مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

وفاداری سے الہٰی اختیار کی اطاعت کریں

وفاداری سے الہٰی اختیار کی اطاعت کریں

وفاداری سے الہٰی اختیار کی اطاعت کریں

‏’‏یہوواہ ہمارا حاکم ہے۔‏ یہوواہ ہمارا شریعت دینے والا ہے۔‏ یہوواہ ہمارا بادشاہ ہے۔‏‘‏ —‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۲‏۔‏

۱.‏ کن عناصر نے قدیم اسرائیل کو دیگر قوموں میں منفرد بنایا تھا؟‏

اسرائیلی قوم ۱۵۱۳ ق.‏س.‏ع.‏ میں وجود میں آئی۔‏ اُس وقت اسکا کوئی دارالحکومت،‏ وطن اور انسانی بادشاہ نہیں تھا۔‏ اسکی رعایا سابقہ غلام تھی۔‏ تاہم،‏ یہ نئی قوم ایک اَور لحاظ سے بھی منفرد تھی۔‏ یہوواہ خدا اسکا نادیدہ منصف،‏ شریعت دینے والا اور بادشاہ تھا۔‏ (‏خروج ۱۹:‏۵،‏ ۶؛‏ یسعیاہ ۳۳:‏۲۲‏)‏ کوئی دوسری قوم یہ دعویٰ نہیں کر سکتی تھی!‏

۲.‏ اسرائیل کے منظم کئے جانے کے طریقے کی بابت کیا سوال پیدا ہوتا ہے،‏ نیز اسکا جواب ہمارے لئے کیوں اہمیت رکھتا ہے؟‏

۲ یہوواہ ایک منظم خدا کے علاوہ امن کا خدا بھی ہے لہٰذا ہم اُس سے منظم حکمرانی کی توقع کر سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۴:‏۳۳‏)‏ اسرائیل کے سلسلے میں یہ بات سچ تھی۔‏ تاہم ایک زمینی دیدنی تنظیم نادیدہ خدا سے راہنمائی کیسے حاصل کر سکتی تھی؟‏ چنانچہ اس قدیم قوم کے سلسلے میں یہوواہ کی حکمرانی کے طریقے بالخصوص اسرائیل کیساتھ الہٰی اختیار کی وفادارانہ اطاعت کی اہمیت کو نمایاں کرنے والے اُسکے برتاؤ پر غور کرنا ہمارے لئے فائدہ‌مند ہے۔‏

قدیم اسرائیل کیسی حکمرانی کے تحت تھا

۳.‏ یہوواہ نے اپنے لوگوں کی راہنمائی کیلئے کونسے عملی انتظامات کئے تھے؟‏

۳ اگرچہ یہوواہ اسرائیل کا نادیدہ بادشاہ تھا توبھی اُس نے وفادار اشخاص کو اپنے دیدنی نمائندوں کے طور پر مقرر کِیا۔‏ لوگوں کی خدمت کرنے کیلئے سردار،‏ خاندانی سربراہ اور بزرگ،‏ مشیر اور قاضی مقرر تھے۔‏ (‏خروج ۱۸:‏۲۵،‏ ۲۶؛‏ استثنا ۱:‏۱۵‏)‏ تاہم،‏ ہمیں یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ یہ ذمہ‌دار اشخاص الہٰی راہنمائی کے بغیر معاملات کو پوری بصیرت اور سمجھ کیساتھ نپٹا سکتے تھے۔‏ وہ کامل اور اپنے ساتھی پرستاروں کے دلوں کو پڑھنے کے قابل نہیں تھے۔‏ اسکے باوجود،‏ خداترس منصف اپنے ساتھی ایمانداروں کو مفید مشورت دے سکتے تھے اسلئےکہ یہ یہوواہ کی شریعت پر مبنی تھی۔‏—‏استثنا ۱۹:‏۱۵؛‏ زبور ۱۱۹:‏۹۷-‏۱۰۰‏۔‏

