مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدائی‌عقیدت کا اَجر

خدائی‌عقیدت کا اَجر

میری کہانی میری زبانی

خدائی‌عقیدت کا اَجر

از ولیم اےہنوریا

میرے والد کے کراہنے نے مجھے آدھی رات کو جگایا۔‏ وہ اپنا پیٹ تھامے فرش پر درد سے تڑپ رہا تھا۔‏ ماں،‏ میری بڑی بہن اور مَیں اُنکے اردگرد جمع تھے۔‏ جب درد کم ہوا تو وہ سیدھے بیٹھے اور آہ بھر کر کہا:‏ ”‏اس دُنیا میں صرف یہوواہ کے گواہوں کو اطمینان حاصل ہے۔‏“‏ حیران‌کُن ہونے کے باوجود اس تبصرے نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا اسلئےکہ مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کی بابت پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔‏ مَیں نے سوچا کہ میرے والد کی اِس بات کا کیا مطلب تھا۔‏

یہ واقعہ ۱۹۵۳ میں پیش آیا جب میری عمر چھ سال تھی۔‏ مَیں نائیجیریا کے وسطی مغرب کے زرعی گاؤں،‏ ایووسا کے ایک تعددِازدواج والے گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔‏ اگرچہ بچوں میں میرا نمبر دوسرا تھا توبھی مَیں ایسے خاندان کا پہلا بیٹا تھا جس میں آخرکار میرے والد کی تین بیویوں اور ۱۳ بچوں کا اضافہ ہوا۔‏ ہم دادا کے چھپر والے چار کمروں کے مٹی کے گھر میں رہتے تھے۔‏ خاندان میں دادی اور میرے والد کے تین بھائی اور اُنکے خاندان بھی شامل تھے۔‏

میری ابتدائی زندگی غربت کا شکار تھی۔‏ اس کی خاص وجہ والد کی خراب صحت تھی۔‏ اُنہیں پیٹ کا پُرانا درد تھا جو کئی سالوں بعد ان کی موت تک رہا۔‏ اُن کی انجانی بیماری پر اُن تمام جڑی‌بوٹیوں اور روایتی طبّی علاج‌معالجوں کا کوئی اثر نہ ہوا جسکی استطاعت ایک افریقی دیہاتی خاندان رکھ سکتا تھا۔‏ جب ہمارے والد شدید درد سے فرش پر پڑے تڑپتے تھے تو ہم اگلی صبح مرغ کی بانگ سنائی دینے تک کئی کئی راتیں اپنے والد کے پاس بیٹھے رو کر گزار دیا کرتے تھے۔‏ اپنی بیماری کے لئے شفا کی تلاش میں وہ اکثر مجھے اور میرے بہن‌بھائیوں کو دادی کے پاس چھوڑ کر ماں کے ساتھ جایا کرتے تھے۔‏

ہمارا خاندان اپنی کفالت کیلئے کچالُو،‏ کساوا اور کولا نٹ کی کاشتکاری اور فروخت کِیا کرتا تھا۔‏ ہم اپنی معمولی آمدنی میں اضافے کے لئے درختوں کی گوند بھی نکالا کرتے تھے۔‏ ہماری بنیادی غذا کچالُو تھی۔‏ ہم صبح کو اسے کھاتے تھے،‏ دوپہر میں اسے پیستے تھے اور رات کو دوبارہ یہی کھاتے تھے۔‏ بعض‌اوقات پلین‌ٹین (‏کیلے کی طرح کا پھل)‏ کو بھون کر کھانے سے ہمارا کھانا کچھ مختلف ہوا کرتا تھا۔‏

آباؤاجداد کی پرستش ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ تھی۔‏ ہمارا خاندان رنگ‌برنگی سیپیوں سے بندھی ڈنڈیوں کے آگے کھانا رکھنے سے آباؤاجداد کی پرستش کِیا کرتا تھا۔‏ میرے والد بُری روحوں اور جادوگرنیوں سے بچنے کیلئے بُت کی پرستش بھی کِیا کرتے تھے۔‏

