یوگا—محض ریاضت یا کچھ اَور؟
یوگا—محض ریاضت یا کچھ اَور؟
آجکل لوگ اپنے جسم کو دبلاپتلا اور تندرستوتوانا رکھنے کی دُھن میں ہیں۔ اس وجہ سے بہتیرے جمنازیم اور ہیلتھ کلبوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے، مغربی دُنیا کے سینکڑوں لوگ مشرقی یوگا آرٹ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
تناؤ، مایوسی اور پریشانی کا شکار لوگ بھی چھٹکارا اور سکون حاصل کرنے کے لئے یوگا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ بالخصوص، ۱۹۶۰ کے دہے سے ہیپیوں اور فلاور چلڈرن کے مشرقی مذاہب اور اُن کی پُراسرار رسومات میں دلچسپی نے پورے مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فلمی ستاروں اور راک موسیقاروں نے یوگا سے قریبی تعلق رکھنے والے ماورا مراقبہ کو خوب شہرت بخشی ہے۔ ہم یوگا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث پوچھ سکتے ہیں: ’کیا یوگا محض ایک ورزشی عمل ہے جو کسی حد تک صحتمند اور دُبلےپتلے جسم کے علاوہ ذہنی سکون بھی بخشتا ہے؟ کیا کسی مذہبی عمل کے بغیر یوگا کی مشق کی جا سکتی ہے؟ کیا یوگا مسیحیوں کے لئے موزوں ہے؟‘
یوگا کا پسمنظر
بنیادی سنسکرت لفظ ”یوگا“ کا مطلب مراقبے کا عالم ہے۔ اس کا مطلب تصرف میں لانے یا قابو میں لانے کیلئے اکٹھے کرنا یا جوئے کے تحت لانا ہے۔ ایک ہندو کیلئے، یوگا ایک ایسا عمل یا نظام ہے جو روحِکائنات یا مافوقالفطرت قوت کیساتھ اتحاد کا باعث بنتا ہے۔ اسے ”غیرمنقطع مراقبے کے ذریعے تمام جسمانی، ذہنی اور روحانی قوتوں کا خدا کیساتھ باطنی ملاپ“ کے طور پر بیان کِیا جاتا ہے۔
پیدایش ۱۰:۸، ۹) ہندوؤں کے مطابق یوگا کی حالت میں بیٹھا ہوا شخص دراصل شیو دیوتا کی شبِیہ ہے جو جانوروں اور یوگا کا مالک تھا جسکی پرستش اکثر تخلیقی قوت کی علامت لنگ سے کی جاتی ہے۔ لہٰذا، کتاب ہندو ورلڈ یوگا کو ”مشقتطلب عمل کا ضابطہ قرار دیتی ہے جو خاص طور پر آریا تہذیب سے پہلے کا ہے جس میں یادگار کے طور پر بہت سے قدیم نظریات اور رسومات محفوظ ہیں۔“
یوگا کی تاریخ کتنی پُرانی ہے؟ موجودہ پاکستان میں، وادیِسندھ سے دریافت ہونے والی مہروں پر لوگوں کے یوگا کی مختلف حالتوں میں بیٹھے ہوئے تصاویر موجود ہیں۔ ماہرینِاثریات نے وادیِسندھ کی تہذیب کو دوسری اور تیسری صدی ق. س .ع. کے درمیان، مسوپتامیہ کی تہذیب کے زمانہ سے منسوب کِیا ہے۔ اِن دونوں علاقوں کی مصنوعہ چیزیں ایک انسان ایک دیوتا کی نمائندگی کرتی ہیں جس کے سر پر سینگنما تاج ہے اور جسکے اطراف میں جانور ہیں اور جو ”شکاری سورما“ نمرود کی دلالت کرتا ہے۔ (شروع میں یوگا کے طریقوں کو زبانی منتقل کِیا جاتا تھا۔ بعدازاں اُنہیں ہندو یوگی عالم پاتنجالی نے یوگا سوترا کے اندر مفصل انداز میں تحریر کِیا جو کہ یوگا کی بنیادی ہدایتی کتاب ہے۔ پاتنجالی کے مطابق، یوگا ”جسمانی اور ذہنی انسانی فطرت کے مختلف عناصر پر قابو پانے کے ذریعے کاملیت تک پہنچنے کی ایک مرحلہوار کوشش ہے۔“ اپنے آغاز سے لیکر آج تک، یوگا ہندومت، جینمت اور بدھمت جیسے مشرقی مذاہب کا اہم حصہ رہا ہے۔ بعض یوگیوں کا خیال ہے کہ یہ اُنہیں عالمگیر روح کیساتھ وصال کے ذریعے مکتی یا رہائی حاصل کرنے کے قابل بنائیگا۔
