مسیحی رُوح اور سچائی سے پرستش کرتے ہیں
مسیحی رُوح اور سچائی سے پرستش کرتے ہیں
”خدا رُوح ہے اور ضرور ہے کہ اُسکے پرستار رُوح اور سچائی سے پرستش کریں۔“—یوحنا ۴:۲۴۔
۱. خدا کس قسم کی پرستش پسند کرتا ہے؟
یہوواہ کے اکلوتے بیٹے، یسوع مسیح نے واضح طور پر ایسی پرستش کی بابت بتایا جو اُسکے آسمانی باپ کو پسند آتی ہے۔ سوخار شہر کے نزدیک واقع کوئیں پر خلوصدلی کیساتھ ایک سامری عورت کو گواہی دیتے وقت یسوع نے کہا: ”تُم جسے نہیں جانتے اُسکی پرستش کرتے ہو۔ ہم جسے جانتے ہیں اُسکی پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش رُوح اور سچائی سے کرینگے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔ خدا رُوح ہے اور ضرور ہے کہ اُسکے پرستار رُوح اور سچائی سے پرستش کریں۔“ (یوحنا ۴:۲۲-۲۴) ہم اِن الفاظ سے کیا سمجھتے ہیں؟
۲. سامریوں کی پرستش کی بنیاد کیا تھی؟
۲ سامری غلط مذہبی نظریات رکھتے تھے۔ وہ پاک صحائف کی پہلی پانچ کتابوں کو ہی الہامی مانتے تھے اور یہ ترمیمشُدہ سامریوں کی توریت کے طور پر مشہور تھیں۔ سامری تو خدا کو حقیقت میں نہیں جانتے تھے جبکہ یہودیوں کو صحیفائی علم سے نوازا گیا تھا۔ (رومیوں ۳:۱، ۲) وفادار یہودیوں اور دیگر لوگوں کیلئے خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ممکن تھا۔ مگر اس کیلئے اُنہیں کیا کرنے کی ضرورت تھی؟
۳. ”رُوح اور سچائی“ سے خدا کی پرستش کرنے کیلئے کیا ضروری ہے؟
۳ یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہودیوں، سامریوں اور پُرانے زمانے کے دیگر لوگوں کو کیا کرنا تھا؟ اُن کیلئے ”رُوح اور سچائی“ سے اُسکی پرستش کرنا ضروری تھا؟ لہٰذا ہمیں بھی یہی کرنا چاہئے۔ اگرچہ محبت اور وفاداری سے معمور دل سے تحریک پا کر خدا کی خدمت جوشوجذبے کیساتھ کی جانی چاہئے توبھی، رُوح سے خدا کی پرستش کرنے کا مطلب بالخصوص یہ ہے کہ اُس کی پاک رُوح ہمارے ساتھ ہو اور ہم اُس کی راہنمائی قبول کرتے ہوں۔ خدا کے کلام کے مطالعے اور اطلاق کے ذریعے ہمارے ذہنی میلان کو خدا کے ساتھ مطابقت پیدا کرنی چاہئے۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۸-۱۲) ہمیں سچائی کیساتھ خدا کی پرستش کرنی چاہئے تاکہ اُسے پسند آ سکے۔ ہماری پرستش کو خدا کے کلام بائبل اور اُس میں آشکارا اُسکے مقاصد کی مطابقت میں ہونا چاہئے۔
سچائی مل سکتی ہے
۴. بعض سچائی کو کیسا خیال کرتے ہیں؟
۴ فلسفہ کے بعض طالبعلموں نے یہ نظریہ قائم کر رکھا ہے کہ مطلق سچائی تک پہنچنا انسان کی دسترس میں نہیں ہے۔ درحقیقت، سویڈش مصنف الف البرگ نے لکھا: ”بیشتر فلسفیانہ سوال ایسی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ اُنکا حتمی جواب دینا ممکن نہیں ہوتا۔“ اگرچہ بعض کے خیال میں صرف نسبتی سچائی سے واقف ہونا ہی ممکن ہے، توبھی کیا یہ حقیقت ہے؟ یسوع مسیح کے مطابق ایسا نہیں ہے۔
۵. یسوع دُنیا میں کیوں آیا تھا؟
