”مَیں نے تُم کو ایک نمونہ دکھایا ہے“
”مَیں نے تُم کو ایک نمونہ دکھایا ہے“
”وقت کے خیال سے تو تمہیں اُستاد ہونا چاہئے۔“—عبرانیوں ۵:۱۲۔
۱. عبرانیوں ۵:۱۲ کے الفاظ منطقی طور پر ایک مسیحی کو قدرے فکرمند ہونے کی تحریک کیوں دے سکتے ہیں؟
جب آپ مضمون کے الہامی الفاظ پڑھتے ہیں تو کیا آپ اپنی بابت قدرے فکرمند ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ ہم مسیح کے پیروکاروں کے طور پر جانتے ہیں کہ ہمیں اُستاد ہونا چاہئے۔ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) ہم جانتے ہیں کہ دورِجدید مہارت کے ساتھ تعلیم دینے کی ضرورت کو اَور زیادہ اہم قرار دیتا ہے۔ نیز ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جن لوگوں کو ہم سکھاتے ہیں اُن کے لئے ہماری تعلیم موت اور زندگی کا مطلب رکھتی ہے! (۱-تیمتھیس ۴:۱۶) لہٰذا ہمیں منطقی طور پر خود سے پوچھنا چاہئے: ’کیا مَیں ویسا ہی اُستاد ہوں جیسا مجھے ہونا چاہئے؟ مَیں بہتری کیسے پیدا کر سکتا ہوں؟‘
۲، ۳. (ا) ایک اُستاد نے اچھی تعلیم کی بنیاد کو کیسے واضح کِیا؟ (ب) یسوع نے تعلیم دینے کے سلسلے میں ہمارے لئے کونسا نمونہ قائم کِیا؟
۲ ہمیں ایسی تشویش سے بےحوصلہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہم تعلیم دینے کے کام کو محض چند تکنیکی مہارتوں کے ترازو میں تولتے ہیں تو ہمارے لئے بہتری پیدا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ تاہم، اچھی تعلیم کی بنیاد تکنیک سے کہیں بڑھ کر ایک اَور اہم چیز ہے۔ غور کریں کہ ایک تجربہکار اُستاد نے اپنی کتاب میں اس مضمون پر کیا لکھا: ”مؤثر تعلیم دینے کا انحصار محض خاص تکنیکوں یا انداز، منصوبوں یا افعال پر نہیں ہے۔ . . . بنیادی طور پر تعلیم دینا دراصل محبت کا تقاضا کرتا ہے۔“ بِلاشُبہ، وہ ایک دُنیوی اُستاد کی بابت بات کر رہا تھا۔ تاہم، مسیحیوں کے طور پر ہماری تعلیم پر اُسکی بات کا اطلاق اَور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ وہ کیسے؟
۳ اُستاد کے طور پر ہمارا نمونہ یسوع مسیح کے علاوہ اَور کوئی نہیں ہے جس نے اپنے پیروکاروں کو بتایا: ”مَیں نے تُم کو ایک نمونہ دکھایا۔“ (یوحنا ۱۳:۱۵) یہاں پر وہ فروتنی ظاہر کرنے کے اپنے نمونے کی بات کر رہا تھا، مگر جو نمونہ یسوع نے ہمارے لئے قائم کِیا ہے یقیناً اس میں خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرنے کا وہ بنیادی کام بھی شامل ہے جس کیلئے یسوع زمین پر آیا تھا۔ (لوقا ۴:۴۳) اب اگر آپکو یسوع کی خدمتگزاری کو ایک لفظ میں بیان کرنا پڑے تو کیا آپ لفظ ”محبت“ کا ہی انتخاب نہیں کرینگے؟ (کلسیوں ۱:۱۵؛ ۱-یوحنا ۴:۸) اپنے آسمانی باپ یہوواہ کیلئے یسوع کی محبت ہر چیز پر سبقت رکھتی تھی۔ (یوحنا ۱۴:۳۱) تاہم، یسوع نے ایک اُستاد کے طور پر مزید دو طریقوں سے محبت ظاہر کی تھی۔ وہ اُن سچائیوں سے بھی محبت رکھتا تھا جنکی اُس نے تعلیم دی اور اُن لوگوں سے بھی محبت رکھتا تھا جنہیں اُس نے تعلیم دی۔ آئیے اس نمونے کے اُن دو پہلوؤں کا قریبی جائزہ لیں جو اُس نے ہمارے لئے قائم کِیا تھا۔
