عمررسیدہ مگر آسودہ
میری کہانی میری زبانی
عمررسیدہ مگر آسودہ
از مورل سمتھ
میرے گھر کے دروازہ پر ایک زوردار دستک ہوئی۔ منادی کے کام میں ایک مصروفترین صبح کے بعد مَیں ابھی ابھی دوپہر کے کھانے کے لئے گھر پہنچی ہی تھی۔ معمول کے مطابق مَیں چائے کے لئے پانی اُبال رہی تھی اور تقریباً آدھے گھنٹے کے لئے پاؤں اُوپر کرکے بیٹھنے والی تھی۔ زوردار دستک کی آواز بڑی چونکا دینے والی تھی لہٰذا دروازہ کھولنے کیلئے جاتے ہوئے مَیں مسلسل سوچ رہی تھی کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے۔ جیسے ہی مَیں نے دروازہ کھولا تو دو آدمیوں نے خود کو پولیس افسران کے طور پر متعارف کرایا۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ یہوواہ کے گواہوں کی تنظیم کی طرف سے شائع ہونے والے لٹریچر کے سلسلے میں تلاشی لینے کے لئے آئے ہیں جس پر پابندی ہے۔
آسٹریلیا میں یہوواہ کے گواہوں پر پابندی کیوں تھی اور مَیں کیسے یہوواہ کی گواہ بنی۔ یہ سب کچھ ۱۹۱۰ میں، میری والدہ کی طرف سے ملنے والے ایک تحفے سے شروع ہوا جب مَیں دس برس کی تھی۔
میرا خاندان شمالی سڈنی کے گردونواح میں واقع کروز نیسٹ میں ایک لکڑی کے گھر میں رہتا تھا۔ ایک دن جب مَیں سکول سے واپس آئی تو مَیں نے دیکھا کہ میری والدہ دروازے پر کسی شخص سے باتیں کر رہی ہے۔ مَیں اس اجنبی کو دیکھ کر حیران رہ گئی جو خوش لباس اور ہاتھ میں کتابوں سے بھرا بیگ اُٹھائے ہوئے تھا۔ معذرت کرتے ہوئے مَیں اندر چلی گئی۔ تاہم، چند منٹ بعد والدہ نے مجھے آواز دی اور کہا: ”اس صاحب کے پاس بائبل پر مبنی چند اچھی کتابیں ہیں۔ چونکہ تمہاری سالگرہ آ رہی ہے لہٰذا تم اِن کتابوں میں سے کچھ
لے سکتی ہو اگر نہیں تو پھر اپنے لئے کپڑے لے لینا۔ تم کیا لینا پسند کرو گی؟“مَیں نے جواب دیا: ”ماں مَیں کتابیں لینا پسند کرونگی۔“
پس دس سال کی عمر میں میرے پاس چارلس ٹیز رسل کی تحریرکردہ سٹڈیز اِن دی سکرپچرز کی پہلی تین جِلدیں موجود تھیں۔ دروازے پر کھڑے شخص نے میری والدہ کو بتایا کہ کتابوں کو سمجھنے میں مجھے مدد کی ضرورت پڑیگی کیونکہ وہ میرے لئے کافی مشکل ہونگی۔ والدہ نے کہا کہ وہ میری مدد کریگی۔ افسوس کہ اسکے کچھ ہی عرصہ بعد والدہ وفات پا گئی۔ والد بڑی فکرمندی کیساتھ میری بہن اور بھائی کا خیال رکھتے تھے مگر اب میرے لئے ذمہداریاں بڑھ گئی تھیں اور مجھے لگتا تھا کہ یہ بہت زیادہ ہیں۔ تاہم، ابھی ایک اَور حادثہ ہمارا منتظر تھا۔
پہلی عالمی جنگ ۱۹۱۴ میں شروع ہوئی اور اس کے صرف ایک سال بعد ہمارے والد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ اب میرے یتیم بہن بھائی کو رشتہداروں کے پاس اور مجھے ایک کیتھولک بورڈنگ کالج بھیج دیا گیا۔ بعضاوقات مَیں شدید تنہائی کا شکار ہو جاتی تھی۔ تاہم، مَیں خوش تھی کہ مجھے موسیقی کا شوق پورا کرنے کیلئے پیانو بجانے کی اجازت تھی۔ مَیں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بالآخر بورڈنگ کالج سے فارغالتحصیل ہو گئی۔ مَیں نے ۱۹۱۹ میں، رائے سمتھ کیساتھ شادی کر لی جو موسیقی کے آلات فروخت کرتا تھا۔ سن ۱۹۲۰ میں، خاندان میں اضافے کیساتھ مَیں زندگی کے روزمرّہ کے معمول میں مصروف ہو گئی۔ مگر اُن کتابوں کا کیا ہوا؟