۵ ذرا تصور کریں کہ آپ مندرجہذیل منظر دیکھ رہے ہیں: یہ ۳۳ س.ع. کے اوائل کا وقت ہے اور یسوع رومی گورنر پنطس پیلاطُس کے حضور کھڑا ہے۔ یسوع پیلاطُس سے کہتا ہے: ”مَیں . . . اس واسطے دُنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں۔“ پیلاطُس پوچھتا ہے: ”حق کیا ہے؟“ مگر وہ یسوع کے جواب کا انتظار نہیں کرتا۔—۶. (ا) ”سچائی“ کی تشریح کیسے کی گئی ہے؟ (ب) یسوع نے اپنے پیروکاروں کو کونسا حکم دیا؟
۶ ”حق“ کی تشریح ”حقیقی چیزوں، واقعات اور حقائق کے مجموعے“ کے طور پر کی گئی ہے۔ (ویبسٹرز نائنتھ نیو کالجیسٹ ڈکشنری) تاہم، کیا یسوع نے عمومی حق پر گواہی دی تھی؟ نہیں۔ اُسکے ذہن میں مخصوص سچائی تھی۔ اُس نے اپنے پیروکاروں کو ایسی سچائی بیان کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ”سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوحاُلقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تمکو حکم دیا۔“ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) اس نظامالعمل کے خاتمے سے پہلے یسوع کے سچے پیروکار ”خوشخبری کی منادی“ پوری زمین پر کریں گے۔ (گلتیوں ۲:۱۴) یہ بات یسوع کے اِن الفاظ کی مطابقت میں پوری ہوگی: ”بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کیلئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“ (متی ۲۴:۱۴) پس یہ اشد ضروری ہے کہ ہم اُن لوگوں کی شناخت کریں جو سب قوموں میں بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کے ذریعے سچائی کی تعلیم دے رہے ہیں۔
ہم سچائی کیسے سیکھ سکتے ہیں
۷. آپ یہ کیسے ثابت کرینگے کہ یہوواہ سچائی کا ماخذ ہے؟
۷ روحانی سچائی کا ماخذ یہوواہ ہے۔ درحقیقت، زبورنویس داؤد نے یہوواہ کو ”سچائی کا خدا“ کہا تھا۔ (زبور ۳۱:۵؛ ۴۳:۳) یسوع نے اس بات کو تسلیم کِیا کہ اُسکے باپ کا کلام سچائی ہے اور اُس نے یہ بھی بیان کِیا: ”نبیوں کے صحیفوں میں یہ لکھا ہے کہ وہ سب خدا سے تعلیمیافتہ ہونگے۔ جس کسی نے باپ سے سنا اور سیکھا ہے وہ میرے پاس آتا ہے۔“ (یوحنا ۶:۴۵؛ ۱۷؛۱۷؛ یسعیاہ ۵۴:۱۳) پس واضح طور پر سچائی کے متلاشیوں کو عظیم مُعلم یہوواہ سے تعلیم پانی چاہئے۔ (یسعیاہ ۳۰:۲۰، ۲۱) سچائی کے متلاشیوں کو ”خدا کی معرفت“ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ (امثال ۲:۵) یہوواہ نے مختلف طریقوں سے مشفقانہ طور پر سچائی کی تعلیم دی ہے یا اسے ہم تک پہنچایا ہے۔
۸. خدا نے کن طریقوں سے سچائی کی تعلیم دی یا اسے تحریر کروایا تھا؟
۸ مثال کے طور پر، یہوواہ نے فرشتوں کی معرفت اسرائیلیوں کو شریعت دی تھی۔ (پیدایش ۳:۱۹) خوابوں کے ذریعے اُس نے آبائی بزرگ ابرہام اور یعقوب کو برکت دینے کا وعدہ فرمایا۔ (پیدایش ۱۵:۱۲-۱۶؛ ۲۸:۱۰-۱۹) خدا آسمان سے بھی ہمکلام ہوا جب یسوع کو زمین پر یہ ہیجانخیز الفاظ سنائی دئے: ”یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔“ (متی ۳:۱۷) ہم اسلئے بھی شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ خدا نے بائبل لکھنے والوں کو الہام بخشنے سے سچائی کو تحریر کروایا تھا۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷) پس، خدا کے کلام سے تعلیم پانے سے ہم ”حق پر ایمان“ لا سکتے ہیں۔—۲-تھسلنیکیوں ۲:۱۳۔
