سوچنے کی صلاحیت آپکو کیسے محفوظ رکھ سکتی ہے؟
سوچنے کی صلاحیت آپکو کیسے محفوظ رکھ سکتی ہے؟
اُونچی لہریں ایک شاندار منظر پیش کرتی ہیں لیکن ملاحوں کے لئے یہ خطرے کی گھنٹی ہیں۔ تُندوتیز پانی ان کے لئے جانلیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
اسی طرح، خدا کے خادم انہیں مغلوب کرنے کا خطرہ پیش کرنے والے اضافی دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔ آپ غالباً مسیحیوں پر آنے والی آزمائشوں اور مصائب کی لگاتار لہروں سے واقف ہونگے۔ یقیناً آپ روحانی تباہی سے بچنے کا عزم کرتے ہوئے پوری سمجھ کیساتھ ان سے نپٹنا چاہتے ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۹) سوچنے کی صلاحیت آپکے دفاع کا اہم حصہ ہے۔ تاہم یہ کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کِیا جا سکتا ہے؟
عبرانی لفظ میزماہ جس کا ترجمہ ”تمیز“ [سوچنے کی صلاحیت] کِیا گیا ہے ایک ایسے لفظ سے مشتق ہے جس کا مطلب ”منصوبہ یا خفیہ تدبیر“ ہے۔ (امثال ۱:۴) لہٰذا بعض بائبل ترجمے میزماہ کا بیان ”دانائی“ یا ”دُوراندیشی“ کے طور پر کرتے ہیں۔ بائبل علما جیمیسن، فاسٹ اور براؤن نے میزماہ کی وضاحت ”بدی سے بچنے اور اچھائی کے متلاشی ہونے کی عاقبتاندیشی“ کے طور پر کی ہے۔ اسکا مطلب اپنے کاموں کے فوری اور طویلالمیعاد نتائج پر غور کرنا ہے۔ اگر ہم سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو ہم کام کرنے سے پہلے بالخصوص اہم فیصلے کرتے وقت ہمارے پاس موجود تمام امکانات پر محتاط طریقے سے غور کرینگے۔
جب سوچنے کی صلاحیت رکھنے والا ایک شخص اپنے مستقبل یا موجودہ حالات کی بابت فیصلے کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ ممکنہ نقصانات یا خطرات کا جائزہ لیتا ہے۔ ایک بار جب ممکنہ خطرات کی شناخت ہو جاتی ہے تو وہ اپنے ماحول اور رفاقتوں کے اثرات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں وہ اچھے نتائج اور ممکنہ الہٰی برکات پر مبنی روش کا انتخاب کر سکتا ہے۔ آئیے اس عمل کو ظاہر کرنے والی بعض عملی مثالوں پر غور کریں۔
جنسی بداخلاقی کے پھندے سے گریز کریں
جب تیز ہواؤں کے باعث طاقتور لہریں کشتی کے اگواڑ سے ٹکراتی ہیں تو اس صورتحال میں کہا جاتا ہے کہ سمندر مخالف ہے۔ اگر ملاح ان مخالف لہروں کا براہِراست سامنا نہ کریں تو کشتی کے ڈوب جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ہم بھی اس نفسپرست دُنیا میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔ ہر روز شہوتانگیز خیالات اور تصاویر کی لہریں ہماری جانب بڑھتی ہیں۔ ہم اپنی فطری جنسی خواہشات پر اس کے اثر کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ ہمیں خطرناک حالات میں بہتے جانے کی بجائے سوچنے کی صلاحیت کو بروئےکار لاتے ہوئے پُرعزم طریقے سے اس آزمائش کا سامنا کرنا چاہئے۔
مثال کے طور پر، مسیحی مرد اکثر ایسے آدمیوں کیساتھ کام کرتے ہیں جو خواتین کا بہت کم احترام کرتے ہیں اور انہیں محض دل بہلانے والی چیز خیال کرتے ہیں۔ ساتھی کارکُن اپنی باتچیت میں غیراخلاقی مذاق اور گھٹیا اشارے کر سکتے ہیں۔ یہ ماحول آخرکار ایک مسیحی کے ذہن میں بداخلاق خیالات پیدا کر سکتا ہے۔
