مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

رومی تاریخ سے ایک سبق

رومی تاریخ سے ایک سبق

رومی تاریخ سے ایک سبق

‏”‏اگر مَیں انسان کی طرح افسسؔ میں درندوں سے لڑا۔‏“‏ بعض لوگوں کے خیال میں ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۲ کے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ پولس رسول کو رومی تماشاگاہ میں لڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔‏ شاید ایسی ہی بات ہو لیکن اُس زمانہ میں تماشاگاہوں میں موت تک جاری رکھے جانے والے مقابلے عام تھے۔‏ تاریخ ہمیں تماشاگاہ اور اس میں ہونے والے واقعات کی بابت کیا بتاتی ہے؟‏

مسیحیوں کے طور پر،‏ ہم اپنے ضمیر کو یہوواہ کی سوچ کی مطابقت میں لانا چاہتے ہیں تاکہ جدید تفریح کی بابت فیصلے کرنے میں ہماری مدد ہو سکے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اس آیت میں عیاں تشدد کی بابت خدا کے نقطۂ‌نظر پر غور کریں:‏ ”‏تُندخو آدمی پر حسد نہ کرنا اور اُسکی کسی روش کو اختیار نہ کرنا۔‏“‏ (‏امثال ۳:‏۳۱‏)‏ یہ مشورت رومی تیغ‌زنی کے مقابلوں کے شوقین لوگوں کے درمیان رہنے والے ابتدائی مسیحیوں کی راہنمائی کیلئے دستیاب تھی۔‏ آئیے ایسے مواقع پر رونما ہونے والے واقعات پر غور کرتے ہوئے دیکھیں کہ آجکل کے مسیحیوں کیلئے اس میں کونسا سبق واضح ہے۔‏

دو تلوار بردار ایک رومی تماشاگاہ میں روبرو کھڑے ہیں۔‏ ڈھال پر تلوار کی پہلی گونج کیساتھ ہیجان‌خیز بھیڑ بلند آواز میں اپنے پسندیدہ کھلاڑی کی حوصلہ‌افزائی کرنا شروع کر دیتی ہے۔‏ لڑائی جان پر کھیلنے کا تقاضا کرتی ہے۔‏ بہت جلد زخمی حالت اور لڑائی جاری رکھنے میں ناکام مخالف کھلاڑی ہار ماننے اور رحم کی درخواست کرنے کی علامت میں ہتھیار ڈال کر گھٹنوں کے بِل گِرتا ہے۔‏ شور شدت پکڑتا ہے۔‏ بھیڑ کے کچھ لوگ اس کیلئے رحم اور دیگر اُسکی موت کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔‏ سب کی نظریں بادشاہ پر جمی ہیں۔‏ وہ بھیڑ کی خواہشات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہارے ہوئے جنگجو شخص کو آزادی یا اپنے ہاتھ کے ایک اشارے سے موت کا حکم دے سکتا ہے۔‏

رومی بڑی گرمجوشی سے تیغ‌زنی کے تماشے دیکھا کرتے تھے۔‏ آپکو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ایسی لڑائیوں کی ابتدا اہم شخصیات کے جنازوں سے ہوئی تھی۔‏ یہ یقین کِیا جاتا ہے کہ ان مقابلوں کی شروعات اوزکن یا سیم‌نائٹ لوگوں میں انسانی قربانی کی رسم سے ہوئی جنکا علاقہ اب وسطی اٹلی کہلاتا ہے۔‏ قربانیوں کا مقصد مُردوں کی روحوں کو مطمئن کرنا تھا۔‏ ایسے مقابلے کو میونس یا ”‏بخشش“‏ (‏جمع،‏ منیرا‏)‏ کہا جاتا تھا۔‏ روم میں ۲۶۴ ق.‏س.‏ع.‏ کے سب سے پہلے ریکارڈ کئے گئے کھیل میں شمشیرزنوں کے تین جوڑوں نے بیلوں کی منڈی میں مقابلہ کِیا تھا۔‏ مارکس ایمیلی‌ئیس لپائڈس کے جنازے پر ۲۲ لڑائیاں لڑی گئیں۔‏ پبلیئس لس‌نیئس کے جنازے پر ۶۰ مقابلے ہوئے۔‏ جولیس سیزر نے ۶۵ ق.‏س.‏ع.‏ میں تماشاگاہ میں ۳۲۰ جوڑوں کا مقابلہ کروایا۔‏

