مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مسیحی اخلاقیت سیکھیں اور سکھائیں

مسیحی اخلاقیت سیکھیں اور سکھائیں

مسیحی اخلاقیت سیکھیں اور سکھائیں

‏”‏پس تُو جو اَوروں کو سکھاتا ہے اپنے آپ کو کیوں نہیں سکھاتا؟‏“‏ —‏رومیوں ۲:‏۲۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ آپ کن وجوہات کی بِنا پر بائبل مطالعہ کرنا چاہتے ہیں؟‏

آپ کے پاس خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔‏ آپ اس میں سے لوگوں،‏ واقعات،‏ مقامات اور دیگر چیزوں کی بابت حقائق جاننا چاہینگے۔‏ آپ تثلیث یا دوزخ جیسے غلط مذہبی عقائد کے برعکس اُن کی بابت سچائی جاننا چاہتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۸:‏۳۲‏)‏ آپ کو یہوواہ کو بہتر طور پر جاننا چاہئے تاکہ آپ اُس کی مانند بن کر اس کے حضور راست طریقے سے چل سکیں۔‏—‏ا-‏سلاطین ۱۵:‏۴،‏ ۵۔‏

۲ خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے کی متعلقہ اور اہم وجہ ہمیں دوسروں—‏اپنے عزیزوں،‏ واقف‌کاروں اور اجنبیوں—‏کو تعلیم دینے کے لئے لیس ہونا ہے۔‏ ایسا کرنا سچے مسیحیوں کیلئے اختیاری معاملہ نہیں ہے۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا:‏ ”‏پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ .‏ .‏ .‏ اور اُنکو یہ تعلیم دو کہ ان سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تمکو دیا۔‏“‏—‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

۳،‏ ۴.‏ یسوع کے حکم کے مطابق تعلیم دینا آپ کیلئے اعزاز کی بات کیوں ہے؟‏

۳ دوسروں کو سکھانے کی خواہش کیساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا ایک اعزاز اور ابدی تسکین کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔‏ تعلیم دینا عرصۂ‌دراز سے قابلِ‌احترام پیشہ رہا ہے۔‏ انکارٹا انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہودیوں میں،‏ بہتیرے بالغ اساتذہ کو نجات کی طرف راہنمائی کرنے والے خیال کِیا جاتا تھا اور بچوں کو والدین سے بڑھکر اساتذہ کی عزت کرنے کی تعلیم دی جاتی تھی۔‏“‏ یہ بات مسیحیوں کیلئے خاص طور پر قابلِ‌عزت ہے کہ بائبل کا مطالعہ کرنے سے تعلیم پاکر دوسروں کو تعلیم دیں۔‏

۴ ‏”‏کسی بھی دوسرے پیشے کی نسبت زیادہ‌تر لوگ تعلیم دینے کے پیشے سے وابستہ ہیں۔‏ پوری دُنیا میں ۴۸ ملین مردوزن اُستاد ہیں۔‏“‏ (‏دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا‏)‏ نوجوان لوگوں کا دماغ ایک دُنیاوی اُستاد کے سپرد کِیا جاتا ہے اور وہ اُن پر آنے والے سالوں کیلئے اثرانداز ہو سکتا ہے۔‏ جب آپ دوسروں کو تعلیم دینے کے یسوع کے حکم کی تابعداری کرتے ہیں تو یہ اثر اَور بھی زیادہ دُوررس ہوتا ہے؛‏ آپ ابدیت کے پیشِ‌نظر ان پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔‏ پولس رسول نے تیمتھیس کو تاکید کرتے وقت اس بات کو اُجاگر کِیا:‏ ”‏اپنی اور اپنی تعلیم کی خبرداری کر۔‏ ان باتوں پر قائم رہ کیونکہ ایسا کرنے سے تُو اپنی اور اپنے سننے والوں کی بھی نجات کا باعث ہوگا۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۶‏)‏ جی‌ہاں،‏ آپ کی تعلیم میں نجات شامل ہے۔‏

