”کیا آپ جانتے ہیں کہ مَیں آپکی رقم کیوں لوٹا رہی ہوں؟“
”کیا آپ جانتے ہیں کہ مَیں آپکی رقم کیوں لوٹا رہی ہوں؟“
’کاش مجھے کہیں سے تھوڑے پیسے مل جاتے!‘ ریپبلک آف جارجیا کے علاقے، کاسپی کی رہنے والی تین بیٹوں کی ایک تنہا ماں نینا نے سوچا۔ ایک صبح اُسکا یہ خواب پورا ہو گیا۔ اُسے ایک پولیس سٹیشن کے قریب ۳۰۰ لاری ملے۔ آسپاس کوئی بھی نہیں تھا۔ یہ رقم کافی زیادہ تھی۔ درحقیقت، نینا نے پانچ سال پہلے قومی سطح پر رائج ہونے والے ۱۰۰ لاری کا نوٹ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مقامی تاجر بھی کئی سال کی محنت کے بعد اتنی رقم کما نہیں سکتے تھے۔
نینا نے سوچا، ’اگر اسکے عوض مجھے اپنا ایمان، خدائی خوف اور روحانیت کو کھونا پڑے تو پھر یہ پیسہ کس کام کا ہے؟‘ اُس نے اپنے ایمان کی خاطر اذیت اور تشدد برداشت کرنے کے دوران بھی ایسی مسیحی خوبیوں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔
پولیس سٹیشن پہنچ کر نینا نے دیکھا کہ پانچ آفسر بڑی پریشانی کے ساتھ کسی چیز کی تلاش کر رہے ہیں۔ وہ سمجھ گئی کہ وہ رقم ڈھونڈ رہے ہیں لہٰذا وہ ان کے پاس گئی اور کہا: ”کیا آپکی کوئی چیز کھو گئی ہے؟“
”پیسہ،“ اُنہوں نے جواب دیا۔
”کتنے پیسے؟“
”تین سو لاری!“
نینا نے کہا، ”مجھے آپ کے پیسے ملے ہیں۔“ اسکے بعد اُس نے پوچھا: ”کیا آپ جانتے ہیں کہ مَیں آپکی رقم کیوں لوٹا رہی ہوں؟“ وہ نہیں جانتے تھے۔
اُس نے کہا، ”اسلئے کہ مَیں یہوواہ کی گواہ ہوں۔ اگر مَیں یہوواہ کی گواہ نہ ہوتی تو آپ کے پیسے کبھی نہیں لوٹاتی۔“
جس پولیس چیف کے پیسے کھوئے تھے اُس نے نینا کی دیانتداری کی قدر کرتے ہوئے اُسے ۲۰ لاری انعام میں دئے۔
بہت جلد کاسپی کے پورے قصبے میں یہ خبر پھیل گئی۔ اگلے دن، پولیس سٹیشن کی صفائی کرنے والی خاتون نے نینا سے کہا: ”[چیف] ہمیشہ آپ کا لٹریچر اپنے دفتر میں رکھتا ہے۔ شاید اب وہ اس کی اَور بھی زیادہ قدر کرے گا۔“ ایک پولیس افسر نے یہاں تک کہہ دیا: ”اگر تمام لوگ یہوواہ کے گواہ ہوتے تو کیا کوئی جرم ہوتا؟“