مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنے بچوں کے دلوں میں یہوواہ کیلئے محبت پیدا کرنا

اپنے بچوں کے دلوں میں یہوواہ کیلئے محبت پیدا کرنا

میری کہانی میری زبانی

اپنے بچوں کے دلوں میں یہوواہ کیلئے محبت پیدا کرنا

از ورنر میٹ‌زن

کچھ سال پہلے میرے سب سے بڑے بیٹے،‏ ہانز ورنز نے مجھے ایک بائبل دی۔‏ اُس نے اس کے اندر لکھا تھا:‏ ”‏پیارے ابو،‏ دُعا ہے کہ یہوواہ کا کلام بطور خاندان زندگی کی راہ میں ہمیشہ ہماری راہنمائی کرتا رہے۔‏ شکرگزاری کیساتھ،‏ آپ کا بڑا بیٹا۔‏“‏ والدین سمجھ سکتے ہیں کہ ان الفاظ سے میرا دل کتنی خوشی اور شکرگزاری سے سرشار ہو گیا ہوگا۔‏ اُس وقت میرے وہم‌وگمان میں بھی نہ تھا کہ ہمیں بطور خاندان ابھی کن چیلنجوں کا سامنا کرنا تھا۔‏

میری پیدائش جرمن بندرگاہ ہیمبرگ سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر دُور ہیل‌سٹن‌بیک میں سن ۱۹۲۴ میں ہوئی تھی اور میری ماں اور نانا نے میری پرورش کی تھی۔‏ ہتھیار بنانے کا کام سیکھنے کے بعد،‏ مجھے ۱۹۴۲ میں جرمن فوج ویرمیکٹ میں بھرتی کِیا گیا۔‏ دوسری جنگِ‌عظیم میں روسی محاذ پر لڑائی کے دوران مجھے ایک ناقابلِ‌بیان خوفناک تجربہ ہوا تھا۔‏ مجھے ٹائیفائڈ بخار ہوا لیکن صحت بحال ہونے پر مجھے دوبارہ میدانِ‌جنگ بھیج دیا گیا۔‏ مَیں جنوری ۱۹۴۵ میں لوج،‏ پولینڈ میں بُری طرح زخمی ہوا اور ایک فوجی ہسپتال میں زیرِعلاج رہا۔‏ مَیں جنگ ختم ہونے کے بعد بھی وہیں رہا۔‏ مجھے ہسپتال اور بعدازاں نیوئین‌گامے کے جیل‌کیمپ میں رہتے ہوئے غوروخوض کرنے کا وقت ملا۔‏ مَیں ان سوالات سے پریشان تھا،‏ کیا واقعی خدا موجود ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو وہ اس قدر ظلم کی اجازت کیوں دیتا ہے؟‏

جیل‌کیمپ سے رِہا ہونے کے کچھ عرصہ بعد مَیں نے ستمبر ۱۹۴۷ میں،‏ کارلا سے شادی کر لی۔‏ ہم نے ایک ہی شہر میں پرورش پائی تھی لیکن کارلا کیتھولک تھی اور مجھے مذہب سے کوئی لگاؤ نہیں تھا کیونکہ میری تربیت ہی ایسے ہوئی تھی۔‏ ہماری شادی کی رسم ادا کرنے والے پادری نے ہمیں روزانہ شام کو کم‌ازکم ایک بار ملکر دُعائےخداوندی دہرانے کا مشورہ دیا۔‏ ہم نے اُسکی بات پر عمل کِیا حالانکہ ہم دُعاؤں کا مقصد بھی نہیں جانتے تھے۔‏

ایک سال بعد ہانز ورنر پیدا ہوا۔‏ تقریباً اُسی دوران میرے ساتھی کارکُن ولحم ایرنز نے مجھے یہوواہ کے گواہوں سے متعارف کرایا۔‏ اُس نے مجھے بائبل سے دکھایا کہ ایک نہ ایک دن جنگیں موقوف ہو جائیں گی۔‏ (‏زبور ۴۶:‏۹‏)‏ مَیں نے ۱۹۵۰ کے موسمِ‌خزاں میں اپنی زندگی یہوواہ کیلئے مخصوص کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بپتسمہ لے لیا۔‏ جب ایک سال بعد میری بیوی نے بھی بپتسمہ لے لیا تو مَیں کسقدر خوش تھا!‏

