مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کون قصوروار ہے—‏آپ یا آپکے توارثی عناصر؟‏

کون قصوروار ہے—‏آپ یا آپکے توارثی عناصر؟‏

کون قصوروار ہے—‏آپ یا آپکے توارثی عناصر؟‏

سائنسدان الکحل کے غلط استعمال،‏ ہم‌جنس‌پسندی،‏ آزاد جنسی تعلقات اور تشدد جیسے چال‌چلن کے علاوہ موت کی وجوہات تلاش کرنے کی بھی سخت کوشش کر رہے ہیں۔‏ کیا یہ جاننا تسلی کا باعث نہیں ہوگا کہ اپنے افعال کے ہم نہیں بلکہ ہمارے توارثی عناصر ذمہ‌دار ہیں؟‏ اپنی غلطیوں کا الزام کسی دوسرے شخص یا چیز پر لگانا انسانی فطرت ہے۔‏

اگر جینز قصوروار ہیں تو سائنسدان جنیٹک انجینیئرنگ کے ذریعے نامناسب خصائل کو دُور کرکے انہیں بدلنے کی اُمید پیش کرتے ہیں۔‏ پوری انسانی لونیت کی کارکردگی کی بابت مکمل معلومات حاصل کرنے کے سلسلے میں حالیہ کامیابی نے ایسی اُمیدوں کو ایک نئی تحریک دی ہے۔‏

تاہم،‏ یہ امکان اس خیال پر مبنی ہے کہ ہمارے تمام گناہوں اور غلطیوں کا ذمہ‌دار ہمارا توارثی نظام ہے جو ہمیں ورثے میں ملا ہے۔‏ کیا سائنسی محققین نے ہمارے جینز کے خلاف ٹھوس ثبوت تلاش کر لیا ہے؟‏ صاف ظاہر ہے کہ اسکا جواب مستقبل کے علاوہ اپنی ذات کی بابت ہمارے نظریے پر گہرا اثر ڈالیگا۔‏ تاہم ثبوت کا جائزہ لینے سے پہلے،‏ نسلِ‌انسانی کی ابتدا کی بابت جاننا اس سلسلے میں مددگار ثابت ہوگا۔‏

اسکی شروعات کیسے ہوئی

بیشتر لوگ باغِ‌عدن میں پہلے انسانی جوڑے آدم اور حوا کے گناہ کی بابت جانتے ہیں یا کم‌ازکم انہوں نے اس کی بابت سنا ضرور ہے۔‏ کیا اُنہیں شروع ہی سے جینز کے کسی جبلّی نقص یعنی اس قسم کی خامی کیساتھ بنایا گیا تھا جس نے انہیں گناہ اور نافرمانی کی طرف مائل کر دیا تھا؟‏

تمام کاموں میں کامل انکے خالق یہوواہ خدا نے آخری زمینی مخلوق خلق کرنے کے بعد بیان کِیا،‏ ”‏بہت اچھا ہے۔‏“‏ (‏پیدایش ۱:‏۳۱؛‏ استثنا ۳۲:‏۴‏)‏ اپنے کام سے مطمئن ہونے کے مزید ثبوت کے طور پر،‏ اُس نے پہلے انسانی جوڑے کو برکت دی اور پھلنےپھولنے،‏ زمین کو انسانوں سے معمور کرنے اور اپنی زمینی خلائق کی دیکھ‌بھال کرنے کی ہدایت دی—‏اپنے ہاتھوں کے کام سے غیرمطمئن شخص شاید ہی ایسا کرتا۔‏—‏پیدایش ۱:‏۲۸‏۔‏