پڑوسن روحانی سچائی پہنچاتی ہے
اس تمام عرصے کے دوران، بائبل پر مبنی وہ مطبوعات میرے پاس رہیں۔ اگرچہ مَیں نے اُنہیں کبھی نہیں پڑھا تھا توبھی مَیں اس بات سے بخوبی واقف تھی کہ اُن میں بڑا اہم پیغام موجود ہے۔ بعدازاں، ۱۹۲۰ کے دہے کے آخر میں، میری ایک پڑوسن، لل بمسن ملاقات کیلئے آئی۔ ہم نے لاؤنج میں بیٹھ کر چائے پی۔
اچانک وہ چلّا اُٹھی، ”او ہو! تو آپکے پاس یہ کتابیں ہیں!“
مَیں نے گھبرا کر پوچھا، ”کونسی کتابیں؟“
اُس نے شلف پر رکھی سٹڈیز اِن دی سکرپچرز کی طرف اشارہ کِیا۔ لل بمسن اُنہیں گھر لے گئی اور بڑے اشتیاق کیساتھ پڑھا۔ جوکچھ اُس نے پڑھا تھا بہت جلد اُسکی بابت اُس کی خوشی عیاں ہو گئی۔ لل بمسن نے یہوواہ کے گواہوں سے جو اُس وقت بائبل طالبعلم کہلاتے تھے مزید لٹریچر حاصل کِیا۔ علاوہازیں، جوکچھ وہ سیکھ رہی تھی اُس نے وہ سب ہمیں بھی بتایا۔ ایک کتاب جو اُس نے لی اُسکا نام دی ہارپ آف گاڈ تھا اور یہ بہت جلد ہمارے گھر پہنچ گئی۔ میری زندگی میں یہوواہ کی خدمت کا آغاز اُس وقت ہوا جب مَیں نے بائبل پر مبنی مطبوعات پڑھنے کیلئے وقت نکالنا شروع کِیا۔ انجامکار مجھے اپنے اُن بنیادی سوالات کا جواب مل گیا جو میرا چرچ دینے کے قابل نہیں تھا۔
میری خوشقسمتی سمجھیں کہ رائے نے بائبل پیغام پر خصوصی توجہ دی اور ہم دونوں بائبل طالبعلم بن گئے۔ اس سے پہلے رائے فریمیسن فرقے کا رُکن تھا۔ اب ہمارا خاندان سچی پرستش میں متحد تھا اور ہفتے میں دو بار ایک بھائی ہمارے پورے خاندان کیساتھ مطالعہ کرواتا تھا۔ جب ہم نے بائبل طالبعلموں کے اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کِیا تو ہمیں مزید حوصلہافزائی حاصل ہوئی۔ سڈنی میں عبادت کی جگہ نیوٹاؤن کے نواحی علاقے میں کرائے کا ایک ہال تھا۔ اُس وقت پورے مُلک میں ۴۰۰ سے زائد گواہ تھے لہٰذا زیادہتر بھائی اجلاس پر حاضر ہونے کیلئے طویل سفر کرتے تھے۔
ہمارے خاندان کیلئے اجلاس پر حاضر ہونے کا مطلب ہر روز سڈنی کی بندرگاہ کو پار کرنا تھا۔ سن ۱۹۳۲ میں سڈنی کی بندرگاہ کا پُل تعمیر ہونے سے پہلے ہر مرتبہ کشتی کے ذریعے پار جانا پڑتا تھا۔ اس سفر کیلئے درکار وقت اور لاگت کے باوجود، ہم یہوواہ کے فراہمکردہ ہر روحانی کھانے سے مستفید ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ اپنے آپکو سچائی میں مضبوط بنانے کی ہماری کاوشیں کارگر ثابت ہوئیں کیونکہ دوسری عالمی جنگ سر پر منڈلا رہی تھی اور ہمارا پورا خاندان غیرجانبداری کے مسئلے سے دوچار ہونے کو تھا۔
