”انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کِیا“
”انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کِیا“
”سب نے اُس پر گواہی دی اور اُن پُرفضل باتوں پر جو اُسکے مُنہ سے نکلتی تھیں تعجب [کِیا]۔“ —لوقا ۴:۲۲۔
۱، ۲. (ا) یسوع کو پکڑنے کے لئے بھیجے گئے پیادے خالی ہاتھ کیوں لوٹ آئے؟ (ب) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ صرف پیادے ہی یسوع کی تعلیم سے متاثر نہیں تھے؟
پیادے اپنا کام نہ کر سکے۔ اُنہیں یسوع مسیح کو پکڑنے کیلئے بھیجا گیا تھا لیکن وہ خالی ہاتھ واپس آ گئے۔ سردار کاہنوں اور فریسیوں نے اس کی وجہ دریافت کرتے ہوئے پوچھا: ”تم اُسے کیوں نہ لائے؟“ واقعی، وہ پیادے ایسے شخص کو کیوں نہ پکڑ سکے جس نے کوئی مزاحمت بھی نہیں کرنی تھی؟ پیادوں نے وضاحت کی: ”انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کِیا۔“ وہ یسوع کی تعلیم سے اسقدر متاثر ہوئے کہ اِس امنپسند آدمی کو پکڑنے کی ہمت نہ کر سکے۔ *—یوحنا ۷:۳۲، ۴۵، ۴۶۔
۲ صرف پیادے ہی یسوع کی تعلیم سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ بہت بڑی بِھیڑ اُسکی باتیں سننے کیلئے جمع ہوتی تھی۔ اُسکے آبائی شہر کے لوگ ”اُن پُرفضل باتوں پر جو اُسکے مُنہ سے نکلتی تھیں“ تعجب کرتے تھے۔ (لوقا ۴:۲۲) ایک سے زیادہ مرتبہ اُس نے کشتی میں بیٹھ کر گلیل کی جھیل کے کنارے پر جمع بِھیڑ سے خطاب کِیا۔ (مرقس ۳:۹؛ ۴:۱؛ لوقا ۵:۱-۳) ایک موقع پر، ”بڑی بِھیڑ“ تین دن تک خوراک کے بغیر اُسکے ساتھ رہی۔—مرقس ۸:۱، ۲۔
۳. یسوع کے ممتاز اُستاد ہونے کی بنیادی وجہ کیا تھی؟
۳ کس چیز نے یسوع کو ایک ممتاز اُستاد بنا دیا تھا؟ محبت اس کی بنیادی وجہ تھی۔ * یسوع کو اُن سچائیوں سے محبت تھی جو وہ سکھاتا تھا اور وہ لوگوں سے بھی محبت رکھتا تھا۔ لیکن یسوع تعلیمی طریقوں کا مؤثر استعمال بھی جانتا تھا۔ اس شمارے میں شائع ہونے والے مطالعے کے مضامین میں ہم ایسے مؤثر طریقوں پر گفتگو کریں گے جو اُس نے استعمال کئے اور پھر یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم اُن کی نقل کیسے کر سکتے ہیں۔
سادگی اور فصاحت
۴، ۵. (ا) یسوع نے سادہ زبان میں تعلیم کیوں دی، اور ایسا کرنے میں حیرانکُن بات کیا ہے؟ (ب) پہاڑی وعظ میں یسوع کی تعلیم سادگی کی مثال کیوں ہے؟
۴ تعلیمیافتہ لوگوں کے لئے ایسی زبان میں گفتگو کرنا غیرمعمولی نہیں جو سامعین کے سر سے گزر جاتی ہے۔ لیکن اگر دوسروں کو ہماری بات سمجھ میں نہیں آتی تو وہ ہمارے علم سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟ یسوع ایسا اُستاد تھا جسکی بات دوسروں کے سر سے نہیں گزرتی تھی۔ ذرا تصور کریں کہ اُسکا ذخیرۂالفاظ کتنا وسیع تھا۔ اس کے باوجود، وہ اپنی بابت نہیں بلکہ اپنے سامعین کے بارے میں سوچتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اُن میں سے بیشتر ”اَنپڑھ اور ناواقف“ لوگ ہیں۔ (اعمال ۴:۱۳) اُنکو اپنی بات سمجھانے کیلئے اُس نے ایسی زبان استعمال کی جو وہ سمجھ سکتے تھے۔ الفاظ تو سادہ تھے مگر اُن میں گہری سچائیاں پائی جاتی تھیں۔