الہٰی سچائیوں کیلئے دائمی محبت
۴. یسوع کو یہوواہ کی تعلیمات سے کیسے محبت ہو گئی تھی؟
۴ اپنے مضمون کی بابت ایک اُستاد کا رویہ تعلیم دینے کی اُسکی لیاقت پر خاطرخواہ اثر ڈالتا ہے۔ کسی بھی طرح سے دلچسپی کا فقدان نہ صرف عیاں ہوگا بلکہ طالبعلموں میں بھی سرایت کر جائے گا۔ یہوواہ اور اُسکی بادشاہت کی بابت جن گراںبہا سچائیوں کی یسوع نے تعلیم دی وہ اُس کیلئے سردمہر نہیں تھا۔ اس سلسلے میں یسوع کی محبت بہت گہری تھی۔ اُس نے ایک طالبعلم کے طور پر اس محبت کو فروغ دیا تھا۔ اپنی انسانی زندگی سے پہلے کے طویل دورِحیات میں وہ اکلوتے بیٹے کے طور پر سیکھنے کا مشتاق تھا۔ یسعیاہ ۵۰:۴، ۵ میں اِن موزوں الفاظ کو قلمبند کِیا گیا ہے: ”[یہوواہ] خدا نے مجھکو شاگرد کی زبان بخشی تاکہ مَیں جانوں کہ کلام کے وسیلہ سے کس طرح تھکےماندے کی مدد کروں۔ وہ مجھے ہر صبح جگاتا ہے اور میرا کان لگاتا ہے تاکہ شاگردوں کی طرح سنوں۔ [یہوواہ] خدا نے میرے کان کھول دئے اور مَیں باغیوبرگشتہ نہ ہوا۔“
۵، ۶. (ا) یسوع کو اپنے بپتسمہ کے وقت کونسا تجربہ ہوا اور اسکا اثر کیا تھا؟ (ب) خدا کا کلام استعمال کرنے کے سلسلے میں ہم یسوع اور شیطان کے مابین کیا فرق پاتے ہیں؟
۵ زمین پر بطور انسان پرورش پانے کے دوران، یسوع الہٰی حکمت سے محبت کرتا رہا۔ (لوقا ۲:۵۲) بعدازاں، اپنے بپتسمہ کے وقت اُس نے ایک عدیماُلمثال تجربہ کِیا۔ لوقا ۳:۲۱ بیان کرتی ہے، ”آسمان کھل گیا۔“ بدیہی طور پر اُس وقت یسوع اپنی قبلازانسانی زندگی کو یاد کرنے کے قابل ہوا تھا۔ بعدازاں، اُس نے بغیر کچھ کھائےپئے ۴۰ دن بیابان میں گزار دئے۔ یقیناً اُسے بیشتراوقات آسمان پر یہوواہ سے ہدایات حاصل کرنے کے مختلف واقعات کو یاد کرکے بہت خوشی ہوئی ہوگی۔ تاہم، کچھ ہی دیر بعد، خدا کی سچائیوں کیلئے اُسکی محبت کو آزمایا گیا۔
۶ جب یسوع تھکن اور بھوک کا شکار تھا تو شیطان نے اُسے آزمانے کی کوشش کی۔ ہم خدا کے اِن دونوں بیٹوں کے مابین کتنا زیادہ فرق پاتے ہیں! دونوں نے عبرانی صحائف کا حوالہ دیا مگر بالکل مختلف پیرائے میں۔ شیطان نے اپنے خودغرضانہ مقاصد کو پورا کرنے کیلئے بےادبی کیساتھ خدا کے کلام کو توڑمروڑ کر پیش کِیا۔ واقعی، اُس باغی کو الہٰی سچائیوں سے شدید نفرت تھی۔ اس کے برعکس، یسوع نے اُسے جواب دینے کیلئے احتیاط کیساتھ خدا کے کلام کو استعمال کرتے ہوئے محبت کیساتھ صحائف کا حوالہ دیا۔ اِن الہامی الفاظ کے لکھے جانے سے عرصۂدراز پہلے یسوع موجود تھا مگر اس کے باوجود اُس نے اُن کے لئے احترام ظاہر کِیا۔ یہ اُس کے آسمانی باپ کی طرف سے گراںبہا سچائیاں تھیں! اُس نے شیطان سے کہا کہ یہوواہ کی طرف سے دئے گئے ایسے فرمان کھانے سے بھی زیادہ اہم تھے۔ (متی ۴:۱-۱۱) جیہاں، یسوع اُن تمام سچائیوں سے محبت رکھتا تھا جو یہوواہ نے اُسے سکھائی تھیں۔ تاہم، ایک اُستاد کے طور پر، اُس نے کیسے اس محبت کا اظہار کِیا؟