۵.‏ مسیحی تعلیم کیوں افضل ہے؟‏

۵ خود کو اور دوسروں کو تعلیم دینے کی اجازت اور ہدایت کائنات کے حاکم‌اعلیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔‏ یہ بات بذاتِ‌خود تعلیمی میدان کو کسی بھی دُنیاوی تعلیم سے زیادہ اہم بنا دیتی ہے خواہ یہ ابتدائی تعلیم ہو،‏ پیشہ‌وارنہ یا طبّی حلقے کی بابت ہو۔‏ مسیحی تعلیم میں یہ بات شامل ہے کہ طالبعلم خدا کے بیٹے کی ذاتی طور پر نقل کرنا سیکھے اور دوسروں کو ایسا ہی کرنے کی تعلیم دے۔‏—‏یوحنا ۱۵:‏۱۰‏۔‏

خود کیوں سیکھیں

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ ہمیں سب سے پہلے خود کیوں سیکھنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ کس مفہوم میں پہلی صدی کے یہودی اُستادوں کے طور پر ناکام ہو گئے تھے؟‏

۶ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ہم سب سے پہلے خود سیکھیں؟‏ اگر ہم خود اچھی طرح نہیں سیکھتے تو ہم دوسروں کو مناسب طریقے سے تعلیم نہیں دے سکتے۔‏ پولس نے اس حقیقت پر ایک خیال‌آفرین اقتباس کے ذریعے زور دیا جو اُس زمانے کے یہودیوں کیلئے اہمیت کا حامل تھا لیکن یہ آجکل کے مسیحیوں کیلئے بھی سنجیدہ پیغام ہے۔‏ پولس نے پوچھا:‏ پس تُو جو اَوروں کو سکھاتا ہے اپنے آپ کو کیوں نہیں سکھاتا؟‏ تُو جو وعظ کرتا ہے کہ چوری نہ کرنا آپ خود کیوں چوری کرتا ہے؟‏ تُو جو کہتا ہے کہ زنا نہ کرنا آپ خود کیوں زنا کرتا ہے؟‏ تُو جو بُتوں سے نفرت رکھتا ہے آپ خود کیوں مندروں کو لُوٹتا ہے؟‏ تُو جو شریعت پر فخر کرتا ہے شریعت کے عدول سے خدا کی کیوں بیعزتی کرتا ہے؟‏“‏—‏رومیوں ۲:‏۲۱-‏۲۳‏۔‏

۷ پولس زبان کا بہترین استعمال کرتے ہوئے دو غلطیوں کا حوالہ دیتا ہے جن پر دس احکام میں براہِ‌راست توجہ دلائی گئی تھی:‏ چوری نہ کرنا اور زنا نہ کرنا۔‏ (‏خروج ۲۰:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ پولس کے زمانہ میں بعض یہودی خدا کی شریعت رکھنے پر فخر کرتے تھے۔‏ انہیں ’‏شریعت کی زبانی تعلیم دی گئی تھی اور قائل کیا گیا تھا کہ وہ اندھوں کی راہنمائی کرنے والے اور تاریکی میں چلنے والوں کیلئے روشنی،‏ بچوں کے اُستاد‘‏ تھے۔‏ (‏رومیوں ۲:‏۱۷-‏۲۰‏)‏ تاہم،‏ بعض ریاکار تھے کیونکہ وہ پوشیدگی میں چوری اور زناکاری کرتے تھے۔‏ وہ شریعت اور اس کے مصنف دونوں کی بےادبی کر رہے تھے۔‏ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ دوسروں کو تعلیم دینے کے لائق نہیں تھے؛‏ وہ درحقیقت خود نہیں سیکھ رہے تھے۔‏

۸.‏ پولس کے زمانے میں بعض یہودیوں نے کیسے ’‏مندروں کو لُوٹا‘‏ تھا؟‏

۸ پولس نے مندروں کو لُوٹنے کا ذکر کِیا۔‏ کیا بعض یہودی حقیقی مفہوم میں ایسا کر رہے تھے؟‏ پولس کے ذہن میں کیا تھا؟‏ سچ تو یہ ہے کہ اس اقتباس میں محدود معلومات کے پیشِ‌نظر،‏ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کیسے بعض یہودیوں نے ’‏مندروں کو لُوٹا‘‏ تھا۔‏ اس سے پہلے افسس شہر کے محرر نے اعلان کِیا کہ پولس کے دوست ’‏مندروں کو لُوٹنے والے‘‏ نہیں تھے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں یہودیوں پر مندروں کو لُوٹنے کا الزام لگایا تھا۔‏ (‏اعمال ۱۹:‏۲۹-‏۳۷‏)‏ کیا وہ بُت‌پرست مندروں سے آنے والی قیمتی چیزوں کو ذاتی طور پر استعمال کر رہے تھے یا انہیں بیچ رہے تھے جنہیں فاتحین یا مذہبی متعصّب اشخاص نے لُوٹ لیا تھا؟‏ خدا کی شریعت کے مطابق،‏ بُتوں کا سوناچاندی تلف کر دیا جاتا تھا وہ ذاتی استعمال کیلئے بھی موزوں نہیں تھا۔‏ (‏استثنا ۷:‏۲۵‏)‏ * پس پولس ایسے یہودیوں کا ذکر کر رہا تھا جنہوں نے خدا کے حکم کی بےادبی کی تھی اور بُت‌پرست مندروں سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو استعمال یا ان سے نفع حاصل کِیا تھا۔‏