یہوواہ کی راہوں پر بچوں کی پرورش کرنا

مَیں نے بائبل میں پڑھا تھا کہ شادی کی بنیاد یہوواہ نے ڈالی ہے۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۶-‏۲۸؛‏ ۲:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ اپنے بچوں—‏ہانز ورنر،‏ کارل-‏ہنز،‏ مائیکل،‏ گیبرئیل اور تھامس—‏کی پیدائش کے وقت میری موجودگی نے ایک اچھا شوہر اور باپ بننے کے میرے عزم کو مضبوط کِیا۔‏ کارلا اور مَیں اپنے چاروں بچوں کی پیدائش پر بہت خوش ہوئے تھے۔‏

نیورمبرگ میں ۱۹۵۳ میں،‏ یہوواہ کے گواہوں کا کنونشن ہمارے خاندان کیلئے ایک یادگار موقع تھا۔‏ ہم جمعہ کی دوپہر،‏ ”‏نئے عالمی معاشرے میں بچوں کی پرورش کرنا“‏ کے موضوع پر مقرر کی تقریر سے ایک بات کبھی نہیں بھولے:‏ ”‏ہم اپنے بچوں کے دلوں میں خدا کے خادم بننے کی خواہش پیدا کرکے اُنہیں سب سے بڑا ورثہ دے سکتے ہیں۔‏“‏ کارلا اور مَیں یہوواہ کی مدد سے ایسا ہی کرنا چاہتے تھے۔‏ لیکن یہ کیسے ممکن تھا؟‏

سب سے پہلے ہم نے ایک خاندان کے طور پر روزانہ دُعا کرنے کو ایک معمول بنایا۔‏ اس سے ہمارے بچوں کے ذہنوں میں دُعا کی اہمیت نقش ہوئی۔‏ ہر بچے نے بچپن ہی سے یہ سیکھ لیا کہ ہم ہمیشہ کھانا کھانے سے پہلے دُعا کرتے ہیں۔‏ شِیرخواروں کے طور پر بھی جب وہ اپنی دودھ کی بوتل دیکھتے تھے تو فوراً اپنے سر جھکا کر اپنے ہاتھ جوڑ لیا کرتے تھے۔‏ میری بیوی کے رشتہ‌داروں کی طرف سے ہمیں ایک موقع پر شادی پر حاضر ہونے کی دعوت دی گئی جو گواہ نہیں تھے۔‏ شادی کی رسم کے بعد،‏ دُلہن کے والدین نے مہمانوں کو کھانے کیلئے اپنے گھر پر مدعو کِیا۔‏ وہاں پہنچتے ہی سب کھانا کھانے کیلئے فوراً تیار ہو گئے۔‏ لیکن ہمارے پانچ سالہ بیٹے کارل ہانز کو یہ بات پسند نہ آئی۔‏ اُس نے کہا،‏ ”‏براہِ‌مہربانی،‏ پہلے دُعا کریں۔‏“‏ مہمانوں نے پہلے اُسے،‏ پھر ہمیں اور آخر میں اپنے میزبان کو دیکھا۔‏ اُنکی شرمندگی پر پردہ ڈالنے کیلئے مَیں نے کھانے کیلئے شکرگزاری کی دُعا کرنے کی پیشکش کی اور ہمارے میزبان نے فوراً حامی بھر لی۔‏

اس واقعہ نے مجھے یسوع کی بات کی یاد دلائی:‏ ”‏بچوں اور شِیرخواروں کے مُنہ سے تُو نے حمد کو کامل کرایا؟‏“‏ (‏متی ۲۱:‏۱۶‏)‏ ہمیں یقین ہے کہ ہماری باقاعدہ اور پُرخلوص دُعاؤں نے یہوواہ کو اپنا شفیق آسمانی باپ خیال کرنے میں ہمارے بچوں کی مدد کی تھی۔‏