۴.‏ اسرائیل کے وفادار قاضی کن رغبتوں سے بچنے کی فکر رکھتے تھے اور کیوں؟‏

۴ تاہم قاضی بننے کے لئے شریعت کا علم رکھنے کے علاوہ بھی کچھ درکار تھا۔‏ بزرگوں کو ناکامل ہونے کی وجہ سے غلط رغبتوں—‏خودغرضی،‏ جانبداری اور لالچ—‏پر قابو پانے کی بابت چوکس رہنا تھا جو ان کے فیصلے کو متاثر کر سکتی تھیں۔‏ موسیٰ نے اُن سے کہا:‏ ”‏تمہارے فیصلہ میں کسی کی رُورعایت نہ ہو۔‏ جیسے بڑے آدمی کی بات سنو گے ویسے ہی چھوٹے کی سننا اور کسی آدمی کا مُنہ دیکھ کر ڈر نہ جانا کیونکہ یہ عدالت خدا کی ہے۔‏‏“‏ جی‌ہاں،‏ اسرائیلی قاضی یہوواہ کیلئے عدالت کرتے تھے۔‏ یہ کسقدر شاندار استحقاق تھا!‏—‏استثنا ۱:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

۵.‏ قاضی مقرر کرنے کے علاوہ یہوواہ نے اپنے لوگوں کی دیکھ‌بھال کیلئے کونسی دیگر فراہمیوں کا بندوبست کِیا تھا؟‏

۵ یہوواہ نے اپنے لوگوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دیگر فراہمیوں کا بندوبست بھی کِیا۔‏ موعودہ ملک میں پہنچنے سے پہلے اُس نے انہیں سچی پرستش کے مرکز،‏ مقدس کو تعمیر کرنے کا حکم دیا۔‏ اُس نے شریعت کی تعلیم دینے،‏ جانوروں کی قربانیاں گذراننے اور دن اور رات کے وقت بخور جلانے کیلئے کہانتی بندوبست بھی کِیا۔‏ خدا نے موسیٰ کے بڑے بھائی ہارون کو اسرائیل کا پہلا سردار کاہن مقرر کِیا اور کہانتی فرائض کو انجام دینے میں مدد کیلئے اُسکے بیٹوں کو مقرر کِیا۔‏—‏خروج ۲۸:‏۱؛‏ گنتی ۳:‏۱۰؛‏ ۲-‏تواریخ ۱۳:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ کاہنوں اور غیرکہانتی لاویوں کے درمیان کیا تعلق تھا؟‏ (‏ب)‏ ہم اس حقیقت سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں کہ لاویوں کی مختلف تفویضات ہوتی تھیں؟‏ (‏کلسیوں ۳:‏۲۳‏)‏

۶ لاکھوں لوگوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرنا ایک بڑی ذمہ‌داری تھی اور کاہنوں کی تعداد نسبتاً بہت کم تھی۔‏ لہٰذا ان کی مدد کے لئے لاوی قبیلے کے دوسرے لوگوں کو مقرر کرنے کا انتظام کِیا گیا۔‏ یہوواہ نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏تُو لاویوں کو ہارؔون اور اُس کے بیٹوں کے ہاتھ میں سپرد کر۔‏ بنی‌اسرائیل کی طرف سے وہ بالکل اُسے دیدئے گئے ہیں۔‏“‏—‏گنتی ۳:‏۹،‏ ۳۹‏۔‏

۷ لاوی خوب منظم تھے۔‏ ان کی تقسیم تین خاندانوں کے مطابق کی گئی تھی—‏جیرسون،‏ قہات اور مراری—‏جن میں سے ہر کو ایک خاص تفویض سونپی گئی تھی۔‏ (‏گنتی ۳:‏۱۴-‏۱۷،‏ ۲۳-‏۳۷‏)‏ بعض تفویضات دوسروں کی نسبت زیادہ اہم معلوم ہوتی تھیں تاہم سب کی اہمیت برابر تھی۔‏ قہاتی لاوی عہد کے مُقدس صندوق اور مقدس کی دوسری چیزوں کیلئے کام کِیا کرتے تھے۔‏ تاہم،‏ ہر لاوی خواہ وہ قہاتی ہو یا نہیں،‏ شاندار استحقاق رکھتا تھا۔‏ (‏گنتی ۱:‏۵۱،‏ ۵۳‏)‏ افسوس کی بات ہے کہ بعض نے اپنے استحقاقات کی قدر نہیں کی۔‏ الہٰی اختیار کی وفادارانہ اطاعت کرنے کی بجائے وہ غیرمطمئن ہو کر تکبّر،‏ خودنمائی اور حسد میں پڑ گئے۔‏ قورح نامی لاوی ایسے ہی گروہ میں شامل تھا۔‏