جب میں پانچ سال کا ہوا تو ہم لوگ کچھ وقت کیلئے اپنے گاؤں سے تقریباً سات میل دُور ایک زرعی کیمپ میں منتقل ہو گئے۔‏ وہاں والد کو گنی کیچوے سے پھیلنے والی بیماری لگ گئی جس سے اُسکے پیٹ کی تکلیف مزید بڑھ گئی۔‏ وہ دن میں کام کرنے کے قابل نہ تھے اور اُسکے پیٹ کی تکلیف راتوں کو اُسے سونے نہیں دیتی تھی۔‏ مَیں چگو یا ریت پسو سے پھیلنے والی ٹائی‌فس کی بیماری سے متاثر ہو گیا۔‏ نتیجتاً،‏ ہم رشتہ‌داروں کے رحم‌وکرم پر زندگی بسر کرنے لگے۔‏ مفلسی کی موت مرنے کی بجائے ہم واپس اپنے گاؤں ایووسا چلے گئے۔‏ والد اپنے پہلے بیٹے یعنی مجھے ایک ایسے کسان سے زیادہ‌کچھ بنانا چاہتے تھے جو مشکل سے اپنی ضروریاتِ‌زندگی پوری کر پاتا ہے۔‏ اُن کے خیال میں اچھی تعلیم مجھے خاندان کی معیارِزندگی بہتر بنانے اور اپنے بچوں کی بہتر پرورش کرنے کے قابل بنا سکتی تھی۔‏

مختلف مذاہب سے رابطہ

مَیں نے اپنے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔‏ نتیجتاً میرا رابطہ دُنیائےمسیحیت کے مذاہب سے ہوا۔‏ سن ۱۹۵۰ کے دہے میں،‏ مغربی تعلیم اور سرکاری مذہب میں قریبی تعلق تھا۔‏ ایک کیتھولک پرائمری سکول میں پڑھنے کی وجہ سے میرا رومن کیتھولک ہونا لازمی تھا۔‏

سن ۱۹۶۶ میں،‏ جب مَیں ۱۹ سال کا ہوا تو مجھے ایووسا سے تقریباً ۵ میل دُور ایووہن‌می کے قصبے میں پل‌گرم بپٹسٹ سیکنڈری سکول میں داخل کِیا گیا۔‏ وہاں میری مذہبی تعلیم میں تبدیلی آئی۔‏ پروٹسٹنٹ سکول میں پڑھنے کی وجہ سے کیتھولک پادریوں نے مجھے اتوار کی عبادت میں حصہ لینے سے منع کر دیا۔‏

مَیں اس بپٹسٹ سکول میں پہلی بار بائبل سے روشناس ہوا۔‏ اگرچہ مَیں نے کیتھولک چرچ جانا جاری رکھا توبھی مَیں ہر اتوار عبادت کے بعد بائبل کی ذاتی پڑھائی کِیا کرتا تھا۔‏ یسوع مسیح کی تعلیم مجھے بہت متاثر کرتی تھی اور مجھ میں خدائی عقیدت کی بامقصد زندگی گزارنے کی خواہش پیدا کرتی تھی۔‏ مَیں جتنی زیادہ بائبل پڑھتا مجھے بعض مذہبی راہنماؤں کی ریاکاری اور بہتیرے عام لوگوں کی بداخلاق طرزِزندگی سے اتنی ہی زیادہ نفرت ہونے لگی۔‏ مجھے مسیحی ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگوں میں یسوع اور اُسکے شاگردوں کی تعلیم اور اعمال سے مشابہ کوئی بات نظر نہیں آتی تھی۔‏

خاص طور پر کچھ واقعات نے مجھے بہت حیران کِیا۔‏ ایک موقع پر جب مَیں کیتھولک عقائد کی تعلیم دینے والے شخص کی دُکان پر روزری خریدنے گیا تو مَیں نے دُکان کے دروازے پر جُوجُو تعویذ لٹکا ہوا دیکھا۔‏ ایک دوسرے موقع پر،‏ بپٹسٹ سکول کے پرنسپل نے میرے ساتھ جنسی بدسلوکی کرنے کی کوشش کی۔‏ بعدازاں مجھے پتہ چلا کہ وہ ہم‌جنس‌پسند تھا اور اُس نے دوسرے نوجوانوں کیساتھ جنسی بدسلوکی کی تھی۔‏ ان باتوں پر غور کرنے کے بعد مَیں نے خود سے استفسار کِیا:‏ ’‏کیا خدا ایسے مذاہب کو پسند کرتا ہے جنکے ارکان،‏ یہانتک کہ راہنما بھی سنگین گناہوں کیلئے کسی کے آگے جوابدہ نہیں؟‏‘‏

