مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏خدا کے بڑے بڑے کاموں“‏ سے تحریک پانا

‏”‏خدا کے بڑے بڑے کاموں“‏ سے تحریک پانا

‏”‏خدا کے بڑے بڑے کاموں“‏ سے تحریک پانا

‏”‏اپنی اپنی زبان میں اُن سے خدا کے بڑے بڑے کاموں کا بیان سنتے ہیں۔‏“‏ —‏اعمال ۲:‏۱۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ کے دن یروشلیم میں کونسا حیران‌کُن واقعہ پیش آیا تھا؟‏

یروشلیم کے ایک گھر میں جمع یسوع مسیح کے شاگردوں پر مشتمل مردوزن کے ایک گروہ کیساتھ ۳۳ س.‏ع.‏ کے موسمِ‌بہار کی ایک صبح حیران‌کُن واقعہ پیش آیا۔‏ ”‏یکایک آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اور اُس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا۔‏ اور اُنہیں آگ کے شعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں .‏ .‏ .‏ اور وہ سب رُوح‌اُلقدس سے بھر گئے اور غیرزبانیں بولنے لگے“‏۔‏—‏اعمال ۲:‏۲-‏۴،‏ ۱۵‏۔‏

۲ گھر کے باہر ایک بڑی بِھیڑ جمع ہو گئی۔‏ ان میں عیدِپنتِکُست منانے کیلئے یروشلیم آنے والے غیرملکی ”‏خداترس“‏ یہودی بھی شامل تھے۔‏ وہ شاگردوں کو اپنی زبان میں ”‏خدا کے بڑے بڑے کاموں“‏ کا بیان کرتے سنکر حیران تھے۔‏ یہ کیسے ممکن تھا جبکہ بولنے والے تمام لوگ گلیلی تھے؟‏—‏اعمال ۲:‏۵-‏۸،‏ ۱۱‏۔‏

۳.‏ پطرس رسول نے پنتِکُست کے دن جمع ہونے والی بِھیڑ کو کونسا پیغام دیا؟‏

۳ ان گلیلیوں میں سے ایک پطرس رسول تھا۔‏ اُس نے وضاحت کی کہ کچھ ہفتے پہلے ناراست لوگوں کے ہاتھوں یسوع مسیح کا قتل ہوا تھا۔‏ تاہم،‏ خدا نے اپنے بیٹے کو مُردوں میں سے جلایا تھا۔‏ اِس کے بعد یسوع،‏ پطرس سمیت وہاں موجود کئی شاگردوں کو دکھائی دیا۔‏ صرف دس دن پہلے یسوع آسمان پر چڑھا تھا۔‏ اُسی نے اپنے شاگردوں پر رُوح‌اُلقدس نازل کی تھی۔‏ کیا یہ بات پنتِکُست منانے والوں کے لئے کوئی معنی رکھتی تھی؟‏ بیشک۔‏ یسوع کی موت نے ان کے لئے اپنے گناہوں کی معافی حاصل کرنے اور اُس پر ایمان ظاہر کرنے کی صورت میں ”‏رُوح‌اُلقدس انعام“‏ میں پانے کی راہ ہموار کی۔‏ (‏اعمال ۲:‏۲۲-‏۲۴،‏ ۳۲،‏ ۳۳،‏ ۳۸‏)‏ پس ان مشاہدین نے ”‏خدا کے بڑے بڑے کاموں“‏ کو سننے کے بعد کیسا جوابی‌عمل دکھایا؟‏ یہ سرگزشت یہوواہ کے لئے اپنی خدمت کا جائزہ لینے میں ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟‏

عمل کرنے کی تحریک پانا!‏

۴.‏ پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ کے دن یوایل کی کس پیشینگوئی کی تکمیل ہوئی تھی؟‏