پہلے انسانی جوڑے کی تخلیق کی بابت بائبل ہمیں بتاتی ہے:‏ ”‏خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔‏ خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کِیا۔‏ نروناری اُن کو پیدا کِیا۔‏“‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۷‏)‏ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ انسان کی شکل‌وصورت خدا جیسی ہونی تھی کیونکہ ”‏خدا روح ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۴:‏۲۴‏)‏ اسکی بجائے اسکا مطلب ہے کہ انسانی مخلوقات کو اخلاقی حس اور ضمیر کے علاوہ دیگر خدائی خوبیاں عطا کی گئی تھیں۔‏ (‏رومیوں ۲:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ وہ آزاد مرضی کے مالک بھی تھے اور معاملے کو جانچنے اور اپنے عمل کی بابت ذاتی فیصلہ کرنے کے قابل تھے۔‏

تاہم ہمارے پہلے والدین کو راہنمائی کے بغیر زندگی بسر نہیں کرنی تھی۔‏ اس کے برعکس،‏ انہیں غلط‌کاری کے نتائج کی بابت خبردار کِیا گیا تھا۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۷‏)‏ لہٰذا ثبوت ظاہر کرتا ہے کہ اخلاقی فیصلے کا سامنا کرتے وقت آدم نے کارآمد اور فائدہ‌مند نظر آنے والی روش کا انتخاب کِیا۔‏ وہ خالق کے ساتھ اپنے رشتے یا اپنے عمل کے دائمی اثرات پر غور کرنے کی بجائے اپنی بیوی کی غلط‌کاری میں شریک ہوا۔‏ بعدازاں اُس نے یہ کہتے ہوئے یہوواہ کو قصوروار ٹھہرانے کی کوشش کی کہ جو بیوی اُس نے اسے دی تھی اُس نے اُسے بہکایا تھا۔‏—‏پیدایش ۳:‏۶،‏ ۱۲؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۲:‏۱۴‏۔‏

آدم اور حوا کے گناہ کے سلسلے میں خدا کا ردِعمل بصیرت فراہم کرتا ہے۔‏ اُس نے اُنکے جینز کی ’‏ساخت میں خامی‘‏ کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔‏ اسکی بجائے اُس نے انکے اعمال کے نتائج کی مطابقت میں کارروائی کی جسکے نتیجے میں آخرکار انکی موت واقع ہوئی۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ یہ ابتدائی تاریخ انسانی چال‌چلن کی ماہیت پر کافی روشنی ڈالتی ہے۔‏ *

حیاتیات کے خلاف ثبوت

کافی عرصے سے سائنسدانوں نے انسانی امراض کا علاج کرنے اور چال‌چلن میں بہتری لانے اور انکی توارثی وجوہات دریافت کرنے کا کٹھن کام انجام دینے کی کوشش کی ہے۔‏ محققین کے چھ گروہوں کی دس سال کی محنت کے بعد،‏ ہنٹ‌انگٹن کی دریافت‌کردہ بیماری کا سبب بننے والے جین کی شناخت کر لی گئی تاہم محققین پتہ نہیں لگا پائے کہ یہ جین اس بیماری کو کیسے پھیلاتے ہیں۔‏ تاہم سائنٹیفک امریکن نے اس تحقیق کی رپورٹ دیتے ہوئے ہارورڈ ایون بالابان کا یہ بیان شائع کِیا کہ ”‏خراب چال‌چلن کا سبب بننے والی جینز کی دریافت کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل“‏ ہوگا۔‏

درحقیقت،‏ خاص جینز کو انسانی چال‌چلن سے منسلک کرنے کی کوشش کرنے والی تحقیق کامیاب ثابت نہیں ہوئی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ سائیکولوجی ٹوڈے میں مایوسی کی جینیاتی وجوہات تلاش کرنے کی کوششوں پر ایک رپورٹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏سنگین دماغی امراض کی روک‌تھام کے سلسلے میں حاصل‌کردہ تمام معلومات واضح کرتی ہیں کہ انکی وجوہات جینیات تک محدود نہیں۔‏“‏ رپورٹ ایک مثال پیش کرتی ہے:‏ ”‏امریکہ میں ۱۹۰۵ سے پہلے پیدا ہونے والے لوگوں میں ۷۵ سال کی عمر تک مایوسی کا شکار ہونے کی شرح ۱ فیصد تھی۔‏ نصف صدی بعد پیدا ہونے والے امریکیوں میں ۶ فیصد ۲۴ سال کی عمر میں مایوسی کا شکار تھے!‏“‏ پس یہ نتیجہ اخذ کِیا جاتا ہے کہ صرف بیرونی یا معاشرتی عناصر ہی اتنے کم عرصے میں ایسی حیرت‌انگیز تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔‏

اس طرح کے دیگر بیشمار تجزیوں سے ہمیں کیا پتہ چلتا ہے؟‏ اگرچہ ہماری شخصیات کو تشکیل دینے میں جینز اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں توبھی دیگر اثرات بھی واضح طور پر اہمیت کے حامل ہیں۔‏ اس سلسلے میں بنیادی عنصر ہمارا ماحول ہے جس میں زمانۂ‌جدید میں انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔‏ آجکل کے نوجوانوں میں مقبولِ‌عام تفریح کی بابت کتاب بوائز وِل بی بوائز بیان کرتی ہے کہ جب بچے ”‏ایسے لاتعداد ٹی‌وی پروگرام اور فلمیں دیکھ کر جوان ہوتے ہیں جن میں لوگوں کو تشدد اور گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے،‏ چھرا گھونپ کر مار دیا جاتا ہے،‏ ان کی آنتیں نکالی جاتی ہیں،‏ ان کے جسم کے اعضا کاٹ ڈالے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ جب بچے زنابالجبر،‏ خودکُشی،‏ منشیات،‏ الکحل اور تعصّب کو فروغ دینے والی موسیقی بھی سنتے ہیں تو ان میں اخلاقی اُصولوں کا جڑ پکڑنا ناممکن ہوتا ہے۔‏“‏

اس میں کوئی شک نہیں کہ ’‏دُنیا کے سردار،‏‘‏ شیطان نے انسان کی گھٹیا خواہشات کی تسکین پر زور دینے والے ماحول کو ڈھالا ہے۔‏ نیز،‏ کون اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ ایسے ماحول کا پُرزور اثر ہم سب کو متاثر کرتا ہے؟‏—‏یوحنا ۱۲:‏۳۱؛‏ افسیوں ۶:‏۱۲؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹،‏ ۱۲‏۔‏

نسلِ‌انسانی کی تکلیف کی بنیادی وجہ

ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں نسلِ‌انسانی کے مسائل کی شروعات پہلے انسانی جوڑے کے گناہ سے ہوئی تھی۔‏ نتیجہ؟‏ اگرچہ آدم کی آنے والی نسلیں اُس کے گناہ کی ذمہ‌دار نہیں تھیں توبھی وہ سب ورثے میں ملنے والے گناہ،‏ ناکاملیت اور موت کی حالت میں پیدا ہوتی ہیں۔‏ بائبل واضح کرتی ہے:‏ ”‏پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئےکہ سب نے گُناہ کِیا۔‏“‏—‏رومیوں ۵:‏۱۲‏۔‏

بیشک،‏ انسان کی ناکاملیت اُسے مشکلات میں ڈالتی ہے۔‏ تاہم یہ اُسے تمام اخلاقی ذمہ‌داری سے آزاد نہیں کر دیتی۔‏ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ زندگی کے لئے یہوواہ کی فراہمی پر ایمان رکھنے اور اُس کے معیار کی مطابقت میں زندگی بسر کرنے والے لوگ اُس کی مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔‏ یہوواہ نے اپنے فضل سے نسلِ‌انسانی کی نجات،‏ گویا آدم کے ہاتھوں کھوئی ہوئی چیز کو دوبارہ خریدنے کا ایک مشفقانہ بندوبست کِیا ہے۔‏ یہ بندوبست اُس کے کامل بیٹے یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی ہے جس نے بیان کِیا:‏ ”‏خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔‏“‏—‏یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