تبدیلیٔ‌مذہب

تاہم،‏ مَیں بائبل میں پڑھی جانے والی باتوں کو نہایت عزیز رکھتا تھا اور اپنی پڑھائی جاری رکھنے کا عزم کئے ہوئے تھا۔‏ اُس وقت مَیں ۱۵ سال پہلے کئے گئے اپنے والد کے تبصرے پر غور کرنے لگا:‏ ‏”‏اس دُنیا میں صرف یہوواہ کے گواہوں کو اطمینان حاصل ہے۔‏“‏ تاہم مَیں ذرا گھبرایا کیونکہ میرے سکول میں گواہ نوجوانوں کا تمسخر اُڑایا جاتا تھا اور بعض‌اوقات انہیں صبح کی پرستش میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے سزا دی جاتی تھی۔‏ نیز اُنکے کچھ اعتقادات عجیب‌وغریب بھی تھے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اس بات پر یقین کرنا میرے لئے مشکل تھا کہ صرف ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ آسمان پر جائینگے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۴:‏۳‏)‏ آسمان پر جانے کی خواہش رکھنے کی وجہ سے مَیں پریشان تھا کہ کہیں یہ تعداد میری پیدائش سے پہلے ہی پوری نہ ہو گئی ہو۔‏

یہ بات واضح تھی کہ گواہ اپنے چال‌چلن اور رُجحان میں فرق تھے۔‏ وہ سکول کے دوسرے نوجوانوں کی بداخلاق اور پُرتشدد کارگزاریوں میں حصہ نہیں لیتے تھے۔‏ میرے لئے وہ واقعی دُنیا سے الگ تھے،‏ ویسے ہی جیسے مَیں نے بائبل میں پڑھا تھا کہ سچے مذہب کی پیروی کرنے والوں کو ہونا چاہئے۔‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۴-‏۱۶؛‏ یعقوب ۱:‏۲۷‏۔‏

مَیں نے مزید چھان‌بین کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ مَیں ستمبر ۱۹۶۹ میں،‏ کتاب ‏”‏سچائی جو باعثِ‌ابدی زندگی ہے“‏ حاصل کرنے کے قابل ہوا۔‏ اگلے ہی مہینے مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کے ایک کُل‌وقتی خادم کیساتھ جسے پائنیر بھی کہتے ہیں مطالعہ شروع کِیا۔‏ اپنے پہلے مطالعے سے تحریک پاکر مَیں نے ہفتے کی رات کو سچائی کی کتاب پڑھنا شروع کی اور اگلی دوپہر تک اسے ختم کر لیا۔‏ مَیں نے جو شاندار باتیں پڑھی تھیں انکی بابت فوراً اپنے ساتھی طالبعلموں کو بتانا شروع کر دیا۔‏ طالبعلموں اور اساتذہ نے سوچا کہ میرے نئے ایمان نے مجھے دیوانہ کر دیا تھا۔‏ تاہم مَیں جانتا تھا کہ یہ دیوانگی نہیں تھی۔‏—‏اعمال ۲۶:‏۲۴‏۔‏

نئے مذہب کی میری منادی کی خبر میرے والدین تک پہنچی۔‏ اُنہوں نے مجھے فوراً گھر لوٹنے کی ہدایت دی تاکہ معلوم کر سکیں کہ میرا مسئلہ کیا ہے۔‏ مجھے مشورہ دینے والا کوئی نہیں تھا اسلئےکہ تمام گواہ اپنے ڈسٹرکٹ کنونشنوں کیلئے الیشا میں تھے۔‏ گھر لوٹنے پر مجھے سوالوں کی بھرمار اور اپنی والدہ اور دیگر رشتہ‌داروں کی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔‏ مَیں نے اپنے بائبل علم کا دفاع کرنے کی پوری کوشش کی۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۵‏۔‏