‏”‏کیا اب تم کہانت کو بھی چاہتے ہو؟‏“‏

۸.‏ (‏ا)‏ قورح کون تھا؟‏ (‏ب)‏ کیا وجہ تھی کہ قورح نے کاہنوں کی بابت محض انسانی نقطۂ‌نظر سے سوچنا شروع کر دیا تھا؟‏

۸ قورح لاویوں کے آبائی خاندان یا قہاتیوں کے خاندانوں کا سربراہ نہیں تھا۔‏ (‏گنتی ۳:‏۳۰،‏ ۳۲‏)‏ اس کے باوجود،‏ وہ اسرائیل میں ایک معزز سردار تھا۔‏ قورح کی ذمہ‌داریاں اُسے ہارون اور اُس کے بیٹوں کی قربت میں لا سکتی تھیں۔‏ (‏گنتی ۴:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ ان اشخاص کی ناکاملیتوں کا براہِ‌راست مشاہدہ کرنے کے باعث قورح نے سوچا ہوگا:‏ ’‏یہ کاہن تو ناکامل ہیں توبھی مجھ سے انکی اطاعت کرنے کی توقع کی جاتی ہے!‏ کچھ ہی عرصہ پہلے ہارون نے ایک سونے کا بچھڑا بنایا تھا۔‏ اُس بچھڑے کی پرستش کرنے سے ہمارے لوگ بُت‌پرستی میں پڑ گئے تھے۔‏ اب موسیٰ کا بھائی ہارون سردار کاہن کے طور پر خدمت کر رہا ہے!‏ کیسی اقرباپروری!‏ نیز ہارون کے بیٹوں ندب اور ابیہو کی بابت کیا ہے؟‏ درحقیقت،‏ اُنہوں نے اپنے خدمتی استحقاق کیلئے احترام کی اسقدر کمی دکھائی کہ یہوواہ کو اُنہیں ہلاک کرنا پڑا!‏‘‏ * (‏خروج ۳۲:‏۱-‏۵؛‏ احبار ۱۰:‏۱،‏ ۲‏)‏ قورح کی سوچ سے قطع‌نظر یہ بات واضح ہے کہ اُس نے کہانت کو انسانی نقطۂ‌نظر سے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔‏ نتیجتاً وہ موسیٰ اور ہارون اور آخرکار یہوواہ کے خلاف بغاوت کر بیٹھا۔‏—‏۱-‏سموئیل ۲۳۱۵؛‏ یعقوب ۱:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ قورح اور اُسکے ساتھی باغیوں نے موسیٰ پر کیا الزام لگایا اور انہیں کیوں معلوم ہونا چاہئے تھا کہ یہ غلط ہے؟‏

۹ ایک بارسوخ شخص کے طور پر قورح کیلئے اپنے جیسا رُجحان رکھنے والے دیگر اشخاص کو جمع کرنا مشکل نہیں تھا۔‏ اُسے داتن اور ابیرام کے علاوہ ۲۵۰ ہم‌خیال ساتھی مل گئے جو سب کے سب جماعت کے سردار تھے۔‏ وہ سب ملکر موسیٰ اور ہارون کے پاس گئے اور کہا:‏ ”‏جماعت کا ایک ایک آدمی مُقدس ہے اور [‏یہوواہ]‏ اُنکے بیچ میں رہتا ہے سو تم اپنے آپ کو [‏یہوواہ]‏ کی جماعت سے بڑا کیونکر ٹھہراتے ہو؟‏“‏—‏گنتی ۱۶:‏۱-‏۳‏۔‏

