یہوواہ بیوفائی سے نفرت کرتا ہے
یہوواہ بیوفائی سے نفرت کرتا ہے
’اپنے بھائیوں سے بیوفائی نہ کرو۔‘—ملاکی ۲:۱۰۔
۱. ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کیلئے خدا ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟
کیا آپ ہمیشہ کی زندگی چاہتے ہیں؟ اگر آپ اس اُمید پر ایمان رکھتے ہیں جس کا وعدہ بائبل میں کِیا گیا ہے تو غالباً آپ کا جواب ’مثبت‘ ہوگا۔ لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ خدا آپ کو اپنی نئی دُنیا میں ابدی زندگی بخشے تو پھر آپ کو اُس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ (واعظ ۱۲:۱۳؛ یوحنا ۱۷:۳) کیا ناکامل انسانوں سے ایسا کرنے کی توقع کرنا نامعقول بات ہے؟ جینہیں، کیونکہ یہوواہ یہ حوصلہافزائی کرتا ہے: ”مَیں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں اور خداشناسی کو سوختنی قربانیوں سے زیادہ چاہتا ہوں۔“ (ہوسیع ۶:۶) لہٰذا خطاکار انسان بھی خدا کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں۔
۲. بہتیرے اسرائیلیوں نے یہوواہ کیساتھ کیسے بیوفائی کی؟
۲ تاہم ہر کوئی یہوواہ کی مرضی پوری کرنا نہیں چاہتا۔ ہوسیع کے مطابق بہتیرے اسرائیلی بھی ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ایک قوم کے طور پر، اُنہوں نے خدا کی شریعت کی فرمانبرداری کرنے کا عہد یا معاہدہ کِیا تھا۔ (خروج ۲۴:۱-۸) تاہم اُنہوں نے بہت جلد اُسکے قوانین توڑنے سے ’عہدشکنی‘ کرنا شروع کر دی۔ پس یہوواہ نے بیان کِیا کہ اُن اسرائیلیوں نے اُس کے ساتھ ”بیوفائی“ کی تھی۔ (ہوسیع ۶:۷) اُس وقت سے بہتیرے لوگ ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔ تاہم یہوواہ کو بیوفائی سے نفرت ہے، خواہ وہ اُس سے کی جائے یا اُس سے محبت رکھنے اور اُسکی خدمت کرنے والے لوگوں سے کی جائے۔
۳. اس مطالعے میں کیا تجزیہ کِیا جائیگا؟
۳ بیوفائی کی بابت خدا کے نقطۂنظر کو نمایاں کرنے والا صرف ہوسیع ہی واحد نبی نہیں تھا، ایک خوشحال زندگی سے مستفید ہونے کیلئے ہمارے لئے بھی ایسا نقطۂنظر نہایت ضروری ہے۔ پچھلے مضمون میں ہم نے ملاکی کے پہلے باب سے شروع کرتے ہوئے اُس کے نبوّتی پیغام کے بیشتر حصے کا جائزہ لیا تھا۔ اب آئیے اس کتاب کے دوسرے باب پر چلتے ہوئے یہ دیکھیں کہ بیوفائی کی بابت خدا کے نقطۂنظر پر مزید توجہ کیسے دلائی گئی ہے۔ ملاکی بابلی اسیری سے لوٹنے کے عشروں بعد خدا کے لوگوں کے درمیان پائی جانے والی صورتحال کا حوالہ دے رہا تھا تاہم، دوسرا باب آجکل ہمارے لئے بھی حقیقی معنی رکھتا ہے۔
خطاکار کاہن
۴. یہوواہ نے کاہنوں کو کیا آگاہی دی؟
۴ دوسرے باب کے شروع میں یہوواہ اُسکی راہوں کو ترک کرنے والے یہودی کاہنوں کی سرزنش کرتا ہے۔ اگر وہ اُس کی نصیحت پر دھیان نہیں دیتے اور اپنی راہوں کو درست نہیں کرتے تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ پہلی دو آیات پر غور کریں: ”اب اَے کاہنو تمہارے لئے یہ حکم ہے۔ ربُالافواج فرماتا ہے اگر تم شنوا نہ ہوگے اور میرے نام کی تمجید کو مدِنظر نہ رکھو گے تَو مَیں تمکو اور تمہاری نعمتوں کو ملعون کرونگا۔“ اگر کاہنوں نے لوگوں کو خدا کی شریعت کی تعلیم دینے کیساتھ ساتھ خود بھی انکی پیروی کی ہوتی تو انہیں برکت حاصل ہونی تھی۔ لیکن اِسکے برعکس خدا کی مرضی کو رد کرنے سے اُن پر لعنت یا عذاب آئیگا۔ کاہنوں کی طرف سے دی جانے والی برکات بھی لعنت میں بدل جانی تھیں۔