مؤرخ کیتھ ہاپ‌کنز بیان کرتا ہے،‏ ”‏مشہور شخصیات کے جنازوں کو سیاسی مفادات کو فروغ دینے کے مواقع خیال کِیا جاتا تھا اور انتخابات میں حصہ لینے والے شہریوں کو شہرت حاصل ہونے کی وجہ سے .‏ .‏ .‏ انہیں سیاسی رنگ دیا جاتا تھا۔‏ واقعی،‏ اقتدار کے خواہشمند ممتاز شخصیات کے درمیان سیاسی مقابلہ‌بازی نے بنیادی طور پر تیغ‌زنی کے مقابلوں کی شان‌وشوکت میں اضافہ کِیا۔‏“‏ اوگوستُس کی حکمرانی (‏۲۷ ق.‏س.‏ع.‏ سے ۱۴ س.‏ع.‏)‏ میں منیرا نے—‏عوام کی تفریح کے لئے—‏سیاسی منصب کو فروغ دینے کیلئے ریاست کے مالدار افسران کی طرف سے پیش کئے جانے والے فراخدلانہ تحائف کی صورت اختیار کر لی تھی۔‏

شرکاء اور انکی تربیت

آپ پوچھ سکتے ہیں،‏ ’‏شمشیرزن کون تھے؟‏‘‏ وہ غلام،‏ موت کی سزا پانے والے مجرم،‏ جنگی قیدی یا ذاتی خوشی یا دولت‌وشہرت کی اُمید میں لڑنے والے آزاد شہری تھے۔‏ ان سب کا تربیتی سکول قیدخانہ کی مانند تھا۔‏ کتاب جوکی ای سپیٹاکولی ‏(‏کھیل اور تماشے)‏ بیان کرتی ہے کہ شمشیرزنوں کی تربیت ”‏گارڈز کی کڑی نگرانی اور سخت نظم‌وضبط،‏ بےلوچ اُصول اور بالخصوص تکلیف‌دہ سزا کے تحت ہوتی تھی۔‏ .‏ .‏ .‏ یہ سلوک اکثر خودکشی،‏ فساد اور بغاوت کا باعث بنتا تھا۔‏“‏ روم کا سب سے بڑا شمشیرزن سکول کم‌ازکم ایک ہزار اشخاص کی رہائش کی گنجائش رکھتا تھا۔‏ ہر آدمی کا ایک منفرد انداز تھا۔‏ بعض بکتر،‏ ڈھال اور تلوار کے ساتھ جبکہ دیگر جال اور سہ‌شاخہ نیزے کے ساتھ لڑا کرتے تھے۔‏ دوسروں کو ایک اَور قسم کے مشہور تماشے،‏ ہنٹ (‏شکار)‏ میں جنگلی جانوروں کا مقابلہ کرنے کیلئے تربیت دی جاتی تھی۔‏ شاید پولس ایسے ہی کسی واقعہ کا ذکر کر رہا تھا؟‏

تماشے کے منتظمین کاروباری تنظیم‌کاروں سے مدد لے سکتے تھے جو ۱۷ یا ۱۸ سال کی عمر کے نوجوانوں کو شمشیرزن بنانے کیلئے بھرتی کرتے اور تربیت دیتے تھے۔‏ انسانوں کی خریدوفروخت بہت نفع‌بخش کاروبار تھا۔‏ ٹریجن نے فوجی فتح کے جشن میں منعقد ہونے والے ایک شاندار تماشے میں ۰۰۰،‏۱۰ شمشیرزن اور ۰۰۰،‏۱۱ جانور پیش کئے تھے۔‏