سچائی اور خدا کا بیٹا
۹. خدا نے سچائی کو آشکارا کرنے کیلئے اپنے بیٹے کو کیسے استعمال کِیا تھا؟
۹ انسانوں پر سچائی ظاہر کرنے کے لئے، خدا نے اپنے بیٹے یسوع مسیح کو بالخصوص استعمال کِیا ہے۔ (عبرانیوں ۱:۱-۳) درحقیقت، یسوع نے اِس طریقے سے سچائی کو پیش کِیا کہ پہلے کسی نے ایسا نہیں کِیا تھا۔ (یوحنا ۷:۴۶) اُس نے واپس آسمان پر جانے کے بعد بھی باپ کی طرف سے سچائی کو آشکارا کِیا۔ مثال کے طور پر، یوحنا رسول کو ’خدا کی طرف سے یسوؔع مسیح کا مکاشفہ اس لئے ہوا کہ اپنے بندوں کو وہ باتیں دکھائے جنکا جلد ہونا ضرور ہے۔‘—مکاشفہ ۱:۱-۳۔
۱۰، ۱۱. (ا) جس سچائی کی یسوع نے گواہی دی اسکا تعلق کس چیز سے تھا؟ (ب) یسوع نے سچائی کو کیسے حقیقت بنا دیا؟
۱۰ یسوع نے پنطس پیلاطُس سے کہا کہ وہ زمین پر حق پر گواہی دینے کیلئے آیا ہے۔ اپنی خدمتگزاری کے دوران یسوع نے ظاہر کِیا کہ اس سچائی کا تعلق خدا کی مسیحائی بادشاہت کے ذریعے یہوواہ کے نام کی بڑائی کرنے سے ہے۔ مگر سچائی کی بابت گواہی دینے میں یسوع سے محض منادی کرنے اور تعلیم دینے سے زیادہ کچھ کا تقاضا کِیا گیا تھا۔ یسوع نے اُس سچائی کی تکمیل کرنے سے اُسے حقیقی بنایا تھا۔ اس کی مطابقت میں پولس رسول نے لکھا: ”پس کھانےپینے یا عید یا نئے چاند یا سبت کی بابت کوئی تُم پر الزام نہ لگائے۔ کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا سایہ ہیں مگر اصل چیزیں مسیح کی ہیں۔“—کلسیوں ۲:۱۶، ۱۷۔
۱۱ سچائی کے حقیقت ثابت ہونے کا ایک طریقہ بیتلحم میں یسوع کی پیدائش کی پیشینگوئی کی تکمیل تھی۔ (میکاہ ۵:۲؛ لوقا ۲:۴-۱۱) سالوں کے ۶۹ ہفتوں کے اختتام پر مسیحا کی آمد کی بابت دانیایل کے نبوّتی الفاظ کی تکمیل نے بھی سچائی کو حقیقی بنا دیا تھا۔ یہ اُس وقت ہوا جب یسوع نے ۲۹ س.ع. میں، بالکل صحیح وقت پر بپتسمہ لینے کے بعد خود کو خدا کے حضور پیش کِیا اور اُسے رُوحاُلقدس کے ذریعے مسح کِیا گیا۔ (دانیایل ۹:۲۵؛ لوقا ۳:۱، ۲۱، ۲۲) بادشاہتی مُناد کے طور پر یسوع کی خدمتگزاری نے اس سچائی کو مزید حقیقی بنا دیا۔ (یسعیاہ ۹:۱، ۲، ۶، ۷؛ ۶۱:۱، ۲؛ متی ۴:۱۳-۱۷؛ لوقا ۴:۱۸-۲۱) اُس کی موت اور قیامت نے بھی اسے حقیقی بنا دیا۔—زبور ۱۶:۸-۱۱؛ یسعیاہ ۵۳:۵، ۸، ۱۱، ۱۲؛ متی ۲۰:۲۸؛ یوحنا ۱:۲۹؛ اعمال ۲:۲۵-۳۱۔
۱۲. یسوع کیوں کہہ سکتا تھا کہ ’حق مَیں ہوں‘؟
۱۲ یسوع سچائی کے محور کے طور پر یہ کہہ سکتا تھا: ”راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔“ (یوحنا ۱۴:۶) لوگ خدا کے مقصد میں یسوع کے کردار کو تسلیم کرنے اور خود کو ’حقانی‘ ثابت کرنے پر ہی روحانی طور پر آزاد ہوتے ہیں۔ (یوحنا ۸:۳۲-۳۶؛ ۱۸:۳۷) بھیڑخصلت لوگ سچائی کو قبول کرنے اور مسیح کے نقشِقدم پر چلنے کی وجہ سے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرینگے۔—یوحنا ۱۰:۲۴-۲۸۔