یہوواہ کے گواہوں کو جھوٹے اُستاد ثابت کرنے کی ناکام کوشش کے بعد،‏ میرے انکل نے ایک مختلف طریقہ استعمال کِیا۔‏ اُس نے مجھ سے درخواست کی:‏ ”‏یاد رکھو کہ تم سکول تعلیم حاصل کرنے کیلئے گئے تھے۔‏ اپنی پڑھائی چھوڑ کر منادی کرنے سے تم اپنی تعلیم کبھی پوری نہیں کر سکو گے۔‏ پس تم اس نئے مذہب میں شامل ہونے سے پہلے اپنی تعلیم سے فارغ ہونے کا انتظار کیوں نہیں کرتے۔‏“‏ اُس وقت یہ بات معقول لگی اسلئے مَیں نے گواہوں کیساتھ مطالعہ کرنا چھوڑ دیا۔‏

دسمبر ۱۹۷۰ میں فارغ‌التحصیل ہونے کے بعد مَیں سیدھا کنگڈم ہال گیا اور اُس وقت سے باقاعدہ یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہو رہا ہوں۔‏ مَیں نے اگست ۳۰،‏ ۱۹۷۱ میں خدا کیلئے اپنی مخصوصیت کے اظہار میں پانی کا بپتسمہ لیا۔‏ اس سے نہ صرف میرے والدین بلکہ میرے علاقے کے تمام لوگوں کو بھی دھچکا لگا۔‏ اُنکے خیال سے،‏ مَیں نے انہیں مایوس کِیا تھا کیونکہ مَیں ایووسا کے گردونواح میں سرکاری وظیفہ حاصل کرنے والا پہلا شخص تھا۔‏ بہتیروں نے مجھ سے بڑی اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔‏ وہ چاہتے تھے کہ مَیں اپنی تعلیم کے ذریعے اپنے علاقے کو بہتر بناؤں۔‏

تبدیلیٔ‌مذہب کے نتائج

میرے خاندان اور علاقے کے بزرگوں نے میرے پاس ایک وفد بھیجا تاکہ مجھے اپنے ایمان سے دستبردار ہونے کے لئے قائل کِیا جائے۔‏ اُن کی کوششوں میں بددُعائیں بھی شامل تھیں۔‏ ”‏اگر تم نے اس مذہب کو نہ چھوڑا تو تمہارا مستقبل تاریک ہو جائیگا۔‏ تم نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔‏ تم اپنا گھر نہیں بنا سکو گے۔‏ تمہاری نہ شادی ہوگی اور نہ خاندان بڑھیگا۔‏“‏

اُنکی بدشگون پیشینگوئیوں کے برعکس،‏ مجھے فارغ‌التحصیل ہونے کے دس ماہ بعد بطور اُستاد نوکری مل گئی۔‏ مَیں نے اکتوبر ۱۹۷۲ میں ویرونیکا سے شادی کر لی۔‏ بعدازاں،‏ حکومت نے مجھے زرعی توسیع کے ایجنٹ کے طور پر تربیت دی۔‏ مَیں نے اپنی پہلی گاڑی خریدی اور اپنے گھر کی تعمیر شروع کر دی۔‏ نومبر ۵،‏ ۱۹۷۳ کو ہماری پہلی بیٹی،‏ وکٹری پیدا ہوئی اور اسکے بعد لڈیا،‏ ولفرڈ اور جوآن پیدا ہوئے۔‏ سن ۱۹۸۶ میں،‏ ہمارا آخری بیٹا میکاہ پیدا ہوا۔‏ یہ سب عزیز بچے یہوواہ کی طرف سے ایک بیش‌قیمت میراث ثابت ہوئے ہیں۔‏—‏زبور ۱۲۷:‏۳‏۔‏

میرے ماضی کا جائزہ ثابت کرتا ہے کہ میرے علاقہ کے لوگوں کی تمام بددُعائیں برکات میں بدل گئی تھیں۔‏ اسی لئے مَیں نے اپنی پہلی بیٹی کا نام وکٹری (‏فتح)‏ رکھا۔‏ حال ہی میں میرے گاؤں کے لوگوں نے مجھے خط میں لکھا:‏ ”‏اب جبکہ خدا کی برکت آپ کیساتھ ہے،‏ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے علاقے کی ترقی میں حصہ لینے کیلئے گھر واپس آ جائیں۔‏“‏