ایک مسیحی خاتون کو بھی دُنیاوی ملازمت کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور یوں وہ مشکلات کا تجربہ کر سکتی ہے۔ وہ ایسے مردوں اور عورتوں کیساتھ کام کر سکتی ہے جو اُسکے اخلاقی معیاروں پر نہیں چلتے۔ شاید کوئی ساتھی کارکن اُس میں دلچسپی ظاہر کرنے لگتا ہے۔ شروع میں تو وہ اُسکے مذہبی خیالات کا احترام کرتے ہوئے اُس کیلئے فکرمندی ظاہر کر سکتا ہے۔ ایسے شخص کی مستقل توجہ اور قربت اُسے اُس کیساتھ قریبی رفاقت رکھنے کی تحریک دے سکتی ہے۔
مسیحیوں کے طور پر، سوچنے کی صلاحیت ان حالات میں ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟ اوّل، یہ ہمیں روحانی خطرات سے باخبر رکھ سکتی ہے اور دوم، یہ ہمیں ایک مناسب روش کا منصوبہ تیار کرنے کی تحریک دے سکتی ہے۔ (امثال ۳:۲۱-۲۳) ایسے حالات میں صحیفائی اعتقادات کی وجہ سے اپنے فرق معیاروں کی بابت ساتھی کارکنوں کو واضح پیغام دینا ضروری ہو سکتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۱۸) ہماری باتچیت اور چالچلن اس پیغام کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ علاوہازیں، بعض ساتھیوں کیساتھ تعلقات محدود کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
تاہم، بداخلاقی میں پڑ جانے کا دباؤ صرف جائےملازمت تک ہی محدود نہیں۔ یہ اُس وقت بھی پیدا ہو سکتا ہے جب ایک شادیشُدہ جوڑا مسائل کو اپنے اتحاد کو کمزور کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایک سفری نگہبان نے بیان کِیا: ”شادی میں دراڑ اچانک پیدا نہیں ہوتی۔ شادیشُدہ جوڑا آہستہ آہستہ دُور ہوتا ہے اور شاذونادر ہی ایک دوسرے کیساتھ وقت گزارتا یا باتچیت کرتا ہے۔ وہ اپنی شادی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمی کو پورا کرنے کیلئے مادی حاصلات کیلئے تگودو کر سکتے ہیں۔ نیز وہ بہت کم ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہیں جسکی وجہ سے وہ مخالف جنس کے لوگوں کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔“
اس تجربہکار خادم نے مزید بیان کِیا: ”شادیشُدہ ساتھیوں کو وقتاًفوقتاً مل بیٹھ کر اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آیا کوئی چیز اُنکے رشتہ کو نقصان تو نہیں پہنچا رہی۔ اُنہیں اُکٹھے مل کر مطالعہ، دُعا اور منادی کیلئے منصوبہسازی کرنی چاہئے۔ جس طرح والدین اور بچوں کے درمیان رابطہ ہوتا ہے وہ بھی ’گھر اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت‘ باتچیت کرنے سے ایک بڑی حد تک استفادہ کر سکتے ہیں۔“—استثنا ۶:۷-۹۔
غیرمسیحی چالچلن کا سامنا کرنا
بداخلاقی کی آزمائشوں کا کامیابی کیساتھ سامنا کرنے کے علاوہ سوچنے کی صلاحیت ساتھی مسیحیوں کیساتھ مسائل سے نپٹنے میں بھی ہماری مدد کر سکتی ہے۔ جب تیز ہوائیں لہروں کو کشتی کے عقبی حصے کی طرف لے جاتی ہیں تو کشی سمندر کی سمت میں بہتی ہے۔ لہریں کشتی کے عقبی حصے کو اُٹھا کر ترچھا کر سکتی ہیں۔ اس طرح لہریں آڑھی کشتی کے عرض سے ٹکراتی ہیں اور اسے نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