متی ۵:۳–۷:۲۷ میں درج پہاڑی وعظ پر غور کریں۔ یہ وعظ پیش کرنے میں یسوع کو صرف ۲۰ منٹ لگے ہوں گے۔ تاہم، اس میں بہت گہری تعلیم دی گئی ہے جو زناکاری، طلاق اور مادہپرستی کے اسباب پر روشنی ڈالتی ہے۔ (متی ۵:۲۷-۳۲؛ ۶:۱۹-۳۴) اس میں کوئی پیچیدہ یا پُرشکوہ اظہارات نہیں ہیں۔ درحقیقت اس میں ایک بھی لفظ ایسا نہیں جسے کوئی بچہ نہ سمجھ سکے! اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ جب اُس نے یہ وعظ ختم کِیا تو بہت سے کسانوں، چرواہوں اور ماہیگیروں پر مشتمل بِھیڑ ”اُس کی تعلیم سے حیران ہوئی“!—متی ۷:۲۸۔
۵ مثال کے طور پر،۶. یسوع کی چند ایسی باتوں کی مثالیں دیں جو سادہ مگر نہایت پُرمعنی تھیں۔
۶ یسوع نے اکثر صاف اور مختصر جملوں میں سادہ مگر نہایت پُرمعنی باتیں کہیں۔ یوں یسوع نے چھپائی کے نظام کے رائج ہونے سے پہلے اپنے پیغام کو سامعین کے دلودماغ پر اَمٹ طریقے سے نقش کر دیا۔ چند مثالوں پر غور کریں: ”کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا . . . تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔“ ”عیبجَوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیبجَوئی نہ کی جائے۔“ ”اُنکے پھلوں سے تم اُنکو پہچان لو گے۔“ ”تندرستوں کو طبیب درکار نہیں بلکہ بیماروں کو۔“ ”جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائینگے۔“ ”جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔“ ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“ * (متی ۶:۲۴؛ ۷:۱، ۲۰؛ ۹:۱۲؛ ۲۶:۵۲؛ مرقس ۱۲:۱۷؛ اعمال ۲۰:۳۵) یسوع کے یہ اثرآفرین الفاظ آج تک تقریباً ۰۰۰،۲ سال گزر جانے کے بعد بھی بآسانی یاد رکھے جا سکتے ہیں۔
سوالات کا استعمال
۷. یسوع سوال کیوں پوچھتا تھا؟
۷ یسوع نے سوالوں کا بھی بہترین استعمال کِیا۔ اُس نے اُس وقت بھی ایسا کِیا جب سامعین کو مطلب کی بات بتانے میں کم وقت صرف ہوتا تھا۔ تاہم، وہ سوال کیوں پوچھتا تھا؟ کبھیکبھار، وہ اپنے مخالفین کے محرکات کو بےنقاب کرنے کے لئے نہایت بامعنی سوال پوچھتا تھا اور یوں اُنہیں چپ کرا دیتا تھا۔ (متی ۱۲:۲۴-۳۰؛ ۲۱:۲۳-۲۷؛ ۲۲:۴۱-۴۶) تاہم، بہتیرے معاملات میں، یسوع سچائی بیان کرنے، سامعین سے اُن کے دل کی بات نکلوانے اور اپنے شاگردوں کی سوچ کو اُبھارنے اور اُن کی تربیت کرنے کے لئے سوال پوچھتا تھا۔ آئیے دو مثالوں پر غور کریں جن کا تعلق پطرس رسول سے ہے۔
۸، ۹. یسوع نے ہیکل کا محصول ادا کرنے کے سلسلے میں صحیح نتیجہ اخذ کرنے میں پطرس کی مدد کیلئے سوالات کا استعمال کیسے کِیا؟
۸ اوّل، ذرا اُس موقع کو یاد کریں جب محصول لینے والوں نے پطرس سے پوچھا تھا کہ آیا یسوع ہیکل کا محصول ادا کرتا ہے یا نہیں۔ * پطرس نے فوراً جواب دیا کہ ”ہاں دیتا ہے۔“ تاہم، تھوڑی دیر بعد، یسوع نے اُس سے استدلال کِیا: ”شمعون تُو کیا سمجھتا ہے؟ دُنیا کے بادشاہ کن سے محصول یا جزیہ لیتے ہیں؟ اپنے بیٹوں سے یا غیروں سے؟ جب اُس نے کہا غیروں سے تو یسوؔع نے اُس سے کہا پس بیٹے بری ہوئے۔“ (متی ۱۷:۲۴-۲۷) یسوع کے سوال کا مقصد پطرس پر بالکل واضح ہو گیا ہوگا۔ ایسا کیوں ہے؟