خدائی طریقوں سے بچوں کی پرورش کرنا

میری بیوی اور مَیں جانتے تھے کہ ہم مال‌ودولت کی جستجو کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی پرورش کرنے کی خدائی ذمہ‌داری پوری نہیں کر سکتے تھے۔‏ لہٰذا،‏ ہم نے ایک سادہ طرزِزندگی پر قناعت کرنا سیکھ لیا۔‏ ہم ایک مختلف طرزِزندگی کا انتخاب کرنے کے ممکنہ نتائج کا سامنا کرنے کی بجائے اس طرح زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‏

ہمارے علاقہ میں دوسرے خاندانوں کے ساتھ ایک عمارت میں رہتے ہوئے ایک ہی غسل‌خانے،‏ باورچی‌خانے اور دیگر سہولیات کا مشترکہ استعمال کرنا عام بات ہے۔‏ تاہم،‏ خوشی کی بات ہے کہ سرکاری کارکُن کے طور پر میرا تبادلہ جہاں کہیں بھی ہوتا ہمیں اُس قصبے میں رہنے کیلئے علیٰحدہ مکان مل جاتا تھا۔‏ سچ ہے کہ ایسی رہائشی سہولیات مہنگی تھیں لیکن ان سے بچوں پر غیرصحتمندانہ اثرات کے امکانات کم ہو جاتے تھے۔‏ مَیں یہوواہ کا شکرگزار ہوں کہ سالوں کے دوران ہم ایک خوشگوار روحانی ماحول میں اپنے بچوں کی پرورش کرنے کے قابل ہوئے تھے۔‏

اسکے علاوہ،‏ میری بیوی نے گھر پر رہ کر ہمارے بچوں کی دیکھ‌بھال کی ہے۔‏ میرے کام سے لوٹنے کے بعد ہم بطور خاندان مختلف کارگزاریوں میں حصہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ ہم سب کام ملکر کرتے ہیں۔‏ اس میں خاندانی بائبل مطالعہ،‏ کلیسیائی اجلاسوں کی تیاری اور ان پر حاضری اور مسیحی خدمتگزاری کے علاوہ تفریحی کارگزاریوں میں حصہ لینا بھی شامل ہے۔‏

ہم نے استثنا ۶:‏۶،‏ ۷ کی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے جو نہ صرف گھر بلکہ ہر موقع پر بچوں کو تعلیم دینے کی حوصلہ‌افزائی کرتی ہے۔‏ اس سے بچے رفاقت کیلئے دُنیا کی بجائے گواہوں میں دوست تلاش کرنا سیکھے ہیں۔‏ ہمارے نمونے سے اُنہوں نے اپنی رفاقتوں کو محفوظ رکھنا سیکھ لیا ہے اسلئےکہ ویرونیکا اور مَیں فرق اعتقادات رکھنے والے لوگوں کیساتھ حد سے زیادہ وقت نہیں گزارتے۔‏—‏امثال ۱۳:‏۲۰؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۳‏۔‏

بلاشُبہ،‏ ہماری راہنمائی اور تعلیم ہمارے بچوں کی زندگی پر مثبت اثر ڈالنے والا واحد عنصر نہیں رہا۔‏ ہمارے گھر کے دروازے ہمیشہ سے اور اب بھی سرگرم مسیحیوں کیلئے کھلے ہیں جن میں سے بہتیرے یہوواہ کے گواہوں کے سفری خادم بھی ہیں۔‏ ان پُختہ مسیحیوں کیساتھ گزارے ہوئے وقت نے ہمارے بچوں کو انکی خودایثارانہ طرزِزندگی پر غور کرنے اور اس سے سیکھنے کا موقع بخشا ہے۔‏ نتیجتاً ہماری تعلیم مستحکم ہوئی ہے اور بچوں نے بائبل سچائی کو اپنا بنا لیا ہے۔‏