یہوواہ کیلئے ہماری ذمہ‌داری

بچوں کو خدا سے محبت کرنے کی تعلیم دینا،‏ اُسکے کلام کی پڑھائی اور مطالعے کا تقاضا کرتا ہے۔‏ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم ہر ہفتے،‏ اکثر پیر کی شام کو خاندانی مطالعہ کِیا کرتے تھے۔‏ ہمارے سب سے بڑے اور چھوٹے بچوں کے درمیان نو سال کا فرق ہونے کے باعث ان کی ضروریات مختلف تھیں لہٰذا ہم سب کیساتھ ہمیشہ ایک جیسے مواد کا احاطہ نہیں کر سکتے تھے۔‏

مثال کے طور پر،‏ سکول نہ جانے والے چھوٹے بچوں کیلئے ہم سادہ معلومات استعمال کرتے تھے۔‏ کارلا ان کیساتھ محض ایک بائبل کی آیت پر غوروخوض یا بائبل پر مبنی مطبوعات سے تصاویر کا استعمال کرتی تھی۔‏ مَیں اب بھی ان خوشگوار یادوں سے محظوظ ہوتا ہوں جب ہمارے چھوٹے بچے ہمارے بستر پر چڑھ جاتے اور ہمیں جگا کر کتاب دی نیو ورلڈ سے اپنی پسندیدہ تصاویر دکھاتے تھے۔‏ *

کارلا تحمل کیساتھ بچوں کو ایسی کئی وجوہات سکھانے میں ماہر ہو گئی کہ ہمیں یہوواہ سے محبت کیوں رکھنی چاہئے۔‏ یہ عمل سادہ اور آسان دکھائی دے سکتا ہے لیکن درحقیقت کارلا اور میرے لئے یہ کام جسمانی اور جذباتی طور پر تقریباً ایک کُل‌وقتی پیشے کے برابر تھا۔‏ اِسکے باوجود ہم نے ہمت نہیں ہاری تھی۔‏ اس سے پہلے کہ یہوواہ سے ناواقف لوگ انہیں متاثر کرتے ہم انکے معصوم دلوں میں خدا کیلئے محبت پیدا کرنا چاہتے تھے۔‏ اس وجہ سے جیسے ہی ہمارے بچوں نے بیٹھنا سیکھا،‏ ہم نے خاندانی مطالعے پر انکی موجودگی پر اصرار کِیا۔‏

بطور والدین،‏ کارلا اور مَیں پرستش کے معاملے میں اپنے بچوں کیلئے صحیح مثال قائم کرنے کی اہمیت سے واقف تھے۔‏ ہم باغبانی،‏ چہل‌قدمی یا کھانا کھاتے وقت ہر موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہوواہ کیساتھ ہر بچے کا رشتہ مضبوط کرنے کی کوشش کِیا کرتے تھے۔‏ (‏استثنا ۶:‏۶،‏ ۷‏)‏ ہم نے اس بات کا یقین کر لیا کہ چھوٹی عمر ہی سے ہر بچے کی ذاتی بائبل ہونی چاہئے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ رسالے ملنے پر مَیں ہر خاندانی فرد کی ذاتی کاپی پر اُسکا نام لکھ دیا کرتا تھا۔‏ یوں بچے اپنا لٹریچر شناخت کرنے کے قابل ہوئے۔‏ ہم نے ہر بچے کو جاگو!‏ رسالے کے بعض مضامین پڑھنے کیلئے تفویض کرنے کے منصوبہ پر بھی عمل کِیا۔‏ وہ اتوار کی دوپہر کو کھانے کے بعد وضاحت کرتے تھے کہ اُنہوں نے زیرِغور مواد سے کیا سیکھا ہے۔‏

بچوں کو ضروری توجہ دینا

واقعی،‏ حالات ہمیشہ سازگار نہیں رہے۔‏ جب بچے بڑے ہوئے تو ہم نے یہ سمجھ لیا کہ اُنکے دلوں میں محبت کا بیج بونے سے پہلے انکے دلوں کا حال جاننا ضروری ہے۔‏ اسکا مطلب انکی بات سننا ہے۔‏ بعض‌اوقات ہمارے بچے محسوس کرتے کہ انکی کچھ شکایات پر توجہ دی جانی چاہئے،‏ چنانچہ کارلا اور مَیں ان کے ساتھ باہمی گفتگو کے ذریعے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کرتے تھے۔‏ اس مقصد کیلئے ہم نے خاندانی مطالعے کے اختتام پر آدھے گھنٹے کا خاص وقت مختص کِیا۔‏ اس دوران ہر ایک کو بِلاجھجھک اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت تھی۔‏

