مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

طرطلیان کا معما

طرطلیان کا معما

طرطلیان کا معما

‏’‏ایک مسیحی اور مفکر کے درمیان کیسی مشابہت ہو سکتی ہے؟‏ کیا سچائی کو بگاڑنے والے اور اسے فروغ دینے اور سکھانے والے میں کوئی مماثلت ممکن ہے؟‏ اکیڈمی اور چرچ میں کیا مطابقت ہو سکتی ہے؟‏‘‏ ایسے چیلنج‌خیز سوال دوسری اور تیسری صدی س.‏ع.‏ کے مصنف طرطلیان نے اُٹھائے تھے۔‏ اُسے ”‏چرچ کی تاریخ اور اُسکے زمانہ میں سکھائے جانے والے عام عقائد کا سب سے اثرانگیز ماخذ“‏ قرار دیا گیا تھا۔‏ اصل میں وہ مذہب کے ہر پہلو کو زیرِغور لایا تھا۔‏

طرطلیان غالباً ایسے بیانات کے لئے زیادہ مشہور تھا جو بظاہر تردیدی یا نامعقول معلوم ہوتے تھے مثلاً ”‏خدا کی عظمت بالخصوص اُسکے ادنیٰ ہونے میں دکھائی دیتی ہے۔‏“‏ ”‏[‏خدا کے بیٹے کی موت]‏ غیرمنطقی ہونے کی وجہ سے قابلِ‌یقین ہے۔‏“‏ ”‏[‏یسوع]‏ کو دفنایا گیا تھا اور وہ پھر زندہ کِیا گیا تھا؛‏ یہ ایک حقیقت ہے جبکہ یہ ممکن نہیں۔‏“‏

طرطلیان صرف اپنے بیانات کی وجہ سے ایک معما نہیں ہے۔‏ اُس نے عملاً اپنی تحریروں سے سچائی کا دفاع کرنے اور چرچ اور اُسکے عقائد کی راستی برقرار رکھنے کا خواہاں ہونے کے باوجود سچی تعلیمات کو بگاڑ دیا تھا۔‏ دُنیائےمسیحیت پر اسکا کلیدی اثر ایک ایسا نظریہ تھا جس کی بنیاد پر آنے والے مصنفوں نے تثلیث کا عقیدہ قائم کِیا۔‏ یہ جاننے کیلئے کہ یہ کیسے واقع ہوا ہمیں طرطلیان کی شخصیت کا جائزہ لینا چاہئے۔‏

‏”‏وہ غیردلچسپ ہو ہی نہیں سکتا“‏

طرطلیان کی حالاتِ‌زندگی کی بابت بہت کم معلومات پائی جاتی ہیں۔‏ بہتیرے علما اس بات سے متفق ہیں کہ وہ شمالی افریقہ،‏ کارتھج میں تقریباً ۱۶۰ س.‏ع.‏ میں پیدا ہوا تھا۔‏ بدیہی طور پر،‏ وہ ایک تعلیم‌یافتہ شخص تھا اور اپنے زمانہ کے مشہور مکاتب‌فکر سے بخوبی واقف تھا۔‏ وہ بظاہر ایمان کی خاطر جان دینے کا دعویٰ کرنے والے مسیحیوں کے جذبے کی وجہ سے مسیحیت کی طرف راغب ہوا تھا۔‏ مسیحیت کے نام پر جان دینے والوں کی بابت اُس نے پوچھا:‏ ”‏کیا اس پر غوروخوض کرنے والے اسکی وجہ جاننے کی تحریک نہیں پاتے؟‏ کس کو غوروفکر کے بعد ہمارے عقائد پر ایمان لانے کی ترغیب نہیں ملتی؟‏“‏

برائےنام مسیحیت قبول کرنے کے بعد،‏ طرطلیان پُرزور اور مضحکہ‌خیز بیانات دینے کا جوہر ظاہر کرنے والا ایک اثرانگیز مصنف بن گیا۔‏ ”‏بہت کم علما میں اُس جیسی صلاحیت تھی،‏“‏ کتاب دی فادرز آف دی چرچ بیان کرتی ہے۔‏ ”‏وہ غیردلچسپ ہو ہی نہیں سکتا۔‏“‏ ایک عالم نے بیان کِیا:‏ ”‏طرطلیان طویل تحریروں کی بجائے مختصر اظہارِبیان میں مہارت رکھتا تھا اور دلائل کی بجائے اُس کے بےساختہ اظہارات سمجھنا آسان ہے۔‏ غالباً اِسی وجہ سے اُسکے مقولے اکثر دہرائے جاتے ہیں لیکن اُس کی طویل تحریروں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔‏“‏