۴ رُوح‌اُلقدس حاصل کرنے کے بعد،‏ یروشلیم میں شاگردوں نے بِلاتاخیر اس صبح جمع ہونے والی بِھیڑ سے شروع کرتے ہوئے دوسروں کو نجات کی خوشخبری سنانا شروع کر دیا۔‏ انکی منادی نے ایک شاندار پیشینگوئی پوری کی جو آٹھ صدیاں پہلے فتوایل کے بیٹے یوایل نے قلمبند کی تھی:‏ ”‏مَیں ہر بشر پر اپنی روح نازل کروں گا اور تمہارے بیٹےبیٹیاں نبوّت کریں گے۔‏ تمہارے بوڑھے خواب اور جوان رویا دیکھینگے۔‏ بلکہ مَیں اُن ایّام میں غلاموں اور لونڈیوں پر اپنی روح نازل کرونگا۔‏ .‏ .‏ .‏ اِس سے پیشتر کہ [‏یہوواہ]‏ کا خوفناک روزِعظیم آئے۔‏“‏—‏یوایل ۱:‏۱؛‏ ۲:‏۲۸،‏ ۲۹،‏ ۳۱؛‏ اعمال ۲:‏۱۷،‏ ۱۸،‏ ۲۰‏۔‏

۵.‏ پہلی صدی کے مسیحیوں نے کس مفہوم میں پیشینگوئی کی تھی؟‏ (‏فٹ‌نوٹ دیکھیں۔‏)‏

۵ کیا اس کا یہ مطلب تھا کہ خدا مستقبل کے واقعات کی پیشینگوئی کرنے کیلئے داؤد،‏ یوایل اور دبورہ کی طرح مردوزن پر مشتمل نبیوں کی ایک نسل برپا کرنے والا تھا؟‏ جی‌نہیں۔‏ یہوواہ کی روح سے تحریک پا کر مسیحی بیٹے اور بیٹیاں،‏ غلام اور لونڈیاں اُن ”‏بڑے بڑے کاموں“‏ کا بیان کرنے کے مفہوم میں پیشینگوئی کرتے ہیں جو اُس نے ماضی میں کئے تھے اور مستقبل میں کرنے والا ہے۔‏ پس وہ حق‌تعالیٰ کے نمائندوں کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔‏ * تاہم بِھیڑ کا جوابی‌عمل کیا تھا؟‏—‏عبرانیوں ۱:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۶.‏ پطرس کی بات‌چیت سننے کے بعد بِھیڑ میں سے بہتیروں کو کیا کرنے کی تحریک ملی؟‏

۶ بِھیڑ میں سے بہتیروں نے پطرس کا کلام سننے کے بعد اس پر عمل کرنے کی تحریک پائی۔‏ اُنہوں نے ”‏اُسکا کلام قبول کِیا“‏ اور ”‏بپتسمہ لیا اور اُسی روز تین ہزار آدمیوں کے قریب اُن میں مل گئے۔‏“‏ (‏اعمال ۲:‏۴۱‏)‏ پیدائشی یہودیوں اور یہودی مُریدوں کے طور پر وہ پہلے ہی سے صحائف کا بنیادی علم رکھتے تھے۔‏ اس کے ساتھ ساتھ پطرس سے سیکھی ہوئی باتوں پر ایمان نے اُن کے لئے ”‏باپ اور بیٹے اور رُوح‌اُلقدس کے نام سے بپتسمہ“‏ لینے کی بنیاد فراہم کی۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹‏)‏ اپنے بپتسمے کے بعد،‏ وہ ”‏رسولوں سے تعلیم پانے .‏ .‏ .‏ میں مشغول رہے۔‏“‏ اسی دوران،‏ اُنہوں نے اپنے نئے ایمان کی بابت دوسروں کو بتانا شروع کر دیا۔‏ واقعی،‏ وہ ”‏ہر روز ایک دل ہوکر ہیکل میں جمع ہوا کرتے .‏ .‏ .‏ اور خدا کی حمد کرتے اور سب لوگوں کو عزیز تھے۔‏“‏ اُن کی گواہی کی کارگزاری کے نتیجے میں ”‏جو نجات پاتے تھے اُن کو [‏یہوواہ]‏ ہر روز اُن میں ملا دیتا تھا۔‏“‏ (‏اعمال ۲:‏۴۲،‏ ۴۶،‏ ۴۷‏)‏ بہت جلد،‏ ایمان لانے والے ان نئے اشخاص کے بہتیرے رہائشی علاقوں میں مسیحی کلیسیاؤں کا قیام ہوا۔‏ بِلاشُبہ کسی حد تک یہ ترقی گھر لوٹنے کے بعد ”‏خوشخبری“‏ سنانے کی ان کی گرمجوش کاوشوں کا نتیجہ تھی۔‏—‏کلسیوں ۱:‏۲۳‏۔‏

