موت کی بابت چند باطل عقائد کا قریبی جائزہ
موت کی بابت چند باطل عقائد کا قریبی جائزہ
پوری تاریخ میں موت کے افسوسناک امکان نے انسان کو پریشان اور خوفزدہ کِیا ہے۔ علاوہازیں، جھوٹے مذہبی نظریات، عام رسومات اور ذاتی اعتقادات نے ملکر موت کے خوف میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ موت کا خوف اسلئے نقصاندہ ہے کہ یہ ایک شخص کی زندگی سے محظوظ ہونے کی صلاحیت کو مفلوج اور زندگی کے مقصد کی بابت اسکے اعتماد کو ختم کر دیتا ہے۔
بڑے بڑے مذاہب موت کی بابت کئی مقبول باطل عقائد کو پھیلانے کے قصوروار ہیں۔ ان میں سے چند ایک کا بائبل سچائی کی روشنی میں جائزہ لیکر دیکھیں کہ آیا موت کی بابت آپکی ذاتی سمجھ واضح ہوتی ہے یا نہیں۔
پہلا باطل عقیدہ: موت زندگی کا قدرتی اختتام ہے۔
کتاب ڈیتھ—دی فائنل سٹیج آف گروتھ بیان کرتی ہے، ”موت . . . زندگی کا جزوِلازم ہے۔“ ایسے تبصرہجات اس عقیدے کی حمایت کرتے ہیں کہ موت تمام نامیاتی اجسام کا فطری اختتام ہے۔ نتیجتاً، ایسے عقیدے نے فنائیت کے فلسفے کو فروغ دیتے ہوئے اکثریت میں موقعپرستانہ روح پیدا کی ہے۔
تاہم کیا موت واقعی زندگی کا قدرتی اختتام ہے؟ تمام محققین ایسا خیال نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر، انسانوں میں بڑھاپے کے اثرات کا مطالعہ کرنے والے ماہرِحیاتیات کیلون ہارلی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ انسان کو ”موت کے مقصد کے ساتھ بنایا گیا ہے۔“ علمِقوتِمدافعت کے ماہر ولیم کلارک نے بیان کِیا: ”موت زندگی کا جزوِلازم نہیں ہے۔“ کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے سایمور بنزر غوروفکر کرکے بیان کرتا ہے کہ ”بڑھاپے کو موزوں طور پر سلسلہوار واقعات کے طور پر بیان کِیا جا سکتا ہے جنہیں ہم بدلنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔“
انسانوں کی بناوٹ کا مطالعہ سائنسدانوں کو حیران کر دیتا ہے۔ وہ دریافت کرتے ہیں کہ ہمیں ایسی لیاقتیں اور صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں جو ۷۰ سے ۸۰ سالہ عرصۂحیات کی ضروریات کے لئے بہت زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر، سائنسدانوں نے معلوم کِیا ہے کہ انسانی دماغ میں یادداشت کی گنجائش بہت وسیع ہے۔ ایک محقق کے اندازے کے مطابق ہمارا دماغ ”دُنیا کی سب سے بڑی لائبریریوں کی کوئی بیس ملین کتابوں جتنی معلومات رکھ سکتا ہے۔“ بعض نیوروسائنٹسٹ کے خیال میں ایک شخص اپنے دورِحیات میں اپنے دماغ کے اوسطاً ۱ فیصد کا صرف ۱۰۰/۱ (۰۰۰۱.) حصہ استعمال کرتا ہے۔ پس یہ سوال موزوں ہے، ’ہمیں اسقدر وسیع دماغ کیوں عطا کِیا گیا ہے جبکہ ہم اپنے اوسط دورِحیات میں اس کا بہت کم حصہ استعمال کرتے ہیں؟‘
موت واقع ہونے پر انسانوں کے غیرفطری ردِعمل پر بھی غور کریں! اکثریت کیلئے بیوی، شوہر یا ایک بچے کی موت زندگی کا سب سے بڑا صدمہ ہو سکتا ہے۔ اکثراوقات کسی عزیز کی موت کے کافی عرصے بعد تک لوگوں کی جذباتی حالت متاثر رہتی ہے۔ یہانتک کہ وہ لوگ بھی جو دعویٰ کرتے ہیں کہ موت انسانوں کیلئے ایک قدرتی عمل ہے اس خیال کو تسلیم کرنا مشکل برٹش میڈیکل جرنل کے بیان کے مطابق ”عام اعتقاد یہ ہے کہ ہر کوئی زیادہ سے زیادہ دیر زندہ رہنا چاہتا ہے۔“
پاتے ہیں کہ انکی اپنی موت کا مطلب تمام امکانات کا اختتام ہوگا۔موت کی بابت انسان کے عام ردِعمل، اُس کی یادداشت اور سیکھنے کی حیرتانگیز صلاحیت اور ابدی زندگی کی باطنی خواہش کے پیشِنظر، کیا یہ واضح نہیں ہے کہ اُسے زندہ رہنے کیلئے بنایا گیا تھا؟ واقعی، خدا نے انسانوں کو موت کے فطری اختتام کی بجائے ہمیشہ کی زندگی کے امکان کیساتھ خلق کِیا ہے۔ غور کریں کہ خدا نے پہلے انسانی جوڑے کو انکے مستقبل کیلئے کیا امکان پیش کِیا تھا: ”پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو۔“ (پیدایش ۱:۲۸) یہ کیا ہی شاندار، دائمی مستقبل ہے!