مثال کے طور پر،‏ ہمارے چھوٹے بچے تھامس اور گیبرئیل محسوس کرتے تھے کہ بطور والدین ہم انکے بڑے بھائی کی طرفداری کرتے ہیں۔‏ ایسے ہی ایک موقع پر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ابو،‏ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ آپ اور امی ہمیشہ ہانز ورنر کو اپنی من‌مانی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔‏“‏ پہلے تو مَیں نے سوچا کہ میرے کانوں نے غلط سنا ہے۔‏ تاہم،‏ غیرجانبداری سے معاملے پر غور کرنے کے بعد،‏ کارلا اور مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ بچوں کی باتوں میں کچھ صداقت تھی۔‏ لہٰذا ہم نے سب بچوں کیساتھ ایک جیسا سلوک کرنے کی بھرپور کوشش کرنا شروع کر دی۔‏

بعض‌اوقات مَیں اپنے بچوں کو جلدبازی میں ناجائز سزا دیتا تھا۔‏ ایسے مواقع پر ہمیں والدین کے طور پر معذرت کرنا سیکھنا پڑا۔‏ بعدازاں ہم دُعا میں یہوواہ سے مدد حاصل کرتے تھے۔‏ بچوں کے لئے یہ جاننا اہم تھا کہ اُن کا باپ یہوواہ اور ان سے معافی حاصل کرنے کے لئے تیار ہے۔‏ نتیجتاً ان کے ساتھ ہمارا رشتہ پُرتپاک اور دوستانہ تھا۔‏ وہ اکثر ہم سے کہا کرتے تھے،‏ ”‏آپ ہمارے بہترین دوست ہیں۔‏“‏ یہ سنکر ہمیں بیحد خوش ہوتی تھی۔‏

ایک خاندان کے طور پر کام کرنے سے اتحاد کو فروغ ملتا ہے۔‏ اس مقصد کے حصول کیلئے سب کی باقاعدہ ذمہ‌داریاں تھیں۔‏ ہانز ورنر ہر ہفتہ بازار جانے اور سوداسلف خریدنے کا کام کرتا تھا جس کے لئے اُسے عموماً کچھ پیسے اور چیزوں کی ایک فہرست دی جاتی تھی۔‏ ایک ہفتہ ہم نے اُسے کوئی فہرست یا پیسے نہیں دئے۔‏ جب اُس نے اپنی ماں سے اسکی وجہ دریافت کی تو اُسے بتایا گیا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔‏ اس پر بچے آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے اور پھر سب نے اپنے اپنے ڈبوں کو میز پر خالی کر دیا۔‏ وہ خوشی سے بولے،‏ ”‏ماں،‏ اب ہم خریداری کے لئے جا سکتے ہیں!‏“‏ جی‌ہاں،‏ بچوں نے ناگہانی صورت میں مدد پیش کرنا سیکھ لیا تھا اور اس سے خاندان اَور زیادہ متحد ہوا۔‏

عمر کیساتھ ساتھ لڑکوں نے لڑکیوں میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔‏ مثال کے طور پر،‏ تھامس ایک ۱۶ سالہ گواہ بہن کو بہت پسند کرنے لگا۔‏ مَیں نے اُسے سمجھایا کہ اگر وہ اس لڑکی کی بابت واقعی سنجیدہ ہے تو اُسے اس سے شادی کرنے اور بیوی اور بچوں کی ذمہ‌داری اُٹھانے کیلئے تیار ہو جانا چاہئے۔‏ تھامس سمجھ گیا کہ وہ شادی کیلئے تیار نہیں تھا کیونکہ اُس کی عمر صرف ۱۸ سال تھی۔‏

بطور خاندان ترقی کرنا

جب بچے چھوٹے ہی تھے تو وہ باری باری تھیوکریٹک منسٹری سکول میں شامل ہوتے گئے۔‏ خدا کے لئے اُن کی دلی محبت کو دیکھتے ہوئے ہم اُن کی تفویضات کو بڑے غور سے سنتے اور اُن کی حوصلہ‌افزائی کِیا کرتے تھے۔‏ وقتاًفوقتاً ہمارے گھر پر قیام کرنے والے سرکٹ اور ڈسٹرکٹ اوورسیئر ہمیں اپنے تجربات سناتے یا ہمارے لئے بائبل پڑھا کرتے تھے۔‏ ان بھائیوں اور اُن کی بیویوں نے ہمارے خاندان کے دلوں میں کُل‌وقتی خدمت کے لئے محبت پیدا کرنے میں مدد کی۔‏