خدا کا کلام مؤثر ہے

۷.‏ (‏ا)‏ آجکل تمام قوموں کے لوگ یہوواہ کی تنظیم کی طرف کیوں راغب ہوتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ کو عالمی اور مقامی خدمتگزاری میں مزید ترقی کے کونسے امکانات دکھائی دیتے ہیں؟‏ (‏دیکھیں فٹ‌نوٹ۔‏)‏

۷ آجکل خدا کے خادم بننے کے خواہاں لوگوں کی بابت کیا ہے؟‏ اُنہیں بھی خدا کے کلام کا گہرا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ایسا کرنے سے وہ یہوواہ کو ایسے خدا کے طور پر جاننے لگتے ہیں جو ”‏خدایِ‌رحیم اور مہربان،‏ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی“‏ ہے۔‏ (‏خروج ۳۴:‏۶؛‏ اعمال ۱۳:‏۴۸‏)‏ وہ یہوواہ کی طرف سے یسوع مسیح کے ذریعے فدیے کی مہربانہ فراہمی کی بابت سیکھتے ہیں جسکا بہایا گیا خون ہمیں تمام گناہوں سے پاک کر سکتا ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۱:‏۷‏)‏ وہ ”‏راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت“‏ کی بابت خدا کے مقصد کو سمجھنے اور اسکی قدر کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏)‏ ان ”‏بڑے بڑے کاموں“‏ کے ماخذ کیلئے گہری محبت ان کے دلوں کو معمور کرتی ہے اور وہ ان بیش‌قیمت سچائیوں کی منادی کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔‏ یوں وہ خدا کے مخصوص‌شُدہ،‏ بپتسمہ‌یافتہ خادم بن جاتے ہیں اور ”‏خدا کی پہچان میں بڑھتے“‏ جاتے ہیں۔‏ *‏—‏کلسیوں ۱‏:‏۱۰ب؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۴‏۔‏

۸-‏۱۰.‏ (‏ا)‏ ایک مسیحی عورت کے تجربے نے کیسے ثابت کِیا کہ خدا کا کلام ”‏مؤثر“‏ ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ نے اس تجربے سے یہوواہ اور اپنے خادموں کیساتھ اُسکے برتاؤ کی بابت کیا سیکھا ہے؟‏ (‏خروج ۴:‏۱۲‏)‏

۸ خدا کے خادموں کا بائبل مطالعے سے حاصل‌کردہ علم سطحی نہیں۔‏ ایسا علم ان کے دلوں کو متحرک کرکے اُنکی سوچ کو تبدیل کرتے ہوئے اُنکی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏)‏ مثال کے طور پر،‏ کمی‌ایل نامی ایک خاتون کا پیشہ عمررسیدہ لوگوں کی دیکھ‌بھال کرنا تھا۔‏ وہ مارتھا نامی ایک یہوواہ کی گواہ خاتون کی بھی دیکھ‌بھال کرتی تھی۔‏ مارتھا کو دماغی اختلال کی وجہ سے مستقل نگرانی کی ضرورت تھی۔‏ اُسے کھانا کھانے—‏بلکہ کھانا نگلنے کے لئے بھی یاد دلانا پڑتا تھا۔‏ تاہم،‏ جیساکہ ہم دیکھیں گے،‏ مارتھا کے ذہن میں ایک بات ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئی تھی۔‏