۵، ۶. (ا) کاہن خاص طور پر خطاکار کیوں تھے؟ (ب) یہوواہ نے کاہنوں کے لئے عداوت کیسے ظاہر کی؟
۵ کاہن خاص طور پر خطاکار کیوں تھے؟ ہمیں ۷ آیت میں اِس کا واضح اشارہ ملتا ہے: ”لازم ہے کہ کاہن کے لب معرفت کو محفوظ رکھیں اور لوگ اُس کے مُنہ سے شرعی مسائل پوچھیں کیونکہ وہ ربُالافواج کا رسول ہے۔“ کوئی ایک ہزار سال سے زائد عرصہ پہلے، اسرائیلیوں کو موسیٰ کی معرفت ملنے والی خدا کی شریعت میں کاہنوں کو حکم دیا گیا تھا کہ ”بنیاسرائیل کو وہ سب آئین سکھا . . . جو [یہوواہ] نے موسیٰؔ کی معرفت فرمائے ہیں۔“ (احبار ۱۰:۱۱) افسوس کی بات ہے کہ بعدازاں ۲-تواریخ ۱۵:۳ کے مصنف نے بیان کِیا: ”بڑی مدت سے بنیاسرائیل بغیر سچے خدا اور بغیر سکھانے والے کاہن اور بغیر شریعت کے رہے ہیں۔“
۶ ملاکی کے زمانہ، پانچویں صدی ق.س.ع. میں کاہنوں کی صورتحال تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ وہ لوگوں کو خدا کی شریعت سکھانے میں ناکام رہے تھے۔ لہٰذا وہ کاہن جوابدہی کے سزاوار تھے۔ اُن کے خلاف یہوواہ کے سخت فرمودات پر غور کریں۔ ملاکی ۲:۳ بیان کرتی ہے: ”مَیں تمہارے مُنہ پر نجاست پھینکونگا۔“ کتنی بڑی سرزنش! قربانی کے جانوروں کے فضلے کو لشکرگاہ کے باہر لیجا کر جلایا جاتا تھا۔ (احبار ۱۶:۲۷) لیکن جب یہوواہ یہ کہتا ہے کہ نجاست اُنکے مُنہ پر پھینکی جائیگی تو صاف ظاہر ہے کہ وہ ان سے عداوت رکھتا تھا اور اُس نے انکی قربانیوں اور انہیں پیش کرنے والوں کو بھی رد کر دیا تھا۔
۷. یہوواہ شریعت کی تعلیم دینے والوں سے کیوں ناراض تھا؟
۷ ملاکی کے زمانہ سے صدیوں پہلے یہوواہ نے خیمۂاجتماع اور بعدازاں ہیکل کی دیکھبھال کرنے اور پاک خدمت انجام دینے کے لئے لاویوں کو مقرر کِیا تھا۔ وہ اسرائیلی قوم میں سکھانے کا کام کرتے تھے۔ اپنی تفویض کو پورا کرنے سے وہ اپنے اور پوری قوم کیلئے زندگی اور امنوآشتی کا مؤجب بنتے۔ (گنتی ۳:۵-۸) تاہم، لاویوں نے پہلے کی طرح خدا کے لئے مؤدبانہ خوف نہیں دکھایا تھا۔ پس یہوواہ نے اُن سے کہا: ”تم راہ سے منحرف ہو گئے۔ تم شریعت میں بہتوں کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوئے۔ تم نے لاؔوی کے عہد کو خراب کِیا۔ . . . تم میری راہوں پر قائم نہ رہے۔“ (ملاکی ۲:۸، ۹) کاہن سچائی سکھانے کے سلسلے میں کوتاہی کرنے اور اپنے بُرے نمونے سے بہت سے اسرئیلیوں کے گمراہ ہو جانے کا سبب بنے تھے، لہٰذا اُنکے خلاف یہوواہ کا غصہ واجب تھا۔
خدا کے معیاروں کی پابندی کرنا
۸. کیا انسانوں سے خدا کے معیاروں کی پابندی کرنے کی توقع غیرمعقول ہے؟ وضاحت کریں۔