مسیحیت کی حمایت میں

طرطلیان کی مشہورترین تحریر اپولوجی دُنیائےمسیحیت کی حمایت میں سب سے پُرزور ادبی شاہکار سمجھا جاتا ہے۔‏ یہ اُس وقت کی تحریر ہے جب مسیحی اکثر توہم‌پرستانہ ہجوم کا نشانہ بنتے تھے۔‏ طرطلیان نے ان مسیحیوں کا دفاع کرتے ہوئے ان کیساتھ کئے جانے والے نامعقول برتاؤ پر احتجاج کِیا۔‏ اُس نے بیان کِیا:‏ ”‏[‏مخالفین]‏ سمجھتے ہیں کہ عوام کی ہر آفت اور بدقسمتی کے ذمہ‌دار مسیحی ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ اگر دریائےنیل کا پانی کناروں سے بہہ کر فصلوں کو سیراب نہیں کرتا،‏ اگر موسم تبدیل نہیں ہوتا،‏ اگر کوئی زلزلہ،‏ قحط اور وبا آ جاتی ہے—‏تو فی‌الفور یہ کہا جاتا ہے:‏ ’‏مسیحیوں کو شیر کے آگے ڈال دو!‏‘‏ “‏

اگرچہ مسیحیوں پر اکثر ملک سے غداری کا الزام لگایا جاتا تھا،‏ توبھی طرطلیان نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ درحقیقت وہ سب سے زیادہ قابلِ‌بھروسا شہری ہیں۔‏ طرطلیان نے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کئی کوششوں پر توجہ دلاتے ہوئے اپنے مخالفین کو یاددہانی کرائی کہ وہ سازشی مسیحیوں کی بجائے بُت‌پرست شہری تھے۔‏ طرطلیان نے واضح کِیا کہ جب مسیحیوں کو سزائےموت دی جاتی ہے تو زیادہ نقصان ملک کا ہوتا ہے۔‏

طرطلیان کی دیگر تحریریں مسیحی طرزِزندگی سے متعلق تھیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ اپنے تحریری بیان آن دی شوز میں طرطلیان نے بعض تفریحی جگہوں،‏ بُت‌پرستانہ کھیلوں اور نمائشوں سے گریز کرنے کی نصیحت کی۔‏ بدیہی طور پر،‏ مسیحی بننے والے نئے اشخاص بائبل تعلیم کیلئے جمع ہونے اور بعدازاں بُت‌پرستانہ کھیلوں میں حصہ لینے میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔‏ اُن کی فکری صلاحیت کو تحریک دینے کے لئے طرطلیان نے لکھا:‏ ”‏خدا کے چرچ سے سیدھا ابلیس کے چرچ جانا اور روحانی کارگزاریوں کے بعد نفسانی کارگزاریوں میں حصہ لینا کتنے افسوس کی بات ہے۔‏“‏ اُس نے بیان کِیا:‏ ”‏جو کام رد کِیا جائے اُسے پسند کرنا بھی غلط ہے۔‏“‏

سچائی کی حمایت کرتے ہوئے اُسے بگاڑنا

طرطلیان نے اپنے مضمون بعنوان اگینسٹ پراکسی‌ئز کے شروع میں بیان کِیا:‏ ”‏ابلیس نے مختلف طریقوں سے سچائی کی مخالفت اور مزاحمت کی ہے۔‏ بعض‌اوقات اُسکا مقصد سچائی کو اس طریقہ سے تباہ کرنا ہے کہ گویا اُسکی حمایت کر رہا ہو۔‏“‏ اس مضمون میں پراکسی‌ئز نامی شخص کی واضح شناخت نہیں کی گئی ہے لیکن طرطلیان خدا اور مسیح کی بابت اُسکی تعلیمات پر تنقید کرتا ہے۔‏ وہ پراکسی‌ئز کو پوشیدہ طور پر مسیحیت کو تباہ کرنے کی کوشش کرنے والا شیطان کا مہرہ خیال کرتا ہے۔‏

اُس وقت نام‌نہاد مسیحیوں کے درمیان سب سے اہم مسئلہ خدا اور بیٹے کے درمیان تعلق کا تھا۔‏ ان میں سے بعض،‏ خاص طور پر یونانی پس‌منظر سے تعلق رکھنے والے واحد خدا کے ساتھ نجات‌دہندہ کے طور پر یسوع کے کردار پر ایمان رکھنا مشکل پا رہے تھے۔‏ پراکسی‌ئز نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں یہ تعلیم دی کہ یسوع درحقیقت باپ کی شخصیت کا ایک روپ ہے اور باپ اور بیٹے میں کوئی فرق نہیں۔‏ موڈلیزم کہلانے والا یہ نظریہ دعویٰ کرتا تھا کہ خدا نے خود کو ”‏تخلیق کے ذریعے باپ کے روپ میں،‏ شریعت دینے سے بیٹے یسوع مسیح کے روپ میں اور مسیح کے آسمان پر جانے کے بعد روح‌القدس کے روپ میں“‏ ظاہر کِیا تھا۔‏