۹ ایک دن مارتھا نے کمی‌ایل کو ذاتی مسائل سے پریشان ہوکر روتے دیکھا۔‏ مارتھا نے کمی‌ایل کو اپنی بانہوں میں لیتے ہوئے اپنے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے کی دعوت دی۔‏ تاہم کیا مارتھا کی حالت میں مبتلا کوئی شخص بائبل مطالعہ کرانے کے قابل ہو سکتا تھا؟‏ جی‌ہاں،‏ وہ ایسا کر سکتی تھی!‏ اپنی یادداشت بڑی حد تک کھو دینے کے باوجود مارتھا نے اپنے عظیم خدا اور بائبل سے سیکھی ہوئی بیش‌قیمت سچائیوں کو فراموش نہیں کِیا تھا۔‏ مطالعہ کے دوران،‏ مارتھا نے کمی‌ایل کو ہر پیراگراف پڑھنے،‏ حوالہ‌جات دیکھنے،‏ صفحہ کے آخر پر سوال پڑھنے اور پھر اسکا جواب دینے کی ہدایت دی۔‏ یہ سلسلہ کچھ عرصہ چلتا رہا اور مارتھا کی کمزوریوں کے باوجود کمی‌ایل نے بائبل علم میں ترقی کی۔‏ مارتھا سمجھ گئی کہ کمی‌ایل کیلئے خدا کی خدمت کرنے میں دلچسپی رکھنے والے دیگر لوگوں کی رفاقت ضروری تھی۔‏ اس بات کے پیشِ‌نظر اُس نے اپنی طالبعلم کو ایک ڈریس اور جوتے دئے تاکہ کمی‌ایل مناسب لباس میں کنگڈم ہال میں اپنے پہلے اجلاس پر حاضر ہو سکے۔‏

۱۰ مارتھا کی پُرمحبت فکرمندی،‏ نمونے اور ایمان نے کمی‌ایل کو متاثر کِیا۔‏ وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ مارتھا اُسے بائبل میں سے جوکچھ سکھانے کی کوشش کر رہی تھی وہ نہایت اہم ہے،‏ کیونکہ سب کچھ بھول جانے کے باوجود صحائف سے سیکھی ہوئی باتیں مارتھا کو یاد تھیں۔‏ بعدازاں،‏ جب کمی‌ایل کا تبادلہ کسی اَور جگہ ہوا تو وہ سمجھ گئی کہ اب وہ وقت آ گیا ہے جب اُسے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ موقع ملتے ہی وہ مارتھا کے دئے ہوئے کپڑے اور جوتے پہن کر ایک کنگڈم ہال میں گئی اور بائبل مطالعے کی درخواست کی۔‏ کمی‌ایل نے عمدہ ترقی کی اور بپتسمہ لیا۔‏

یہوواہ کے معیاروں کو منعکس کرنے کی تحریک پانا

۱۱.‏ منادی کے کام میں سرگرم ہونے کے علاوہ ہم اَور کس طریقے سے ظاہر کر سکتے ہیں کہ بادشاہتی پیغام ہمیں تحریک دیتا ہے؟‏

۱۱ آجکل مارتھا اور کمی‌ایل کی طرح،‏ دُنیابھر میں چھ ملین سے زیادہ یہوواہ کے گواہ ’‏خوشخبری کی منادی‘‏ کر رہے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح وہ ”‏خدا کے بڑے بڑے کاموں“‏ سے بیحد متاثر ہوئے ہیں۔‏ وہ یہوواہ کے نام سے کہلانے کا شرف اور اسکی طرف سے عطاکردہ روح کی قدر کرتے ہیں۔‏ نتیجتاً،‏ وہ اپنی زندگی کے تمام حلقوں میں خدا کے معیاروں کا اطلاق کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اُنکا ”‏چال‌چلن [‏یہوواہ]‏ کے لائق ہو اور اُسکو ہر طرح سے پسند آئے۔‏“‏ دیگر باتوں کے علاوہ اس میں آرائش‌وزیبائش میں خدا کے معیاروں کا احترام کرنا بھی شامل ہے۔‏—‏کلسیوں ۱:‏۱۰الف؛‏ ططس ۲:‏۱۰‏۔‏

۱۲.‏ ہمیں ۱-‏تیمتھیس ۲:‏۹،‏ ۱۰ میں آرائش‌وزیبائش کی بابت کونسی خاص مشورت دی گئی ہے؟‏

۱۲ جی‌ہاں،‏ یہوواہ نے ہماری ذاتی وضع‌قطع کی بابت معیار قائم کئے ہیں۔‏ پولس رسول نے اس سلسلے میں خدا کے چند تقاضوں کا احاطہ کِیا۔‏ ”‏عورتیں حیادار لباس سے شرم اور پرہیزگاری کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں نہ کہ بال گوندھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی پوشاک سے۔‏ بلکہ نیک کاموں سے جیسا خداپرستی کا اقرار کرنے والی عورتوں کو مناسب ہے۔‏“‏ * ہم اس بیان سے کیا سیکھتے ہیں؟‏—‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏ ”‏حیادار لباس“‏ کا کیا مطلب ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ کے معیار معقول ہیں؟‏