۸ ہمیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ کاہن ہمدردی اور معافی کے مستحق تھے کیونکہ وہ محض ناکامل انسان تھے اور اُن سے خدا کے معیاروں کی پابندی کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان خدا کے حکموں پر عمل کر سکتے ہیں کیونکہ یہوواہ اُن سے اُن کی صلاحیت سے زیادہ کی توقع نہیں کرتا۔ غالباً بعض کاہنوں نے انفرادی طور پر خدا کے معیاروں کی پابندی کی تھی اور بیشک بعدازاں ایک شخص—عظیم ”سردار کاہن،“ یسوع نے ایسا کِیا تھا۔ (عبرانیوں ۳:۱) اُسکی بابت درحقیقت یہ کہا جا سکتا تھا: ”سچائی کی شریعت اُسکے مُنہ میں تھی اور اُسکے لبوں پر ناراستی نہ پائی گئی۔ وہ میرے حضور سلامتی اور راستی سے چلتا رہا اور وہ بہتوں کو بدی کی راہ سے واپس لایا۔“—ملاکی ۲:۶۔
۹. ہمارے زمانہ میں کون وفاداری سے سچائی کی تعلیم دیتے رہے ہیں؟
۱-پطرس ۲:۵) اُنہوں نے بائبل کی سچائیوں کو دوسروں تک پہنچانے میں پیشوائی کی ہے۔ کیا آپ نے اُن کی معرفت سکھائی جانے والی سچائیوں سے یہ تجربہ نہیں کِیا کہ سچائی کی شریعت اُنکے مُنہ میں ہے؟ اُنہوں نے بہتیروں کی مذہبی تاریکی سے آزاد ہونے میں مدد کی ہے اور نتیجتاً دُنیابھر میں بائبل سچائیاں سیکھنے والے لاکھوں لوگ اب ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھتے ہیں۔ نتیجتاً ان کے پاس بھی لاکھوں دیگر اشخاص کو سچائی کی شریعت سکھانے کا شرف حاصل ہے۔—یوحنا ۱۰:۱۶؛ مکاشفہ ۷:۹۔
۹ اسی طرح سے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے آسمانی اُمید رکھنے والے مسیح کے ممسوح بھائی ’کاہنوں کے مُقدس فرقہ کے طور پر روحانی قربانیاں چڑھاتے ہیں جو خدا کے نزدیک مقبول ہیں۔‘ (احتیاط کی وجہ
۱۰. ہمارے پاس احتیاط برتنے کی کونسی معقول وجہ ہے؟
۱۰ تاہم، ہمارے پاس احتیاط کرنے کی معقول وجہ ہے۔ ہم ملاکی ۲:۱-۹ میں مضمر اسباق کو سمجھنے میں ناکام رہ سکتے ہیں۔ کیا ہم ذاتی طور پر چوکس رہتے ہیں کہ کوئی بھی ناراستی کی بات ہمارے مُنہ سے نہ نکلے؟ مثال کے طور پر، کیا ہمارے خاندانی افراد واقعی ہماری بات پر بھروسا کرتے ہیں؟ کیا کلیسیا کے اندر ہمارے روحانی بہنبھائیوں کی بابت بھی یہ بات سچ ہے؟ ذومعنی باتوں کو سچ ثابت کرنے کے عمل کو عادت بنا لینا آسان ہو سکتا ہے۔ یا ایک شخص کاروباری لیندین میں تفصیلات کو بڑھاچڑھا کر پیش کرتے ہوئے حقائق پر پردہ ڈال سکتا ہے۔ کیا یہ کام یہوواہ کی نظروں سے چھپ سکتا ہے؟ نیز ایسے کام کرنے سے کیا وہ ہمارے ہونٹوں سے حمد کی قربانیاں قبول کریگا؟
۱۱. کن لوگوں کو خاص طور پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے؟
۱۱ آجکل کلیسیاؤں میں ملاکی ۲:۷ خدا کا کلام سکھانے کا شرف رکھنے والوں کے لئے ایک آگاہی ہونی چاہئے۔ اس میں بیان کِیا گیا ہے کہ اُن کے ”لب معرفت کو محفوظ رکھیں اور لوگ [اُن کے] مُنہ سے شرعی مسائل پوچھیں۔“ ایسے اُستادوں پر بھاری ذمہداری عائد ہوتی ہے کیونکہ یعقوب ۳:۱ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ”زیادہ سزا پائینگے۔“ جوشوجذبے کے ساتھ تعلیم دینے کے علاوہ اُنکی تعلیم کو خدا کے تحریری کلام اور یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے فراہم کی جانے والی ہدایات پر مبنی ہونا چاہئے۔ اس طرح، وہ ”اوروں کو بھی سکھانے کے قابل“ ہونگے۔ پس انہیں نصیحت دی جاتی ہے: ”اپنے آپ کو خدا کے سامنے مقبول اور ایسے کام کرنے والے کی طرح پیش کرنے کی کوشش کر جس کو شرمندہ ہونا نہ پڑے اور جو حق کے کلام کو درستی سے کام میں لاتا ہو۔“—۲-تیمتھیس ۲:۲، ۱۵۔