پس ہم دوبارہ وہی سوال پوچھتے ہیں: ’کیا مذہبی عملدخل کے بغیر صحتمند جسم اور پُرسکون ذہن کے لئے محض جسمانی ورزش کے طور پر یوگا کی مشق کی جا سکتی ہے؟‘ اس کے پسمنظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسکا جواب ہوگا نہیں۔
یوگا آپکو کس طرف لیجا سکتا ہے؟
ریاضت کے طور پر یوگا کا مقصد ایک شخص کو عالمگیر روح کے ساتھ روحانی طور پر بلندترین مقام تک پہنچانا ہے۔ مگر یہ کونسی روح ہے؟
ہندو ورلڈ میں مصنف بنیمین واکر یوگا کی بابت بیان کرتا ہے: ”یہ جادوئی رسومات کا ابتدائی نظام ہو سکتا ہے اور یوگا کے مطلب میں آج بھی علمِغیب اور کالا علم کا مفہوم شامل ہے۔“ ہندو مفکر تسلیم کرتے ہیں کہ یوگا کی مشق مافوقالفطرت قوت عطا کر سکتی ہے جبکہ اُن کے مطابق یوگا کا اصل مقصد یہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، کتاب انڈین فلاسفی میں انڈیا کے سابقہ صدر ڈاکٹر ایس. رادھاکرشنا نے یوگی کی بابت بیان کِیا کہ ”بیٹھنے کی حالت سے جسم پر قابو پانا گرمی اور ٹھنڈک کی انتہا سے بےحسی پر منتج ہوتا ہے۔ . . . یوگی کافی دُور ہی سے دیکھ اور سُن سکتا ہے۔ . . . بغیر کسی رابطے کے ایک شخص سے دوسرے تک خیالات کی منتقلی ممکن ہے۔ . . . ایک یوگی اپنے جسم کو نادیدہ یا نظروں سے اوجھل کر سکتا ہے۔“
ایک یوگی کو کیلوں سے جڑے پلنگ پر سوتے یا دہکتے کوئلوں پر چلتے دیکھنا شاید بعض کو فریب اور دیگر کو مضحکہخیز لگے۔ مگر انڈیا میں یہ واقعات بڑے عام ہیں جیسےکہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر گھنٹوں سورج کو مرکزِنگاہ بنانے کا عمل اور سانس پر اس قدر قابو پا لینا کہ ایک شخص کافی دیر تک ریت میں دفن رہنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ جون ۱۹۹۵ میں، دی ٹائمز آف انڈیا نے بیان کِیا کہ ایک ساڑھے تین سالہ بچی بےخودی کی حالت میں لیٹی ہوئی تھی جب اُس کے پیٹ پر سے ۷۵۰ کلوگرام کی کار کو گزارا گیا۔ یہ دیکھ کر بِھیڑ دنگ رہ گئی کہ جب وہ اُٹھی تو اُس کے جسم پر ایک خراش بھی نہیں لگی تھی۔ رپورٹ نے مزید کہا: ”یہ صرف اور صرف یوگی قوت کا کمال تھا۔“
بِلاشُبہ، کوئی عام شخص ایسا نہیں کر سکتا۔ پس ایک مسیحی کو خود سے پوچھنا چاہئے: یہ غیرمعمولی بازیگری کس چیز کی نشاندہی کرتی ہے؟ کیا یہ ’تمام زمین پر بلندوبالا‘ یہوواہ خدا کی طرف سے ہیں یا کسی اَور کی طرف سے ہیں؟ (زبور ۸۳:۱۸) بائبل اس نکتے کو بڑی وضاحت سے بیان کرتی ہے۔ جب اسرائیلی موعودہ ملک میں داخل ہونے والے تھے جس میں کنعانی آباد تھے تو یہوواہ نے موسیٰ کی معرفت بنی اسرائیل سے کہا: ”تُو . . . وہاں کی قوموں کی طرح مکروہ کام کرنے نہ سیکھنا۔“ کونسے ”مکروہ کام“؟ موسیٰ نے خبردار کِیا کہ ”تجھ میں ہرگز کوئی ایسا نہ ہو جو . . . فالگیر یا شگون نکالنے والا یا افسونگر یا جادوگر“ ہے۔ (استثنا ۱۸:۹، ۱۰) یہ چیزیں خدا کی نظر میں مکروہ ہیں کیونکہ یہ شیاطین اور ناکامل جسم کے کام ہیں۔—گلتیوں ۵:۱۹-۲۱۔