۱۳. ہم کونسے تین حلقوں میں صحیفائی سچائی کا جائزہ لینگے؟
۱۳ یسوع اور اُس کے الہامیافتہ شاگردوں کی طرف سے بیانکردہ سچائی ہی سچے مسیحی ایمان کی بنیاد ہے۔ پس ’ایمان کے تحت ہو‘ جانے والے ’حق پر چلتے ہیں۔‘ (اعمال ۶:۷؛ ۳-یوحنا ۳، ۴) لہٰذا آجکل کون سچائی پر چل رہے ہیں؟ درحقیقت کون قوموں کو سچائی کی تعلیم دے رہے ہیں؟ ایسے سوالوں کے جواب دینے کے لئے ہم ابتدائی مسیحیوں پر غور کریں گے اور (ا) اعتقادات، (۲) طرزِعبادت اور (۳) ذاتی چالچلن سے متعلق صحیفائی سچائی پر غور کرینگے۔
سچائی اور اعتقادات
۱۴، ۱۵. آپ صحائف کی بابت ابتدائی مسیحیوں اور یہوواہ کے گواہوں کے رُجحان کی بابت کیا کہینگے؟
۱۴ ابتدائی مسیحی یہوواہ کے تحریری کلام کا بہت احترام کرتے تھے۔ (یوحنا ۱۷:۱۷) اعتقادات اور اعمال کی بابت یہی اُنکا معیار تھا۔ دوسری اور تیسری صدی کے سکندریہ کے کلیمنٹ نے کہا: ”جو لوگ خوب سے خوبتر کی تلاش میں رہتے ہیں وہ اُس وقت تک سچائی کی تلاش کرنا بند نہیں کرتے جبتک کہ اُنہیں یہ ثبوت نہیں مل جاتا کہ اُن کے اعتقادات صحائف پر مبنی ہیں۔“
۱۵ ابتدائی مسیحیوں کی طرح، یہوواہ کے گواہ بھی بائبل کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں۔ اُنکا ایمان ہے کہ ”ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم . . . کے لئے فائدہمند ہے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶) پس ہمیں یہوواہ کے جدید خادموں کے عقائد کی روشنی میں ابتدائی مسیحیوں کے چند عقائد کا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ وہ بائبل کو اپنی بنیادی درسی کتاب کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
جان کی بابت سچائی
۱۶. جان کی بابت سچائی کیا ہے؟
۱۶ صحائف کی تعلیمات پر ایمان رکھنے کی وجہ سے پہلی صدی کے مسیحیوں نے جان کی بابت سچی تعلیم دی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ جب خدا نے انسان کو خلق کِیا تو وہ ”جیتی جان ہوا۔“ (پیدایش ۲:۷) مزیدبرآں، وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسانی جان مرتی ہے۔ (حزقیایل ۱۸:۴؛ یعقوب ۵:۲۰) وہ یہ ایمان بھی رکھتے تھے کہ ”مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔“—واعظ ۹:۵، ۱۰۔
۱۷. آپ مُردوں کی بابت اُمید کو کیسے بیان کرینگے؟
۱۷ تاہم، یسوع کے ابتدائی شاگرد یہ یقینی اُمید رکھتے تھے کہ جو مُردے خدا کی یاد میں ہیں وہ زندہ کئے جائینگے۔ اس اعتقاد کا اظہار پولس نے یہ کہتے ہوئے کِیا: ”خدا سے اُسی بات کی اُمید رکھتا ہوں جس کے وہ خود بھی منتظر ہیں کہ راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔“ (اعمال ۲۴:۱۵) بعدازاں، اقبالی مسیحی مینوسیایس فیلکس نے لکھا: ”کون اتنا احمق ہے کہ وہ یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ جس انسان کو خدا نے ابتدا میں بنایا ہے وہ اُسے دوبارہ زندگی عطا نہیں کر سکتا؟“ ابتدائی مسیحیوں کی طرح، یہوواہ کے گواہ بھی انسانی جان، موت اور قیامت کی بابت صحیفائی سچائی پر ایمان رکھتے ہیں۔ آئیے اب خدا اور مسیح کی شناخت پر غور کریں۔