۹.‏ یروشلیم میں ہیکل کے سلسلے میں کونسے غلط کام ہیکل کو لُوٹنے کے برابر تھے؟‏

۹ اس کی دوسری جانب،‏ یوسیفس نے روم میں ایک سکینڈل کا انکشاف کِیا جس میں چار یہودی ملوث تھے اور انکا لیڈر شریعت کا مُعلم تھا۔‏ ان چاروں نے ایک رومی عورت،‏ نومُرید یہودن کو قائل کر لیا کہ یروشلیم میں ہیکل کیلئے سونا اور دیگر قیمتی اشیا عطیات کے طور پر دے۔‏ اُس سے حاصل کر لینے کے بعد اُنہوں نے اس دولت کو اپنے لئے استعمال کِیا،‏ یہ بات گویا ہیکل کو لُوٹنا تھی۔‏ * دیگر اپنی ناقص قربانیاں گذراننے اور اس کی زمین پر حریص تجارت کو فروغ دینے سے خدا کی ہیکل کو لُوٹ رہے تھے یوں اُنہوں نے ہیکل کو ”‏ڈاکوؤں کی کھوہ“‏ بنا رکھا تھا۔‏—‏متی ۲۱:‏۱۲،‏ ۱۳؛‏ ملاکی ۱:‏۱۲-‏۱۴؛‏ ۳:‏۸،‏ ۹‏۔‏

مسیحی اخلاقیت کی تعلیم دیں

۱۰.‏ ہمیں رومیوں ۲:‏۲۱-‏۲۳ میں درج پولس کے الفاظ کے کس نکتے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے؟‏

۱۰ پس آئیے پہلی صدی میں چوری،‏ زناکاری اور مندروں کو لُوٹنے والے جن کاموں کا پولس نے ذکر کِیا اُس پر بات‌چیت کریں،‏ کہیں ہم اُس کے اصل مقصد کو نظرانداز نہ کر دیں۔‏ اُس نے پوچھا:‏ ”‏پس تُو جو اَوروں کو سکھاتا ہے اپنے آپ کو کیوں نہیں سکھاتا؟‏“‏ قابلِ‌غور بات یہ ہے کہ جس مثال کو پولس نے استعمال کِیا اُسکا تعلق اخلاقیت سے ہے۔‏ رسول یہاں بائبل عقائد یا تاریخ کی طرف توجہ نہیں دلا رہا تھا۔‏ جس تعلیم کا پولس نے خود کو اور دوسروں کو سکھانے کا ذکر کِیا ہے اُسکا تعلق مسیحی اخلاقیت سے ہے۔‏

۱۱.‏ جب آپ خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کو مسیحی اخلاقیت پر کیوں توجہ دینی چاہئے؟‏

۱۱ ہمارے لئے رومیوں ۲:‏۲۱-‏۲۳ کے الفاظ کے اطلاق کا مطلب خدا کے کلام سے مسیحی اخلاقیت کو سیکھنا اور پھر سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تعلیم دینا ہے۔‏ چنانچہ بائبل کا مطالعہ کرتے وقت یہوواہ کے معیاروں کو یاد رکھیں جو کہ سچی مسیحی اخلاقیت کے ماخذ ہیں۔‏ بائبل سے حاصل ہونے والی مشورت اور تنبیہ پر غوروخوض کریں۔‏ اِسکے بعد سیکھی ہوئی باتوں کا اطلاق کریں۔‏ لیکن ایسا کرنے کیلئے جرأت اور عزم درکار ہیں۔‏ ناکامل انسانوں کیلئے ایسے عذر اور وجوہات تلاش کرنا بڑا آسان ہے جو کسی خاص معاملے میں مسیحی اخلاقیت کو نظرانداز کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔‏ جن یہودیوں کا پولس نے ذکر کِیا شاید وہ دوسروں کو گمراہ کرنے اور تفرقے پیدا کرنے والی بہانہ‌بازی میں خوب ماہر تھے۔‏ تاہم،‏ پولس کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ مسیحی اخلاقیت کو ذاتی سوجھ‌بُوجھ سے نہ تو کم اہم قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظرانداز کِیا جا سکتا ہے۔‏

