مخلص کوشش کو یہوواہ کب برکت دیتا ہے؟
مخلص کوشش کو یہوواہ کب برکت دیتا ہے؟
”مجھے جانے دے کیونکہ پو پھٹ چلی۔“
”جب تک تُو مجھے برکت نہ دے مَیں تجھے جانے نہیں دونگا۔“
”تیرا کیا نام ہے؟“
”یعقوؔب۔“
”تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اؔسرائیل ہوگا کیونکہ تُو نے خدا اور آدمیوں کیساتھ زورآزمائی کی اور غالب ہوا۔“—پیدایش ۳۲:۲۶-۲۸۔
یہ دلچسپ باتچیت ۹۷ سالہ یعقوب کے پھرتیلے اور قوی مظاہرے کا نتیجہ تھی۔ اگرچہ بائبل اُسکا ذکر ایک پہلوان کے طور پر نہیں کرتی توبھی اُس نے راتبھر ایک فرشتے کیساتھ کشتی یا مقابلہ کِیا۔ کیوں؟ یعقوب اپنی میراث کے سلسلے میں اپنے باپدادا سے کئے گئے یہوواہ کے وعدے کی بابت نہایت فکرمند تھا۔
کئی سال پہلے یعقوب کے بھائی عیسو نے دال کی ایک پیالی کے عوض اپنے پہلوٹھے کا حق بیچ ڈالا تھا۔ اب یعقوب کو خبر ملتی ہے کہ عیسو ۴۰۰ آدمیوں کے ہمراہ اُسکے پاس آ رہا ہے۔ بجا طور پر، پریشان ہوکر یعقوب دریائےیردن کے پار کی زرخیز زمین اپنے خاندان کی میراث ہونے کے سلسلے میں یہوواہ کے وعدہ کی تصدیق چاہتا ہے۔ اپنی دُعاؤں کی مطابقت میں یعقوب ایک فیصلہکُن کارروائی کرتا ہے۔ وہ اپنی طرف آنے والے عیسو کو تحائف بھیجتا ہے۔ وہ دفاعی اقدام بھی اُٹھاتا ہے اور اپنے خیمے کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اپنی بیویوں اور بچوں کو یبوق کے گھاٹ سے پار منتقل کر دیتا ہے۔ سخت کوشش اور آنسوؤں کیساتھ وہ اپنے لئے ”مناجات“ کرتے ہوئے راتبھر ایک فرشتے کیساتھ مقابلہ کرکے مزید جانفشانی کرتا ہے۔—ہوسیع ۱۲:۴؛ پیدایش ۳۲:۱-۳۲۔
ایک اَور مثال پر غور کریں جسکا تعلق یعقوب کی دوسری بیوی راخل سے ہے جسے وہ سب سے زیادہ چاہتا تھا۔ راخل یعقوب کو برکت دینے کے یہوواہ کے وعدہ سے بخوبی واقف تھی۔ اُسکی بہن اور یعقوب کی پہلی بیوی لیاہ کو چار بیٹوں سے نوازا جاتا ہے جبکہ راخل بانجھ رہتی ہے۔ (پیدایش ۲۹:۳۱-۳۵) وہ خودترسی میں ڈوب جانے کی بجائے دُعا میں یہوواہ سے ملتجی رہتی ہے اور اپنی دُعاؤں کی مطابقت میں مثبت اقدام بھی اُٹھاتی ہے۔ جیسے سارہ نے ہاجرہ کیساتھ کِیا، راخل بھی اپنی اُماسلاف کی طرح اپنی لونڈی بلہاہ کو دوسری بیوی کے طور پر یعقوب کے پاس لاتی ہے تاکہ راخل کے مطابق، ”میرے لئے اُس سے اولاد ہو اور وہ اولاد میری ٹھہرئے۔“ * یعقوب کے بلہاہ سے دو بیٹے—دان اور نفتالی پیدا ہوتے ہیں۔ نفتالی کی پیدائش پر راخل اپنی جذباتی کشمکش کو بیان کرتی ہے: ’مَیں نے اپنی بہن کے ساتھ نہایت زور مار مار کر کشتی لڑی اور مَیں نے فتح پائی!‘ راخل کو بھی دو بیٹوں، یوسف اور بنیمین سے نوازا جاتا ہے۔—پیدایش ۳۰:۱-۸؛ ۳۵:۲۴۔
یہوواہ نے یعقوب اور راخل کی جسمانی اور جذباتی کوششوں کو برکت کیوں بخشی؟ اُنہوں نے یہوواہ کی مرضی کو فوقیت دی اور اپنے ورثے کی قدر کی تھی۔ اپنی زندگیوں پر اُسکی برکت کیلئے مخلصانہ دُعا کرتے ہوئے اُنہوں نے خدا کی مرضی اور اپنی مناجات کی مطابقت میں مثبت اقدام اُٹھائے۔