سچائی اور تثلیث
۱۸، ۱۹. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ تثلیث صحیفائی تعلیم نہیں ہے؟
۱۸ ابتدائی مسیحی خدا، مسیح اور رُوحاُلقدس کو تثلیث خیال نہیں کرتے تھے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے: ”تثلیث کا لفظ اور عقیدہ نئے عہدنامہ میں نہیں پایا جاتا، نہ ہی یسوع اور اُس کے پیروکاروں نے پُرانے عہدنامہ میں پائی جانے والی [عبرانی دُعا] شیما: ”سُن اَے اؔسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے“ کی تردید کی تھی۔ (استثنا ۶:۴) مسیحی رومی تثلیث یا دوسرے معبودوں کی پرستش نہیں کرتے تھے۔ وہ یسوع کے اس بیان پر کاربند تھے کہ صرف یہوواہ کی پرستش کی جانی چاہئے۔ (متی ۴:۱۰) علاوہازیں وہ یسوع کے اِن الفاظ پر ایمان رکھتے تھے: ”باپ مجھ سے بڑا ہے۔“ (یوحنا ۱۴:۲۸) آجکل یہوواہ کے گواہ بھی یہی ایمان رکھتے ہیں۔
۱۹ یسوع کے ابتدائی پیروکار خدا، مسیح اور رُوحاُلقدس کے مابین واضح فرق کرتے تھے۔ درحقیقت، وہ شاگردوں کو تثلیث کے نام کی بجائے متی ۲۸:۱۹۔
(۱) باپ، (۲) بیٹے اور (۳) رُوحاُلقدس کے نام سے بپتسمہ دیتے تھے۔ اسی طرح یہواہ کے گواہ صحیفائی سچائی کی تعلیم دیتے اور خدا اور اُسکے بیٹے اور پاک رُوح کے مابین فرق بیان کرتے ہیں۔—سچائی اور بپتسمہ
۲۰. بپتسمہ کے اُمیدواروں کیلئے کونسا علم ضروری تھا؟
۲۰ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو لوگوں کو سچائی کی تعلیم دیکر شاگرد بنانے کا حکم دیا تھا۔ بپتسمہ کے لائق ٹھہرنے کے لئے اُنہیں صحائف کے بنیادی علم کی ضرورت تھی۔ مثال کے طور پر، اُنہیں باپ اور اُس کے بیٹے یسوع مسیح کے مرتبے اور اختیار کو تسلیم کرنا چاہئے۔ (یوحنا ۳:۱۶) بپتسمہ کے اُمیدواروں کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رُوحاُلقدس ایک شخص نہیں بلکہ خدا کی سرگرم قوت ہے۔—پیدایش ۱:۲۔
۲۱، ۲۲. آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ بپتسمہ صرف ایمانداروں کیلئے ہے؟
۲۱ ابتدائی مسیحی صرف ایسے صاحبِعلم اور تائب اشخاص کو بپتسمہ دیتے تھے جنہوں نے غیرمشروط طور پر اپنے آپ کو خدا کی مرضی پوری کرنے کے لئے مخصوص کِیا تھا۔ پنتِکُست ۳۳ س.ع. پر، یروشلیم میں جمع ہونے والے یہودی اور نومرید عبرانی صحائف کا علم رکھتے تھے۔ یسوع یعنی مسیحا کی بابت پطرس رسول کی باتچیت سن کر تقریباً ۰۰۰،۳ نے ”اُسکا کلام قبول کِیا“ اور ”بپتسمہ لیا۔“—اعمال ۲:۴۱؛ ۳:۱۹–۴:۴؛ ۱۰:۳۴-۳۸۔
۲۲ مسیحی بپتسمہ ایمانداروں کے لئے ہے۔ سامریہ کے لوگوں نے سچائی کو قبول کِیا اور ”جب اُنہوں نے فلپسؔ کا یقین کِیا جو خدا کی بادشاہی اور یسوؔع مسیح کے نام کی خوشخبری دیتا تھا تو سب لوگ خواہ مرد خواہ عورت بپتسمہ لینے لگے۔“ (اعمال ۸:۱۲) ایک عقیدتمند نومرید کے طور پر یہوواہ کی بابت جانتے ہوئے حبشی خوجہ نے پہلے مسیحائی پیشینگوئی کی تکمیل سے متعلق فلپس کے بیانات کو قبول کِیا اور اس کے بعد بپتسمہ لیا تھا۔ (اعمال ۸:۳۴-۳۶) بعدازاں، پطرس نے کرنیلیس اور دیگر غیرقوم لوگوں کو بتایا کہ ”جو اُس [خدا] سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے“ اور جو کوئی یسوع مسیح پر ایمان لاتا ہے وہ گناہوں کی معافی حاصل کرتا ہے۔ (اعمال ۱۰:۳۵، ۴۳؛ ۱۱:۱۸) یہ سب کچھ یسوع کے اس حکم کی مطابقت میں ہوا تھا کہ ’شاگرد بناؤ اور اُنہیں تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا یسوع نے اُنہیں حکم دیا ہے۔‘ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰؛ اعمال ۱:۸) یہوواہ کے گواہ اسی معیار کی پابندی کرتے ہوئے صرف اُنہیں بپتسمے کی اجازت دیتے ہیں جو صحائف کا بنیادی علم رکھتے ہیں اور جنہوں نے خدا کے لئے مخصوصیت کی ہیں۔
۲۳، ۲۴. مسیحی بپتسمے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
۲۳ پانی میں مکمل ڈبکی ہی ایمانداروں کے لئے درست بپتسمہ ہے۔ یسوع کے دریائےیردن میں بپتسمہ لینے کے بعد وہ ”پانی سے نکل کر اُوپر آیا۔“ (مرقس ۱:۱۰) حبشی خوجہ نے بھی ”پانی کی جگہ“ پر بپتسمہ لیا۔ وہ اور فلپس ”پانی میں اُتر پڑے“ اور پھر ”پانی میں سے نکل کر اُوپر“ آئے۔ (اعمال ۸:۳۶-۴۰) صحیفائی طور پر بپتسمے کا علامتی مطلب دفن ہونا بھی پانی میں مکمل ڈبکی لینے کو ظاہر کرتا ہے۔—رومیوں ۶:۴-۶؛ کلسیوں ۲:۱۲۔
۲۴ دی آکسفورڈ کمپینیئن ٹو دی بائبل بیان کرتی ہے: ”نئے عہدنامے میں بپتسمے کی بابت یہ مخصوص بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ بپتسمہ پانے والا شخص پانی میں ڈبکی لیتا تھا۔“ ایک فرنچ کتاب لاروسی دی XX سیکل (پیرس ۱۹۲۸) کے مطابق، ”ابتدائی مسیحی پانی کی جگہ پر ڈبکی لیکر بپتسمہ لیتے تھے۔“ نیز کتاب آفٹر جیزز—دی ٹرائمف آف کرسچینٹی بیان کرتی ہے: ”ابتداً بپتسمہ اُمیدوار کی طرف سے ایمان کے اعتراف کا تقاضا کرتا تھا جسکے بعد یسوع کے نام سے پانی میں مکمل طور پر ڈبکی دی جاتی تھی۔“
۲۵. اگلے مضمون میں کس موضوع پر بحث کی جائیگی؟
۲۵ ابتدائی مسیحیوں کے بائبل پر مبنی اعتقادات اور طرزِعمل کی بابت پیش کئے جانے والے نکات محض مثالیں ہیں۔ انکے اَور یہوواہ کے گواہوں کے اعتقادات کے درمیان مماثلت کو بیان کرنا ممکن ہے۔ اگلے مضمون میں، ہم ایسے اضافی طریقوں پر بحث کرینگے جن سے سچائی کی تعلیم دینے والے لوگوں کی شناخت کرنا ممکن ہوگا۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• خدا کس قسم کی پرستش کا تقاضا کرتا ہے؟
• یسوع مسیح کے وسیلہ سے سچائی کیسے حقیقت بن گئی؟
• جان اور موت کی بابت سچائی کیا ہے؟
• مسیحی بپتسمہ کس طرح عمل میں آتا ہے اور بپتسمے کے اُمیدواروں سے کیا توقع کی جاتی ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
یسوع نے پیلاطُس سے کہا: ’مَیں حق پر گواہی دینے کیلئے آیا ہوں‘
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
کیا آپ بیان کر سکتے ہیں کہ یسوع نے یہ کیوں کہا تھا: ’حق مَیں ہوں‘؟
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
مسیحی بپتسمے کی بابت سچائی کیا ہے؟