۱۰ باغیوں کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ موسیٰ کے اختیار کو چیلنج کرنا دانشمندی نہیں۔‏ کچھ عرصہ پہلے ہارون اور مریم نے ایسا ہی کِیا تھا۔‏ درحقیقت اُنہوں نے قورح کی طرح استدلال بھی کِیا تھا!‏ گنتی ۱۲:‏۱،‏ ۲ کے مطابق،‏ اُنہوں نے پوچھا:‏ ”‏کیا [‏یہوواہ]‏ نے فقط موسیٰؔ ہی سے باتیں کی ہیں؟‏ کیا اُس نے ہم سے بھی باتیں نہیں کیں؟‏“‏ یہوواہ سُن رہا تھا۔‏ اُس نے موسیٰ،‏ ہارون اور مریم کو یہ بتانے کے لئے خیمۂ‌اجتماع کے دروازے پر حاضر ہونے کا حکم دیا کہ اُس نے کس کو پیشوا منتخب کِیا تھا۔‏ پھر واضح طور پر یہوواہ نے کہا:‏ ”‏اگر تم میں کوئی نبی ہو تو مَیں جو [‏یہوواہ]‏ ہوں اُسے رویا میں دکھائی دونگا اور خواب میں اُس سے باتیں کرونگا۔‏ پر میرا خادم موسیٰؔ ایسا نہیں ہے۔‏ وہ میرے سارے خاندان میں امانتدار ہے۔‏“‏ بعدازاں یہوواہ نے مریم کو عارضی طور پر کوڑھ میں مبتلا کر دیا۔‏—‏گنتی ۱۲:‏۴-‏۷،‏ ۱۰‏۔‏

۱۱.‏ موسیٰ نے قورح کے معاملے کو کیسے نپٹایا؟‏

۱۱ غالباً قورح اور اُس کے حمایتی اُس حادثے کی بابت جانتے تھے۔‏ اُن کی بغاوت ناقابلِ‌معافی تھی۔‏ تاہم،‏ موسیٰ نے تحمل کے ساتھ اُن سے استدلال کرنے کی کوشش کی۔‏ اُس نے یہ بیان کرتے ہوئے انہیں اپنے استحقاقات کے لئے قدر ظاہر کرنے کی حوصلہ‌افزائی کی:‏ ”‏کیا یہ تم کو چھوٹی بات دکھائی دیتی ہے کہ اؔسرائیل کے خدا نے تم کو بنی‌اسرائیل کی جماعت میں سے چن کر الگ کِیا تاکہ تم کو وہ اپنی قربت بخشے“‏ نہیں،‏ یہ کوئی ”‏چھوٹی بات“‏ نہیں تھی!‏ لاویوں کے پاس پہلے ہی بیشمار استحقاقات تھے۔‏ انہیں اَور کس چیز کی تمنا تھی؟‏ موسیٰ کے اگلے بیان نے اُن کے دلوں کے خیالات کو بےنقاب کِیا:‏ ”‏کیا اب تم کہانت کو بھی چاہتے ہو؟‏“‏ * (‏گنتی ۱۲:‏۳؛‏ ۱۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ تاہم،‏ یہوواہ نے الہٰی اختیار کے خلاف اس بغاوت کے لئے کیسا جوابی‌عمل دکھایا؟‏

اسرائیل کا منصف مداخلت کرتا ہے

۱۲.‏ خدا کیساتھ اسرائیل کے مثبت رشتے کا انحصار کس بات پر تھا؟‏

۱۲ یہوواہ نے اسرائیلیوں کو شریعت دیتے وقت کہا تھا کہ اگر وہ فرمانبردار رہے تو ایک ”‏مُقدس قوم“‏ ہونگے اور اُس وقت تک مُقدس قوم رہینگے جب تک یہوواہ کے بندوبست کو قبول کرینگے۔‏ (‏خروج ۱۹:‏۵،‏ ۶‏)‏ اب اس بےلگام بغاوت کے پیشِ‌نظر اسرائیل کے منصف اور شریعت دینے والے کی مداخلت کا وقت آ گیا تھا!‏ موسیٰ نے قورح سے کہا:‏ ”‏کل تُو اپنے سارے فریق کے لوگوں کو لیکر [‏یہوواہ]‏ کے آگے حاضر ہو۔‏ تُو بھی ہو اور وہ بھی ہوں اور ہارؔون بھی ہو۔‏ اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنا بخوردان لیکر اُس میں بخور ڈالے اور تم اپنے اپنے بخوردان کو جو شمار میں ڈھائی سو ہونگے [‏یہوواہ]‏ کے حضور لاؤ اور تُو بھی اپنا بخوردان لانا اور ہارؔون بھی لائے۔‏“‏—‏گنتی ۱۶:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏ باغیوں نے یہوواہ کے حضور بخور پیش کرنے کے سلسلے میں تکبّر کا مظاہرہ کیسے کِیا تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے ان باغیوں کیساتھ کیسا سلوک کِیا؟‏