تماشاگاہ میں ایک دن

تماشاگاہ میں صبح کا وقت شکار کے لئے مختص تھا۔‏ ہر قسم کے جنگلی جانور تماشاگاہ میں لائے جاتے تھے۔‏ سامعین خاص طور پر سانڈ اور ریچھ کی لڑائی کو بہت پسند کرتے تھے۔‏ اکثر دونوں کو اُس وقت تک اکٹھا باندھ دیا جاتا تھا جب تک کہ ایک کی موت واقع نہیں ہو جاتی تھی اور بعدازاں ایک شکاری زندہ بچنے والے جانور کو مار دیا کرتا تھا۔‏ دیگر مشہور مقابلوں میں شیر اور چیتے یا ہاتھی اور ریچھ ایک دوسرے سے لڑتے تھے۔‏ شکاری اپنی مہارت کا مظاہرہ کرنے کے لئے قیمت سے قطع‌نظر،‏ ریاست کے تمام کونوں سے لائے گئے بدیسی جانوروں جیساکہ چیتوں،‏ گینڈوں،‏ دریائی گھوڑوں،‏ زرافوں،‏ چرخوں،‏ اُونٹوں،‏ بھیڑیوں،‏ سُوروں اور بارہ سنگھوں کو ہلاک کرتے تھے۔‏

پس‌منظر میں قدرتی مناظر کی تصویرکشی ان شکاروں کو ناقابلِ‌فراموش بنا دیتی تھی۔‏ جنگلات کا منظر پیش کرنے کیلئے پتھروں،‏ تالابوں اور درختوں کو استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ بعض تماشاگاہوں میں جانوروں کو زمین‌دوز ایلیویٹرز اور فرشی دروازوں سے نکالا جاتا تھا اور یوں لگتا ہے کہ گویا وہ جادو سے رونما ہوتے تھے۔‏ جانوروں کی غیرمتوقع حرکتیں دلچسپی میں اضافہ کرتی تھیں لیکن شکار کو خاص طور پر دلکش بنانے والا عنصر ظلم ہوتا تھا۔‏

پروگرام کے اگلے حصے میں موت کی سزائیں دی جاتی تھیں۔‏ انہیں زیادہ سے زیادہ حقیقت کے قریب رکھنے کی کوششیں کی جاتی تھیں۔‏ اساطیری ڈراموں میں کرداروں کو حقیقت میں مار دیا جاتا تھا۔‏

دوپہر کے وقت،‏ منفرد انداز میں تربیت‌یافتہ اور مسلح شمشیرزنوں کے مختلف گروہوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا۔‏ لاشوں کو روندنے والے بعض اشخاص عالمِ‌ارواح کے دیوتا کی طرح ملبّس ہوا کرتے تھے۔‏

تماشائیوں پر اسکا اثر

ماردھاڑ کیلئے بِھیڑ کی خواہش ناقابلِ‌تسکین تھی لہٰذا لڑائی میں حصہ لینے والے اشخاص کو کوڑے مارنے اور انکے جسم گرم لوہے سے داغنے سے لڑائی جاری رکھنے پر مجبور کِیا جاتا تھا۔‏ بِھیڑ شور مچاتی تھی:‏ ”‏یہ اسقدر بزدلی سے تلوار کا سامنے کیوں کر رہا ہے؟‏ اسکا وار اتنا کمزور کیوں ہے؟‏ یہ خود کو موت کے حوالہ کیوں نہیں کر دیتا؟‏ لڑائی جاری رکھنے کیلئے اس پر کوڑے برساؤ!‏ انہیں مکے کا جواب مکے سے دینا چاہئے اور سینا تان کر تلوار کا مقابلہ کرنا چاہئے!‏“‏ رومی مُدبر سینیکا لکھتا ہے کہ وقفے کے دوران یہ اعلان سنائی دیتا تھا:‏ ”‏وقفے کے دوران تفریح کیلئے کچھ اَور جانیں لی جائینگی!‏“‏