خدائی عقیدت کا اَجر

آج مَیں اور میری بیوی اپنے چار بچوں سمیت کُل‌وقتی خدمت کر رہے ہیں۔‏ مَیں نے پہلی بار ۱۹۷۳ میں پائنیر خدمت شروع کی تھی۔‏ سالوں کے دوران،‏ میرے معاشی حالات نے وقتاًفوقتاً میری کُل‌وقتی خدمت میں خلل ڈالا ہے۔‏ مجھے وقتاًفوقتاً مسیحی نگہبانوں کی تربیت کے لئے یہوواہ کے گواہوں کے بادشاہتی خدمتی سکول میں تعلیم دینے کا شرف بھی ملا ہے۔‏ اس وقت مَیں ہاسپٹل لائزون کمیٹی (‏ہسپتال رابطہ کمیٹی)‏ میں خدمت کرنے کیساتھ ساتھ یوہونمورا شہر کے نگہبان ہونے کے شرف سے بھی استفادہ کر رہا ہوں۔‏

میری دو بڑی بیٹیاں،‏ وکٹری اور لڈیا عمدہ مسیحی خادموں کیساتھ شادی کرکے خوش ہیں۔‏ وہ اور اُن کے شوہر اگی‌ڈیوما،‏ نائیجیریا میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس میں خدمت کر رہے ہیں۔‏ ہمارا بڑا بیٹا ولفرڈ خدمتگزار خادم کے طور پر خدمت کر رہا ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا میکاہ وقتاًفوقتاً امدادی پائنیر خدمت میں حصہ لیتا ہے۔‏ جوآن نے ۱۹۹۷ میں اپنی تعلیم مکمل کرکے باقاعدہ پائنیر خدمت شروع کی۔‏

میری زندگی کا سب سے بااَجر تجربہ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے میں دوسروں کی مدد کرنا ہے۔‏ ان میں ہمارے رشتہ‌دار بھی شامل ہیں۔‏ میرے والد نے یہوواہ کی خدمت کی کوشش تو کی لیکن تعددِازدواج انکی ترقی میں حائل ہوا۔‏ اپنی جوانی سے ہی مَیں نے لوگوں سے محبت رکھی ہے۔‏ دوسروں کو تکلیف میں مبتلا دیکھکر مجھے اپنے مسائل معمولی لگتے ہیں۔‏ غالباً وہ دوسروں کی مدد کرنے کی میری مخلصانہ خواہش کو بھانپ لیتے ہیں اور یوں مجھے اپنا ہمراز بنانا آسان پاتے ہیں۔‏

مَیں نے خدا کے مقاصد کا علم حاصل کرنے میں جن لوگوں کی مدد کی ہے ان میں ایک اپاہج نوجوان بھی شامل ہے۔‏ وہ بجلی کے ادارے میں ملازم تھا اور کام کے دوران بجلی کے شدید جھٹکے کی وجہ سے اُسکے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا تھا۔‏ اُس نے بائبل مطالعہ قبول کِیا اور سیکھی ہوئی باتوں پر بتدریج ایمان لایا۔‏ اُسکا بپتسمہ اکتوبر ۱۴،‏ ۱۹۹۵ میں ہمارے گھر کے قریب واقع ندی میں ہوا اور ۱۵ سالوں میں وہ پہلا موقع تھا جب اُس نے اپنا بستر چھوڑا تھا۔‏ اُس نے بیان کِیا کہ یہ اُسکی زندگی کا سب سے پُرمسرت دن تھا۔‏ اب وہ کلیسیا میں خدمتگزار خادم ہے۔‏

تقریباً ۳۰ سال پہلے یہوواہ کے متحد،‏ مخصوص لوگوں کے ساتھ اُس کی خدمت شروع کرنے کے انتخاب نے مجھے کبھی بھی مایوس نہیں کِیا۔‏ مَیں نے ان کے درمیان حقیقی محبت کو کارفرما دیکھا ہے۔‏ اپنے وفادار خادموں کے لئے یہوواہ کے اجر میں اگر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید نہ بھی ہوتی توبھی مَیں خدائی عقیدت کی زندگی بسر کرنے کی خواہش کرتا۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۶؛‏ عبرانیوں ۱۱:‏۶‏)‏ اس نے میری زندگی میں راہنمائی فراہم کرکے اسے مستحکم کِیا ہے اور میرے اور میرے خاندان کی خوشی،‏ اطمینان اور تسکین کا سبب بنا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

سن ۱۹۹۰ میں،‏ اپنے بیوی بچوں کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

اپنے بیوی بچوں اور دو دامادوں کیساتھ