۱۳ خدا کی شریعت کے مطابق،‏ صرف کاہن بخور پیش کر سکتے تھے۔‏ یہوواہ کے حضور ایک غیرکہانتی لاوی کے بخور پیش کرنے کا خیال بھی ان باغیوں کے دلوں میں نہیں آنا چاہئے تھا۔‏ (‏خروج ۳۰:‏۷؛‏ گنتی ۴:‏۱۶‏)‏ تاہم قورح اور اُسکے ساتھیوں نے اس بات کی پروا نہیں کی!‏ اگلے ہی دن اُس نے ”‏ساری جماعت کو اُن [‏موسیٰ اور ہارون]‏ کے خلاف خیمۂ‌اجتماع کے دروازہ پر جمع کر لیا تھا۔‏“‏ ریکارڈ ہمیں بتاتا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے موسیٰؔ اور ہارؔون سے کہا۔‏ کہ تم اپنے آپ کو اس جماعت سے بالکل الگ کر لو تاکہ مَیں اُن کو ایک پل میں بھسم کر دوں۔‏“‏ تاہم موسیٰ اور ہارون نے لوگوں کی زندگی کے لئے درخواست کی۔‏ یہوواہ نے ان کی درخواست سنی۔‏ جہاں تک قورح اور اُس کی جماعت کا تعلق ہے،‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے حضور سے آگ نکلی اور اُن ڈھائی سو آدمیوں کو جنہوں نے بخور گذرانا تھا بھسم کر ڈالا۔‏“‏—‏گنتی ۱۶:‏۱۹-‏۲۲،‏ ۳۵‏۔‏ *

۱۴.‏ یہوواہ نے اسرائیل کی جماعت کے خلاف سخت کارروائی کیوں کی؟‏

۱۴ حیران‌کُن بات ہے کہ باغیوں کے ساتھ یہوواہ کے اس برتاؤ کو دیکھنے کے باوجود اسرائیلیوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔‏ ”‏دوسرے ہی دن بنی‌اسرائیل کی ساری جماعت نے موسیٰؔ اور ہارؔون کی شکایت کی اور کہنے لگے کہ تم نے [‏یہوواہ]‏ کے لوگوں کو مار ڈالا ہے۔‏“‏ اسرائیلی باغیوں کی حمایت کر رہے تھے!‏ بالآخر یہوواہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔‏ اب ہارون اور موسیٰ سمیت کوئی بھی شخص لوگوں کے لئے شفاعت نہیں کر سکتا تھا۔‏ یہوواہ نے نافرمان لوگوں کو سزا دینے کے لئے ان پر وبا بھیجی،‏ ”‏علاوہ اُن کے جو قوؔرح کے معاملہ کے سبب سے ہلاک ہوئے تھے چودہ ہزار سات سو آدمی وبا سے چھیج گئے۔‏“‏—‏گنتی ۱۶:‏۴۱-‏۴۹‏۔‏

۱۵.‏ (‏ا)‏ اسرائیلیوں کو کن وجوہات کی بِنا پر موسیٰ اور ہارون کی قیادت کو بِلاتذبذب قبول کرنا چاہئے تھا؟‏ (‏ب)‏ اس سرگزشت نے آپکو یہوواہ کی بابت کِیا سکھایا ہے؟‏