اُن سچائیوں کیلئے محبت جنکی اُس نے تعلیم دی
۷. یسوع نے اپنے نظریات پیش کرنے سے کیوں گریز کِیا؟
۷ جن سچائیوں کی یسوع نے تعلیم دی اُن کے لئے اُس کی محبت ہمیشہ واضح تھی۔ وہ چاہتا تو اپنے نظریات کو فروغ دے سکتا تھا۔ وہ علموحکمت کے بےپایاں خزانے سے معمور تھا۔ (کلسیوں ۲:۳) اس کے باوجود اُس نے بارہا اپنے سامعین کو یاد دلایا کہ اُسکی ہر تعلیم اُسکی طرف سے نہیں بلکہ اُسکے آسمانی باپ کی طرف سے ہے۔ (یوحنا ۷:۱۶؛ ۸:۲۸؛ ۱۲:۴۹؛ ۱۴:۱۰) وہ الہٰی سچائیوں سے اسقدر محبت رکھتا تھا کہ وہ اُنہیں اپنی سوچ سے بدلنا نہیں چاہتا تھا۔
۸. اپنی خدمتگزاری کے شروع میں، یسوع نے خدا کے کلام پر بھروسا رکھنے کے سلسلے میں کیسے نمونہ قائم کِیا؟
۸ جب یسوع نے اپنی عوامی خدمتگزاری کا آغاز کِیا تو اُس نے فوری طور پر ایک نمونہ قائم کر دیا۔ غور کریں کہ اُس نے سب سے پہلے خدا کے لوگوں کو یہ کیسے بتایا کہ وہ موعودہ مسیحا ہے۔ کیا وہ محض لوگوں کی بِھیڑ میں جا کر اپنی بابت یہ کہتا تھا کہ وہ مسیحا ہے اور پھر اس کو ثابت کرنے کیلئے حیرتانگیز معجزات کِیا کرتا تھا؟ ہرگز نہیں۔ وہ ایک عبادتخانہ میں گیا جہاں خدا کے لوگ صحائف سے پڑھا کرتے تھے۔ وہاں اُس نے بلند آواز میں یسعیاہ ۶۱:۱، ۲ میں درج پیشینگوئی کو پڑھا اور پھر بیان کِیا کہ ان نبوّتی الفاظ کا اطلاق اُس پر ہوتا ہے۔ (لوقا ۴:۱۶-۲۲) اُس کے بیشمار معجزات نے یہ ثابت کِیا کہ اُسے یہوواہ کی حمایت حاصل ہے۔ اسکے باوجود، وہ تعلیم دیتے وقت ہمیشہ خدا کے کلام پر بھروسا کرتا تھا۔
۹. فریسیوں کے ساتھ اپنے برتاؤ میں یسوع نے کیسے خدا کے کلام کے لئے وفادارانہ محبت ظاہر کی تھی؟
۹ جب مذہبی مخالفین نے یسوع کو چیلنج کِیا تو اُس نے اُنہیں شکست دینے کی کوشش نہیں کی اگرچہ وہ بآسانی ایسا کر سکتا تھا۔ اسکی بجائے اُس متی ۱۲:۱-۵) بیشک خود کو راستباز ظاہر کرنے والے اُن آدمیوں نے ۱-سموئیل ۲۱:۱-۶ میں درج یہ الہامی بیان ضرور پڑھا ہوگا۔ اگر ایسا تھا تو وہ اس میں پنہاں ایک اہم سبق کو سمجھنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ تاہم، یسوع نے اُس بیان کو محض پڑھنے سے زیادہ کچھ کِیا تھا۔ اُس نے اس بیان پر سوچبچار کرنے کے علاوہ اُسکے پیغام کو قبول بھی کِیا تھا۔ وہ اُن اُصولوں سے محبت کرتا تھا جو یہوواہ نے اس بیان کے ذریعے سکھائے تھے۔ لہٰذا اُس نے مثال دینے کیلئے نہ صرف اس بیان کو بلکہ شریعت کی متوازن معقولیت کو ظاہر کرنے کیلئے موسوی شریعت سے ایک مثال کو بھی استعمال کِیا۔ اسی طرح، یسوع کی وفادارانہ محبت نے اُسے مذہبی پیشواؤں کی خدا کے کلام کو اپنی مرضی کے موافق توڑمروڑ کر پیش کرنے یا اسے انسانی روایات تلے دبانے کی کاوشوں کے خلاف دفاع کرنے کی تحریک دی۔