۱۳ پولس کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ مسیحیوں کو ”‏حیادار لباس“‏ پہننا چاہئے۔‏ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی وضع‌قطع بےسلیقہ یا ناشائستہ ہو یا وہ اس کی بابت لاپروا رہیں۔‏ امیروغریب،‏ تقریباً سب ہی لوگ اپنے لباس کے صاف‌ستھرے اور قابلِ‌قبول ہونے کا یقین کر لینے سے ایک معقول معیار برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ جنوبی امریکہ کے ایک ملک میں گواہ ہر سال اپنے ڈسٹرکٹ کنونشن پر حاضر ہونے کے لئے جنگلات سے میلوں پیدل چلتے اور پھر کئی گھنٹے کشتی کا سفر کرتے ہیں۔‏ سفر کے دوران کسی کا دریا میں گِر جانا یا کسی شاخ سے اٹک کر کپڑوں کا پھٹ جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔‏ لہٰذا کنونشن پر حاضر ہونے والے اکثر بُری حالت میں کنونشن پر پہنچتے ہیں۔‏ پس وہ وقت نکال کر بٹن ٹانکتے،‏ زِپ لگاتے اور کنونشن پر پہنے جانے والے کپڑوں کو دھوتے اور استری کرتے ہیں۔‏ وہ یہوواہ کے دسترخوان پر کھانے کی دعوت کو عزیز رکھتے ہیں اور مناسب لباس میں حاضر ہونا چاہتے ہیں۔‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ ہمارے لباس سے ”‏شرم اور پرہیزگاری“‏ کا ظاہر ہونا کیا مطلب رکھتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ’‏خداپرست لوگوں‘‏ کے طور پر ہماری وضع‌قطع کیسی ہونی چاہئے؟‏

۱۴ پولس نے مزید بیان کِیا کہ ہمارے لباس سے ”‏شرم اور پرہیزگاری“‏ ظاہر ہونی چاہئے۔‏ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمیں نمودونمائش،‏ فیشن‌پرستی،‏ نازیبا یا شہوت‌انگیز وضع‌قطع سے گریز کرنا چاہئے۔‏ اس کے علاوہ،‏ ہمارے لباس سے ’‏خداپرستی‘‏ ظاہر ہونی چاہئے۔‏ کیا یہ بات غوروفکر کی مستحق نہیں؟‏ یہ صرف کلیسیائی اجلاسوں پر حاضری کے وقت مناسب لباس پہننے اور دیگر اوقات پر اس سلسلے میں لاپروائی سے کام لینے کا معاملے نہیں۔‏ ہماری ذاتی وضع‌قطع سے ایک باوقار اور قابلِ‌احترام رُجحان ظاہر ہونا چاہئے کیونکہ ہم ہمہ‌وقت مسیحی اور خادم ہوتے ہیں۔‏ یقیناً ہم کام یا سکول جاتے وقت موقع کی مناسبت سے کپڑے پہنتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ہمارا لباس حیادار اور باوقار ہونا چاہئے۔‏ اگر ہمارا لباس ہمیشہ خدا پر ہمارے ایمان کو ظاہر کرتا ہے تو ہم کبھی بھی اپنی وضع‌قطع پر شرمندگی کے باعث غیررسمی گواہی دینے سے اجتناب نہیں کریں گے۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۵‏۔‏

‏’‏دُنیا سے محبت نہ رکھو‘‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ وضع‌قطع کے سلسلے میں دُنیا کی نقل کرنے سے گریز کرنا ہمارے لئے اسقدر ضروری کیوں ہے؟‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ (‏ب)‏ ہمیں کس عملی وجہ کی بنیاد پر وضع‌قطع کے سلسلے میں مقبول فیشن کو اپنانے سے گریز کرنا چاہئے؟‏