پولس رسول نے اس فراہمی کے لئے گہری قدردانی کا اظہار کِیا۔‏ اُس نے بیان کِیا:‏ ”‏ہائے مَیں کیسا کمبخت آدمی ہوں!‏ اس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائیگا؟‏ اپنے خداوند یسوؔع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا شکر کرتا ہوں۔‏“‏ (‏رومیوں ۷:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ پولس جانتا تھا کہ اگر کسی کمزوری کے باعث وہ گناہ کر بیٹھے تو وہ یسوع مسیح کے فدیے کی بنیاد پر خدا سے معافی حاصل کر سکتا ہے۔‏ *

پہلی صدی کی طرح آجکل بہتیرے لوگ جو پہلے خراب طرزِزندگی گزارنے کی وجہ سے نااُمیدی کی حالت میں تھے اب بائبل سچائی کا صحیح علم حاصل کرکے ضروری تبدیلیاں لاتے ہوئے خدا کی برکت حاصل کر رہے ہیں۔‏ جو تبدیلیاں وہ لائے ہیں وہ آسان نہیں تھیں اور بہتیرے اب بھی نقصاندہ خصائل سے نبردآزما ہیں۔‏ تاہم خدا کی مدد سے وہ راستی برقرار رکھنے اور اُسکی خدمت سے خوشی حاصل کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏ (‏فلپیوں ۴:‏۱۳‏)‏ خدا کو خوش کرنے کیلئے اپنی زندگی میں بڑی تبدیلیاں لانے والے ایک شخص کی مثال پر غور کریں۔‏

ایک حوصلہ‌افزا تجربہ

‏”‏جب مَیں ایک نوجوان کے طور پر ایک بورڈنگ سکول میں تھا تو مَیں خود کو ہم‌جنس‌پسند خیال کئے بغیر ہم‌جنس‌پسندی کے کاموں میں حصہ لینے لگا تھا۔‏ میرے والدین کی طلاق ہو چکی تھی اور مَیں انکی شفقت چاہتا تھا جس سے مجھے محروم کر دیا گیا تھا۔‏ فارغ‌التحصیل ہونے کے بعد مَیں نے لازمی فوجی خدمت انجام دی۔‏ میری بیرک کے قریب ہم‌جنس‌پسندوں کا ایک گروہ رہتا تھا۔‏ مَیں اُنکی طرزِزندگی پر رشک کرتا تھا لہٰذا،‏ مَیں اُن کیساتھ رفاقت رکھنے لگا۔‏ ان کیساتھ ایک سال کی رفاقت کے بعد مَیں خود کو ہم‌جنس‌پسند خیال کرنے لگا۔‏ مَیں نے سوچا،‏ ’‏مَیں واقعی ہم‌جنس‌پسند ہوں اور مَیں اپنی حالت بدل نہیں سکتا۔‏‘‏

‏”‏مَیں نے انکی زبان سیکھنا شروع کر دی اور ہم‌جنس‌پسند کلبوں میں جانے لگا جہاں منشیات اور الکحل کھلے عام دستیاب تھے۔‏ بظاہر سب کچھ اچھا اور دلکش لگنے کے باوجود بھی حقیقت میں اس سے مجھے کراہیت تھی۔‏ میرا دل کہتا تھا کہ ایسے تعلقات غیرفطری ہیں اور انکا مستقبل تاریک ہے۔‏

‏”‏مجھے ایک چھوٹے سے قصبے میں یہوواہ کے گواہوں کا ایک کنگڈم ہال نظر آیا جہاں اجلاس ہو رہا تھا۔‏ مَیں نے اندر جاکر آنے والی فردوسی حالتوں کی بابت تقریر سنی۔‏ بعدازاں مَیں چند گواہوں سے ملا اور مجھے اسمبلی پر حاضر ہونے کی دعوت دی گئی۔‏ جب مَیں وہاں گیا تو پُرمسرت خاندانوں کو ایک ساتھ پرستش کرتے دیکھ کر مَیں حیران رہ گیا۔‏ مَیں نے گواہوں کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کر دیا۔‏

