سے کیوں منسوب کِیا؟‏ اسلئےکہ عیسو جیسا ذہنی رُجحان ظاہر کرنے سے ایک شخص پاک چیزوں کی قدر کرنے میں ناکام رہ سکتا ہے۔‏ نتیجتاً یہ حرامکاری جیسے سنگین گناہوں پر منتج ہو سکتا ہے۔‏ پس ہم میں سے ہر ایک یہ سوال پوچھ سکتا ہے:‏ ’‏بعض‌اوقات کیا مَیں اپنے مسیحی ورثے—‏ہمیشہ کی زندگی—‏کے بدلے میں ایک پیالی دال جیسی حقیر سی چیز قبول کرنے کی آزمائش کا تجربہ کرتا ہوں؟‏ کیا مَیں شاید نادانستہ طور پر پاک چیزوں کو حقیر خیال کرتا ہوں؟‏ عیسو نے جسمانی خواہش کی تسکین کے لئے بےصبری کا مظاہرہ کِیا۔‏ اُس نے یعقوب سے کہا:‏ ”‏جلدی کر،‏ یہ جو لال لال ہے مجھے کھلا دے۔‏“‏ (‏پیدایش ۲۵:‏۳۰‏،‏ این‌ڈبلیو‏)‏ افسوس کی بات ہے کہ خدا کے بعض خادموں نے درحقیقت یہی کِیا ہے:‏ ”‏جلدی کریں!‏ ایک باعزت شادی کا انتظار کس لئے؟‏ ایسے لوگوں کے لئے ہر حال میں جنسی خواہش کی تسکین دال کی پیالی کے برابر ہے۔‏

۹.‏ ہم یہوواہ کیلئے مؤدبانہ خوف کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟‏

۹ خدا نہ کرے کہ ہم کبھی پاکیزگی،‏ راستی اور روحانی ورثے کے لئے احترام کی کمی ظاہر کرتے ہوئے پاک چیزوں کو حقیر خیال کریں۔‏ ہمیں عیسو کی بجائے ایماندار شخص یعقوب کی طرح بننا چاہئے اور پاک چیزوں کیلئے گہری قدر ظاہر کرتے ہوئے خدا کیلئے مؤدبانہ خوف برقرار رکھنا چاہئے۔‏ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہم یہوواہ کے تقاضوں کو احتیاط کیساتھ پورا کرنے سے ایسا کر سکتے ہیں۔‏ معقول طور پر،‏ یہ ہماری توجہ ملاکی ۱ باب میں بیان‌کردہ تیسرے نکتے پر دلاتا ہے۔‏ یہ نکتہ کیا ہے؟‏

یہوواہ کو اپنا بہترین حصہ دینا

۱۰.‏ کاہنوں نے کس طریقے سے یہوواہ کی میز کو حقیر جانا؟‏

۱۰ ملاکی کے زمانہ میں یروشلیم کی ہیکل میں خدمت کرنے والے یہوداہ کے کاہن یہوواہ کے حضور بہترین قربانیاں پیش نہیں کر رہے تھے۔‏ ملاکی ۱:‏۶-‏۸ بیان کرتی ہے:‏ ”‏ربُ‌الافواج تمکو فرماتا ہے اَے میرے نام کی تحقیر کرنے والے کاہنو!‏ بیٹا اپنے باپ کی اور نوکر اپنے آقا کی تعظیم کرتا ہے۔‏ پس اگر مَیں باپ ہوں تو میری عزت کہاں ہے؟‏ اور اگر آقا ہوں تو میرا خوف کہاں ہے؟‏“‏ کاہنوں نے استفسار کِیا،‏ ”‏ہم نے کس بات میں تیرے نام کی تحقیر کی؟‏“‏ یہوواہ نے جواب دیا،‏ ”‏تم میرے مذبح پر ناپاک روٹی گذرانتے ہو۔‏“‏ کاہن پوچھتے ہیں،‏ ”‏ہم نے کس بات میں تیری توہین کی؟‏“‏ پس یہوواہ انہیں بتاتا ہے:‏ ”‏اِسی میں جو کہتے ہو [‏یہوواہ]‏ کی میز حقیر ہے۔‏“‏ اُن کاہنوں نے جب بھی یہ کہتے ہوئے ناقص قربانی گزرانی کہ اس میں ”‏کچھ بُرائی نہیں!‏“‏ تو اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کی میز کو حقیر جانتے ہیں۔‏