۱۵ آرائش‌وزیبائش کے انتخاب کے سلسلے میں ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵،‏ ۱۶ میں درج نصیحت بھی ہماری راہنمائی کرتی ہے۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏نہ دُنیا سے محبت رکھو نہ اُن چیزوں سے جو دُنیا میں ہیں۔‏ جو کوئی دُنیا سے محبت رکھتا ہے اُس میں باپ کی محبت نہیں۔‏ کیونکہ جوکچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔‏“‏

۱۶ یہ مشورت کس قدر بروقت ہے!‏ ایسے دَور میں جب ہم‌عمروں کا دباؤ اپنے عروج پر ہے ہمیں اپنے لباس کے انتخاب میں دُنیا کے اثر کو قبول کرنےسے بچنا چاہئے۔‏ حالیہ برسوں میں وضع‌قطع کے معیار گِر چکے ہیں۔‏ موزوں لباس کے سلسلے میں کاروباری اور پیشہ‌ورانہ لوگوں کا لباس بھی مسیحیوں کے لئے ہمیشہ ایک قابلِ‌اعتماد معیار فراہم نہیں کرتا۔‏ یہ حقیقت مزید وجہ فراہم کرتی ہے کہ خدا کے معیاروں کی مطابقت میں زندگی بسر کرنے اور ”‏ہر بات میں ہمارے مُنجی خدا کی تعلیم کو رونق“‏ بخشنے کے لئے ہمیں کیوں ’‏اس جہان کے ہمشکل نہیں بننا‘‏ چاہئے۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۲؛‏ ططس ۲:‏۱۰‏۔‏

۱۷.‏ (‏ا)‏ کسی فیشن کو اپناتے یا کپڑوں کی خریداری کرتے وقت ہم کن سوالات پر غور کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ خاندان کے سربراہوں کو خاندانی افراد کی وضع‌قطع میں کیوں دلچسپی لینی چاہئے؟‏

۱۷ کپڑوں کی خریداری کا فیصلہ کرنے سے پہلے خود سے یہ سوال پوچھنا دانشمندی کی بات ہے:‏ ’‏کیا یہ فیشن مجھے زیب دیتا ہے؟‏ کیا یہ میری پسند کے کسی مشہور فنکار کی شناخت کرتا ہے؟‏ کیا یہ ایک خودمختار یا باغی روح کو فروغ دینے والے سٹریٹ گینگ یا گروپ کا انتخاب ہے۔‏ ہمیں لباس کا قریبی جائزہ بھی لینا چاہئے۔‏ اگر یہ ایک ڈریس یا سکرٹ ہے تو اس کی لمبائی کیا ہے؟‏ چاک کتنی گہری ہے؟‏ کیا لباس حیادار،‏ مناسب اور باوقار ہے یا یہ بہت چست،‏ شہوت‌انگیز یا ناشائستہ ہے؟‏ خود سے پوچھیں،‏ ’‏کیا اس لباس کو پہننا ٹھوکر کا باعث ہو سکتا ہے؟‏‘‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۳،‏ ۴‏)‏ ہمیں اس بات کی فکر کیوں کرنی چاہئے؟‏ اسلئےکہ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏مسیح نے بھی اپنی خوشی نہیں کی۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۳‏)‏ مسیحی خاندان کے سربراہوں کو خاندانی افراد کی وضع‌قطع میں دلچسپی لینی چاہئے۔‏ خاندانی سربراہوں کو اُس عظیم خدا کے احترام میں جسکی وہ پرستش کرتے ہیں،‏ بوقتِ‌ضرورت ٹھوس،‏ پُرمحبت مشورت دینے سے کبھی ہچکچانا نہیں چاہئے۔‏—‏یعقوب ۳:‏۱۳‏۔‏

۱۸.‏ کونسی چیز آپکو اپنی وضع‌قطع پر محتاط توجہ دینے کی تحریک دیتی ہے؟‏

۱۸ ہمارا پیغام یہوواہ کی طرف سے ہے جو درحقیقت عظمت اور قدوسیت کی تجسیم ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۶:‏۳‏)‏ بائبل ”‏عزیز فرزندوں کی طرح“‏ خدا کی نقل کرنے کے لئے ہماری حوصلہ‌افزائی کرتی ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱‏)‏ ہماری آرائش‌وزیبائش ہمارے آسمانی باپ کے لئے جلال یا رسوائی کا باعث بن سکتی ہے۔‏ بیشک،‏ ہم اُس کے دل کو شاد کرنے کے متمنی ہیں!‏—‏امثال ۲۷:‏۱۱‏۔‏