‏”‏اگرچہ مجھے سخت جدوجہد کرنی پڑی توبھی مَیں نے بائبل سے سیکھی ہوئی باتوں کا اطلاق کرنا شروع کر دیا۔‏ مَیں اپنے تمام ناپاک کاموں سے چھٹکارا پانے کے قابل ہوا۔‏ مَیں نے ۱۴ ماہ مطالعہ کرنے کے بعد یہوواہ کیلئے اپنی زندگی مخصوص کی اور بپتسمہ لیا۔‏ میری زندگی میں پہلی بار مجھے حقیقی دوست ملے تھے۔‏ مَیں بائبل سچائی سیکھنے میں دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہوا ہوں اور اب مسیحی کلیسیا میں ایک خادم کے طور پر خدمت کر رہا ہوں۔‏ یہوواہ نے مجھے واقعی برکت بخشی ہے۔‏“‏

ہم ذمہ‌دار ہیں

اپنے غلط چال‌چلن کی پوری ذمہ‌داری اپنے جینز پر ڈالنا مسئلے کا حل نہیں۔‏ سائیکولوجی ٹوڈے بیان کرتا ہے کہ اپنے مسائل سلجھانے یا ان سے نپٹنے میں مدد دینے کی بجائے ایسا کرنا ”‏ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم اپنے بہتیرے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‏ نتیجتاً مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتے ہیں۔‏“‏

یہ بات سچ ہے کہ ہمیں پُرزور ناموافق اثرات سے نپٹنا پڑتا ہے جن میں ہمارے اپنے گنہگارانہ میلان اور خدا کی فرمانبرداری سے روکنے میں شیطان کی کوششیں شامل ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے جینز ہم پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہو سکتے ہیں۔‏ لیکن ہم یقیناً بےبس نہیں ہیں۔‏ سچے مسیحیوں کے طاقتور ساتھی—‏یہوواہ،‏ یسوع مسیح،‏ خدا کی روح‌القدس،‏ اُسکا کلام بائبل اور مسیحی کلیسیا اُنکے ساتھ ہیں۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۱،‏ ۱۲؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱‏۔‏

موسیٰ نے ملکِ‌موعود میں داخل ہونے سے پہلے اسرائیلی قوم کو خدا کے حضور اُنکی ذمہ‌داری یاد دلاتے ہوئے بیان کِیا:‏ ”‏مَیں نے زندگی اور موت کو اور برکت اور لعنت کو تیرے آگے رکھا ہے پس تُو زندگی کو اختیار کر کہ تُوبھی جیتا رہے اور تیری اولاد بھی۔‏ تاکہ تُو [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے محبت رکھے اور اُسکی بات سنے اور اُسی سے لپٹا رہے۔‏“‏ (‏استثنا ۳۰:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اسی طرح آجکل ہر ذمہ‌دار شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ خدا کی خدمت کرنے اور اُسکے تقاضوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں ایک ذاتی فیصلہ کرے۔‏ انتخاب آپکا ہے۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۷،‏ ۸‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 10 ستمبر ۲۲،‏ ۱۹۹۶ کے اویک!‏ کے صفحہ ۳-‏۷ کا مطالعہ کریں۔‏

^ پیراگراف 19 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کے صفحہ ۶۲-‏۶۹ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویریں]‏

کیا آدم اور حوا میں گناہ کا میلان انکے جینز میں کسی نقص کی وجہ سے تھا؟‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویریں]‏

کیا ہر شخص کو اپنے فیصلوں کیلئے ذمہ‌داری قبول کرنی چاہئے؟‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Drug user: Godo-Foto

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

انسانی چال‌چلن کیلئے جینیاتی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش ناکام رہی ہے

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

بائبل کی باتوں کا اطلاق کرنے سے خلوصدل اشخاص کی تبدیلی لانے میں مدد ہوتی ہے