نے اُنہیں جھوٹا ثابت کرنے کے لئے خدا کے کلام کو استعمال کِیا۔ مثال کے طور پر، اُس واقعہ کو یاد کریں جب فریسیوں نے یسوع کے پیروکاروں پر یہ الزام لگایا کہ اُنہوں نے سبت کے دن بالیں توڑنے اور راہ چلتے اُنہیں کھانے سے خدا کے حکم کی خلافورزی کی ہے۔ یسوع نے جواب دیا: ”کیا تم نے یہ نہیں پڑھا کہ جب داؔؤد اور اُسکے ساتھی بھوکے تھے تو اُس نے کیا کِیا؟“ (۱۰. یسوع نے اپنی تعلیمی خوبی کے سلسلے میں پیشینگوئیوں کو کیسے پورا کِیا؟
۱۰ اپنے مضمون سے محبت نے یسوع کو محض تھکا دینے والے یا میکانکی انداز میں زبانی کلامی تعلیم دینے کی اجازت نہیں دی تھی۔ الہامی پیشینگوئیاں بیان کرتی ہیں کہ مسیحا ’لطیف انداز‘ میں ”میٹھی میٹھی باتیں“ کرکے تعلیم دیگا۔ (زبور ۴۵:۲؛ پیدایش ۴۹:۲۱) اِن پیشینگوئیوں کی تکمیل میں یسوع نے ”پُرفضل باتوں“ کے ذریعے اپنے پیغام کو تازگیبخش اور مؤثر بناتے ہوئے اُن سچائیوں کی تعلیم دی جن سے وہ محبت رکھتا تھا۔ (لوقا ۴:۲۲) بِلاشُبہ اُسکا چہرہ اُسکے جوشوولولے کی عکاسی کرتا تھا اور اُسکی آنکھیں مضمون میں اُسکی گہری دلچسپی کی غماز تھیں۔ اُسے کلام کرتے ہوئے سننا کتنا خوشکُن ہوتا ہوگا نیز جوکچھ ہم نے سیکھا ہے جب ہم دوسروں سے اسکی بابت گفتگو کرتے ہیں تو یہ ہمارے لئے کیا ہی شاندار قابلِتقلید نمونہ ہے!
۱۱. یسوع کی تعلیم دینے کی صلاحیتیں کیوں اُسکے متکبر بننے کا سبب نہیں بنی تھیں؟
۱۱ کیا الہٰی سچائیوں کی واضح سمجھ اور خوشگفتاری نے یسوع میں تکبّر پیدا کر دیا تھا؟ انسانی اساتذہ کے سلسلے میں اکثر ایسا ہوتا ہے۔ تاہم، یاد رکھیں کہ یسوع خدائی طریقے سے صاحبِحکمت تھا۔ ایسی حکمت مغرور نہیں بناتی کیونکہ ”خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔“ (امثال ۱۱:۲) ایک اَور چیز نے بھی یسوع کو متکبر یا مغرور بننے سے باز رکھا تھا۔
یسوع جن لوگوں کو تعلیم دیتا تھا اُن سے محبت بھی کرتا تھا
۱۲. یسوع نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ وہ اپنے پیروکاروں کو خوفزدہ نہیں کرنا چاہتا تھا؟
۱۲ یسوع کی تعلیمات سے لوگوں کے لئے اُس کی گہری محبت ہمیشہ نظر آتی تھی۔ متکبر انسانوں کے برعکس اُسکی تعلیمات لوگوں کو خوفزدہ نہیں کرتی تھیں۔ (واعظ ۸:۹) یسوع کے ایک معجزے کو دیکھ کر پطرس دنگ رہ گیا اور وہ یسوع کے پاؤں میں گِر پڑا۔ مگر یسوع نہیں چاہتا تھا کہ اُسکے پیروکار اُس کیلئے ناخوشگوار ڈر پیدا کریں۔ لہٰذا اُس نے نرمی سے کہا، ”خوف نہ کر“ اور پھر پطرس کو شاگرد بنانے کے ہیجانخیز کام کی بابت بتایا جس میں پطرس نے بھی شرکت کرنی تھی۔ (لوقا ۵:۸-۱۰) یسوع چاہتا تھا کہ اُس کے شاگرد اُستاد کے ڈر کی بجائے، خدا کی بابت گراںبہا سچائیوں کیلئے اپنی گہری محبت سے تحریک پائیں۔