۱۲.‏ اچھا یا بُرا چال‌چلن کیسے یہوواہ خدا کی ذات پر اثرانداز ہوتا ہے اور یہ بات یاد رکھنا کیوں مفید ہے؟‏

۱۲ رسول نے بائبل میں موجود اخلاقیت کو سیکھنے اور پھر اسکا اطلاق کرنے کی بنیادی وجہ کو نمایاں کِیا تھا۔‏ یہودیوں کا خراب چال‌چلن یہوواہ کی شخصیت پر اثرانداز ہوا تھا:‏ ”‏تُو جو شریعت پر فخر کرتا ہے شریعت کے عدول سے خدا کی کیوں بیعزتی کرتا ہے؟‏ کیونکہ تمہارے سبب سے غیرقوموں میں خدا کے نام پر کفر بکا جاتا ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۲:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ آج بھی بالکل ویسا ہی ہے کہ اگر ہم مسیحی اخلاقیت کو نظرانداز کرتے ہیں تو ہم اس کے ماخذ کی بیعزتی کرتے ہیں۔‏ اس کے برعکس اگر ہم خدا کے معیاروں پر کاربند رہتے ہیں تو اس سے اُس کو عزت اور جلال ملتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۵۲:‏۵؛‏ حزقی‌ایل ۳۶:‏۲۰‏)‏ اگر ایسی صورتحال یا آزمائشوں میں جہاں مسیحی اخلاقیت کو نظرانداز کرنا ہی بچنے کا آسان طریقہ دکھائی دے تو آپ کا اس بات سے واقف ہونا آپ کے عزم کو مضبوط کرے گا۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ پولس کے الفاظ ہمیں کچھ اَور بھی سکھاتے ہیں۔‏ یہ جاننے کے علاوہ کہ آپکا چال‌چلن خدا کی ذات پر اثرانداز ہوتا ہے،‏ جب آپ دوسروں کو تعلیم دیتے ہیں تو اُنہیں بھی یہ سکھائیں کہ کیسے جن اخلاقی معیاروں کی بابت وہ سیکھ رہے ہیں اُن کا اطلاق بھی یہوواہ کی ذات پر اثرانداز ہوگا۔‏ صرف یہی نہیں کہ مسیحی اخلاقیت اطمینان کو فروغ دیتی اور ایک شخص کی صحت کو محفوظ رکھتی ہے۔‏ یہ اُس شخص کی بھی عکاسی کرتی ہے جو اخلاقیت کی بابت تعلیم فراہم کرتا ہے اور اس کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے۔‏—‏زبور ۷۴:‏۱۰؛‏ یعقوب ۳:‏۱۷‏۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏ اخلاقیت کے سلسلے میں بائبل کیسے ہماری مدد کرتی ہے؟‏ (‏ب)‏ پہلا تھسلنیکیوں ۴:‏۳-‏۷ میں درج نصیحت کا خلاصہ پیش کریں۔‏

۱۳ اخلاقیت دیگر انسانوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔‏ آپ خدا کے اخلاقی معیاروں کا اطلاق کرنے اور انہیں نظرانداز کرنے کے نتائج کی اہمیت کو واضح کرنے والی خدا کے کلام کی مثالوں سے دیکھ سکتے ہیں۔‏ (‏پیدایش ۳۹:‏۱-‏۹،‏ ۲۱؛‏ یشوع ۷:‏۱-‏۲۵‏)‏ آپ اخلاقیات کی بابت ایسی واضح مشورت بھی پاتے ہیں:‏ ”‏چُنانچہ خدا کی مرضی یہ ہے کہ تُم پاک بنو یعنی حرامکاری سے بچے رہو۔‏ اور ہر ایک تُم میں سے پاکیزگی اور عزت کے ساتھ اپنے ظرف کو حاصل کرنا جانے۔‏ نہ شہوت کے جوش سے اُن قوموں کی مانند جو خدا کو نہیں جانتیں۔‏ اور کوئی شخص اپنے بھائی کے ساتھ اِس امر میں زیادتی اور دغا نہ کرے ‏.‏ .‏ .‏ اسلئےکہ خدا نے ہم کو ناپاکی کے لئے نہیں بلکہ پاکیزگی کے لئے بلایا ہے۔‏“‏—‏۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۳-‏۷‏۔‏

۱۴.‏ آپ ۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۳-‏۷ میں درج مشورت کی بابت خود سے کیا پوچھ سکتے ہیں؟‏

۱۴ اس اقتباس سے تقریباً ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ جنسی بداخلاقی مسیحی اخلاقیت کی نفی کرتی ہے۔‏ تاہم،‏ آپ اس آزمائش میں پڑ سکتے ہیں۔‏ بعض حوالہ‌جات بصیرت پر منتج ہونے والے خاطرخواہ مطالعے اور غوروفکر کے طریقے بیان کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ آپ اس بات پر سوچ‌بچار کر سکتے ہیں کہ جب پولس نے حرامکاری میں پڑنے کا ذکر کِیا تو اُسکا اِس بیان سے کہ ”‏کوئی شخص اپنے بھائی کے ساتھ اِس امر میں زیادتی اور دغا نہ کرے،‏“‏ کیا مطلب تھا۔‏ اس میں کونسا امر شامل ہے اور اسکی بہتر سمجھ کیسے آپکو مسیحی اخلاقیت کو قائم رکھنے کی اضافی تحریک دے سکتی ہے؟‏ ایسی تحقیق کے نتائج کیسے آپکو دوسروں کو تعلیم دینے اور اُنہیں خدا کی عزت کرنے کے لائق بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں؟‏

تعلیم دینے کی غرض سے مطالعہ کریں

۱۵.‏ ذاتی مطالعہ کے ذریعے خود سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کیلئے آپ کونسی امدادی کتابیں استعمال کر سکتے ہیں؟‏

۱۵ یہوواہ کے گواہوں کے پاس ایسی امدادی کتابیں ہیں جنہیں وہ ذاتی مطالعہ کرنے یا دوسروں کو تعلیم دیتے وقت اُٹھنے والے سوالات یا مسائل پر تحقیق کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔‏ ایک مدد واچ ٹاور پبلیکیشن انڈیکس بہت سی زبانوں میں دستیاب ہے۔‏ اگر آپ کے پاس ہے تو آپ اسے یہوواہ کے گواہوں کی بائبل پر مبنی مطبوعات میں سے معلومات تلاش کرنے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔‏ آپ موضوع کے تحت یا بائبل آیات کی فہرست کے ذریعے تحقیق کر سکتے ہیں۔‏ دُنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں ایک اَور مدد واچ ٹاور لائبریری دستیاب ہے۔‏ اس کمپیوٹر پروگرام میں سی-‏ڈی روم پر مطبوعات کی بڑی تعداد الیکٹرانک شکل میں دستیاب ہیں۔‏ یہ پروگرام ایک شخص کو موضوعات اور صحائف پر تبصرہ‌جات تلاش کرنے کے قابل بناتا ہے۔‏ اگر آپکے پاس اِن میں سے ایک یا دونوں امدادی چیزیں موجود ہیں تو دوسروں کو خدا کا کلام سکھانے کیلئے باقاعدہ مطالعہ کرنے کی غرض سے انہیں استعمال کریں۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏ا)‏ آپ ۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۶ میں متذکرہ حقوق کی بابت کہاں سے معلوماتی تبصرے حاصل کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ کن طریقوں سے حرامکاری دوسروں کے حقوق کو پامال کر سکتی ہے؟‏

۱۶ آئیے ۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۳-‏۷ میں درج مذکورہ‌بالا مثال پر غور کریں۔‏ سوال حقوق کی بابت اُٹھایا گیا ہے۔‏ کس کے حقوق؟‏ نیز اِن حقوق میں کیسے بیجا مداخلت کی جا سکتی ہے؟‏ متذکرہ امدادی چیزوں کی مدد سے،‏ آپ اِن آیات پر کئی ایک معلوماتی تبصرہ‌جات تلاش کر سکتے ہیں حتیٰ‌کہ اُن حقوق کی بابت بھی جنکا ذکر پولس کر رہا تھا۔‏ آپ انسائٹ آن دی سکرپچرز،‏ جِلد ۱،‏ صفحہ ۸۶۳،‏۸۶۴ پر؛‏ ٹرو پیس اینڈ سیکیورٹی—‏ہاؤ کین یو فائنڈ اِٹ؟‏،‏ صفحہ ۱۴۵؛‏ دی واچ ٹاور،‏ نومبر ۱۵،‏ ۱۹۸۹ صفحہ ۳۱ پر ایسے تبصرہ‌جات پڑھ سکتے ہیں۔‏

۱۷ آپ مطالعہ کرنے سے یہ سمجھنے کے قابل ہونگے کہ کیسے یہ مطبوعات پولس کے الفاظ کی صداقت کو ثابت کرتی ہیں۔‏ حرامکاری کرنے والا ایک شخص خدا کے خلاف گُناہ کرکے خود کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر لیتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ عبرانیوں ۱۳:‏۴‏)‏ حرامکاری کرنے والا شخص اُس عورت کے ساتھ زیادتی کرتا ہے جس کے ساتھ وہ گُناہ کرتا ہے۔‏ وہ اُسے پاک اخلاقی حیثیت اور ضمیر سے محروم کر دیتا ہے۔‏ اگر وہ غیرشادی‌شُدہ ہے تو وہ کنواری لڑکی کے طور پر شادی کرنے کے اُس کے حق کو اور اُس کے شوہر کو ایک ایسی بیوی حاصل کرنے کے حق سے محروم کر دیتا ہے۔‏ وہ اُس لڑکی کے والدین اور اگر وہ شادی‌شُدہ ہے تو اُس کے شوہر کو دُکھ پہنچاتا ہے۔‏ بداخلاق آدمی اپنے خاندان کی نیکنامی کو بھی داغدار کر دیتا ہے۔‏ اگر وہ مسیحی کلیسیا کا رُکن ہے تو وہ کلیسیا کی نیکنامی کو نقصان پہنچاتے ہوئے اِس پر بدنامی لاتا ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱‏۔‏

۱۸.‏ آپ مسیحی اخلاقیت پر مبنی بائبل مطالعے سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟‏

۱۸ کیا ایسے تبصرے حقوق کی بابت اس آیت کے بیان کو سمجھنے میں آپکی مدد نہیں کرتے؟‏ اس قسم کا مطالعہ یقیناً گراں‌بہا ہے۔‏ جب آپ ایسا کرتے ہیں تو دراصل آپ خود کو سکھاتے ہیں۔‏ آپ سچائی اور خدا کے پیغام کی تاثیر کو بہتر طور پر سمجھنے لگتے ہیں۔‏ آپ ہر طرح کی آزمائشوں کے تحت مسیحی اخلاقیت پر قائم رہنے کے اپنے عزم کو مضبوط کرتے ہیں۔‏ ذرا سوچیں کہ اب آپ کتنے موثر اُستاد ثابت ہو سکتے ہیں!‏ مثلاً دوسروں کو بائبل سچائی کی تعلیم دیتے وقت آپ اُنہیں ۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۳-‏۷ میں درج بصیرت بخشنے کے علاوہ مسیحی اخلاقیت کے سلسلے میں اُنکی سمجھ اور قدرافزائی میں اضافہ کرتے ہیں۔‏ پس آپکا مطالعہ آپکی اور بہت سے دیگر لوگوں کی خدا کو جلال دینے کے سلسلے میں مدد کر سکتا ہے۔‏ اِسی طرح سے ہم نے یہاں پولس کے تھسلنیکیوں کے نام خط میں سے محض ایک مثال بیان کی ہے۔‏ مسیحی اخلاقیت کے اَور بھی بہت سے پہلو ہیں اور اسکے مطابق بیشمار بائبل مثالیں اور مشورت موجود ہے جنکا آپ مطالعہ اور اطلاق کرنے کے علاوہ تعلیم بھی دے سکتے ہیں۔‏