دوسرا باطل عقیدہ: خدا موت کے ذریعے لوگوں کو اپنے پاس بلا لیتا ہے۔
ایک قریبالمرگ ۲۷ سالہ ماں نے جو اپنے پیچھے تین بچوں کو چھوڑ رہی تھی ایک کیتھولک راہبہ سے کہا: ”مجھے یہ مت بتانا کہ میرے لئے خدا کی یہی مرضی ہے۔ . . . جب کوئی مجھے یہ کہتا ہے تو مجھے سخت چڑ ہوتی ہے۔“ تاہم، بیشتر مذاہب موت کی بابت یہی تعلیم دیتے ہیں کہ خدا لوگوں کو اپنے پاس بلا لیتا ہے۔
کیا خالق اتنا سنگدل ہے کہ وہ یہ جاننے کے باوجود بےحسی سے ہم پر موت لاتا ہے جس سے ہمارے دلوں کو ٹھیس پہنچتی ہے؟ اِسکے برعکس، بائبل کا خدا ایسا نہیں کرتا۔ پہلا یوحنا ۴:۸ کے مطابق، ”خدا محبت ہے۔“ غور کریں کہ یہ نہیں کہا گیا کہ خدا محبت رکھتا ہے یا خدا محبت ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بیان کِیا گیا ہے کہ خدا محبت ہے۔ خدا کی محبت اسقدر گہری، پاک اور کامل ہے اور اُسکی شخصیت اور کاموں میں اسقدر سرایت کرتی ہے کہ خدا کا بیان موزوں طور پر تجسمِمحبت کے طور پر کِیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگوں کو موت کے ذریعے اپنے پاس بلا لینے والا خدا نہیں ہے۔
جھوٹے مذہب نے بہتیروں کو مُردوں کی جگہ اور حالت کی بابت پریشان کر رکھا ہے۔ بہشت، دوزخ، اعراف اور برزخ—اِس طرح کی دیگر جگہیں ناقابلِفہم ہونے کیساتھ ساتھ مکمل طور پر خوفزدہ کر دینے والی ہیں۔ اس کے برعکس، بائبل بیان کرتی ہے کہ مُردے کچھ بھی نہیں جانتے اور اُنکی حالت ایک خوابیدہ شخص کی مانند ہے۔ (واعظ ۹:۵، ۱۰؛ یوحنا ۱۱:۱۱-۱۴) جس طرح ہم کسی شخص کو گہری نیند سوتا ہوا دیکھ کر پریشان نہیں ہوتے اسی طرح ہمیں اس بات سے فکرمند نہیں ہونا چاہئے کہ موت کے بعد ہمارے ساتھ کیا واقع ہوگا۔ یسوع نے ایک ایسے وقت کا ذکر کِیا جب ”جتنے قبروں میں ہیں“ فردوسی زمین پر نئی زندگی کیلئے ”نکلینگے۔“—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹؛ لوقا ۲۳:۴۳۔
تیسرا باطل عقیدہ: خدا چھوٹے بچوں کو فرشتے بنانے کے لئے بلا لیتا ہے۔
مُہلک بیماریوں میں مبتلا اشخاص پر تحقیق کرنے والی الیزبتھ کیوبلر-روز ایک اَور نظریے کا حوالہ دیتی ہے جو مذہبی لوگوں میں عام ہے۔ ایک سچا واقعہ بیان کرتے ہوئے اُس نے کہا، ”چھوٹے بھائی کی موت پر ایک بچی سے کہی گئی یہ بات کتنی غیردانشمندانہ تھی کہ خدا چھوٹے لڑکوں سے اسقدر پیار کرتا ہے کہ وہ جونی کو آسمان پر لے گیا ہے۔“ ایسا بیان خدا کی بابت ایک منفی رُجحان پیدا کرتا ہے اور اُسکی شخصیت اور برتاؤ کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ ڈاکٹر کیوبلر-روز نے مزید بیان کِیا: ”جب یہ بچی ایک عورت بنی تو اُسکے دل میں خدا کیلئے غصہ ختم نہیں ہوا تھا جسکی وجہ سے تین عشروں بعد اپنے چھوٹے بیٹے کی موت پر اسکی مایوسی ایک نفسیاتی مرض بن گئی۔“