ہم کنونشنوں کے منتظر رہا کرتے تھے۔‏ یہ ہمارے بچوں میں خدا کے خادم بننے کی خواہش پیدا کرنے کی ہماری کوششوں میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔‏ بچوں کیلئے یہ خاص موقع تھا جب وہ کنونشن پر جانے سے پہلے اپنے کارڈز لگایا کرتے تھے۔‏ جب ہانز ورنر نے دس سال کی عمر میں بپتسمہ لیا تو ہم بہت خوش ہوئے۔‏ بعض لوگوں نے اُسے یہوواہ کیلئے خود کو مخصوص کرنے کیلئے کم‌عمر خیال کِیا لیکن ۵۰ سال کی عمر میں اُس نے مجھے بتایا کہ وہ کتنا شکرگزار تھا کہ وہ ۴۰ سالوں سے یہوواہ کی خدمت کر رہا تھا۔‏

ہم نے اپنے بچوں پر یہوواہ کیساتھ ایک ذاتی رشتے کی اہمیت اُجاگر کی لیکن انکی مخصوصیت کیلئے ان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔‏ اسکے باوجود انہیں خود بپتسمہ تک ترقی کرتے دیکھ کر ہمیں خوشی ہوتی تھی۔‏

اپنا بوجھ یہوواہ پر ڈالنا سیکھنا

ہمیں بیحد خوشی ہوئی جب ہانز ورنر نے ۱۹۷۱ میں واچ‌ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی ۵۱ ویں جماعت سے تربیت حاصل کی اور اُسے سپین میں مشنری تفویض ملی۔‏ ایک ایک کرکے ہمارے دوسرے بچوں نے بھی کچھ عرصہ کُل‌وقتی خدمت میں حصہ لیا جسکی وجہ سے والدین کے طور پر ہمیں بڑی خوشی حاصل ہوئی۔‏ تقریباً اسی دوران ہانز ورنر نے مجھے وہ بائبل دی جسکا ذکر اس مضمون کے شروع میں کِیا گیا ہے۔‏ ایک خاندان کے طور پر ہماری خوشی میں کوئی کمی نہیں تھی۔‏

بعدازاں ہم نے یہوواہ کے اَور قریب جانے کی ضرورت کو محسوس کِیا۔‏ وہ کیوں؟‏ اسلئےکہ ہم نے اپنے بالغ بچوں کو ایمان کی سخت آزمائش کا تقاضا کرنے والے مسائل کا سامنا کرتے دیکھا۔‏ مثال کے طور پر ہماری پیاری بیٹی گیبرئیل مشکلات سے بےبہرہ نہیں تھی۔‏ سن ۱۹۷۶ میں اُس نے لوتھار سے شادی کر لی۔‏ شادی کے کچھ عرصہ بعد وہ بیمار پڑ گیا۔‏ وہ دن‌بدن کمزور ہوتا گیا اور گیبرئیل نے اُس کی موت تک اُس کی تیمارداری کی۔‏ خاندان کے ایک صحتمند فرد کو بیمار ہوتے اور مرتے دیکھنا ہمارے لئے ایک یاددہانی تھی کہ ہمیں یہوواہ کی مشفقانہ مدد کی کتنی ضرورت ہے۔‏—‏یسعیاہ ۳۳:‏۲‏۔‏

یہوواہ کی تنظیم میں استحقاق

جب مجھے کانگریگیشن سرونٹ (‏آجکل صدارتی نگہبان)‏ مقرر کِیا گیا تو مَیں خود کو اس ذمہ‌داری کے لائق نہیں سمجھتا تھا۔‏ کام اتنا زیادہ تھا کہ اس سے نپٹنے کیلئے کچھ دنوں پر مجھے صبح چار بجے اُٹھنا پڑتا تھا۔‏ میرے بیوی‌بچوں نے میری بڑی مدد کی اور وہ میری شام کی مصروفیات کے دوران کوئی خلل پیدا نہیں کرتے تھے۔‏