مسیحیوں کیلئے کوئی انتخاب نہیں
ماہرینِصحت خواہ کچھ بھی کہیں، یوگا صرف جسمانی ورزش تک محدود نہیں ہے۔ کتاب ہندو مینرز، کسٹمز اینڈ سیریمونیز یوگا شروع کرنے والے دو نئے لوگوں کی بابت بیان کرتی ہے جو ایک گرو کے زیرِتربیت تھے۔ اُن میں سے ایک کہتا ہے: ”مَیں نے طویل عرصہ تک اپنا سانس روکنے کے لئے انسانی بساط سے بڑھ کر کوشش کی اور صرف اُسی وقت سانس لیتا جب بیہوش ہونے کے قریب ہوتا تھا۔ . . . ایک دن، دوپہر کے وقت، مَیں نے چمکتے چاند کو ایک طرف سے دوسری طرف حرکت کرتے دیکھا۔ ایک دوسرے موقع پر مَیں نے سہپہر کے وقت خود کو مکمل تاریکی میں پایا۔ جب مَیں نے اپنے ڈائریکٹر سے ان رویتوں کا ذکر کِیا تو وہ بہت خوش ہوا۔ . . . اُس نے مجھے یقین دلایا کہ وہ وقت دُور نہیں جب مَیں اپنی نفسکُشی کی بدولت حیرانکُن نتائج دیکھوں گا۔“ دوسرا شخص بیان کرتا ہے: ”اُس نے مجھے آنکھیں جھپکے اور اپنی پوزیشن بدلے بغیر ہر روز آسمان کو دیکھنے کے لئے کہا۔ . . . بعضاوقات مجھے محسوس ہوتا کہ مَیں ہوا میں آگ لگی ہوئی دیکھ رہا ہوں، دیگر اوقات پر مجھے آتشی اجسام اور دیگر شہابی جھڑیاں بھی دکھائی دیں۔ میرا اُستاد میری کاوشوں کی کامیابی سے بہت خوش تھا۔“
بدیہی طور پر، یہ عجیبوغریب نظارے میرے اُستادوں کی نظر میں یوگی ورزشوں کے حقیقی مقصد کو حاصل کرنے کے سلسلے میں مناسب نتائج تھے۔ جیہاں، یوگا کا اصل مقصد مکتی ہے، جسے لاشخصی عظیم روح کے ساتھ ملاپ کے طور پر بیان کِیا جاتا ہے۔ اسے ”جانبوجھ کر ادراکی قوتوں کی مسلسل کارکردگی کو روکنا“ کہا گیا ہے۔ یہ واضح طور پر مسیحیوں کے مقاصد کے بالکل برعکس ہے جنہیں نصیحت کی گئی ہے: ”اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔ اور اس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔“—رومیوں ۱۲:۱، ۲۔
جسمانی ورزش کرنے کے سلسلے میں ہر ایک کو ذاتی فیصلہ کرنا چاہئے۔ تاہم، مسیحی کوئی بھی ایسی جسمانی ریاضت، کھاناپینا، لباس، تفریح یا کوئی کام نہیں کریں گے جو یہوواہ خدا کے ساتھ اُن کے رشتے کو کمزور کر سکتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۳۱) جو لوگ محض صحت کی خاطر ورزش کرتے ہیں، اُن کے لئے ایسے بہت سے طریقے ہیں جو ارواحپرستی اور جادوگری میں پڑنے کے خطرے سے پاک ہیں۔ جھوٹے مذہب سے تعلق رکھنے والے کاموں اور عقائد سے دُور رہ کر ہم خدا کے نئے نظاماُلعمل کی برکت کے منتظر رہ سکتے ہیں جس میں ہم ابد تک جسمانی اور ذہنی طور پر کامل صحت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔—۲-پطرس ۳:۱۳؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
[صفحہ ۲۲ پر تصویریں]
بیشتر لوگ ایسی صحتمندانہ سرگرمیوں سے استفادہ کرتے ہیں جو ارواحپرستی سے پاک ہیں