ہم بھی ایک غیرمتوقع سمت سے آنے والے خطرات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ہم بہتیرے ایماندار مسیحی بہن بھائیوں کیساتھ ”ایک دل ہوکر“ یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں۔ (صفنیاہ ۳:۹) اگر ان میں سے کوئی شخص غیرمسیحی رویہ اپناتا ہے تو یہ اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور گہرے صدمے کا باعث بن سکتا ہے۔ سوچنے کی صلاحیت ہمیں توازن کھو بیٹھنے اور گہری چوٹ کھانے سے کیسے بچا سکتی ہے؟
یاد رکھیں کہ ”کوئی ایسا آدمی نہیں جو گُناہ نہ کرتا ہو۔“ (۱-سلاطین ۸:۴۶) پس بعضاوقات جب ایک مسیحی بھائی ہمیں پریشان یا ناراض کرے تو ہمیں حیران نہیں ہونا چاہئے۔ اس علم کے ساتھ ہم انجام کے لئے تیار رہتے ہوئے اس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ ہمیں کیسا ردِعمل ظاہر کرنا چاہئے۔ جب پولس رسول کے مسیحی بھائیوں نے اُس کی بابت ایک تکلیفدہ اور حقارتآمیز انداز میں باتچیت کی تو اُس نے کیسا جوابیعمل ظاہر کِیا؟ اپنا روحانی توازن کھو بیٹھنے کی بجائے، اُس نے یہ نتیجہ اخذ کِیا کہ انسانوں کی بجائے یہوواہ کی مقبولیت حاصل کرنا زیادہ ضروری ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۱۰:۱۰-۱۸) ایسا رُجحان دوسروں کے اُکسائے جانے پر جلدبازی کرنے سے اجتناب برتنے میں ہماری مدد کرے گا۔
یہ بالکل اُسی طرح ہے کہ جیسے ہمارا انگوٹھا کسی چیز سے ٹکراتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ہم کچھ دیر تک واضح طور پر سوچ نہیں سکتے۔ تاہم جب تکلیف ختم ہونے لگتی ہے تو ہم سوچنے اور معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں نامہربانہ باتوں یا کاموں کیلئے فوری جوابیعمل ظاہر کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ اسکی بجائے، فوری جوابیعمل کے نتائج پر کچھ دیر غور کریں۔
کئی سالوں سے مشنری خدمت انجام دینے والا مالکلوم وضاحت کرتا ہے کہ ناراض ہونے پر اُس کا ردِعمل کیا ہوتا ہے۔ ”سب سے پہلے مَیں چند جچےتلے سوالات پر غور کرتا ہوں: کیا مَیں اس بھائی سے شخصی اختلافات کی بِنا پر ناراض ہوں؟ کیا اسکی بات واقعی اتنی اہم تھی؟ کیا میرے اعصاب پر اسکا اثر میرے احساسات کو ابھارتا ہے؟ کیا مَیں چند گھنٹوں بعد ایک مختلف نقطۂنظر سے معاملات کا جائزہ لے سکوں گا؟“ جیساکہ مالکلوم نے دریافت کِیا، اکثر نااتفاقی اتنی اہم نہیں ہوتی اور اسے نظرانداز کِیا جا سکتا ہے۔مالکلوم مزید بیان کرتا ہے: ”بعضاوقات معاملے کو سلجھانے کی میری تمامتر کوششوں کے باوجود بھائی کا رُجحان غیردوستانہ رہتا ہے۔ مَیں خود کو اس بات سے پریشان ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ اپنی پوری کوشش کے بعد مَیں معاملے کو ایک مختلف انداز سے دیکھتا ہوں۔ مَیں ذہنی طور پر اس معاملے کو ایک ایسی ’فائل‘ میں رکھ چھوڑتا ہوں جسے ذاتی توجہ دینے کی بجائے زیرِغور لایا جاتا ہے۔ مَیں اسے خود کو روحانی طور پر کمزور کرنے یا یہوواہ اور میرے بھائیوں کے ساتھ اپنے رشتے کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔“