یعقوب اور راخل کی طرح آجکل بہتیرے لوگ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ یہوواہ کی برکت حاصل کرنے کیلئے مستعد کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کوششوں کے دوران اکثر انہیں آنسوؤں، حوصلہشکنی اور مایوسی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ ایک مسیحی ماں، الیزبتھ طویل عرصے کی غیرموجودگی کے بعد مسیحی اجلاسوں پر دوبارہ باقاعدگی سے حاضر ہونے کیلئے اپنی خلوصدل کوشش کو یاد کرتی ہے۔ پانچ چھوٹے بیٹوں، بےایمان شوہر اور قریبی کنگڈم ہال جانے کیلئے گاڑی کا ۲۰ میل کا سفر ایک چیلنج تھا۔ ”اجلاسوں پر باقاعدگی سے حاضر ہونے کی کوشش ضبطِنفس کا تقاضا کرتی تھی جو مَیں جانتی تھی کہ میرے بیٹوں اور میرے لئے فائدہمند ہے۔ اس سے انکی یہ جاننے میں مدد ہوئی کہ یہ روش واقعی اپنائے جانے کے لائق ہے۔“ یہوواہ نے اُسکی کوششوں پر برکت دی۔ مسیحی کلیسیا میں سرگرم اُسکے تین بیٹوں میں سے دو کُلوقتی خدمت میں ہیں۔ اپنی روحانی ترقی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتی ہے: ”اُنہوں نے مجھ سے زیادہ روحانی ترقی کی ہے۔“ اُسکی مخلصانہ کوشش کیلئے کیا ہی شاندار برکت!
یہوواہ مخلصانہ کوشش کو برکت بخشتا ہے
مخلصانہ کوشش اور محنتمشقت واقعی بااَجر ہیں۔ ہم ایک کام یا تفویض مکمل کرنے میں جتنی زیادہ کوشش کرتے ہیں اس کے نتیجے میں اُتنی ہی زیادہ تسکین کا تجربہ کرتے ہیں۔ یہوواہ نے ہمیں اسی طرح بنایا ہے۔ سلیمان بادشاہ نے لکھا، ”ہر ایک انسان کھائے اور پئے اور اپنی ساری محنت سے فائدہ اُٹھائے۔ یہ بھی خدا کی بخشش ہے۔“ (واعظ ۳:۱۳؛ ۵:۱۸، ۱۹) تاہم، خدا سے برکت حاصل کرنے کیلئے ہمیں اس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ ہم مناسب وجوہات کے تحت کوششیں کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، کیا روحانی معاملات کو ثانوی درجہ دینے والی طرزِزندگی پر یہوواہ کی برکت کی توقع کرنا معقول بات ہوگی؟ کیا ایک مخصوص مسیحی یہوواہ کی مقبولیت کی اُمید رکھ سکتا ہے جو ایسی ملازمت یا ترقی قبول کر لیتا ہے جو اُسے مسیحی اجلاسوں پر ایمانافزا رفاقت اور ہدایت سے محروم کر دیتی ہے؟—عبرانیوں ۱۰:۲۳-۲۵۔
روحانی مفادات کو نظرانداز کرکے دُنیاوی نوکری یا مادی خوشحالی کی جستجو میں عمربھر سخت محنت کرنے سے ’فائدہ اُٹھانا‘ ممکن نہیں۔ یسوع نے بیج بونے والے کی تمثیل میں غلط مقصد کے تحت کوشش کرنے کے نتائج بیان کئے۔ جھاڑیوں میں بوئے گئے بیج کی بابت یسوع نے واضح کِیا کہ ”یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا ہے اور دُنیا کی فکر اور دولت کا فریب اُس کلام کو دبا دیتا ہے اور وہ بےپھل رہ جاتا ہے۔“ (متی ۱۳:۲۲) پولس نے بھی اسی پھندے کی بابت مزید آگاہی دیتے ہوئے بیان کِیا کہ مادی روش کی جستجو کرنے والے لوگ ”ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔“ ایسی روحانی تباہی کا باعث بننے والی اس طرزِزندگی سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ پولس بیان کرتا ہے: ’تُو ان باتوں سے بھاگ اور ناپایدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر اُمید رکھ جو ہمیں لطف اُٹھانے کیلئے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے۔‘—۱-تیمتھیس ۶:۹، ۱۱، ۱۷۔