خدا ایک فرشتہ حاصل کرنے کیلئے ایک بچے کی جان کیوں لیگا—گویا اُسکے والدین سے زیادہ خدا کو اُس بچے کی ضرورت ہے؟ اگر خدا کا بچوں کو چھینا سچ ہوتا تو کیا اُسے ایک غیرمشفق، خودغرض خالق نہیں بنا دیتا؟ ایسے نظریے کے برعکس، بائبل کہتی ہے: ”محبت خدا کی طرف سے ہے۔“ (۱-یوحنا ۴:۷) کیا محبت کا خدا ایسی تکلیف پیدا کر سکتا ہے جسے کوئی بھی مہذب شخص معقول خیال نہیں کریگا؟
واعظ ۹:۱۱ میں درج ہے: ”اُن سب کے لئے وقت اور حادثہ ہے۔“ نیز زبور ۵۱:۵ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم سب اپنے استقرارِحمل کے وقت سے ناکامل اور گنہگار ہیں اور مختلف وجوہات کی بِنا پر اب موت سب آدمیوں کا انجام ہے۔ بعضاوقات موت پیدائش سے پہلے واقع ہوتی ہے اور نتیجتاً ایک مُردہ بچہ جنم لیتا ہے۔ دیگر حالات میں بچے المناک واقعات یا حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خدا ایسے المناک واقعات کا ذمہدار نہیں۔
پس بچے کیوں مرتے ہیں؟ بائبل کے جواب کا کچھ حصہچوتھا باطل عقیدہ: بعض لوگ بعدازموت اذیت اُٹھاتے ہیں۔
بیشتر مذاہب بدکاروں کے آتشی دوزخ میں جانے اور ابدی عذاب میں مبتلا رہنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ کیا یہ تعلیم معقول اور صحیفائی ہے؟ انسانی عرصۂحیات ۷۰ یا ۸۰ سالوں پر محیط ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ساری زندگی بھی سخت بدکاری کرتا رہا ہو توبھی کیا ابدی اذیت جائز سزا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ایک شخص کو مختصر سی زندگی میں کئے جانے والے گناہوں کے عوض ابدی سزا دینا بڑی ناانصافی ہوگی۔
صرف خدا ہی یہ آشکارا کر سکتا ہے کہ بعدازموت لوگوں کیساتھ کیا واقع ہوتا ہے اور اُس نے اپنے کلام بائبل میں ایسا کِیا ہے۔ اس سلسلے میں بائبل بیان کرتی ہے: ”جس طرح [حیوان] مرتا ہے اُسی طرح [بنیآدم] مرتا ہے۔ ہاں سب میں ایک ہی سانس ہے۔ . . . سب کے سب ایک ہی جگہ جاتے ہیں۔ سب کے سب خاک سے ہیں اور سب کے سب پھر خاک سے جا ملتے ہیں۔“ (واعظ ۳:۱۹، ۲۰) یہاں پر آتشی دوزخ کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ انسان مرنے پر خاک—معدومیت کی حالت—میں چلے جاتے ہیں۔
اذیت کا تجربہ کرنے کیلئے ایک شخص کا شعور میں ہونا ضروری ہے۔ کیا مُردے شعوری حالت میں ہوتے ہیں؟ ایک بار پھر بائبل جواب دیتی ہے: ”زندہ جانتے ہیں کہ وہ مرینگے پر مُردے کچھ بھی نہیں جانتے اور اُنکے لئے اَور کچھ اجر نہیں کیونکہ اُنکی یاد جاتی رہی ہے۔“ (واعظ ۹:۵) مُردے ”کچھ بھی نہیں جانتے“ لہٰذا اُن کیلئے کسی جگہ پر تکلیف کا تجربہ کرنا ناممکن ہے۔
پانچواں باطل عقیدہ: موت کا مطلب ہمارے وجود کا دائمی اختتام ہے۔
موت کے بعد ہمارا وجود ختم ہو جاتا ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ اس کیساتھ آئندہ زندگی کے تمام امکانات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ ایماندار شخص ایوب جانتا تھا کہ موت کے بعد وہ قبر، پاتال میں جائیگا۔ لیکن خدا کے حضور اُس کی دُعا پر غور کریں: ”کاشکہ تُو مجھے پاتال میں چھپا دے اور ایوب ۱۴:۱۳-۱۵۔