۱۲. اُستادوں کو کس بات کا خیال رکھنا چاہئے؟
۱۲ اگر ہم محتاط نہیں رہتے تو اپنی تعلیم میں ذاتی ترجیحات یا خیالات کو ضم کرنے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں۔ یہ ایسے شخص کے لئے خاص طور پر خطرے کی بات ہوگی جو یہوواہ کی تنظیم کی تعلیم سے ٹکرانے کے باوجود اپنے اخذکردہ نتائج کی بابت پُراعتماد محسوس کرتا ہے۔ لیکن ملاکی ۲ باب ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں کلیسیائی اُستادوں سے بھیڑ کی ٹھوکر کا باعث بننے والے ذاتی خیالات کی بجائے خدا کی تعلیم کی پیروی کرنے کی توقع رکھنی چاہئے۔ یسوع نے بیان کِیا: ”جو کوئی اِن چھوٹوں میں سے جو مجھ پر ایمان لائے ہیں کسی کو ٹھوکر کھلاتا ہے اُس کے لئے یہ بہتر ہے کہ بڑی چکی کا پاٹ اُس کے گلے میں لٹکایا جائے اور وہ گہرے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔“—متی ۱۸:۶۔
بےایمان سے شادی کرنا
۱۳، ۱۴. ملاکی نے بیوفائی کی کس روش کو نمایاں کِیا تھا؟
۱۳ ملاکی ۲ باب کی پہلی دس آیت سے آگے چل کر بیوفائی کو مزید نمایاں کِیا گیا ہے۔ ملاکی باہمی تعلق رکھنے والی دو روشوں پر توجہ مُرتکز کرتا ہے جن کیلئے وہ بارہا لفظ ”بیوفائی“ استعمال کرتا ہے۔ سب سے پہلے، غور کریں کہ ملاکی اپنی نصیحت کی شروعات ان سوالات سے کرتا ہے: ”کیا ہم سب کا ایک ہی باپ نہیں؟ کیا ایک ہی خدا نے ہم سب کو پیدا نہیں کیا؟ پھر کیوں ہم اپنے بھائیوں سے بیوفائی کرکے اپنے باپ دادا کے عہد کی بےحرمتی کرتے ہیں؟“ اسکے بعد ۱۱ آیت مزید بیان کرتی ہے کہ اسرائیل کی باغیانہ روش ’یہوواہ کی قدوسیت کی بےحرمتی‘ کرنے کے برابر تھی۔ وہ کونسا ایسا سنگین کام کر رہے تھے؟ اُس آیت میں اُنکی ایک خطا کی شناخت کی گئی ہے: اُنہوں نے ”ایک غیرمعبود کی بیٹی بیاہ“ لی تھی۔
۱۴ باالفاظِدیگر، یہوواہ کی مخصوصشُدہ قوم سے تعلق رکھنے والے بعض اسرائیلیوں نے ایسی عورتوں سے بیاہ کر لیا تھا جو یہوواہ کی پرستار نہیں تھیں۔ ہم سیاقوسباق سے اس معاملے کی سنجیدگی کو سمجھ سکتے ہیں۔ آیت ۱۰ بیان کرتی ہے کہ ان کا باپ ایک تھا۔ اِس سے مُراد یعقوب، (جس کا نام بدل کر اسرائیل رکھا گیا تھا) ابرہام یا آدم نہیں تھا۔ ملاکی ۱:۶ ظاہر کرتی ہے کہ یہوواہ ہی وہ ”باپ“ تھا۔ اپنے باپدادا کے ساتھ یہوواہ کے عہد کی وجہ سے اسرائیلی قوم اُس کے ساتھ ایک رشتے میں بندھی تھی۔ اس عہد کا ایک قانون یوں بیان کرتا تھا: ”تُو اُن سے بیاہشادی بھی نہ کرنا۔ نہ اُنکے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اور نہ اپنے بیٹوں کے لئے اُن کی بیٹیاں لینا۔“—استثنا ۷:۳۔