کچھ عجب نہیں کہ سینیکا تسلیم کرتا ہے کہ گھر لوٹنے تک اسکے اندر ”‏سنگدلی اور بےرحمی کا احساس پیدا ہوتا تھا۔‏“‏ اس تماشائی کا یہ مخلصانہ بیان ہمارے لئے سنجیدہ غوروفکر کا مستحق ہے۔‏ کیا آجکل کے کچھ مقابلے بھی تماشائیوں پر ایسا ہی اثر ڈالتے ہوئے انہیں ”‏زیادہ سنگدل اور بےرحم“‏ بنا سکتے ہیں؟‏

ان میں سے بعض تماشائی صحیح‌سلامت گھر لوٹنے پر خود کو خوش‌قسمت خیال کرتے تھے۔‏ جب ایک تماشائی نے دومطیان کی بابت کوئی مضحکہ‌خیز بات کہی تو بادشاہ نے اُسے اپنی نشست سے گھسیٹ کر کتوں کے آگے پھینک دیا۔‏ موت کی سزا سناتے وقت مجرموں کی کمی پر کیلی‌گولا نے تماشاگاہ کے ایک حصے میں بیٹھے سامعین کو پکڑ کر جانوروں کے آگے ڈالنے کا حکم دیا۔‏ نیز جب سٹیج مشینری کی کارکردگی کلودیس کی توقعات پر پوری نہ اُتری تو اُس نے متعلقہ مشین‌سازوں کو تماشاگاہ میں لڑنے کا حکم دیا۔‏

تماشائیوں کا جوش بھی تباہی اور جھگڑوں کا باعث بنتا تھا۔‏ روم کے شمال میں ایک مُدور تماشاگاہ جب ڈھیر ہوئی تو رپورٹ کے مطابق،‏ ہزاروں لوگ جان‌بحق ہوئے۔‏ پامپی میں ۵۹ س.‏ع.‏ میں ایک تماشے کے دوران لڑائی شروع ہو گئی۔‏ تستُس کی رپورٹ کے مطابق،‏ مقامی اور قریبی علاقہ کے لوگوں نے سب سے پہلے ایک دوسرے کو بیعزت کِیا،‏ پھر پتھر مارنا شروع کر دئے اور آخر میں اپنی تلواریں کھینچ لیں۔‏ بہت سے لوگوں کے ہاتھ‌پاؤں توڑے گئے یا انہیں گھایل کِیا گیا اور بہتیرے ہلاک ہو گئے۔‏

ایک واضح سبق

رومی کولےسی‌ایم میں ایک حالیہ نمائش (‏سینگ ای ارینا،‏ ‏”‏بلڈ اینڈ سینڈ“‏)‏ نے جدید مماثلتوں کے ذریعے منیرا کی یاد تازہ کی۔‏ اس میں بل‌فائی‌ٹنگ،‏ پیشہ‌ور باکسنگ،‏ کار اور موٹرسائیکل ریسوں کے ہولناک حادثات،‏ کھیلوں میں کھلاڑیوں کی بےقابو لڑائی اور تماشائیوں کے جھگڑےفساد کی بابت ویڈیو کے حصے دکھائے گئے۔‏ بلندی سے کولےسی‌ایم کے جائزے کیساتھ پیشکش کا اختتام ہوا۔‏ آپکے خیال میں مشاہدین نے کیا نتیجہ اخذ کِیا ہوگا؟‏ یہ کتنے لوگوں کیلئے سبق‌آموز ہو سکتا تھا؟‏