۱۵ ان لوگوں نے خواہ‌مخواہ اپنی جان کیساتھ دشمنی کی تھی۔‏ اگر وہ معاملات پر غوروفکر کرتے تو ایسا نہ ہوتا۔‏ وہ خود سے ایسے سوال پوچھ سکتے تھے:‏ ’‏اپنی جان پر کھیل کر فرعون کا سامنا کرنے والے کون تھے؟‏ اسرائیلیوں کی آزادی کا تقاضا کن لوگوں نے کِیا تھا؟‏ وہ واحد شخص کون تھا جسے اسرائیلی آزادی کے بعد خدا کے فرشتے کے رُوبرو بات کرنے کیلئے حورب کے پہاڑ پر چڑھنے کی دعوت دی گئی تھی؟‏‘‏ یقیناً موسیٰ اور ہارون کا شاندار ریکارڈ یہوواہ کے ساتھ ان کی وفاداری اور لوگوں کیلئے اُن کی محبت کا ثبوت تھا۔‏ (‏خروج ۱۰:‏۲۸؛‏ ۱۹:‏۲۴؛‏ ۲۴:‏۱۲-‏۱۵‏)‏ ان باغیوں کی ہلاکت سے یہوواہ خوش نہیں تھا۔‏ تاہم،‏ جب یہ ظاہر ہوا کہ لوگ اپنی بغاوت سے باز نہیں آئینگے تو اُس نے فیصلہ‌کُن کارروائی کی۔‏ (‏حزقی‌ایل ۳۳:‏۱۱‏)‏ یہ سب باتیں آجکل ہمارے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔‏ وہ کیوں؟‏

جدید ذریعے کی شناخت کرنا

۱۶.‏ (‏ا)‏ پہلی صدی کے یہودیوں کو کس ثبوت کی بِنا پر یسوع کو یہوواہ کا نمائندہ تسلیم کر لینا چاہئے تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے لاوی کہانت کی جگہ کسے دی اور کیوں؟‏

۱۶ آجکل،‏ یہوواہ ایک نئی قوم کا نادیدہ منصف،‏ شریعت دینے والا اور بادشاہ ہے۔‏ (‏متی ۲۱:‏۴۳‏)‏ یہ ”‏قوم“‏ پہلی صدی س.‏ع.‏ میں وجود میں آئی تھی۔‏ اُس وقت تک موسیٰ کے زمانے کے مسکن کی جگہ یروشلیم کی عظیم‌الشان ہیکل موجود تھی جہاں لاوی خدمت کرتے تھے۔‏ (‏لوقا ۱:‏۵،‏ ۸،‏ ۹‏)‏ تاہم،‏ ۲۹ س.‏ع.‏ میں ایک اَور روحانی ہیکل کی بنیاد ڈالی گئی جس کا سردار کاہن یسوع مسیح تھا۔‏ (‏عبرانیوں ۹:‏۹،‏ ۱۱‏)‏ ایک بار پھر الہٰی اختیار کا سوال اُٹھا۔‏ یہوواہ اس نئی ”‏قوم“‏ کی قیادت کے لئے کسے استعمال کرے گا؟‏ یسوع نے غیرمشروط طور پر خود کو خدا کا وفادار ثابت کِیا۔‏ وہ لوگوں سے محبت رکھتا تھا۔‏ اُس نے کئی شاندار نشان بھی ظاہر کئے تھے۔‏ تاہم،‏ اپنے سرکش آباؤاجداد کی طرح لاویوں کی اکثریت نے یسوع کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۶۳-‏۶۸؛‏ اعمال ۴:‏۵،‏ ۶،‏ ۱۸؛‏ ۵:‏۱۷‏)‏ انجام‌کار،‏ یہوواہ نے ایک مختلف انتظام—‏شاہی کاہنوں کے فرقے—‏کو لاوی کہانت کی جگہ دی۔‏ یہ شاہی کاہنوں کا فرقہ آج بھی قائم ہے۔‏

۱۷.‏ (‏ا)‏ آجکل کونسا گروہ شاہی کاہنوں کے فرقے کو تشکیل دیتا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ شاہی کاہنوں کے فرقے کو کیسے استعمال کر رہا ہے؟‏