جب تک تیرا قہر ٹل نہ جائے مجھے پوشیدہ رکھے اور کوئی معین وقت میرے لئے ٹھہرائے اور مجھے یاد کرے! اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟ . . . تُو مجھے پکارتا اور مَیں تجھے جواب دیتا۔“—ایوب ایمان رکھتا تھا کہ اگر وہ موت تک وفادار رہے تو خدا اُسے یاد رکھیگا اور وقت آنے پر اُسے زندہ کریگا۔ قدیم وقتوں میں خدا کے تمام خادم یہ ایمان رکھتے تھے۔ یسوع نے خود اس اُمید کی تصدیق کرتے ہوئے ظاہر کِیا کہ خدا اُسے مُردوں کو زندہ کرنے کیلئے استعمال کریگا۔ مسیح کے اپنے الفاظ اس بات کی یقیندہانی کراتے ہیں: ”اس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس [یسوع] کی آواز سنکر نکلینگے۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔“—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹۔
بہت جلد خدا تمام بدکاری کو دُور کرکے آسمانی حکمرانی کے تحت ایک نئی دُنیا قائم کریگا۔ (زبور ۳۷:۱۰، ۱۱؛ دانیایل ۲:۴۴؛ مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶) اسکے نتیجے میں پوری زمین خدا کی خدمت کرنے والوں سے آباد ایک فردوس بن جائیگی۔ ہم بائبل میں پڑھتے ہیں: ”مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُنکے ساتھ سکونت کریگا اور وہ اُسکے لوگ ہونگے اور خدا آپ اُنکے ساتھ رہیگا اور اُنکا خدا ہوگا۔ اور وہ اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“—مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
خوف سے آزادی
اُمیدِقیامت کا علم اور اس فراہمی کے ماخذ کا علم آپ کی تسلی کا باعث بن سکتا ہے۔ یسوع نے وعدہ کِیا: ”تم سچائی سے واقف ہوگے اور سچائی تم کو آزاد کریگی۔“ (یوحنا ۸:۳۲) اس میں موت کے خوف سے آزادی شامل ہے۔ درحقیقت صرف یہوواہ ہی بڑھاپے کے عمل اور موت کو بدل کر ہمیں ہمیشہ کی زندگی عطا کر سکتا ہے۔ کیا آپ خدا کے وعدوں پر ایمان رکھ سکتے ہیں؟ جیہاں، آپ ایسا کر سکتے ہیں اس لئے کہ خدا کا کلام ہمیشہ سچا ثابت ہوتا ہے۔ (یسعیاہ ۵۵:۱۱) ہم نسلِانسانی کے لئے خدا کے مقاصد کی بابت اَور زیادہ سیکھنے میں آپ کی حوصلہافزائی کرتے ہیں۔ یہوواہ کے گواہ خوشی سے آپ کی مدد کریں گے۔
[صفحہ ۶ پر عبارت]
موت کا خوف کسی شخص کی زندگی سے محظوظ ہونے کی صلاحیت کو مفلوج کر سکتا ہے
[صفحہ ۷ پر چارٹ]
موت کی بابت بعض باطل عقائد صحائف کیا بیان کرتے ہیں؟
● موت زندگی کا قدرتی اختتام ہے پیدایش ۱:۲۸؛ ۲:۱۷؛ رومیوں ۵:۱۲
● خدا موت کے ذریعے لوگوں کو اپنے پاس بلا لیتا ہے ایوب ۳۴:۱۵؛ زبور ۳۷:۱۱، ۲۹؛ ۱۱۵:۱۶
● خدا چھوٹے بچوں کو فرشتے بنانے کیلئے اُٹھا لیتا ہے زبور ۵۱:۵؛ ۱۰۴:۱، ۴؛ عبرانیوں ۱:۷، ۱۴
● بعض لوگ بعدازموت اذیت اُٹھاتے ہیں زبور ۱۴۶:۴؛ واعظ ۹:۵، ۱۰؛ رومیوں ۶:۲۳
● موت کا مطلب ہمارے وجود کا دائمی اختتام ہے ایوب ۱۴:۱۴، ۱۵؛ یوحنا ۳:۱۶؛ ۱۷:۳؛ اعمال
[صفحہ ۸ پر چارٹ]
موت کی بابت سچائی کو جاننا ہمیں خوف سے آزاد کرتا ہے
[صفحہ ۵ پر تصویر کا حوالہ]
The Doré Illustrations For Dante’s Divine/Barrators—Giampolo
.Dover Publications Inc/Comedy