۱۱.‏ (‏ا)‏ یہوواہ نے نامقبول قربانیوں کی بابت کیا کہا؟‏ (‏ب)‏ لوگ غلطی پر کیوں تھے؟‏

۱۱ بعدازاں یہوواہ نے نامقبول قربانیوں کی بابت منطقی بیان سے کام لیا:‏ ‏”‏اب یہی اپنے حاکم کی نظر کر۔‏ کیا وہ تجھ سے خوش ہوگا اور تُو اُس کا منظورِنظر ہوگا؟‏“‏ جی نہیں،‏ اُن کا حاکم ایسی قربانی سے خوش نہیں ہو سکتا تھا۔‏ لہٰذا ناقص قربانیاں حاکمِ‌اعلیٰ کو ہرگز خوش نہیں کر سکتی تھیں!‏ نیز کاہن ہی غلطی پر نہیں تھے۔‏ درحقیقت،‏ وہ قربانی گزراننے سے یہوواہ کی حقارت کر رہے تھے۔‏ لیکن کیا لوگ اِس سلسلے میں بیگناہ تھے؟‏ ہرگز نہیں!‏ وہی اندھے،‏ لنگڑے اور بیمار جانوروں کا انتخاب کرکے انہیں قربانی کے لئے کاہنوں کے پاس لاتے تھے۔‏ کتنی بڑی بدی!‏

۱۲.‏ یہوواہ کو اپنی بہترین چیزیں پیش کرنے سے ہماری مدد کیسے ہوتی ہے؟‏

۱۲ اپنی بہترین چیزیں یہوواہ کو پیش کرنے سے ہم یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم واقعی اُس سے محبت رکھتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۲:‏۳۷،‏ ۳۸‏)‏ ملاکی کے زمانہ کے سرکش کاہنوں کے برعکس،‏ آجکل یہوواہ کی تنظیم باافراط عمدہ صحیفائی ہدایت فراہم کرتی ہے جو الہٰی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے شکرگزاری کیساتھ یہوواہ کی تمجید کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔‏ اس کیساتھ چوتھا اہم نکتہ وابستہ ہے جو ملاکی ۱ باب سے اخذ کِیا جا سکتا ہے۔‏

سچی پرستش لالچ کی بجائے محبت سے فروغ پاتی ہے

۱۳.‏ کاہنوں کے کن کاموں سے لالچ نظر آتا تھا؟‏

۱۳ ملاکی کے زمانہ کے کاہن خودغرض،‏ محبت سے خالی اور دولت کے بھوکے تھے۔‏ ہم کیسے جانتے ہیں؟‏ ملاکی ۱:‏۱۰ بیان کرتی ہے:‏ ”‏کاشکہ تم میں کوئی ایسا ہوتا جو دروازے بند کرتا اور تم میرے مذبح پر عبث آگ نہ جلاتے!‏ ربُ‌الافواج فرماتا ہے مَیں تم سے خوش نہیں ہوں اور تمہارے ہاتھ کا ہدیہ ہرگز قبول نہ کرونگا۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ وہ لالچی کاہن ہیکل کے دروازے بند کرنے اور مذبح پر آگ جلانے کی معمولی خدمات کیلئے بھی پیسوں کا مطالبہ کرتے تھے!‏ کچھ عجب نہیں کہ یہوواہ اُنکی قربانیوں سے خوش نہیں تھا!‏

۱۴.‏ ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ محبت سے تحریک پاتے ہیں؟‏