فی‌زمانہ،‏ بعض ممالک میں کتوں،‏ مرغوں اور بیلوں کی لڑائی کے علاوہ پُرتشدد کھیل بھی عام ہیں۔‏ گاڑیوں کی ریس میں بڑے ہجوموں کو محظوظ کرنے کیلئے زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جاتا ہے۔‏ نیز روزمرّہ کے ٹیلیویژن پروگراموں کی بابت سوچیں۔‏ ایک مغربی مُلک میں کی جانے والی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ اوسطاً ٹیلیویژن دیکھنے والا ایک بچہ دس سال کی عمر تک تقریباً ۰۰۰،‏۱۰ قتل اور ۰۰۰،‏۰۰،‏۱ پُرتشدد کام ہوتے دیکھتا ہے۔‏

تیسری صدی کے مصنف طرطلیان نے بیان کِیا،‏ تماشوں سے لطف‌اندوز ہونے کا عمل ”‏سچے مذہب اور خدایِ‌برحق کی حقیقی فرمانبرداری سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔‏“‏ وہ تماشائیوں کو قتل کرنے والوں کے ساتھی خیال کرتا تھا۔‏ آجکل کی بابت کیا ہے؟‏ ہم پوچھ سکتے ہیں،‏ ’‏کیا مَیں ٹیلیویژن یا انٹرنیٹ پر دکھائے جانے والے خون،‏ موت یا تشدد کے نظاروں کو پسند کرتا ہوں؟‏‘‏ زبور ۱۱:‏۵ کا بیان یاد رکھنے کے قابل ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ صادق کو پرکھتا ہے پر شریر اور ظلم‌دوست سے اُسکی روح کو نفرت ہے۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۲۸ پر بکس]‏

‏”‏مُردوں کو سکون بخشنے“‏ کیلئے لڑائیاں

شمشیرزن مقابلوں کی ابتدا کی بابت تیسری صدی کا مصنف طرطلیان بیان کرتا ہے:‏ ”‏قدیم زمانہ کے لوگوں کے خیال میں ایسے تماشوں میں کچھ تبدیلی لاتے ہوئے ظالمانہ کاموں کو ایک مہذب انداز میں پیش کرنے سے وہ مُردوں کی تعظیم کرتے تھے۔‏ زمانۂ‌قدیم میں انسانی خون کے ذریعے مُردوں کی روحوں کو تسکین پہنچانے کے عقیدے کی وجہ سے لوگ جنازوں پر قیدیوں یا بیکار غلاموں کی قربانی کِیا کرتے تھے۔‏ بعدازاں اپنی بدکاری پر پردہ ڈالنے کیلئے اُنہوں نے اس رسم کو تفریح میں بدل دیا۔‏ پس ہاتھ آنے والے اشخاص کو ان کی صلاحیت کے مطابق اور اُس وقت دستیاب ہتھیاروں کے استعمال میں تربیت دی جاتی تھی—‏انکی تربیت میں انہیں مرنا سکھایا جاتا تھا!‏—‏اور بعدازاں جنازے کے مخصوص دن،‏ انہیں قبروں پر موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا تھا۔‏ یوں لوگ موت کی وجہ سے تسلی حاصل کرنے کیلئے قتل کرتے تھے۔‏ یہ میونس کی ابتدا تھی۔‏ کچھ وقت کے بعد تماشوں کی پیشکش میں نفاست کیساتھ ساتھ ظلم میں بھی اتنا ہی اضافہ ہو گیا؛‏ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب تک خونخوار جانور انسانوں کے جسم کو چیرپھاڑ نہیں دیتے تھے تفریح کا مزہ کرکرا رہتا تھا۔‏ مُردوں کو سکون پہنچانے کیلئے کئے گئے کام کو جنازے کی ایک رسم خیال کِیا جاتا تھا۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

قدیم تیغ‌زنی کا خود اور ساق‌پوش

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویریں]‏

قدیم زمانہ کے مسیحی پُرتشدد تفریح کو ناقابلِ‌قبول خیال کرتے تھے؟‏ کیا آپ بھی ایسا محسوس کرتے ہیں؟‏

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Boxing: Dave Kingdon/Index Stock Photography; car crash: AP

Photo/Martin Seppala

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر کا حوالہ]‏

Phoenix Art Museum, Arizona/Bridgeman Art Library