آزمائشوں اور برکات کا وقت
میرے خاندان اور میرے لئے ۱۹۳۰ کے دہے کے ابتدائی مہینے بڑے خوشیبخش تھے۔ مَیں نے ۱۹۳۰ میں بپتسمہ لیا اور ۱۹۳۱ میں مَیں اُس یادگار کنونشن پر حاضر تھی جب ہم سب نے کھڑے ہو کر متفقہ طور پر شاندار نام یہوواہ کے گواہ قبول کِیا تھا۔ مَیں اور رائے ہر طرح سے منادی کرنے اور ہر اُس مہم میں شرکت کرنے سے اپنے اس نام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے جسکا اہتمام تنظیم کرتی تھی۔ مثال کے طور پر، ۱۹۳۲ میں ہم نے ایک خاص کتابچے کی مہم میں شرکت کی جسے سڈنی بندرگاہ کے پُل کی افتتاحی تقریب میں آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد تک پہنچانے کیلئے تیار کِیا گیا تھا۔ ہمارے لئے خاص بات ساؤنڈ کاروں کا استعمال تھا اور ہمیں یہ شرف حاصل تھا کہ ہماری کار پر یہ نظام نصب کِیا گیا تھا۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے، سڈنی کی گلیاں بھائی رتھرفورڈ کے پیشکردہ بائبل لیکچروں سے گونج رہی تھیں۔
تاہم، وقت دنبدن مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ سن ۱۹۳۲ تک آسٹریلیا شدید کسادبازاری کا شکار ہو گیا لہٰذا رائے اور مَیں نے اپنی زندگیوں کو سادہ بنانے کا فیصلہ کِیا۔ ایک طریقہ جس سے ہم نے ایسا کِیا وہ کلیسیا کے قریب منتقل ہونا تھا جس سے کرائے کے اخراجات میں کمی واقع ہوئی۔ تاہم، دوسری عالمی جنگ سے معاشی دباؤ میں خاطرخواہ اضافہ ہو گیا۔
یہوواہ کے گواہ پوری دُنیا میں یسوع کے اس حکم کی تعمیل میں اذیت کا نشانہ بنے کہ مسیحیوں کو دُنیا کا حصہ نہیں ہونا چاہئے اور آسٹریلیا اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔ جنگی جنون سے مشتعل ہو کر بعض نے ہمیں کیمونسٹ قرار دے دیا۔ اِن مخالفین نے یہ جھوٹا دعویٰ کِیا کہ یہوواہ کے گواہ آسٹریلیا کے اپنے چار ریڈیو سٹیشنوں کو جاپانی فوج کو پیغام بھیجنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔
فوج کی بھرتی کیلئے بلاے جانے والے نوجوان بھائیوں پر مصالحت کیلئے بہت دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ مَیں یہ بیان کرکے خوش ہوں کہ ہمارے چار بیٹوں میں سے تین نے اپنے عقائد کیلئے مضبوط مؤقف اختیار کِیا اور اپنی غیرجانبداری پر قائم رہے۔ ہمارے سب سے بڑے بیٹے، رچرڈ کو ۱۸ مہینے کی سزا دی گئی تھی۔ ہمارے دوسرے بیٹے کیون کا اندراج مذہبی اُصولوں کی بنیاد پر فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرنے والے کے طور پر کِیا گیا تھا۔ تاہم، افسوس کہ غیرجانبداری کے مسئلے پر کورٹ سے تحفظ حاصل کرکے لوٹنے والا ہمارا سب سے چھوٹا بیٹا، سٹوارٹ موٹرسائیکل کے حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ یہ صدمہ واقعی ناقابلِ برداشت تھا۔ تاہم بادشاہت اور قیامت کے یہوواہ کے وعدے پر توجہ مرکوز رکھنے سے ہمیں برادشت کرنے میں مدد ملی۔