۹ یسوع کے زمانے میں بادشاہوں کا خاندان محصول سے بری ہوتا تھا۔ پس، اُس آسمانی بادشاہ کے اکلوتے بیٹے کے طور پر جس کی ہیکل میں پرستش ہوتی تھی، یسوع محصول ادا کرنے کا پابند نہیں تھا۔ لیکن غور کریں کہ پطرس کو جواب دینے کی بجائے، یسوع نے مؤثر مگر مہربانہ انداز میں سوال پوچھے تاکہ صحیح نتیجہ اخذ کرنے میں پطرس کی مدد ہو سکے اور وہ بولنے سے پہلے غوروفکر کرنے کی ضرورت کو بھی سمجھ سکے۔
۱۰، ۱۱. جب پطرس نے ۳۳ س.ع. کی فسح کی رات ایک آدمی کا کان کاٹ دیا تو یسوع نے کیسا ردِعمل دکھایا اور اس سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع سوالات کی اہمیت سے واقف تھا؟
۱۰ دوسری مثال ۳۳ س.ع. کی فسح کی رات کو رونما ہونے والے واقعہ کی ہے جب ایک بِھیڑ یسوع کو گرفتار کرنے کیلئے آئی تھی۔ شاگردوں نے یسوع سے پوچھا کہ آیا اُنہیں اپنے دفاع کیلئے لڑنا چاہئے۔ (لوقا ۲۲:۴۹) جواب کا انتظار کئے بغیر، پطرس نے ایک آدمی کا کان کاٹ دیا (اگرچہ پطرس اس سے بھی زیادہ نقصان کرنا چاہتا تھا)۔ پطرس نے اپنے آقا کی مرضی کے خلاف عمل کِیا کیونکہ یسوع خود کو حوالے کر دینے کیلئے تیار تھا۔ یسوع کا ردِعمل کیسا تھا؟ ہمیشہ کی طرح صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس نے پطرس سے تین سوال پوچھے: ”جو پیالہ باپ نے مجھ کو دیا کیا مَیں اُسے نہ پیوں؟“ ”کیا تُو نہیں سمجھتا کہ مَیں اپنے باپ سے منت کر سکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ تمن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کر دے گا؟ مگر وہ نوشتے کہ یونہی ہونا ضرور ہے کیونکر پورے ہونگے؟“—یوحنا ۱۸:۱۱؛ متی ۲۶:۵۲-۵۴۔
۱۱ تھوڑی دیر کیلئے اس بیان پر غور کریں۔ یسوع غضبناک بِھیڑ میں گھرا ہوا تھا، وہ جانتا تھا کہ اُسکی موت قریب ہے اور اُسکے باپ کے نام کو پاک ٹھہرانے اور انسان کی نجات کی ذمہداری اُسکے کاندھوں پر ہے۔ لیکن اُس نے عین اُسی وقت سوالوں کے ذریعے اہم سچائیاں پطرس کے ذہننشین کرائیں۔ کیا یہ بات واضح نہیں کہ یسوع سوالات کی اہمیت سے واقف تھا؟
واضح مبالغہ
۱۲، ۱۳. (ا) مبالغہ کیا ہوتا ہے؟ (ب) اپنے بھائیوں کی چھوٹی چھوٹی خامیوں پر تنقید کرنے کی حماقت پر زور دینے کے لئے یسوع نے مبالغہ کیسے استعمال کِیا؟
۱۲ یسوع نے اپنی خدمتگزاری میں اکثر ایک اَور مؤثر طرزِتعلیم—مبالغہ—بھی استعمال کِیا۔ یہ زور دینے کیلئے دانستہ مبالغہ ہوتا ہے۔ مبالغے کی مدد سے یسوع نے ذہنی تصاویر کھینچیں جنہیں فراموش نہیں کِیا جا سکتا تھا۔ آئیے چند مثالوں پر غور کریں۔
۱۳ پہاڑی وعظ میں، یسوع نے دوسروں کی ’عیبجَوئی نہ کرنے‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بیان کِیا: ”تُو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟“ (متی ۷:۱-۳) کیا آپ اس منظر کا تصور کر سکتے ہیں؟ ایک نکتہچیں آدمی اپنے بھائی کی ”آنکھ“ سے تنکا نکالنے کی پیشکش کرتا ہے۔ اس نکتہچیں آدمی کا دعویٰ ہے کہ اُسکا بھائی صحیح فیصلے کرنے کیلئے معاملات کو صاف طور پر دیکھنے کے قابل نہیں ہے۔ لیکن اس نکتہچیں آدمی کی فیصلہ کرنے کی اپنی صلاحیت بھی ”شہتیر“—چھت کو سہارا دینے والی لکڑی—کی وجہ سے خراب ہو گئی ہے۔ اپنی ذات کی بڑی خامیوں کو نظرانداز کرکے دوسروں کی چھوٹی خامیوں پر تنقید کرنے کی حماقت کو اُجاگر کرنے کا کیا ہی ناقابلِفراموش طریقہ!
