موت کی بابت آپکا نظریہ کیا ہے؟
موت کی بابت آپکا نظریہ کیا ہے؟
خواہ ہم صحتمند ہیں یا دولتمند، موت ہم سب کی روزمرّہ زندگی پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ یہ ہمارے سڑک پار کرتے یا لیٹتے وقت حملہآور ہو سکتی ہے۔ ستمبر ۱۱، ۲۰۰۱ کو نیو یارک اور واشنگٹن ڈی. سی. میں دہشتگردی کے حملوں جیسی آفات ہمیں اس حقیقت کا احساس دلاتی ہیں کہ ”پچھلا دشمن“ یعنی موت زندگی کے تمام حلقوں اور عمروں کے لوگوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے اور بعضاوقات تو یہ منٹوں میں ہزاروں کو نگل جاتی ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۶۔
اسکے باوجود لوگ موت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ سنگین حالات کے تحت اجتماعی موت کی خبریں خاص طور پر کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اخبارات کی مانگ کو بڑھاتی ہیں یا لوگوں کو ٹیلیویژن کی طرف راغب کرتی ہیں۔ لوگ جنگوں، قدرتی آفات، جرم یا بیماری کی وجہ سے موت کی خبر سننے سے کبھی عاجز نہیں آتے۔ موت میں دلچسپی کا حیرتانگیز اظہار اُس وقت نمایاں ہوتا ہے جب عوام کی پسندیدہ یا مشہورومعروف شخصیات کی موت پر شدید اظہارِافسوس کِیا جاتا ہے۔
یہ تمام حقائق ناقابلِتردید ہیں۔ موت لوگوں میں تجسّس پیدا کرتی ہے—خاص طور پر دوسروں کی موت۔ تاہم لوگ اپنی موت کی بابت سوچنے سے کتراتے ہیں۔ ہماری موت ایسا موضوع ہے جس پر غوروخوض کرنے کی بابت ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
موت سے حیرانوپریشان؟
ہماری موت کا خیال ناخوشگوار ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ایسا کیوں ہے؟ اسلئےکہ خدا نے ہمیں ہمیشہ زندہ رہنے کی شدید خواہش کے ساتھ پیدا کِیا ہے۔ واعظ ۳:۱۱ بیان کرتی ہے، ”اُس نے ابدیت کو بھی اُنکے دل میں جاگزین کِیا ہے۔“ لہٰذا موت جو ناگزیر ہے انسانوں میں ایک اندرونی کشمکش اور بےچینی جاری رکھتی ہے۔ انسانوں نے اس باطنی کشمکش سے نپٹنے اور ہمیشہ زندہ رہنے کی فطری خواہش کی تسکین کیلئے جان کی غیرفانیت اور تناسخ جیسے طرح طرح کے عقائد ایجاد کر رکھے ہیں۔
بہرحال، موت ایک پریشانکُن اور بھیانک حقیقت ہے اور اسکا خوف ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ پس کچھ عجب نہیں کہ انسانی معاشرہ عام طور پر موت کو ایک حوصلہشکن امکان خیال کرتا ہے۔ سب سے پہلے، موت اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ مالودولت اور اختیار کی جستجو میں زندگی وقف کرنا حتمی طور پر بیفائدہ ہے۔
موت تنہائی لاتی ہے؟
قدیم زمانہ میں کسی مُہلک بیماری میں مبتلا یا مرنے کی حد تک زخمی شخص اکثر اپنے گھر کے جانےپہچانے اور پُرمحبت ماحول میں دم توڑتا تھا۔ پیدایش ۴۹:۱، ۲، ۳۳) ایسے مواقع پر پورا خاندان جمع ہوتا ہے اور باتچیت میں بچوں کو بھی شامل کِیا جاتا ہے۔ اس سے خاندان کے ہر فرد کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے غم میں تنہا نہیں اور یوں ایک دوسرے کا بوجھ اُٹھانا اور باہم افسوس کرنا تسلی کا باعث بنتا ہے۔
بائبل وقتوں میں اکثر ایسا ہی ہوتا تھا اور بعض ثقافتوں میں آج بھی ایسا ہی ہے۔ (لیکن ایک ایسا معاشرہ اس کے بالکل برعکس ہے جہاں موت کی بابت باتچیت کرنا ممنوع ہے، اس کا احساس ناگوار ہے اور بچوں کو محض اس مفروضے کی بِنا پر اس پر باتچیت سے دُور رکھا جاتا ہے کہ وہ اسے برداشت نہیں کر پائینگے۔ آجکل موت مختلف حالات کے تحت اور اکثر تنہائی میں واقع ہوتی ہے۔ اگرچہ بہتیرے اشخاص گھر پر خاندان کی پُرمحبت نگرانی میں سکون کے ساتھ مرنا چاہتے ہیں توبھی وہ اس تلخ حقیقت کا سامنا کرتے ہیں کہ ان کی موت عموماً ہسپتال میں تنہائی اور تکلیف میں ہوتی ہے جہاں ان کا جسم کئی پیچیدہ آلات سے بندھا ہوتا ہے۔ اسکے برعکس، لاکھوں لوگ بِلاامتیاز نسلکُشی، قحط، ایڈز، خانہجنگی یا شدید غربت کا شکار ہوکر گمنامی کی حالت میں مر جاتے ہیں۔
قابلِغور موضوع
بائبل موت پر غوروخوض کرنے سے منع نہیں کرتی۔ درحقیقت واعظ ۷:۲ ہمیں بتاتی ہے: ”ماتم کے گھر میں جانا ضیافت کے گھر میں داخل ہونے سے بہتر ہے کیونکہ سب لوگوں کا انجام یہی ہے۔“ موت کی حقیقت کا سامنا کرتے وقت ہماری توجہ روزمرّہ کی فکروں یا کارگزاریوں سے ہٹ کر زندگی کے اختصار پر مُرتکز ہو سکتی ہے۔ اس سے ہمیں اپنی زندگی برباد کرنے کی بجائے اسے بامقصد طریقے سے گزارنے میں مدد ملتی ہے۔
موت کی بابت آپکا نظریہ کیا ہے؟ کیا آپ نے اپنی زندگی کے اختتام کی بابت اپنے احساسات، اُمیدوں اور اندیشوں کا جائزہ لیا ہے؟
انسان زندگی کی طرح موت کو بھی سمجھنے اور اس کی وضاحت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ صرف ہمارا خالق ہی اس معاملے پر قابلِاعتماد معلومات فراہم کر سکتا ہے۔ ”زندگی کا چشمہ“ اُس کے پاس ہے اور وہ ”موت سے بچنے کی راہیں“ فراہم کرتا ہے۔ (زبور ۳۶:۹؛ ۶۸:۲۰) ممکنہ طور پر یہ بات حیرانی کا باعث بن سکتی ہے کہ خدا کے کلام کی روشنی میں موت کی بابت چند مقبول عقائد کا جائزہ تسلی اور تازگی فراہم کر سکتا ہے۔ یہ ظاہر کریگا کہ موت کا حتمی ہونا ضروری نہیں۔
[صفحہ ۴ پر عبارت]
موت کا امکان بامقصد زندگی بسر کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے