مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنی عالمگیر برادری سے تقویت پانا

اپنی عالمگیر برادری سے تقویت پانا

میری کہانی میری زبانی

اپنی عالمگیر برادری سے تقویت پانا

از تھامس کانگ‌ایل

اپریل ۲۴،‏ ۱۹۹۳ کو مجھے لوساکا،‏ زمبیا میں ۱۳ عمارتوں پر مشتمل نئے برانچ آفس کمپلیکس کی مخصوصیت کے پروگرام پر حاضر ہونے کی دعوت دی گئی۔‏ میری چلنے کی دشواری کو سمجھتے ہوئے ہمیں سہولیات کا دورہ کرانے والی مسیحی بہن نے مہربانی دکھائی:‏ ”‏کیا مَیں آپ کے لئے ایک کرسی اُٹھا سکتی ہوں تاکہ آپ راستے میں کچھ دیر آرام کر سکیں؟‏“‏ مَیں سیاہ فام ہوں اور وہ سفید،‏ لیکن یہ بات اُس کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔‏ مَیں نے اس بات سے بیحد متاثر ہو کر اُس کا شکریہ ادا کِیا کیونکہ اُس کی مہربانی کی وجہ سے مَیں برانچ کی تمام سہولیات کا دورہ کرنے کے قابل ہوا تھا۔‏

سالوں کے دوران،‏ ایسے تجربات نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالتے ہوئے میرے اس یقین کو تقویت دی کہ یہوواہ کے گواہوں کی مسیحی رفاقت میں وہ محبت موجود ہے جس کی بابت مسیح نے کہا تھا کہ یہ اُس کے سچے شاگردوں کی پہچان ہوگی۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۵؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۱۷‏)‏ مَیں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ مَیں ان مسیحیوں سے ۱۹۳۱ میں کیسے واقف ہوا جس سال انہوں نے بائبل پر مبنی نام یہوواہ کے گواہ کہلانے کی اپنی خواہش کا اعلان کِیا تھا۔‏—‏یسعیاہ ۴۳:‏۱۲‏۔‏

افریقہ میں ابتدائی خدمتگزاری

مَیں نومبر ۱۹۳۱ میں ۲۲ سال کا تھا اور شمالی روڈیشیا (‏اب زمبیا)‏ میں کاپربیلٹ کے علاقے میں واقع کٹوی میں رہتا تھا۔‏ میرے ساتھ ساکر کھیلنے والے ایک دوست نے مجھے گواہوں سے متعارف کرایا۔‏ مَیں انکے کچھ اجلاسوں پر حاضر ہوا اور بائبل کی امدادی کتاب دی ہارپ آف گاڈ * حاصل کرنے کیلئے جنوبی افریقہ،‏ کیپ ٹاؤن میں برانچ آفس کو درخواست لکھی۔‏ کتاب انگریزی زبان میں تھی اور چونکہ مجھے انگریزی بہت کم آتی تھی لہٰذا مجھے اس کتاب کو سمجھنے میں مشکل پیش آئی۔‏

میری پرورش کاپربیلٹ کے علاقے میں ہوئی جو لیک بانگ‌ویلیو کے جنوب‌مغرب میں تقریباً ۲۴۰ کلومیٹر دُور واقع ہے اور یہاں موجود تانبے کی کانوں پر دوسرے علاقوں کے لوگوں کو بھی ملازمت دی جاتی تھی۔‏ یہاں گواہوں کے کئی گروہ بائبل مطالعہ کیلئے باقاعدگی سے جمع ہوتے تھے۔‏ کچھ عرصہ بعد مَیں کٹوی سے منتقل ہوکر ایک قریبی قصبے نڈولا چلا گیا اور وہاں گواہوں کے ایک گروہ سے رفاقت رکھنے لگا۔‏ اُس وقت میں ساکر کی ایک ٹیم پرنس آف ویلز کا کیپٹن ہوا کرتا تھا۔‏ مَیں ایک سفید فام شخص کے گھر میں ملازمت بھی کرتا تھا جو وسطی افریقہ میں کئی سٹورز چلانے والی افریقن لیکس کارپوریشن کا مینیجر تھا۔‏

میری سکول کی تعلیم کم تھی اور جن یورپی لوگوں کے لئے مَیں کام کرتا تھا مَیں نے ان سے تھوڑی بہت انگریزی بولنا سیکھ لی تھی۔‏ تاہم مجھے مزید دُنیاوی تعلیم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا اور اس وجہ سے مَیں نے جنوبی روڈیشیا (‏اب زمبابوے)‏ میں پل‌مٹری کے سکول میں اپنا اندراج کرایا۔‏ تاہم مَیں نے اس اثنا میں کیپ ٹاؤن برانچ آفس کو دوسری بار خط لکھا۔‏ مَیں نے انہیں آگاہ کِیا کہ مجھے دی ہارپ آف گاڈ مل چکی ہے اور مَیں یہوواہ کی کُل‌وقتی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔‏

انکے جواب نے مجھے حیران کر دیا:‏ ”‏ہم یہوواہ کی خدمت کرنے کی آپکی خواہش کی قدر کرتے ہیں۔‏ ہم اس معاملے پر دُعائیہ غوروفکر کرنے کیلئے آپکی حوصلہ‌افزائی کرنا چاہتے ہیں اور سچائی کی بہتر سمجھ حاصل کرنے میں یہوواہ آپکی مدد کریگا اور اپنی خدمت کیلئے آپ کیلئے جگہ بھی بنائے گا۔‏“‏ اس خط کو کئی بار پڑھنے کے بعد مَیں نے کچھ گواہوں کیساتھ مشورہ کِیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اگر تم واقعی یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو تاخیر مت کرو۔‏“‏

مَیں نے ایک ہفتے تک اس معاملے کی بابت دُعا کی اور آخرکار دُنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے ارادے کو ترک کرتے ہوئے گواہوں کیساتھ اپنا بائبل مطالعہ جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔‏ اگلے سال،‏ مَیں نے جنوری ۱۹۳۲ میں یہوواہ خدا کے لئے اپنی مخصوصیت کے اظہار میں پانی کا بپتسمہ لیا۔‏ نڈولا سے قریبی شہر لوان‌شیا میں منتقل ہونے کے بعد میری ملاقات ایک ساتھی ایماندار جینٹ سے ہوئی اور ہم نے ستمبر ۱۹۳۴ میں شادی کر لی۔‏ جینٹ کی پہلی شادی سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔‏

مَیں نے بتدریج روحانی ترقی کی اور ۱۹۳۷ میں کُل‌وقتی خدمت شروع کر دی۔‏ کچھ ہی دیر بعد مجھے سفری خادم کے طور پر خدمت کرنے کے لئے تفویض کِیا گیا جو اب سرکٹ اوورسیئر کہلاتا ہے۔‏ سفری نگہبان یہوواہ کی کلیسیاؤں کو روحانی طور پر مضبوط کرنے کیلئے ان کا دورہ کرتے ہیں۔‏

ابتدائی سالوں میں منادی

جنوری ۱۹۳۸ میں مجھے یہوواہ کے گواہوں سے ملنے کی درخواست کرنے والے ایک افریقی چیف سوکونٹوی سے ملاقات کرنے کی ہدایت ملی۔‏ اُسکے علاقے تک پہنچنے کیلئے مَیں نے تین روز تک سائیکل پر سفر کِیا۔‏ جب مَیں نے اُسے کیپ ٹاؤن میں اپنے آفس کی طرف سے موصول ہونے والے خط کی ہدایت کے مطابق اُس سے ملنے کی بابت بتایا تو اُس نے دلی قدردانی دکھائی۔‏

مَیں جھونپڑیوں میں جاکر اُس کے لوگوں سے ملا اور انہیں انساکا ‏(‏عوامی بوتھ)‏ پر آنے کی دعوت دی۔‏ جب بِھیڑ جمع ہوئی تو مَیں نے ان سے بات‌چیت کی۔‏ نتیجتاً کئی بائبل مطالعے شروع ہوئے۔‏ گاؤں کا چیف اور اُسکا کلرک وہاں کی کلیسیاؤں کے پہلے نگہبان بنے۔‏ آجکل اُس جگہ ۵۰ سے زائد کلیسیائیں ہیں جو اب سام‌فیا ڈسٹرکٹ کہلاتا ہے۔‏

مَیں نے ۱۹۴۲ سے ۱۹۴۷ تک لیک بانگ‌ویلیو کے اردگرد کے علاقے میں خدمت کی۔‏ مَیں ہر کلیسیا کیساتھ دس دن رہا۔‏ اُس وقت روحانی کٹائی کے اس کام میں حصہ لینے والے مزدوروں کی محدود تعداد کی وجہ سے ہم نے بھی اپنے خداوند یسوع مسیح کی طرح محسوس کِیا جس نے کہا تھا:‏ ”‏فصل تو بہت ہے لیکن مزدور تھوڑے ہیں۔‏ پس فصل کے مالک کی منت کرو کہ وہ اپنی فصل کاٹنے کے لئے مزدور بھیج دے۔‏“‏ (‏متی ۹:‏۳۶-‏۳۸‏)‏ اس ابتدائی دور میں سفر کرنا مشکل تھا لہٰذا جینٹ اکثر لوان‌شیا میں بچوں کیساتھ رہتی تھی اور مَیں کلیسیاؤں کا دورہ کرتا تھا۔‏ اس وقت تک ہمارے دو اَور بچے ہوئے تاہم ان میں سے ایک کی دس ماہ بعد وفات ہو گئی۔‏

اس زمانہ میں گاڑیوں کی طرح پکی سڑکیں بھی کم تھیں۔‏ ایک دن مَیں نے جینٹ کی سائیکل پر ۱۲۰ میل کا سفر طے کِیا۔‏ بعض‌اوقات راستے میں آنے والی چھوٹی ندیوں سے گزرتے وقت مَیں ایک ہاتھ سے اپنی سائیکل اپنے کاندھے پر اُٹھائے رکھتا تھا اور دوسرے سے تیرتا ہوا ندی پار کِیا کرتا تھا۔‏ مَیں یہ بھی بتانا چاہونگا کہ لوان‌شیا میں گواہوں کی تعداد میں حیرت‌انگیز اضافہ ہوا اور ۱۹۴۶ میں ۸۵۰،‏۱ لوگ مسیح کی موت کی یادگار پر حاضر ہوئے تھے۔‏

ہمارے کام کی مخالفت

دوسری جنگِ‌عظیم کے دوران ایک موقع پر کاوام‌بوا کے ڈسٹرکٹ کمیشنر نے مجھے بلوایا اور کہا:‏ ”‏مَیں چاہتا ہوں کہ آپ واچ ٹاور سوسائٹی کی مطبوعات استعمال کرنا بند کر دیں کیونکہ اب ان پر پابندی عائد ہے۔‏ تاہم مَیں آپ کو کچھ کتابیں دے سکتا ہوں تاکہ انکی مدد سے آپ اپنے کام میں استعمال کرنے کیلئے دیگر کتابیں لکھ سکیں۔‏“‏

مَیں نے جواب دیا،‏ ”‏مَیں اپنی مطبوعات سے مطمئن ہوں۔‏ مجھے کسی اَور مدد کی ضرورت نہیں۔‏“‏

‏”‏تم ان امریکیوں کو نہیں جانتے،‏“‏ اُس نے کہا (‏اُس وقت ہمارا لٹریچر امریکا میں شائع ہوتا تھا)‏۔‏ ”‏وہ تمہیں گمراہ کر دینگے۔‏“‏

مَیں نے جواب دیا،‏ ”‏نہیں،‏ جن سے میرا تعلق ہے وہ ایسا نہیں کرینگے۔‏“‏

اسکے بعد اُس نے پوچھا:‏ ”‏کیا آپ اپنی کلیسیاؤں کو دوسرے مذاہب کی طرح مالی عطیات کے ذریعے جنگ میں مدد دینے کی حوصلہ‌افزائی نہیں کر سکتے؟‏“‏

مَیں نے جواب دیا،‏ ”‏یہ کام حکومتی کارکنوں کا ہے۔‏“‏

اُس نے بیان کِیا،‏ ”‏آپ گھر جاکر میری بات پر غور کیوں نہیں کرتے؟‏“‏

‏”‏خروج ۲۰:‏۱۳ اور ۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۴ میں بائبل ہمیں خون کرنے اور لڑائی میں حصہ لینے سے باز رہنے کا حکم دیتی ہے،‏“‏ مَیں نے جواب دیا۔‏

مجھے جانے کی اجازت مل گئی لیکن بعدازاں اب مانسا کہلانے والے قصبے،‏ فورٹ روزبیری کے ڈسٹرکٹ کمیشنر نے مجھے بلوا لیا۔‏ اُس نے کہا،‏ ”‏مَیں نے تمہیں یہ بتانے کیلئے یہاں بلوایا ہے کہ حکومت نے تمہاری کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔‏“‏

مَیں نے جواب دیا،‏ ”‏جی‌ہاں۔‏ مَیں نے یہ خبر سنی ہے۔‏“‏

‏”‏لہٰذا تمہیں اپنی تمام کلیسیاؤں میں جاکر اپنے ساتھی پرستاروں سے کہنا ہوگا کہ وہ اپنی کتابیں یہاں لے آئیں۔‏ میری بات سمجھ گئےہو؟‏“‏

‏”‏یہ میرا کام نہیں،‏“‏ مَیں نے جواب دیا۔‏ ”‏یہ حکومتی کارکنوں کی ذمہ‌داری ہے۔‏“‏

ایک غیرمتوقع ملاقات پھل لاتی ہے

جنگ کے بعد ہم نے منادی جاری رکھی۔‏ ۱۹۴۷ میں،‏ موانزا کے گاؤں کی ایک کلیسیا میں خدمت کرنے کے بعد مَیں نے وہاں کے لوگوں سے دریافت کِیا کہ مَیں ایک پیالی چائے کہاں سے خرید سکتا ہوں۔‏ مجھے مسٹر نکونڈے کے گھر کا پتہ بتایا گیا جہاں چائے فروخت کی جاتی تھی۔‏ مسٹر نکونڈے اور اُسکی بیوی نے میرا پُرتپاک استقبال کِیا۔‏ مَیں نے مسٹر نکونڈے سے درخواست کی کہ میرے چائے پینے کے دوران وہ کتاب ‏”‏لیٹ گاڈ بی ٹرو“‏ میں سے باب ”‏ہیل،‏ اے پلیس آف ریسٹ ان ہوپ“‏ پڑھے۔‏

چائے پینے کے بعد مَیں نے پوچھا،‏ ”‏آپ دوزخ کی بابت کیا سمجھے؟‏“‏ اُس نے جو کچھ پڑھا تھا اُس سے حیران ہوکر گواہوں کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کر دیا اور بعدازاں اُس کی بیوی اور اُس نے بپتسمہ لیا۔‏ اگرچہ وہ گواہ نہیں رہا تاہم اُسکی بیوی اور کئی بچے سچائی میں قائم رہے۔‏ درحقیقت،‏ اُسکی ایک بیٹی،‏ پل‌نی یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس میں اب بھی خدمت کر رہی ہے۔‏ پل‌نی کی ماں کافی عمررسیدہ ہونے کے باوجود ابھی تک ایک وفادار گواہ ہے۔‏

مشرقی افریقہ کا مختصر دورہ

شمالی روڈیشیا،‏ لوساکا میں ۱۹۴۸ میں قائم‌کردہ ہمارے برانچ آفس نے میری تعینات ٹانگانیکا (‏اب تنزانیہ)‏ میں کی۔‏ ایک اَور گواہ نے بھی میری بیوی اور میرے ساتھ کوہستانی علاقے کا پیدل سفر کِیا۔‏ اس دشوارگزار سفر میں ہمیں تین دن لگے۔‏ میرے ہاتھ میں ڈھیر ساری کتابیں تھیں،‏ میری بیوی نے کپڑے اور دوسرے گواہ نے بستر اُٹھائے تھے۔‏

جب ہم مارچ،‏ ۱۹۴۸ میں مبیا پہنچے تو وہاں کے بھائیوں کو بائبل کی تعلیمات سے زیادہ مطابقت پیدا کرنے کے لئے تبدیلیاں لانے میں کافی زیادہ مدد کی ضرورت پڑی۔‏ سب سے پہلے،‏ ہم اس علاقہ میں واچ‌ٹاور کے لوگوں کے طور پر جانے جاتے تھے۔‏ بھائی یہوواہ کے گواہ نام اختیار کرنے کے باوجود لوگوں میں اس نام سے مشہور نہیں تھے۔‏ اس کے علاوہ،‏ بعض گواہوں نے مُردوں کی تعظیم کے سلسلے میں کچھ رسومات ترک نہیں کی تھیں۔‏ تاہم،‏ بہتیروں کے لئے شاید سب سے مشکل ردوبدل اپنی شادیوں کو قانونی حیثیت دینا تھا تاکہ یہ سب میں عزت کی بات سمجھی جائے۔‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۴‏۔‏

بعدازاں مجھے یوگینڈا سمیت مشرقی افریقہ میں خدمت کا شرف ملا۔‏ مَیں نے انٹی‌بی اور کامپالا میں تقریباً چھ ہفتے گزارے جہاں بائبل سچائی کا علم حاصل کرنے میں بہتیروں کو مدد دی گئی۔‏

نیو یارک شہر میں دعوت

یوگینڈا میں خدمت کرنے کے کچھ عرصہ بعد،‏ مَیں ۱۹۵۶ کے اوائل میں ٹانگانیکا کے دارالحکومت دارسلام پہنچا۔‏ وہاں یہوواہ کے گواہوں کے عالمی ہیڈکوارٹرز کی طرف سے ایک خط میرا منتظر تھا۔‏ اس میں ۱۹۵۸ میں جولائی ۲۷ سے اگست ۳ تک ایک بین‌الاقوامی کنونشن پر حاضر ہونے کے لئے نیو یارک آنے کی تیاری کرنے کی ہدایات موجود تھیں۔‏ واضح طور پر اس امکان نے مجھے بیحد خوشی بخشی۔‏

جب وقت آیا تو مَیں نے ایک سفری نگہبان لوکا میوانگو کیساتھ نڈولا سے سالس‌بری (‏اب ہراری)‏،‏ جنوبی روڈیشیا،‏ پھر نیروبی،‏ کینیا کا ہوائی سفر کِیا۔‏ وہاں سے ہم نے لندن ،‏ انگلینڈ کا ہوائی سفر کِیا جہاں ہمارا پُرتپاک استقبال کِیا گیا۔‏ انگلینڈ میں پہلی رات ہم بہت خوش تھے اور دیر تک ایک دوسرے سے اس موضوع پر بات‌چیت کرتے رہے کہ سفید فام لوگوں نے کیسی گرمجوشی سے افریقی لوگوں کیلئے مہمان‌نوازی ظاہر کی تھی۔‏ ہم نے اس تجربے سے بڑی حوصلہ‌افزائی حاصل کی تھی۔‏

آخرکار ہم نیو یارک پہنچے جہاں کنونشن منعقد ہونا تھا۔‏ کنونشن کے ایک دن،‏ مَیں نے شمالی روڈیشیا میں یہوواہ کے گواہوں کی کارگزاری کی رپورٹ دی۔‏ اُس دن نیو یارک شہر کے پولو گراؤنڈ اور یانکی سٹیڈیم میں سامعین کی تعداد تقریباً ۰۰۰،‏۰۰،‏۲ تھی۔‏ مجھے اِس شاندار شرف کی بابت سوچتے ہوئے اُس رات نیند نہیں آ رہی تھی۔‏

بہت جِلد کنونشن ختم ہوا اور ہم گھر لوٹ آئے۔‏ گھر لوٹتے وقت ہم نے ایک بار پھر انگلینڈ میں اپنے بہن‌بھائیوں کی مشفقانہ مہمان‌نوازی سے لطف اُٹھایا۔‏ اُس دورے کے دوران نسل یا قومیت سے قطع‌نظر یہوواہ کے لوگوں کا اتحاد ہمارے لئے ناقابلِ‌فراموش تھا!‏

خدمت اور مشکلات کا جاری رہنا

سن ۱۹۶۷ میں مجھے ڈسٹرکٹ خادم مقرر کِیا گیا—‏ایسا خادم جو ایک سرکٹ سے دوسرے سرکٹ کا دورہ کرتا ہے۔‏ اُس وقت تک زمبیا میں گواہوں کی تعداد ۰۰۰،‏۳۵ سے زیادہ ہو گئی تھی۔‏ بعدازاں اپنی بگڑتی ہوئی صحت کی وجہ سے مجھے ایک بار پھر کاپربیلٹ میں سرکٹ اوورسیئر کے طور پر مقرر کِیا گیا۔‏ آخر میں جینٹ کی صحت خراب ہو گئی اور اُس نے دسمبر ۱۹۸۴ میں یہوواہ کی ایک وفادار خادمہ کے طور پر وفات پائی۔‏

اُسکی موت کے بعد جب میرے بےایمان سُسرالی رشتےداروں نے مجھ پر جادو کرکے اپنی بیوی کو مار ڈالنے کا الزام لگایا تو مجھے بہت افسوس ہوا۔‏ تاہم جینٹ کے ڈاکٹر سے بات‌چیت کرنے اور اُسکی بیماری کی بابت جاننے والے بعض اشخاص نے ان رشتہ‌داروں کو حقیقت سے آگاہ کِیا۔‏ اسکے بعد،‏ ایک اَور آزمائش آئی۔‏ بعض رشتہ‌دار چاہتے تھے کہ مَیں یوکوپیانیکا رسم ادا کروں۔‏ میرا تعلق جس علاقہ سے ہے وہاں کی یہ رسم شادی‌شُدہ شخص سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے ساتھی کی موت کے بعد اُس کی قریبی رشتہ‌دار کیساتھ جنسی تعلقات قائم کرے۔‏ بیشک،‏ مَیں نے انکار کِیا۔‏

آخرکار رشتہ‌داروں کی طرف سے دباؤ ختم ہوا۔‏ مَیں شکرگزار تھا کہ یہوواہ نے ایک ٹھوس مؤقف اختیار کرنے میں میری مدد کی تھی۔‏ میری بیوی کے جنازے کے ایک ہفتہ بعد ایک بھائی نے میرے پاس آ کر کہا:‏ ”‏بھائی کانگ‌یل،‏ اپنی بیوی کی موت پر کسی بھی غیرمسیحی رسم میں حصہ نہ لینے سے آپ واقعی ہمارے لئے حوصلہ‌افزائی کا باعث رہے ہیں۔‏ ہم آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔‏“‏

ایک شاندار کٹائی

یہوواہ کے گواہ کے طور پر میری کُل‌وقتی خدمت کو اب ۶۵ سال ہو چکے ہیں۔‏ ان سالوں کے دوران اپنے خدمتی علاقوں میں جہاں مَیں سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرتا تھا،‏ ہزاروں کلیسیاؤں کے قیام اور متعدد کنگڈم ہالز کی تعمیر کو دیکھنا کسقدر خوش‌کُن تجربہ ہے!‏ زمبیا میں ۱۹۴۳ میں کوئی ۸۰۰،‏۲ گواہوں سے اب بادشاہتی منادوں کی تعداد بڑھ کر ۰۰۰،‏۲۲،‏۱ سے زائد ہو گئی ہے۔‏ واقعی،‏ ۱۱ ملین سے بھی کم آبادی والے اس ملک میں پچھلے سال ۰۰۰،‏۱۴،‏۵ سے زیادہ لوگ میموریل پر حاضر ہوئے تھے۔‏

اس دوران یہوواہ نے میری اچھی دیکھ‌بھال کی ہے۔‏ جب مجھے طبّی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو ایک مسیحی بھائی مجھے ہسپتال لے جاتا ہے۔‏ کلیسیائیں اب بھی مجھے تقاریر پیش کرنے کی دعوت دیتی ہیں جس سے مَیں نے بڑی تقویت حاصل کی ہے۔‏ مَیں جس کلیسیا کیساتھ رفاقت رکھتا ہوں وہاں میرے گھر کی صفائی کیلئے مختلف مسیحی بہنوں اور مجھے ہر ہفتے اجلاسوں پر لیجانے کیلئے رضاکار بھائیوں کا بندوبست کِیا جاتا ہے۔‏ مَیں جانتا ہوں کہ اگر مَیں یہوواہ کی خدمت نہ کرتا تو ایسی مشفقانہ دیکھ‌بھال سے محروم رہتا۔‏ مَیں یہوواہ کا شکرگزار ہوں کہ اُس نے مجھے آج تک کُل‌وقتی خدمت اور ایسی بہتیری ذمہ‌داریوں کیلئے استعمال کِیا ہے۔‏

میری بینائی کم ہو گئی ہے اور کنگڈم ہال جاتے وقت مجھے راستے میں کئی بار آرام کیلئے رکنا پڑتا ہے۔‏ اب مجھے اپنی کتابوں کا بیگ زیادہ بھاری لگتا ہے لہٰذا مَیں اسے ہلکا کرنے کیلئے اس میں سے ایسی کتابیں نکال دیتا ہوں جن کی مجھے اجلاس پر ضرورت نہیں ہوتی۔‏ میری میدانی خدمتگزاری زیادہ‌تر میرے گھر پر آنے والوں کیساتھ بائبل مطالعوں پر مبنی ہے۔‏ تاہم،‏ گزرے ہوئے سالوں کو یاد کرنا اور اپنی شاندار ترقی پر غور کرنا واقعی خوشی کا باعث ہے!‏ مَیں نے ایسے میدان میں کام کِیا ہے جہاں یسعیاہ ۶۰:‏۲۲ میں درج یہوواہ کے الفاظ کی نمایاں طور پر تکمیل ہوئی ہیں۔‏ یہاں بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏سب سے چھوٹا ایک ہزار ہو جائیگا اور سب سے حقیر ایک زبردست قوم۔‏ مَیں [‏یہوواہ]‏ عین وقت پر یہ سب کچھ جلد کرونگا۔‏“‏ واقعی،‏ مَیں نے اپنے جیتے جی زمبیا کے علاوہ پوری دُنیا میں اس بات کی تکمیل کو دیکھا ہے۔‏ *

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ،‏ جس کی اب اشاعت نہیں ہوتی۔‏

^ پیراگراف 50 افسوس کی بات ہے کہ بھائی کانگ‌یل کی طاقت جواب دے گئی اور اِس مضمون کی تیاری کے دوران ان کی وفادارانہ زندگی نبھا نہ سکی۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویریں]‏

تھامسن اور پس‌منظر میں زمبیا برانچ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

زمبیا کی حالیہ برابچ