۱۵. (ا) بعض لوگ کسی بےایمان سے شادی کرنے کے سلسلے میں کیا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ (ب) شادی کے معاملے میں یہوواہ کا نقطۂنظر کیا ہے؟
۱۵ آجکل کے بعض لوگ استدلال کر سکتے ہیں: ’مَیں جس شخص کو پسند کرتا (یا کرتی) ہوں وہ بہت اچھا ہے۔ ایک نہ ایک دن وہ ضرور سچی پرستش کو قبول کر لیگا (یا لیگی)۔‘ ایسی سوچ اس الہامی آگاہی کی تصدیق کرتی ہے: ”دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہباز اور لاعلاج ہے۔“ (یرمیاہ ۱۷:۹) ملاکی ۲:۱۲ میں ایک بےایمان سے شادی کرنے کی بابت خدا کا نظریہ بیان کِیا گیا ہے: ’یہوواہ ایسا کرنے والے کو منقطع کر دیگا۔‘ پس مسیحیوں کو ”صرف خداوند میں“ شادی کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۹) مسیحی بندوبست کے تحت، ایک ایماندار کو کسی بےایمان سے شادی کرنے کے باعث ”منقطع“ نہیں کِیا جاتا۔ تاہم، اگر بےایمان شخص ایمان نہیں لاتا تو بہت جلد خدا کے ہاتھوں اس نظاماُلعمل کے خاتمے پر اس کیساتھ کیا واقع ہوگا؟—زبور ۳۷:۳۷، ۳۸۔
اپنے ساتھی سے بدسلوکی کرنا
۱۶، ۱۷. بعض نے بیوفائی کی کونسی روش اختیار کر لی تھی؟
۱۶ اِس کے بعد ملاکی ایک دوسری قسم کی بیوفائی پر بحث کرتا ہے: بالخصوص غلط طریقے سے طلاق حاصل کرکے اپنے ساتھی کے ساتھ بدسلوکی کرنا۔ باب ۲ کی ۱۴ آیت بیان کرتی ہے: ”[یہوواہ] تیرے اور تیری جوانی کی بیوی کے درمیان گواہ ہے۔ تُو نے اُس سے بیوفائی کی ہے اگرچہ وہ تیری رفیق اور منکوحہ بیوی ہے۔“ اپنی بیویوں سے بیوفائی کرکے یہودی شوہروں نے یہوواہ کے مذبح کو ’آنسوؤں سے بھر‘ دیا تھا۔ (ملاکی ۲:۱۳) وہ مرد غالباً نوجوان یا غیرقوم عورتوں سے شادی کرنے کے لئے غلط طریقے سے اپنی جوانی کی بیویوں کو طلاق دے رہے تھے۔ نیز، بدکار کاہنوں نے بھی اس بات کی اجازت دے رکھی تھی! تاہم، ملاکی ۲:۱۶ بیان کرتی ہے: ”[یہوواہ] اؔسرائیل کا خدا فرماتا ہے کہ مَیں طلاق سے بیزار ہوں۔“ بعدازاں یسوع نے ظاہر کِیا کہ صرف بداخلاقی کی وجہ سے ایک بیگناہ ساتھی دوبارہ شادی کر سکتا ہے۔—متی ۱۹:۹۔
۱۷ ملاکی کے الفاظ پر غور کریں اور دیکھیں کہ یہ ہمارے دلوں میں کیسے ہمدردی پیدا کرتے ہیں۔ وہ ”تیری رفیق اور منکوحہ بیوی“ کا حوالہ دیتا ہے۔ ہر مرد نے ایک ساتھی پرستار اور اسرائیلی عورت سے شادی کی تھی جو اسکی رفیق اور زندگی کی ساتھی تھی۔ یہ شادی غالباً جوانی میں ہوئی تھی لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی عمر نے اس عہد، شادی کے معاہدے کو غیرمؤثر نہیں بنایا تھا۔
۱۸. بیوفائی کی بابت ملاکی کی نصیحت کا کن طریقوں سے آج بھی اطلاق ہوتا ہے؟