مالکلوم کی طرح، ہمیں خود کو ایک شخص کے رویے پر حد سے زیادہ پریشان ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ ہر کلیسیا میں کئی خوشاخلاق، وفادار بہنبھائی موجود ہیں۔ ان کیساتھ ”ایک جان ہوکر“ مسیحی راہ پر چلنا خوشی کا باعث ہے۔ (فلپیوں ۱:۲۷) اپنے آسمانی باپ کی مشفقانہ حمایت کو یاد رکھنے سے بھی معاملات کی بابت ایک متوازن نظریہ اپنانے میں ہماری مدد ہوگی۔—زبور ۲۳:۱-۳؛ امثال ۵:۱، ۲؛ ۸:۱۲۔
دُنیاوی چیزوں سے محبت نہ رکھنا
سوچنے کی صلاحیت ایک اَور قسم کے پوشیدہ دباؤ کا سامنا کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ جب ہوا لہروں کو کشتی کے عمودی حصے یا اس کے عرض
کی طرف لیجاتی ہیں تو سمندر کا رُخ ایک سمت کی طرف ہوتا ہے۔ عام حالات میں ایسا سمندر آہستہ آہستہ جہاز کو اپنے راستے سے ہٹا سکتا ہے۔ تاہم، طوفان میں ایک سمت سے آنے والی ہوا کشتی کو سمندر میں ڈبو سکتی ہے۔اسی طرح، اس بدکار دُنیا کی تمام آسائشوں سے مستفید ہونے کے دباؤ میں آ جانے سے یہ مادہپرستانہ طرزِزندگی ہمیں روحانی طور پر گمراہ کر سکتی ہے۔ (۲-تیمتھیس ۴:۱۰) اگر اس پر قابو نہ پایا جائے تو یہ آخرکار ہماری مسیحی روش کو ترک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ (۱-یوحنا ۲:۱۵) اس سلسلے میں سوچنے کی صلاحیت ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟
سب سے پہلے یہ ان ممکنہ خطرات کا تعیّن کرنے میں ہماری مدد کریگی جسکا ہمیں سامنا ہو سکتا ہے۔ دُنیا ہمیں ترغیب دینے کے لئے ہر قابلِتصور تجارتی حربہ استعمال کرتی ہے۔ یہ امیر، پُرکشش اور ”کامیاب“ لوگوں کی طرزِزندگی کو مسلسل فروغ دیتا ہے جس کی جستجو مبیّنہ طور پر ہر کسی کو کرنی چاہئے۔ (۱-یوحنا ۲:۱۶) ہم سے دوسروں کی بالخصوص اپنے ہمسروں اور پڑوسیوں کی تعریف اور مقبولیت کا وعدہ کِیا جاتا ہے۔ سوچنے کی صلاحیت ’زر کی دوستی سے خالی رہنے‘ کی اہمیت یاد دلاتے ہوئے اس پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد کریگی اسلئےکہ یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ ’ہم سے ہرگز دستبردار نہ ہوگا۔‘—عبرانیوں ۱۳:۵۔
دوم، سوچنے کی صلاحیت ”حق سے گمراہ“ ہونے والے لوگوں کی نقل کرنے سے گریز کرنے میں ہماری مدد کریگی۔ (۲-تیمتھیس ۲:۱۸) ان لوگوں کی مخالفت کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے جن سے ہم محبت کرتے اور بھروسا رکھتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۲، ۳۲-۳۴) اگر ہم مسیحی روش کو ترک کرنے والے لوگوں سے ذرا بھی متاثر ہو جائیں تو یہ ہماری روحانی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہوئے آخرکار ہمیں خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ہم ایسی کشتی کی مانند ہو سکتے ہیں جو اپنی صحیح سمت سے ذرا سی ہٹ جاتی ہے۔ تاہم اگر راستہ لمبا ہو تو یہ اپنی منزل سے کافی دور رہ جاتی ہے۔—عبرانیوں ۳:۱۲۔