وہ حقیقی انعام حاصل نہ کر سکے
جنوری ۱۹۴۱ میں، آسٹریلیا کے اندر یہوواہ کے گواہوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ لیکن یسوع کے رسولوں کی طرح، رائے اور مَیں نے آدمیوں کی نسبت خدا کے حکم کو مانا اور تقریباً ڈھائی سال تک ہم نے خفیہ طور پر کام جاری رکھا۔ اسی دوران، سادہ کپڑوں میں مُلبّس دو سپاہیوں نے ہمارے دروازہ پر دستک دی تھی جس کا مَیں نے شروع میں ذکر کِیا تھا۔ اسکے بعد کیا واقع ہوا؟
خیر مَیں نے اُنہیں اندر بلا لیا۔ جب وہ گھر کے اندر داخل ہو گئے تو مَیں نے اُن سے پوچھا، ”کیا ایسا ممکن ہے کہ آپکے تلاشی لینے سے پہلے مَیں اپنی چائے ختم کر لوں؟“ حیرانگی کی بات ہے کہ وہ راضی ہو گئے اور مَیں نے باورچیخانے میں جاکر یہوواہ سے دُعا کی اور اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کی۔ جوں ہی مَیں واپس آئی تو ایک سپاہی ہمارے سٹڈی روم میں گھس گیا اور واچٹاور کے نشان والی ہر چیز کو باہر نکال لیا جس میں میرے بیگ میں موجود لٹریچر اور بائبل بھی شامل تھی
اسکے بعد اُس نے پوچھا: ”کیا آپکو اچھی طرح یاد ہے کہ کسی دوسری جگہ
ڈبوں میں لٹریچر تو نہیں پڑا ہوا؟ کیونکہ ہمیں اطلاح ملی ہے کہ آپ ہر ہفتے اس سڑک کے آخر پر واقع ہال میں جمع ہوتے اور بہت سا لٹریچر وہاں لیکر جاتے ہیں۔“مَیں نے جواب دیا، ”یہ سچ ہے، مگر اس وقت وہاں کچھ نہیں ہے۔“
اُس نے کہا، ”مسز سمتھ ہمیں معلوم ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ لٹریچر اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کے گھروں میں سٹور کِیا جاتا ہے۔“
ہمارے بیٹے کے کمرے سے اُنہیں کتابچے ”فریڈم اَور رومنازم کے پانچ ڈبے ملے۔
”آپکو یقین ہے کہ گیراج میں اَور کچھ نہیں ہے؟“ اُس نے پوچھا۔
مَیں نے کہا، ”جینہیں، وہاں کچھ بھی نہیں۔“
اسکے بعد اُسکے ڈائنگ روم کی ایک الماری کو کھولا۔ وہاں اُسے خالی فارم ملے جو کلیسیا کی رپورٹ بھرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ اُس نے وہ بھی لے لئے اور گیراج کو دیکھنے پر اصرار کرنے لگا۔
مَیں نے کہا، ”اس طرف سے آئیں۔“
وہ میرے پیچھے پیچھے چل پڑے اور گیراج کی تلاشی لینے کے بعد چلے گئے۔
پولیس والے سمجھے کہ اُنہوں نے پانچ ڈبوں کو اپنی تحویل میں لیکر بڑا تیر مارا ہے! تاہم، اصل چیز تو وہ چھوڑ ہی گئے تھے۔ اُن دنوں مَیں کلیسیا میں سیکرٹری کی خدمت کر رہی تھی اور میرے پاس کلیسیا کے پبلشر کارڈ اور دیگر اہم معلومات گھر میں موجود تھیں۔ شکر ہے کہ بھائیوں نے پہلے ہی سے ہمیں ایسی تلاشیوں کیلئے تیار کر رکھا تھا اور مَیں نے تمام دستاویزات چھپا کر رکھی تھیں۔ مَیں نے انہیں لفافوں میں ڈال کر چائے کی پتی، چینی اور آٹے کے ڈبے کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ مَیں نے بعض کو چڑیوں کے پنجرے کے نیچے چھپا رکھا تھا جو گیراج کے بالکل ساتھ بنا ہوا تھا۔ لہٰذا پولیس مطلوبہ معلومات کے بالکل پاس سے گزر گئی۔