۱۷ آجکل شاہی کاہنوں کا یہ فرقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے؟‏ پطرس رسول اپنے پہلے الہامی خط میں اس سوال کا جواب دیتا ہے۔‏ پطرس نے مسیح کے بدن کے ممسوح ارکان کو لکھا:‏ ”‏تم ایک برگزیدہ نسل۔‏ شاہی کاہنوں کا فرقہ۔‏ مُقدس قوم اور ایسی اُمت ہو جو خدا کی خاص ملکیت ہے تاکہ اُسکی خوبیاں ظاہر کرو جس نے تمہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۹‏)‏ یہ الفاظ واضح کرتے ہیں کہ یسوع کے ممسوح پیروکار ایک گروہ کے طور پر ”‏شاہی کاہنوں کا فرقہ“‏ ہیں جنہیں پطرس نے ”‏مُقدس قوم“‏ بھی کہا تھا۔‏ یہ اُس ذریعے کو تشکیل دیتے ہیں جسے یہوواہ اپنے لوگوں کو ہدایت اور روحانی راہنمائی فراہم کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏۔‏

۱۸.‏ مقررہ بزرگوں اور شاہی کاہنوں کے فرقے کے درمیان کیا تعلق ہے؟‏

۱۸ دُنیابھر میں یہوواہ کے لوگوں کی کلیسیاؤں میں ذمہ‌داری کے عہدوں پر فائز بزرگ شاہی کاہنوں کے فرقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔‏ یہ لوگ خواہ ممسوح ہیں یا نہیں،‏ ہمارے احترام اور مخلصانہ حمایت کے مستحق ہیں۔‏ وہ کیوں؟‏ اسلئےکہ یہوواہ نے رُوح‌اُلقدس کے ذریعے بزرگوں کو ان عہدوں پر فائز کِیا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۷،‏ ۱۷‏)‏ یہ کیسے ممکن ہے؟‏

۱۹.‏ بزرگ کس طریقے سے رُوح‌اُلقدس کی مدد سے مقرر کئے جاتے ہیں؟‏

۱۹ یہ بزرگ خدا کی روح کے زیرِہدایت خدا کے کلام میں بیان‌کردہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۷؛‏ ططس ۱:‏۵-‏۹‏)‏ پس انکی تقرری کی بابت کہا جا سکتا ہے کہ یہ رُوح‌اُلقدس کے ذریعے ہوئی ہے۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۸‏)‏ بزرگوں کو خدا کے کلام سے اچھی طرح واقف ہونا چاہئے۔‏ اپنے مقرر کرنے والے عظیم منصف کی طرح بزرگوں کو بھی فیصلہ کرتے وقت ایسی بات سے نفرت کرنی چاہئے جس میں جانبداری کا گمان ہو۔‏—‏استثنا ۱۰:‏۱۷،‏ ۱۸‏۔‏

۲۰.‏ آپ محنتی بزرگوں کی قدر کیوں کرتے ہیں؟‏

۲۰ اُنکے اختیار کو چیلنج کرنے کی بجائے ہمیں اپنے محنتی بزرگوں کی واقعی قدر کرنی چاہئے!‏ کئی سالوں کی وفادارانہ خدمت پر محیط اُنکا ریکارڈ ہمارے بھروسے کو تحریک دیتا ہے۔‏ وہ وفاداری سے کلیسیائی اجلاسوں کیلئے تیاری کرکے انہیں منعقد کرتے ہیں،‏ ’‏بادشاہتی خوشخبری‘‏ کی منادی میں ہمارے شانہ‌بشانہ کام کرتے ہیں اور ہمارے لئے ضروری صحیفائی مشورت فراہم کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۳،‏ ۲۵؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۲‏)‏ بیماری کے وقت میں وہ ہم سے ملاقات کرتے ہیں اور ہمارے غم میں تسلی کا باعث بنتے ہیں۔‏ وہ وفاداری اور خودایثاری کیساتھ بادشاہتی مفادات کی حمایت کرتے ہیں۔‏ یہوواہ کی روح اُن پر ہوتی ہے اور انہیں اُسکی مقبولیت حاصل ہے۔‏—‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏۔‏