ہماری عمر یا اس بات سے قطعنظر کہ ہم کتنے عرصے سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں، ہم سب یعقوب اور راخل کی مخلصانہ کوشش کی نقل کرنے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ انتہائی خوفزدہ کرنے والے اور مایوسکُن دکھائی دینے والے حالات کے باوجود اُنہوں نے الہٰی خوشنودی کی تلاش میں کبھی بھی اپنے ورثے کو فراموش نہیں کِیا۔ آجکل ہمیں بھی ایسے ہی خوفزدہ، مایوسکُن یا افسردہ کرنے والے دباؤ اور مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہتھیار ڈال دینے اور شیطان کے حملے کا شکار ہو جانے کی آزمائش میں پڑنا آسان ہے۔ وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے اپنے اختیار میں موجود کوئی بھی طریقہ جیساکہ سیروتفریح، کھیلمشغلے، نوکری یا مادی خوشحالی کے پھندے کو استعمال کر سکتا ہے۔ اکثر دلپسند نتائج کا وعدہ کِیا جاتا ہے لیکن انکا حصول خواب ہی رہتا ہے۔ ایسے حاصلات کو ترجیح دینے کے فریب یا پھندے میں پھنسنے والے لوگ اکثر بڑی مایوسی کا سامنا کرتے ہیں۔ قدیم زمانہ کے یعقوب اور راخل کی طرح ہمیں اپنے اندر بےریا مقابلہ کرنے کی روح پیدا کرتے ہوئے شیطان کے ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا چاہئے۔
ابلیس کی سب سے بڑی خواہش ہی یہ ہے کہ ہم ہار مان کر یہ محسوس کرنے لگے کہ ’اب صورتحال میں بہتری کی کوئی اُمید باقی نہیں۔ اَب کچھ نہیں کِیا جا سکتا۔ سب کچھ بیکار ہے۔‘ پس ایسی منفی سوچ سے بچنا ہم سب کیلئے کسقدر اہم ہے کہ ’کوئی مجھ سے محبت نہیں کرتا‘ اور ’یہوواہ مجھے بھول چکا ہے۔‘ ایسی سوچ سے مغلوب ہونا ذاتی تباہی پر منتج ہوتا ہے۔ کیا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم نے ہار مان لی ہے اور جب تک ہمیں برکت نہیں ملتی ہم مقابلہ جاری نہیں رکھینگے؟ یاد رکھیں کہ یہوواہ ہماری مخلصانہ کوشش کو برکت دیتا ہے۔
یہوواہ کی برکت کیلئے مقابلہ جاری رکھیں
یہوواہ کے خادم کے طور پر زندگی کی بابت ہماری روحانی خوشحالی کا انحصار دو بنیادی سچائیوں پر ہے۔ (۱) مسائل، بیماریوں یا زندگی کی مشکلات سے کوئی بھی بچا ہوا نہیں اور (۲) یہوواہ مدد اور برکت کیلئے ہماری مخلصانہ التجاؤں کو سنتا ہے۔—خروج ۳:۷-۱۰؛ یعقوب ۴:۸، ۱۰؛ ۱-پطرس ۵:۸، ۹۔
انتہائی کٹھن حالات اور محدود محسوس کرنے کے باوجود ’ہمیں آسانی سے اُلجھا لینے والے گناہ،‘ ایمان کی کمی کے باعث بیدل نہیں ہونا چاہئے۔ (عبرانیوں ۱۲:۱) برکت حاصل کرنے تک مقابلہ کرنا جاری رکھیں۔ صبر کریں اور عمررسیدہ یعقوب کو یاد رکھیں جس نے برکت حاصل کرنے کیلئے راتبھر مقابلہ کِیا۔ خواہ آپکو اپنی کارگزاری کتنی بھی محدود لگے، موسمِبہار میں بیج بونے اور پھر کٹائی کا انتظار کرنے والے کسان کی طرح اپنی روحانی کارگزاری پر یہوواہ کی برکت کا صبر کیساتھ انتظار کریں۔ (یعقوب ۵:۷، ۸) نیز زبورنویس کے الفاظ ہمیشہ ذہن میں رکھیں: ”جو آنسوؤں کے ساتھ بوتے ہیں وہ خوشی سے کاٹیں گے۔“ (زبور ۱۲۶:۵؛ گلتیوں ۶:۹) ثابتقدم رہتے ہوئے مقابلہ کرنے والوں کی صفوں میں شامل رہیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 9 موسوی شریعت سے پہلے داشتہ رکھنے کا رواج تھا اور شریعت نے اسے قبول کِیا اور اسے باضابطہ بنایا۔ خدا نے یسوع مسیح کے آنے تک باغِعدن میں قائمکردہ وحدتازدواج کے ابتدائی معیار کو بحال کرنا مناسب نہیں سمجھا تاہم اُس نے قوانین کے ذریعے داشتہ کے لئے تحفظ کا انتظام کِیا تھا۔ منطقی طور پر داشتہ رکھنے کے رواج نے اسرائیل کی آبادی کے تیز اضافے میں مدد کی تھی۔