۱۴ ہمیں قدیم یروشلیم میں گنہگار کاہنوں کی لالچ اور خودغرضی اس بات کی یاد دلا سکتی ہے کہ خدا کے کلام کے مطابق،‏ لالچی اشخاص خدا کی بادشاہت کے وارث نہ ہوں گے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ اُن کاہنوں کے خودغرضانہ کاموں پر غوروخوض کرنے سے یہوواہ کے گواہوں کے عالمگیر منادی کے کام کیلئے ہماری قدردانی میں اضافہ ہوتا ہے۔‏ یہ کام رضاکارانہ ہے اور ہم اپنی خدمتگزاری سے متعلق کسی بھی کام کے لئے معاوضہ طلب نہیں کرتے۔‏ اِس کے علاوہ،‏ ’‏ہم خدا کے کلام میں آمیزش نہیں کرتے۔‏‘‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۷‏)‏ پولس کی طرح،‏ ہم میں سے ہر ایک صاف‌گوئی کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے:‏ ”‏مَیں نے خوشی سے تمہیں خدا کی خوشخبری مُفت پہنچائی ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۷‏،‏ این‌ڈبلیو‏)‏ غور کریں کہ پولس نے ’‏خوشی سے خوشخبری پہنچائی۔‏‘‏ یہ بات ہماری توجہ ملاکی ۱ باب کے پانچویں نکتے پر دلاتی ہے۔‏

خدا کی خدمت رسمی بوجھ نہیں

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ قربانیاں گزرانتے وقت کاہنوں کا رُجحان کیسا ہوتا تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کے گواہ کیسے قربانیاں پیش کرتے ہیں؟‏

۱۵ قدیم یروشلیم کے بےایمان کاہن قربانی گزراننے کو ایک بھاری رسم خیال کرتے تھے۔‏ یہ ان کیلئے ایک بوجھ تھا۔‏ جیساکہ ملاکی ۱:‏۱۳ میں درج ہے،‏ خدا نے اُن سے کہا:‏ ”‏تم نے کہا یہ کیسی زحمت ہے!‏ اور اُس پر ناک چڑھائی۔‏“‏ وہ کاہن خدا کی پاک چیزوں پر ناک چڑھاتے یا انکی تحقیر کرتے تھے۔‏ ہمیں خلوصدلی سے یہ دُعا کرنی چاہئے کہ ہم کبھی بھی ان کی طرح نہ ہوں۔‏ اسکی بجائے دُعا ہے کہ ہم ہمیشہ ۱-‏یوحنا ۵:‏۳ میں بیان‌کردہ رُجحان ظاہر کریں:‏ ”‏خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُسکے حکموں پر عمل کریں اور اُسکے حکم سخت نہیں۔‏“‏

۱۶ ہمیں خدا کے حضور روحانی قربانیاں پیش کرنے کو ایک بھاری بوجھ خیال کرنے کی بجائے اس سے خوشی حاصل کرنی چاہئے۔‏ دُعا ہے کہ ہم ان نبوّتی الفاظ پر دھیان دیں:‏ ”‏کلام لے کر [‏یہوواہ]‏ کی طرف رُجوع لاؤ اور کہو ہماری تمام بدکرداری کو دُور کر اور فضل سے ہم کو قبول فرما۔‏ تب ہم اپنے لبوں سے قربانیاں گذرانینگے۔‏“‏ (‏ہوسیع ۱۴:‏۲‏)‏ ”‏لبوں سے قربانیاں“‏ گزراننے کا اظہار روحانی قربانیوں،‏ یہوواہ اور اُس کے مقاصد کے جلال کے لئے ہماری باتوں کا حوالہ دیتا ہے۔‏ عبرانیوں ۱۳:‏۱۵ بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہم [‏یسوع مسیح]‏ کے وسیلہ سے حمد کی قربانی یعنی اُن ہونٹوں کا پھل جو اُس کے نام کا اقرار کرتے ہیں خدا کے لئے ہر وقت چڑھایا کریں۔‏“‏ ہم کتنے خوش ہیں کہ ہماری روحانی قربانیاں محض رسمی نہیں بلکہ خدا کیلئے ہماری محبت کے دلی اظہارات ہیں!‏ یہ ہمیں ملاکی ۱ باب کے چھٹے نکتے پر لاتا ہے۔‏

سب جوابدہ ہیں

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏ا)‏ یہوواہ نے ”‏دغاباز“‏ پر لعنت کیوں کی؟‏ (‏ب)‏ دغابازی کرنے والے کس بات کو بھول گئے تھے؟‏