کُلوقتی خدمت کا آغاز کرنا
سن ۱۹۴۷ تک، ہمارے بڑے بچوں نے اپنے اپنے گھر بسا لئے تھے۔ لہٰذا مَیں نے اور رائے نے فیصلہ کِیا کہ اب ہمارے لئے کُلوقتی خدمت شروع کرنا ممکن ہے۔ آسٹریلیا کے جنوبی علاقے میں ضرورت تھی لہٰذا ہم نے اپنا گھر فروخت کرکے ایک کاروان یا ٹریلر خرید لیا اور اُسکا نام ”مصفاہ“ بمعنی ”واچٹاور“ رکھا۔ اس طرزِزندگی نے ہمارے لئے دُورافتادہ علاقوں میں منادی کرنا ممکن بنایا۔ اکثر ہم غیرتفویضشُدہ دیہی علاقے میں بھی کام کرتے تھے۔ میرے پاس اُس وقت کی بہت سی دلچسپ یادیں محفوظ ہیں۔ مَیں ایک جوان خاتون بیورلی کو مطالعہ کراتی تھی۔ بپتسمہ تک پہنچنے سے پہلے، وہ وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہو گئی۔ ذرا میری خوشی کا تصور کریں جب کئی سال بعد ایک کنونشن پر میرے قریب آئی اور خود کو بیورلی کے طور پر متعارف کروایا! اتنے سالوں کے بعد اُسے اپنے شوہر اور بچوں کیساتھ یہوواہ کی خدمت کرتے دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔
سن ۱۹۷۹ میں، مجھے پائنیر سروس سکول میں جانے کا شرف حاصل ہوا۔ سکول میں جن باتوں پر زور دیا گیا اُن میں سے ایک یہ تھی کہ پائنیر خدمت جاری رکھنے کیلئے ذاتی طور پر مطالعے کا اچھا شیڈول بہت ضروری ہے۔ مَیں نے اس بات کو بالکل سچ پایا۔ مطالعہ، اجلاس اور خدمتگزاری میری زندگی ہے۔ مَیں اسے ایک شرف خیال کرتی ہوں کہ مَیں نے ۵۰ سال سے زیادہ ریگولر پائنیر خدمت کی ہے۔
صحت کے مسائل سے نپٹنا
تاہم، گزشتہ چند دہوں سے مجھے خاص چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سن ۱۹۶۲ میں مجھے گلوکوما ہو گیا۔ اُس وقت اسکا علاج نہیں تھا اور میری نظر بڑی تیزی سے کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ رائے کی صحت بھی زیادہ اچھی نہیں تھی اور ۱۹۸۳ میں اُس پر فالج کا شدید حملہ ہوا اور وہ جزوی طور پر مفلوج ہو گیا جسکی وجہ سے وہ بول نہیں سکتا تھا۔ سن ۱۹۸۶ میں رائے کی وفات ہو گئی۔ اُس نے میری کُلوقتی خدمت کے دوران مجھے بہت عملی مدد دی تھی اور مَیں واقعی رائے کی کمی محسوس کرتی ہوں۔
اِن تمام رکاوٹوں کے باوجود، مَیں نے ایک اچھا روحانی شیڈول قائم رکھنے کی کوشش کی۔ مَیں نے ایک مضبوط سی کار خرید لی جو ہمارے نصف دیہی علاقے میں خدمت کیلئے موزوں تھی اور اپنی بیٹی جوائس کیساتھ پائنیر خدمت جاری رکھی۔ میری نظر بتدریج کمزور ہوتی گئی اور آخرکار میری ایک آنکھ بالکل بند ہوگی۔ ڈاکٹروں نے اسکی جگہ پتھر کی آنکھ ڈال دی۔ اسکے باوجود، عدسی شیشے اور بڑے چھاپے والے لٹریچر کی مدد سے مَیں اپنی ایک آنکھ میں موجود تھوڑی بہت بصارت کیساتھ دن میں تین سے پانچ گھنٹے مطالعہ کرنے کے قابل تھی۔