۱۳، ۱۴. یسوع نے کن طریقوں سے لوگوں کیلئے ہمدردی ظاہر کی؟
۱۳ یسوع جن لوگوں کو تعلیم دیتا تھا اُن کیلئے ہمدردی محسوس کرنے سے بھی اُسکی محبت ظاہر ہوتی تھی۔ ”جب اُس نے بِھیڑ کو دیکھا تو اُسکو لوگوں پر متی ۹:۳۶) اُس نے اُنکی خستہحالی کو محسوس کرتے ہوئے اُنہیں مدد دینے کی تحریک پائی۔
ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہحال اور پراگندہ تھے۔“ (۱۴ ایک دوسرے موقع پر یسوع کی ہمدردی پر غور کریں۔ جب جریانِخون میں مبتلا ایک عورت نے بِھیڑ میں اُسکے قریب آ کر اُسے چھوأ تو اُس نے معجزانہ طور پر شفا پائی۔ یسوع نے محسوس کِیا کہ اُس میں سے قوت نکلی ہے مگر اُسے یہ پتہ نہ چل سکا کہ کس نے شفا پائی ہے۔ اُس نے عورت کو تلاش کرنے پر اصرار کِیا۔ کیوں؟ اُسے شریعت یا فقیہ فریسیوں کے قوانین کی خلافورزی کرنے پر ڈانٹنے کے لئے نہیں جسکا اُس عورت کو شاید خدشہ تھا۔ بلکہ اُس نے اُس عورت سے کہا: ”بیٹی تیرے ایمان سے تجھے شفا ملی۔ سلامت جا اور اپنی اُس بیماری سے بچی رہ۔“ (مرقس ۵:۲۵-۳۴) ان الفاظ میں پنہاں دردمندی پر غور کریں۔ اُس نے محض یہ نہیں کہا، ”شفا پا۔“ اسکی بجائے اُس نے کہا: ”اپنی اُس بیماری سے بچی رہ۔“ مرقس نے یہاں جو لفظ استعمال کِیا ہے اُسکے لغوی معنی اکثر سزا کے طور پر ”کوڑے لگانا“ ہیں۔ پس یسوع نے تسلیم کِیا کہ اُس کی بیماری اُس کی جسمانی یا جذباتی تکلیف کا باعث تھی۔ یسوع نے اُس کے لئے ہمدردی محسوس کی۔
۱۵، ۱۶. یسوع کی خدمتگزاری میں کونسے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ لوگوں میں اچھائی تلاش کِیا کرتا تھا؟
۱۵ یسوع لوگوں میں خوبیاں تلاش کرنے سے ان کیلئے محبت ظاہر کرتا تھا۔ غور کریں کہ جب وہ نتنایل سے ملا جو بعدازاں رسول بنا تو کیا واقع ہوا۔ ”یسوع نے نتنؔایل کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اُسکے حق میں کہا دیکھو! یہ فیالحقیقت اسرائیلی ہے۔ اس میں مکر نہیں۔“ یسوع معجزانہ طور پر سمجھ گیا تھا کہ نتنایل کے دل میں کیا ہے اور وہ اُسکی بابت بہت کچھ جان گیا۔ بِلاشُبہ نتنایل کامل نہیں تھا۔ ہماری طرح اُس میں بھی کچھ کمزوریاں تھیں۔ درحقیقت، جب اُس نے یسوع کی بابت سنا تو دو ٹوک جواب دیا: ”کیا ناؔصرۃ سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے؟“ (یوحنا ۱:۴۵-۵۱) تاہم، نتنایل کی بابت بہت کچھ کہا جا سکتا تھا لیکن یسوع نے اُسکی شخصیت کے مثبت پہلو، اُسکی دیانتداری کی تعریف کی۔