۱۸ ان معاملات پر دی جانے والی نصیحت کا اطلاق آج بھی اتنا ہی اہم ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ صرف خداوند میں شادی کرنے کی الہٰی ہدایت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ نیز یہ بات بھی قابلِافسوس ہے کہ بعض نے اپنی شادی کو مضبوط بنانے کی کوشش چھوڑ دی ہے۔ اس کی بجائے وہ کوئی عذر پیش کرتے ہوئے غیرصحیفائی بنیاد پر طلاق لے کر کسی اَور سے شادی کرکے ایسی روش اپناتے ہیں جس سے خدا کو نفرت ہے۔ اُنہوں نے ایسے کاموں سے ”[یہوواہ] کو بیزار کر دیا“ ہے۔ ملاکی کے زمانہ میں الہٰی نصیحت کو رد کرنے والوں کی سرکشی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ یہ خیال کرنے لگے تھے کہ یہوواہ کے نظریات منصفانہ نہیں ہیں۔ درحقیقت اُنہوں نے کہا: ”عدل کا خدا کہاں ہے؟“ کتنی گمراہکُن سوچ! ہمیں ایسے پھندے سے بچنا چاہئے۔—ملاکی ۲:۱۷۔
۱۹. شوہر اور بیویاں کیسے خدا کی روح حاصل کر سکتے ہیں؟
۱۹ مثبت پہلو پر چلتے ہوئے ملاکی ظاہر کرتا ہے کہ بعض شوہروں نے اپنی ۱۵ آیت، اینڈبلیو) خوشی کی بات ہے کہ آجکل خدا کی تنظیم میں ’اپنی بیویوں کی عزت کرنے والوں‘ کی کثرت ہے۔ (۱-پطرس ۳:۷) وہ اپنی بیویوں کیساتھ زبانی یا جسمانی بدسلوکی نہیں کرتے، غیرفطری جنسی کاموں پر اصرار نہیں کرتے اور اپنی بیویوں کے لئے احترام کی کمی ظاہر کرتے ہوئے دوسری عورتوں سے معاشقہ رچانے یا فحش فلمیں دیکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہوواہ کی تنظیم کو ایسی بیشمار ایماندار مسیحی بیویوں سے بھی نوازا گیا ہے جو خدا اور اُسکے قوانین کی وفاداری سے پیروی کرتی ہیں۔ ایسے تمام مردوزن جانتے ہیں کہ خدا کو کن باتوں سے نفرت ہے اور وہ اپنی سوچ اور کاموں کو اس علم کی مطابقت میں ڈھالتے ہیں۔ انکی نقل کرتے اور ’خدا کا حکم مانتے‘ رہیں اور اُسکی رُوحاُلقدس کے ذریعے برکت حاصل کریں۔—اعمال ۵:۲۹۔
بیویوں سے بیوفائی نہیں کی تھی۔ اُنہوں نے ’خدا کی رُوحاُلقدس کے مطابق عمل کِیا تھا۔‘ (۲۰. تمام نسلِانسانی کیلئے کونسا وقت نزدیک ہے؟
۲۰ بہت جلد یہوواہ اس پوری دُنیا کی عدالت کرنے والا ہے۔ ہر شخص کو اپنے عقائد اور اعمال کیلئے اُس کے حضور جواب دینا پڑیگا۔ ”ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپنا حساب دیگا۔“ (رومیوں ۱۴:۱۲) پس اس سلسلے میں ایک توجہطلب سوال یہ ہے: یہوواہ کے دن سے کون بچیگا؟ اس سلسلے کا تیسرا اور آخری مضمون اس موضوع کو زیرِبحث لائیگا۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• یہوواہ نے کس بنیادی وجہ سے اسرائیلی کاہنوں کو سرزنش کی تھی؟
• خدا کے معیار انسانوں کی پہنچ سے بالاتر کیوں نہیں؟
• آجکل ہمیں اپنی تعلیم کی بابت محتاط رہنے کی ضرورت کیوں ہے؟
• یہوواہ نے کن دو روشوں کی خاص طور پر مذمت کی تھی؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
ملاکی کے زمانہ میں یہوواہ کی راہوں کو ترک کرنے والے کاہنوں کی سرزنش کی گئی تھی
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
ہمیں ذاتی ترجیحات کو فروغ دینے کی بجائے احتیاط کیساتھ یہوواہ کی راہوں کی تعلیم دینی چاہئے
[صفحہ ۱۸ پر تصویریں]
یہوواہ نے معمولی وجوہات کی بِنا پر اپنی بیویوں کو طلاق دینے اور غیرقوم عورتوں سے شادی کرنے والے اسرائیلیوں کی مذمت کی تھی
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
آجکل مسیحی اپنی شادی کے عہد کا احترام کرتے ہیں