مَیں نے مطالعے کے وقت کو ہمیشہ بیشقیمت جانا ہے۔ پس آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جب ایک دن سہپہر کو مطالعہ کرتے وقت اچانک میری بینائی ختم ہو گئی تو اس سے مجھے بڑا صدمہ پہنچا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے روشنی بجھا دی ہے۔ اب میری بینائی بالکل ختم ہو چکی تھی۔ اب مَیں کیسے مطالعہ کرتی ہوں؟ اگرچہ مَیں کافی اُونچا سنتی ہوں، تاہم آڈیوکیسٹس اور اپنے خاندان کی پُرمحبت حمایت کے ذریعے مَیں روحانی طور پر مضبوط ہوں۔
آخر تک برداشت کرنا
سو سال سے زیادہ عمر کے باعث میری صحت کافی خراب ہو چکی ہے اور مجھے اپنے اندر کافی تبدیلی لانی پڑی ہے۔ بعضاوقات مَیں نہ صرف حواسباختہ ہو جانے بلکہ بینائی نہ ہونے کی وجہ سے سچمچ بھٹک جاتی ہوں! مَیں دوبارہ سے بائبل مطالعے کروانا چاہتی ہوں، مگر اپنی صحت کی وجہ سے میرے لئے باہر جا کر مطالعے تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ اصل میں تو مَیں اس وجہ سے مایوسی کا شکار ہوں۔ مجھے اپنی حدود کو پہچاننا اور پھر انکے ساتھ کام کرنا سیکھنا پڑا۔ یہ آسان نہیں۔ اسکے باوجود، یہ کتنا بڑا شرف ہے کہ مَیں اپنے عظیم خالق یہوواہ کی بابت باتچیت کرنے میں کچھ نہ کچھ وقت صرف کر سکتی ہوں۔ جب مجھے بائبل کی بابت گفتگو کرنے کا موقع ملتا ہے، مثلاً جب نرسیں، کاروباری لوگ یا دیگر اشخاص ہمارے گھر آتے ہیں تو مَیں بڑی موقعشناسی سے اُن کیساتھ گفتگو کرنا شروع کر دیتی ہوں۔
میرے لئے سب سے بڑی برکت اپنی چار پُشتوں کو وفاداری سے یہوواہ کی پرستش کرتے دیکھنا ہے۔ اِن میں سے بعض زیادہ ضرورت والے علاقوں میں پائنیرز، بزرگ یا خدمتگزار خادموں اور بیتایل کارکنوں کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔ بِلاشُبہ، اپنی نسل کے بیشتر لوگوں کی طرح، مَیں بھی توقع رکھتی تھی کہ اس نظام کا خاتمہ جلد ہو جائیگا۔ مگر مَیں نے اپنی خدمت کے ستر سالوں میں کتنی زیادہ ترقی دیکھی ہے! مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ مَیں اتنے بڑے کام میں شریک تھی۔
مجھے دیکھنے والی نرسیں اکثر یہ کہتی ہیں کہ میرے ایمان نے ہی مجھے ابھی تک زندہ رکھا ہے۔ مَیں اُن سے متفق ہوں۔ بہترین زندگی صرف یہوواہ کی خدمت میں سرگرم رہنے سے ملتی ہے۔ مَیں داؤد بادشاہ کی طرح، واقعی یہ کہہ سکتی ہوں کہ مَیں عمررسیدہ مگر خوب آسودہ ہوں۔—۱-تواریخ ۲۹:۲۸۔
اس مضمون کے مکمل ہونے تک اپریل ۱، ۲۰۰۲ کو بہن مورل وفات پا گئی۔ انکی عمر ۱۰۲ سال سے ایک ماہ کم تھی اور انہوں نے واقعی وفاداری اور برداشت کی ایک شاندار مثال قائم کی ہے۔)
[صفحہ ۲۴ پر تصویریں]
جب مَیں پانچ برس کی تھی اور ۱۹ برس میں جب میری ملاقات اپنے شوہر رائے سے ہوئی
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
ہماری کار اور ہمارا کاروان جسکا نام ہم نے مصفاہ رکھا تھا
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
سن ۱۹۷۱ میں اپنے شوہر کیساتھ