۱۷ ملاکی کے زمانہ کے لوگ اپنے اعمال کے خود ذمہ‌دار تھے اور ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۲؛‏ گلتیوں ۶:‏۵‏)‏ چنانچہ ملاکی ۱:‏۱۴ بیان کرتی ہے:‏ ”‏لعنت اُس دغاباز پر جس کے گلّہ میں [‏بےعیب]‏ نر ہے پر [‏یہوواہ]‏ کے لئے عیب‌دار جانور کو نذر مانکر گذرانتا ہے۔‏“‏ ایک گلّے کے مالک کے پاس صرف ایک جانور—‏ایک بھیڑ—‏نہیں ہوتا کہ اُس کے پاس انتخاب کی کوئی گنجائش نہ ہو۔‏ اُسے قربانی کے لئے کسی اندھے،‏ لنگڑے یا بیمار جانور کو منتخب کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔‏ ایسے عیب‌دار جانور کو منتخب کرنے سے وہ یہوواہ کے قربانی کے بندوبست کی حقارت کرتا تھا کیونکہ ایک گلّہ کے مالک کے لئے ایک بےعیب جانور منتخب کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا!‏

۱۸ پس یہوواہ نے معقول طور پر،‏ ایسے دغاباز پر لعنت کی جو صحتمند جانور رکھنے کے باوجود کاہنوں کے پاس قربانی کیلئے اندھے،‏ لنگڑے یا بیمار جانور کو—‏شاید گھسیٹ کر—‏لاتا ہے۔‏ تاہم،‏ ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ کسی کاہن نے خدا کی شریعت کے حوالے سے یہ کہا ہو کہ عیب‌دار جانور قربانی کے لئے قابلِ‌قبول نہیں تھے۔‏ (‏احبار ۲۲:‏۱۷-‏۲۰‏)‏ معقول اشخاص جانتے تھے کہ اگر وہ اپنے حاکم کو ایسا تحفہ دیکر فریب دینے کی کوشش کریں تو اس کا انجام نقصاندہ ہو سکتا تھا۔‏ لیکن درحقیقت وہ کائنات کے حاکمِ‌اعلیٰ یہوواہ کے ساتھ ایسا کرتے تھے جو کسی بھی انسانی حاکم سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔‏ ملاکی ۱:‏۱۴ معاملات کو یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں شاہِ‌عظیم ہوں اور قوموں میں میرا نام مہیب ہے ربُ‌الافواج فرماتا ہے۔‏“‏

۱۹.‏ ہم کس بات کے مشتاق ہیں اور ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۹ خدا کے وفادار خادموں کے طور پر ہم اُس دن کے مشتاق ہیں جب تمام نسلِ‌انسانی شاہِ‌عظیم یہوواہ کی تعظیم کریگی۔‏ اُس وقت ”‏جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین [‏یہوواہ]‏ کے عرفان سے معمور ہوگی۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۱۱:‏۹‏)‏ اس اثنا میں ہمیں زبورنویس کی نقل کرتے ہوئے یہوواہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس نے بیان کِیا:‏ ”‏[‏مَیں]‏ شکرگذاری کے ساتھ اُس کی تمجید کروں گا۔‏“‏ (‏زبور ۶۹:‏۳۰‏)‏ اس مقصد کے تحت ملاکی کی مزید مشورت ہمارے لئے نہایت فائدہ‌مند ثابت ہو سکتی ہے۔‏ چنانچہ ہمیں اگلے دو مضامین میں ملاکی کی کتاب کے دیگر حصوں کا جائزہ لینا چاہئے۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• ہمیں یہوواہ کی بڑائی کیوں کرنی چاہئے؟‏

‏• ملاکی کے زمانہ کی کہانتی قربانیاں یہوواہ کی نظر میں نامقبول کیوں تھیں؟‏

‏• ہم یہوواہ کے حضور حمد کی قربانی کیسے پیش کر سکتے ہیں؟‏

‏• سچی پرستش کیلئے محرک کیا ہونا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

ملاکی کی پیشینگوئی ہمارے زمانہ کی طرف اشارہ کرتی ہے

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

عیسو نے پاک چیزوں کی قدر نہیں کی

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

کاہن اور لوگ نامقبول قربانیاں گزرانتے تھے

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

دُنیابھر میں یہوواہ کے گواہ بِلامعاوضہ حمد کی قربانیاں پیش کرتے ہیں