۱۹.‏ مسیحی اخلاقیت پر قائم رہنا کیوں ضروری ہے؟‏

۱۹ ایسا کرنے کی حکمت کی بابت کوئی اعتراض نہیں اُٹھایا جا سکتا۔‏ یعقوب ۳:‏۱۷ بیان کرتی ہے کہ ”‏جو حکمت اُوپر سے،‏“‏ یہوواہ خدا کی طرف سے آتی ہے،‏ ”‏اوّل تو وہ پاک ہوتی ہے۔‏“‏ یہ واضح طور پر خدا کے اخلاقی معیاروں کی پابندی کرنے کی وضاحت کرتی ہے۔‏ درحقیقت،‏ یہوواہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ جو لوگ بائبل سکھانے میں اُسکی نمائندگی کرتے ہیں وہ خود بھی ”‏پاکیزگی“‏ کی عمدہ مثالیں ہوں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۲‏)‏ پولس اور تیمتھیس جیسے ابتدائی شاگردوں کی طرزِزندگی ایسی ہی تھی،‏ وہ بداخلاقی سے دُور رہتے تھے،‏ جیسےکہ پولس نے لکھا:‏ ”‏جیسا مُقدسوں کو مناسب ہے کہ تم میں حرامکاری اور کسی طرح کی ناپاکی یا لالچ کا ذکر تک نہ ہو۔‏ اور نہ بےشرمی اور بیہودہ‌گوئی اور ٹھٹھابازی کا کیونکہ یہ لائق نہیں۔‏“‏—‏افسیوں ۵:‏۳،‏ ۴‏۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ یوحنا رسول نے ۱-‏یوحنا ۵:‏۳ میں جوکچھ لکھا آپ اُس سے کیوں متفق ہیں؟‏

۲۰ خدا کے کلام میں متذکرہ اخلاقی معیار بالکل واضح ہونے کے ساتھ ساتھ استبدادی نہیں ہیں۔‏ یہ سب سے زیادہ عمر پانے والے رسول یوحنا کے معاملے میں بھی سچ تھا۔‏ اُس نے سالوں پر محیط زندگی کے دوران جوکچھ دیکھا اس سے وہ جانتا تھا کہ مسیحی اخلاقیت کسی بھی طرح نقصاندہ نہیں ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ یہ عمدہ،‏ مفید اور بااَجر ثابت ہوئی تھی۔‏ یوحنا نے یہ لکھتے ہوئے اس پر زور دیا:‏ ”‏خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں اور اُس کے حکم ہمارے لئے کسی طرح کا بوجھ نہیں ہیں۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏،‏ نیو انگلش ٹرانسلیشن۔‏

۲۱ تاہم،‏ غور کریں کہ یوحنا خدا کا حکم ماننے کو محض اسلئے مسیحی اخلاقیت کی بہترین روش کے طور پر پیش نہیں کرتا کہ یہ ہمیں مسائل سے یا اسکے خراب نتائج سے محفوظ رکھتی ہے۔‏ وہ معاملات کو صحیح زاویے سے پیش کرنے کیلئے سب سے پہلے یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ یہوواہ خدا کیلئے ہماری محبت کا اظہار ہے جو کہ دراصل اُس کیلئے محبت ظاہر کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔‏ سچ ہے کہ خود کو یا دوسروں کو خدا سے محبت رکھنے کی تعلیم دینا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم خود بھی اُسکے اعلیٰ معیاروں کو قبول کرنے کیساتھ ساتھ اُنکا اطلاق کریں۔‏ جی‌ہاں،‏ اسکا مطلب خود کو اور دوسروں کو مسیحی اخلاقیت کی تعلیم دینا ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 یہودیوں کو متبرک چیزوں کی بےحرمتی کرنے سے آزاد ہونے کے باوجود یوسیفس نے خدا کی شریعت کو اس طرح بیان کِیا:‏ ”‏جن دیوتاؤں کی پرستش دیگر شہروں میں ہوتی ہے کوئی اُن پر کفر نہ بکے،‏ نہ ہی بیگانہ مندروں کو لُوٹے اور کسی بھی دیوتا کے لئے مخصوص چیزوں کو ہرگز نہ لے۔‏“‏ ‏(‏نسخ ہمارا)‏—‏جیواش انٹکیوٹیز،‏ کتاب چہارم باب ۸،‏ پیراگراف ۱۰۔‏

^ پیراگراف 9 جیواش انٹکیوٹیز،‏ کتاب ۱۸،‏ باب ۳،‏ پیراگراف ۵۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• دوسروں کو سکھانے سے پہلے خود سیکھنا کیوں ضروری ہے؟‏

‏• ہمارا چال‌چلن یہوواہ پر کیسے اثرانداز ہو سکتا ہے؟‏

‏• ایک حرامکار کس کے حقوق کو پامال کر سکتا ہے؟‏

‏• مسیحی اخلاقیت کے سلسلے میں آپکا عزم کیا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

‏”‏اُسکے احکام ہمارے لئے بھاری نہیں ہیں“‏