۱۶ اسی طرح یسوع اُس فوجی—جو شاید غیرقوم یا رومی تھا—کی کمزوریوں سے بھی واقف تھا جو اُس کے پاس اپنے بیمار غلام کی شفا کی درخواست کرنے کے لئے آیا تھا۔ اُس زمانہ کے فوجی کا ماضی ممکنہ طور پر تشدد، خونریزی اور جھوٹی پرستش کے کئی کاموں سے پُر ہوتا تھا۔ تاہم، یسوع نے ایک اچھی خوبی—اُس شخص کے غیرمعمولی ایمان پر توجہ مرتکز کی۔ (متی ۸:۵-۱۳) بعدازاں جب یسوع نے اُس مجرم سے بات کی جسے اُسکے ساتھ سولی دیا گیا تھا تو اُس نے اُس کو ماضی کی غلطیوں کیلئے ملامت نہیں کی بلکہ مستقبل کی اُمید کیساتھ اُس کی حوصلہافزائی کی۔ (لوقا ۲۳:۴۳) یسوع جانتا تھا کہ دوسروں کی بابت ایک منفی، تنقیدی نظریہ اپنانا محض اُنکی حوصلہشکنی کا باعث بنتا ہے۔ بِلاشُبہ دوسروں میں اچھائی تلاش کرنے کی اُسکی کوششوں کی وجہ سے بہتیرے اپنے اندر بہتری لانے کی تحریک پاتے تھے۔
لوگوں کی خدمت کیلئے تیار
۱۷، ۱۸. یسوع نے زمین پر آنے کی تفویض قبول کرتے ہوئے دوسروں کی خدمت کرنے کیلئے کیسے رضامندی دکھائی؟
۱۷ یسوع کی محبت کا ایک اَور پُرزور ثبوت، جن لوگوں کو وہ تعلیم دیتا تھا اُنکی خدمت کرنے کیلئے اُسکی رضامندی سے ملتا ہے۔ اپنی قبلازانسانی زندگی میں خدا کے بیٹے نے ہمیشہ نسلِانسانی کیلئے محبت ظاہر کی۔ (امثال ۸:۳۰، ۳۱) یہوواہ کے ’کلام‘ یا نمائندے کے طور پر وہ انسانوں کیساتھ بہتیرے خوشگوار تعلقات سے مستفید ہوا ہوگا۔ (یوحنا ۱:۱) تاہم، اُسکے زمین پر آنے کی ایک وجہ نسلِانسانی کو براہِراست تعلیم دینا تھی جس کے لئے اُس نے اپنے رفیعالشان آسمانی مقام کو چھوڑ کر ”اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی۔“ (فلپیوں ۲:۷؛ ۲-کرنتھیوں ۸:۹) جب وہ زمین پر تھا تو اُس نے لوگوں سے اپنی خدمت کی توقع نہیں کی۔ اسکے برعکس، اُس نے کہا: ”چنانچہ ابنِآدم اسلئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اسلئےکہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔ (متی ۲۰:۲۸) یسوع نے اس بات پر پوری طرح عمل کِیا۔
۱۸ یسوع نے جن لوگوں کو تعلیم دی اُنکی ضروریات کا بھی فروتنی سے خیال رکھا اور رضامندی سے ان کیلئے خود کو دے ڈالا۔ اُس نے زیادہ سے زیادہ لوگوں میں منادی کرنے کیلئے ملکِموعود کا ہزاروں میل پیدل سفر کِیا۔ متکبر فقیہ فریسیوں کے برعکس، وہ فروتن اور قابلِرسائی تھا۔ ہر قسم کے لوگ—معزز افسران، فوجی، وکیل، خواتین، بچے، مفلس، بیمار اور معاشرے سے خارجشُدہ اشخاص—بڑے اشتیاق کیساتھ اور بِلاخوف اُسکے پاس آیا کرتے تھے۔ یسوع کامل ہونے کے باوجود، ایک انسان کے طور پر بھوک اور تھکن محسوس کرتا تھا۔ وہ اُس وقت بھی دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیتا تھا جب وہ تھک جاتا تھا یا اُسے آرام یا دُعا کیلئے کچھ فارغ وقت کی ضرورت ہوتی تھی۔—مرقس ۱:۳۵-۳۹۔
۱۹. یسوع نے اپنے شاگردوں کیساتھ فروتنی، تحمل اور مہربانی سے پیش آنے میں کونسا نمونہ قائم کِیا؟