اسکے باوجود ایک خاندان کے طور پر ہم فارغ وقت ایک ساتھ گزارنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔‏ بعض‌اوقات میرا آجر مجھے اپنی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت دے دیا کرتا تھا تاکہ مَیں اپنے خاندان کو سیروتفریح کیلئے باہر لیجا سکوں۔‏ جب ہم مینارِنگہبانی کا مطالعہ جنگلات میں کرتے تو بچے ان مواقع سے بہت زیادہ لطف‌اندوز ہوتے تھے۔‏ ہم اکٹھے پیدل سیر بھی کِیا کرتے تھے اور بعض‌اوقات جنگلات کی سیر کرتے ہوئے بچے میری ہارمونیکا کی دُھن پر گیت گاتے تھے۔‏

مجھے ۱۹۷۸ میں متبادل سرکٹ اوورسیئر (‏سفری خادم)‏ مقرر کِیا گیا۔‏ مَیں نے پریشانی کے عالم میں یہوواہ سے دُعا کی:‏ ”‏یہوواہ مَیں اس کام کیلئے نااہل محسوس کرتا ہوں۔‏ لیکن اگر یہی تیری مرضی ہے تو مَیں پوری کوشش کرونگا۔‏“‏ دو سال بعد،‏ مَیں نے ۵۴ سال کی عمر میں اپنا چھوٹا سا کاروبار اپنے سب سے چھوٹے بیٹے تھامس کے سپرد کر دیا۔‏

اب ہمارے سب بچے بالغ ہو چکے تھے جسکی وجہ سے کارلا اور مجھے یہوواہ کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کرنے کا موقع ملا۔‏ اسی سال مجھے سرکٹ اوورسیئر مقرر کرتے ہوئے ہیمبرگ کے ایک حصے اور شلزویگ-‏ہولزٹائن کے تمام علاقے میں تعینات کِیا گیا۔‏ ایک خاندان کی دیکھ‌بھال کرنے کے اپنے تجربے کی وجہ سے ہم والدین اور بچوں کیلئے خاص طور پر ہمدردی ظاہر کرنے کے قابل تھے۔‏ بہتیرے بھائی ہمیں اپنے سرکٹ والدین کہا کرتے تھے۔‏

سرکٹ کے کام میں دس سال میرا ساتھ دینے کے بعد کارلا بیمار پڑ گئی اور اُسے سرجری کرانی پڑی۔‏ نیز اُسی سال ڈاکٹروں نے دریافت کِیا کہ میرے دماغ میں رسولی ہے۔‏ پس مَیں نے سرکٹ اوورسیئر کی خدمت چھوڑ کر سرجری کرائی۔‏ تین سال بعد متبادل سرکٹ اوورسیئر کے طور پر مَیں دوبارہ خدمت کرنے کے قابل ہوا۔‏ اب کارلا اور مَیں ۷۰ سال کے دہے میں سفری کام میں نہیں رہے۔‏ یہوواہ نے ہماری یہ سمجھنے میں مدد کی ہے کہ جب ہم کسی شرف کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہتے تو اُسے تھامے رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‏

ماضی کو یاد کرتے ہوئے کارلا اور مَیں اپنے بچوں کے دلوں میں سچائی کی محبت پیدا کرنے کیلئے یہوواہ کی مدد کیلئے اُسکے ممنون ہیں۔‏ (‏امثال ۲۲:‏۶‏)‏ سالوں کے دوران،‏ یہوواہ نے ہمیں اپنی ذمہ‌داریاں پوری کرنے میں مدد کرتے ہوئے ہماری راہنمائی اور تربیت کی ہے۔‏ بوڑھے اور بیمار ہونے کے باوجود یہوواہ کیلئے ہماری محبت پہلے کی طرح جوان اور سرگرم ہے۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 15 یہوواہ کے گواہوں کی اشاعت جو اب دستیاب نہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

ہمارا خاندان،‏ ۱۹۶۵ میں ہیمبرگ،‏ دریائےالب کے کنارے چہل‌قدمی کر رہا ہے

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

برلن میں ۱۹۹۸ کے بین‌الاقوامی کنونشن پر خاندان کے کچھ افراد

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

اپنی بیوی کارلا کیساتھ