سوچنے کی صلاحیت اس بات کا تعیّن کرنے میں ہماری کر سکتی ہے کہ روحانی طور پر ہماری حالت کیا ہے اور مستقبل میں کیا ہوگی۔ ہم شاید مسیحی کارگزاریوں میں بھرپور حصہ لینے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ (عبرانیوں ۶:۱۱، ۱۲) غور کریں کہ ایک نوجوان گواہ نے روحانی نشانے حاصل کرنے کیلئے سوچنے کی صلاحیت کو کیسے استعمال کِیا: ”میرے پاس صحافت کا پیشہ اپنانے کا موقع تھا۔ یہ پیشہ مجھے مرغوب کرتا تھا لیکن مَیں نے بائبل کی یہ آیت یاد رکھی کہ ’دُنیا مٹتی جاتی ہے‘ لیکن ’خدا کی مرضی پر چلنے والا ابد تک قائم رہیگا۔‘ (۱-یوحنا ۲:۱۷) مَیں نے سوچا کہ میری طرزِزندگی کو میرے اعتقادات کا آئینہدار ہونا چاہئے۔ میرے والدین نے مسیحی ایمان کو ترک کر دیا تھا اور مَیں انکے نمونہ کی نقل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا مَیں نے ایک بامقصد زندگی جینے کا فیصلہ کِیا اور باقاعدہ پائنیر کے طور پر کُلوقتی خدمت میں اپنا اندراج کرایا۔ چار تسکینبخش سالوں کے بعد مَیں نے جان لیا کہ میرا انتخاب درست تھا۔“
روحانی طوفانوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنا
آجکل سوچنے کی صلاحیت کو عمل میں لانا ہمارے لئے اسقدر ضروری کیوں ہے؟ ملاحوں کو خطرے کی علامات، خاص طور پر طوفانوں کے آنے سے باخبر رہنا چاہئے۔ درجۂحرارت گِرنے اور ہوا تیز ہونے کی صورت میں وہ جہاز کے عرشے باندھنے اور ناموافق حالات سے نپٹنے کی تیاری کرتے ہیں۔ اسی طرح، ہمیں اس بدکار نظام کے اختتام پر شدید دباؤ کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ معاشرے کا اخلاقی معیار گِرتا جا رہا ہے اور ’بُرے لوگ بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔‘ (۲-تیمتھیس ۳:۱۳) جسطرح ملاح موسمی پیشگوئیوں کو باقاعدگی سے سنتے ہیں ہمیں بھی خدا کے الہامی کلام کی نبوّتی آگاہیوں پر دھیان دینا چاہئے۔—امثال ۱۹:۷-۱۱۔
جب ہم سوچنے کی صلاحیت استعمال کرتے ہیں تو ہم ایسے علم کا اطلاق کرتے ہیں جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے۔ (یوحنا ۱۷:۳) ہم مسائل کے لئے تیار رہتے ہیں اور ان سے نپٹنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یوں ہم مسیحی روش سے کبھی منحرف نہ ہونے کا عزم کرتے ہیں اور ہم روحانی نشانے قائم کرنے اور انہیں حاصل کرنے سے ”آئندہ کیلئے ایک اچھی بنیاد“ قائم کر سکتے ہیں۔—۱-تیمتھیس ۶:۱۹۔
اگر ہم دانائی اور تمیز کی حفاظت کرتے ہیں تو ہم کسی ”ناگہانی دہشت سے خوف“ نہ کھائینگے۔ (امثال ۳:۲۱، ۲۵، ۲۶) اسکی بجائے ہم خدا کے اس وعدہ سے تسلی حاصل کر سکتے ہیں: ”حکمت تیرے دل میں داخل ہوگی اور علم تیری جان کو مرغوب ہوگا۔ تمیز تیری نگہبان ہوگی۔“—امثال ۲:۱۰، ۱۱۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 19 مسیحیوں کو متی ۵:۲۳، ۲۴ کی مطابقت میں امن قائم رکھنا چاہئے۔ اگر معاملہ سنگین گُناہ کا ہے تو انہیں متی ۱۸:۱۵-۱۷ کی مطابقت میں اپنے بھائی کو جیت لینا چاہئے۔ دیکھیں مینارِنگہبانی اکتوبر ۱۵، ۱۹۹۹، صفحہ ۱۷-۲۲۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
باقاعدہ رابطہ شادی کو مضبوط کرتا ہے