۱۹.‏ دوسروں کو ”‏خدا کے بڑے بڑے کاموں“‏ سے آگاہ کرنے کے فوائد کیا ہیں؟‏

۱۹ آپ ”‏خدا کے بڑے بڑے کاموں“‏ کی بابت سیکھنے کے بعد کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏ واقعی،‏ ہم کس قدر متشرف ہیں کہ ہم نے سچائی سیکھ لی ہے!‏ یسوع مسیح کے بہائے ہوئے خون پر ایمان لانے سے ہمارے گناہ معاف ہوتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۲:‏۳۸‏)‏ نتیجتاً،‏ ہم خدا کے حضور دلیری کے ساتھ بول سکتے ہیں۔‏ ہم نااُمید لوگوں کی طرح موت سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔‏ اس کی بجائے ہمارے پاس یسوع کی یقین‌دہانی ہے کہ ایک دن ”‏جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سنکر نکلینگے۔‏“‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ یہوواہ نے اپنے فضل سے ان سب باتوں کو ہم پر آشکارا کِیا ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ اُس نے ہمیں اپنی روح سے نوازا ہے۔‏ پس ان تمام عمدہ بخششوں کے لئے شکرگزاری سے تحریک پاکر ہمیں دوسروں کو ان ”‏بڑے بڑے کاموں“‏ کی بابت بتاتے ہوئے اُس کے اعلیٰ معیاروں کے لئے احترام ظاہر کرنا اور گرمجوشی سے اُس کی ستائش کرنی چاہئے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 جب یہوواہ نے اپنے لوگوں کی خاطر موسیٰ اور ہارون کو فرعون سے کلام کرنے کیلئے مقرر کِیا تو اُس نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏مَیں نے تجھے فرعون کے لئے گویا خدا ٹھہرایا اور تیرا بھائی ہارون تیرا پیغمبر ہوگا۔‏“‏ ‏(‏خروج ۷:‏۱‏)‏ مستقبل کے واقعات کی پیشینگوئی کرنے کی بجائے موسیٰ کی طرف سے بولنے یا اُسکا نمائندہ بننے سے ہارون نے نبی کے طور پر خدمت کی۔‏

^ پیراگراف 7 مارچ ۲۸،‏ ۲۰۰۲ کو خداوند کے عشائیے کی سالانہ تقریب پر حاضر ہونے والے بڑے ہجوم میں سے ہزاروں لوگ اب تک یہوواہ کے سرگرم خادم نہیں ہیں۔‏ ہماری دُعا ہے کہ دلچسپی رکھنے والے ان بیشتر اشخاص کو خوشخبری کے مُناد بننے کا شرف حاصل کرنے کی تحریک ملے۔‏

^ پیراگراف 12 اگرچہ پولس نے اپنے بیان میں مسیحی خواتین کو مخاطب کِیا ہے تاہم ان اُصولوں کا اطلاق مسیحی مردوں اور نوجوانوں پر بھی ہوتا ہے۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ کے موقع پر لوگوں نے کن ”‏بڑے بڑے کاموں“‏ کی بابت سنا تھا اور ان کا جوابی‌عمل کیا تھا؟‏

‏• ایک شخص یسوع مسیح کا شاگرد کیسے بنتا ہے اور شاگردی میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

‏• اپنی آرائش‌وزیبائش پر توجہ دینا ہمارے لئے کیوں ضروری ہے؟‏

‏• کسی لباس یا سٹائل کی موزونیت کے سلسلے میں فیصلہ کرتے وقت کن عناصر کو مدِنظر رکھا جانا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

پطرس نے اعلان کِیا کہ یسوع مُردوں میں سے جلایا گیا تھا

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویریں]‏

کیا آپکی ذاتی وضع‌قطع خدا کیلئے احترام ظاہر کرتی ہے جسکی آپ پرستش کرتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویریں]‏

مسیحی والدین کو اپنے خاندان کے افراد کی وضع‌قطع میں دلچسپی لینی چاہئے