۲۱.‏ بزرگوں کو کس بات کا خیال رکھنا چاہئے اور کیوں؟‏

۲۱ واقعی،‏ بزرگ کامل نہیں ہیں۔‏ اپنی ناکاملیتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہ خدا کی طرف سے ان کے ”‏سپرد“‏ کئے گئے گلّے پر حکومت نہیں جتاتے۔‏ اس کی بجائے وہ ’‏خوشی سے اپنے بھائیوں کی مدد کرتے ہیں۔‏‘‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۳؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۴‏)‏ یہوواہ سے محبت رکھنے والے یہ فروتن اور محنتی بزرگ جانتے ہیں کہ جتنا زیادہ وہ اُس کے نمونے کی نقل کریں گے یہ کلیسیا کے لئے اتنا ہی فائدہ‌مند ہوگا۔‏ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے وہ محبت،‏ رحم اور تحمل جیسی الہٰی خوبیوں کو پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کرتے ہیں۔‏

۲۲.‏ قورح کی سرگزشت کے اعادے نے یہوواہ کی دیدنی تنظیم پر آپکے ایمان کو کیسے مضبوط کِیا ہے؟‏

۲۲ ہم کس قدر خوش ہیں کہ یہوواہ ہمارا نادیدہ حکمران،‏ یسوع مسیح ہمارا سردار کاہن،‏ شاہی کاہنوں کے فرقے کے ممسوح ارکان ہمارے اُستاد اور ایماندار مسیحی بزرگ ہمارے مشیر ہیں!‏ اگرچہ انسانی راہنمائی کے تحت کوئی بھی تنظیم کامل نہیں ہو سکتی توبھی ہم خوشی سے الہٰی اختیار کی اطاعت کرنے والے وفادار ساتھی ایمانداروں کیساتھ خدا کی خدمت کرنے میں شادمان ہیں!‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 الیعزر اور اتمر ہارون کے دو اَور بیٹے تھے جنہوں نے یہوواہ کی قابلِ‌تقلید خدمت کی تھی۔‏—‏احبار ۱۰:‏۶‏۔‏

^ پیراگراف 11 قورح کے سازشی ساتھی داتن اور ابیرام روبن کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔‏ اس لحاظ سے وہ بدیہی طور پر کہانت کے خواہشمند نہیں تھے۔‏ وہ موسیٰ کی قیادت اور اس حقیقت سے ناخوش تھے کہ اُس وقت تک موعودہ ملک پہنچنے کی اُنکی توقع پوری نہیں ہوئی تھی۔‏—‏گنتی ۱۶:‏۱۲-‏۱۴‏۔‏

^ پیراگراف 13 سرقبائلی دَور میں ہر خاندان کا سربراہ خدا کے حضور اپنے بیوی‌بچوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کیلئے قربانیاں گذرانتا تھا۔‏ (‏پیدایش ۸:‏۲۰؛‏ ۴۶:‏۱؛‏ ایوب ۱:‏۵‏)‏ تاہم،‏ شریعت کے نفاذ کے بعد،‏ یہوواہ نے ہارون کے خاندان کے مردوں کو کاہنوں کے طور پر مقرر کِیا جن کے ذریعے قربانیاں پیش کی جانی تھیں۔‏ بدیہی طور پر،‏ وہ ۲۵۰ باغی اِس طریقۂ‌کار میں ردوبدل کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔‏

آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏

‏• اسرائیلیوں کی دیکھ‌بھال کیلئے یہوواہ کی پُرمحبت فراہمیاں کیا تھیں؟‏

‏• موسیٰ اور ہارون کے خلاف قورح کی بغاوت ناقابلِ‌معافی کیوں تھی؟‏

‏• باغیوں کیساتھ یہوواہ کے برتاؤ سے ہم کیا سبق سیکھتے ہیں؟‏

‏• ہم یہوواہ کے موجودہ انتظامات کیلئے کیسے قدردانی دکھا سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

کیا آپ یہوواہ کی خدمت میں ہر تفویض کو ایک شرف خیال کرتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

‏”‏تم اپنے آپ کو [‏یہوواہ]‏ کی جماعت سے بڑا کیونکر ٹھہراتے ہو؟‏“‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

مقررہ بزرگ شاہی کاہنوں کے فرقے کی نمائندگی کرتے ہیں