طرطلیان نے ظاہر کِیا کہ صحائف باپ اور بیٹے کے درمیان واضح فرق کرتے ہیں۔‏ اُس نے ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۷،‏ ۲۸ کا حوالہ دینے کے بعد استدلال کِیا:‏ ”‏جس نے سب کچھ تابع کر دیا اور جس کے تابع کِیا گیا—‏لازمی طور پر دو مختلف شخصیات ہیں۔‏“‏ طرطلیان نے یسوع کے الفاظ پر توجہ مبذول کرائی:‏ ”‏باپ مجھ سے بڑا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲۸‏)‏ زبور ۸:‏۵ جیسے عبرانی صحائف کے حصے استعمال کرتے ہوئے اُس نے بیٹے کے ’‏کم‘‏ رُتبے کی بابت بائبل کے بیان کو واضح کِیا۔‏ طرطلیان نے نتیجہ اخذ کِیا،‏ ”‏پس باپ بیٹے سے الگ اور اُس سے بڑا ہے۔‏ جیسے پیدا کرنے والا اور پیدا ہونے والا،‏ بھیجنے والا اور بھیجا گیا اور صانع اور مصنوع مختلف ہوتے ہیں۔‏“‏

طرطلیان بیٹے کو باپ کے ماتحت خیال کرتا تھا۔‏ تاہم،‏ موڈلیزم کے نظریے کی مزاحمت کرنے کی کوشش میں اُس نے ”‏لکھے ہوئے سے تجاوز“‏ کِیا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۴:‏۶‏)‏ طرطلیان نے غلطی کرتے ہوئے ایک اَور نظریے کے ذریعے یسوع کی الوہیت ثابت کرنے کی کوشش میں ”‏تین شخصیات کی وحدت“‏ کا عقیدہ ایجاد کِیا۔‏ اس نظریے کے استعمال سے اُس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ خدا،‏ اُسکا بیٹا اور روح‌القدس ایک ہی الہٰی وجود رکھنے والی تین مختلف شخصیات تھیں۔‏ یوں طرطلیان باپ،‏ بیٹے اور روح‌القدس کے لئے لفظ ”‏تثلیث“‏ کی لاطینی صورت کا اطلاق کرنے والا پہلا شخص بنا۔‏

دُنیاوی فیلسوفی سے خبردار رہیں

طرطلیان نے ”‏تین شخصیات کی وحدت“‏ کا نظریہ کیسے ایجاد کِیا؟‏ اس کا جواب اُس کی بابت ایک اَور معمے میں ملتا ہے—‏فیلسوفی کی بابت اُس کا نقطۂ‌نظر۔‏ طرطلیان فیلسوفی کو ”‏انسانوں اور ’‏شیاطین کے عقائد‘‏ “‏ کہتا تھا۔‏ اُس نے مسیحی سچائیوں کی حمایت کیلئے فیلسوفی کے استعمال پر کھل کر تنقید کی۔‏ اُس نے بیان کِیا،‏ ”‏مسیحیت کو سقراطی،‏ افلاطونی،‏ منطقی عقائد سے آلودہ نہ کرو۔‏“‏ اسکے باوجود،‏ جب دُنیاوی فیلسوفی اُسکے خیالات سے مطابقت رکھتی تھی تو طرطلیان نے بڑی آزادی کیساتھ اسکا استعمال کِیا۔‏—‏کلسیوں ۲:‏۸‏۔‏

ایک کتاب بتاتی ہے:‏ ”‏تثلیث کے عقیدے کی ترقی اور اظہار کے لئے یونانی نظریات اور منطق کی ضرورت تھی۔‏“‏ کتاب دی تھیولوجی آف ٹرٹولین بیان کرتی ہے:‏ ”‏طرطلیان نے باضابطہ اور فیلسوفیانہ خیالات اور اصطلاحات کے حیرت‌انگیز امتزاج سے تثلیث کے عقیدے کو پیش کِیا جس نے بعدازاں اپنی کمزوریوں اور ناکاملیتوں کے باوجود مجلسِ‌نقایہ کے عقیدے کے لئے بنیاد فراہم کی۔‏“‏ پس طرطلیان کے نظریے—‏تین مختلف شخصیات کا ایک الہٰی وجود—‏نے پوری دُنیائےمسیحیت میں مذہبی برگشتگی پھیلانے میں اہم کردار ادا کِیا تھا۔‏

طرطلیان نے دوسروں پر سچائی بگاڑنے کا الزام لگایا جبکہ وہ محض اسے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔‏ تاہم،‏ مضحکہ‌خیز بات یہ ہے کہ الہامی بائبل سچائی اور انسانی فیلسوفی کو ملانے سے وہ خود اس الزام کا مرتکب ہوا۔‏ پس ہمیں ”‏گمراہ کرنے والی روحوں اور شیاطین کی تعلیم“‏ کے خلاف صحیفائی آگاہی پر دھیان دینا چاہئے۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱‏۔‏

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویریں]‏

طرطلیان نے فیلسوفی کے استعمال پر تنقید کی لیکن اپنے نظریات کو فروغ دینے کیلئے اسکا استعمال کِیا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Pages 29 and 30: © Cliché Bibliothèque nationale de France, Paris

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

سچے مسیحی بائبل سچائی کو انسانی فیلسوفی کیساتھ نہیں ملاتے