۱۹ اسی طرح یسوع اپنے شاگردوں کی خدمت کرنے کیلئے بھی راضی تھا۔ اُس نے مہربانی اور تحمل کیساتھ اُن کو تعلیم دینے سے ایسا کِیا۔ جب وہ کچھ اہم اسباق کو سمجھنے میں تاخیر کرتے تو وہ ہمت ہارنے، جھنجھلانے یا ان پر تنقید کرنے سے گریز کرتا تھا۔ وہ اپنی بات سمجھانے کیلئے نئے طریقوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ مثال کے طور پر، ذرا سوچیں کہ شاگردوں نے کتنی بار اس مسئلے پر بحث کی کہ ان میں سے بڑا کون ہے۔ یسوع نے اپنی موت سے پہلے کی رات تک بارہا انہیں ایک دوسرے کیساتھ فروتنی سے پیش آنے کی تعلیم دینے کے لئے نئے طریقے تلاش کئے۔ دوسری باتوں کی طرح فروتنی کے معاملے میں بھی یسوع موزوں طور پر کہہ سکتا تھا: ’مَیں نے تُم کو ایک نمونہ دیا۔‘—یوحنا ۱۳:۵-۱۵؛ متی ۲۰:۲۵؛ مرقس ۹:۳۴-۳۷۔
۲۰. یسوع کے کونسے تعلیمی طریقے نے اُسے فریسیوں سے مختلف بنایا اور یہ طریقہ مؤثر کیوں ثابت ہوا؟
۲۰ غور کریں کہ یسوع نے اپنے شاگردوں کو نمونے کی بابت بتانے کی بجائے انہیں ’نمونہ دیا۔‘ اُس نے انہیں مثال کے ذریعے سکھایا۔ وہ اُن کیساتھ باتچیت کرتے وقت خود کو برتر اور انہیں ادنیٰ انسان خیال نہیں کرتا تھا گویا کہ انہیں دی گئی تفویضات کو پورا کرنا اسکی شان کے خلاف تھا۔ یہ طریقہ فریسیوں کا تھا۔ یسوع نے اُنکی بابت کہا تھا، ”وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔“ (متی ۲۳:۳) یسوع نے اپنی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے اور ان کو عملی جامہ پہنانے سے اپنے شاگردوں پر فروتنی سے انکا مطلب واضح کِیا۔ لہٰذا جب اُس نے اپنے شاگردوں کو مادہپرستی سے پاک ایک سادہ زندگی بسر کرنے کی حوصلہافزائی کی تو انہیں اسکا مطلب سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ وہ اس بیان کی حقیقت کو سمجھ گئے: ”لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابنِآدم کے لئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔“ (متی ۸:۲۰) یسوع نے فروتنی سے اپنے شاگردوں کیلئے نمونہ قائم کرکے اُنکی خدمت کی۔
۲۱. اگلے مضمون میں کس بات پر غور کِیا جائیگا؟
۲۱ بِلاشُبہ یسوع زمین پر ہو گزرنے والا عظیمترین اُستاد تھا! وہ جوکچھ سکھاتا تھا اور جن لوگوں کو تعلیم دیتا تھا ان کے لئے اُس کی محبت اُس کے تمام خلوصدل سامعین پر عیاں تھی۔ ہم جو آجکل اُس کے قائمکردہ نمونے پر چلنا چاہتے ہیں یہ ہمارے لئے بھی اتنی ہی واضح ہے۔ تاہم، ہم مسیح کے کامل نمونے کی پیروی کیسے کر سکتے ہیں؟ اگلا مضمون اس سوال کو زیرِبحث لائیگا۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• اچھی تعلیم کی بنیاد کیا ہے، اور کس نے اسکا نمونہ پیش کِیا؟
• یسوع نے کن طریقوں سے اُن سچائیوں کیلئے محبت ظاہر کی جنکی وہ تعلیم دیتا تھا؟
• یسوع نے اُن لوگوں کیلئے محبت کیسے ظاہر کی جنہیں وہ تعلیم دیتا تھا؟
• کونسی مثالیں اُن لوگوں کی خدمت کیلئے یسوع کی فروتنی اور رضامندی کو ظاہر کرتی ہیں جنہیں وہ تعلیم دیا کرتا تھا؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
یسوع نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ خدا کے کلام میں درج اُصولوں سے محبت رکھتا تھا؟