۱۴. مچھر کو چھاننے اور اُونٹ کو نگلنے کے سلسلے میں یسوع کی بات بالخصوص اثرآفرین مبالغہ کیوں تھی؟
۱۴ کسی دوسرے موقع پر، یسوع نے فریسیوں کو ملامت کرتے ہوئے کہا کہ ”اَے اندھے راہ بتانے والو جو مچھر کو تو چھانتے ہو اور اُونٹ کو نگل جاتے ہو۔“ (متی ۲۳:۲۴) یہ مبالغے کا واقعی بہت اثرآفرین استعمال تھا۔ کیوں؟ مچھر اور اُونٹ کے درمیان موازنہ نہایت حیرانکُن تھا کیونکہ اُونٹ اُن بہت بڑے جانور میں سے ایک تھا جن سے یہودی واقف تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ۷ کروڑ مچھروں کا وزن ایک عام اُونٹ کے وزن کے برابر ہوگا! نیز، یسوع یہ بھی جانتا تھا کہ فریسی اپنی مے باریک کپڑے سے چھانتے تھے۔ اُصولوں کے یہ بےلوچ حمایتی کسی مچھر کو نگل کر روایتی طور پر ناپاک ہو جانے سے بچنے کیلئے ایسا کرتے تھے۔ تاہم، علامتی مفہوم میں وہ اُونٹ کو بھی نگل جاتے تھے حالانکہ وہ بھی ناپاک تھا۔ (احبار ۱۱:۴، ۲۱-۲۴) یسوع کا نکتہ بالکل واضح تھا۔ فریسی شریعت کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی باریکبینی سے عمل کرتے تھے لیکن زیادہ اہم باتوں—”انصاف اور رحم اور ایمان“—کی کوئی قدر نہیں کرتے تھے۔ (متی ۲۳:۲۳) یسوع نے اُنہیں بالکل بےنقاب کر دیا تھا!
۱۵. یسوع نے مبالغہ استعمال کرکے چند کونسے اسباق سکھائے تھے؟
۱۵ اپنی خدمتگزاری کے دوران یسوع نے اکثر مبالغہ استعمال کِیا۔ چند مثالوں پر غور کریں۔ ”[چھوٹے سے] رائی کے دانے کے برابر . . . ایمان“ پہاڑ کو ہٹا سکتا ہے—یسوع کو اِس بات پر زور دینے کا اس سے بہترین طریقہ نہیں مِل سکتا تھا کہ تھوڑا سا ایمان بھی بہت کچھ انجام دے سکتا ہے۔ (متی ۱۷:۲۰) سوئی کے ناکے میں سے گزرنے کی کوشش کرتا ہوا ایک بہت بڑا اُونٹ—یہ بات کتنی خوبصورتی سے بیان کرتی ہے کہ مادہپرستانہ طرزِزندگی کیساتھ خدا کی خدمت کرنا کسی دولتمند کیلئے کتنا مشکل ہے! (متی ۱۹:۲۴) کیا آپ یسوع کی واضح اور دلچسپ تشبیہات اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کی صلاحیت پر حیران نہیں ہوتے؟
ناقابلِتردید منطق
۱۶. یسوع نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو ہمیشہ کیسے استعمال کِیا؟
۱۶ اپنے کامل ذہن کیساتھ، یسوع لوگوں کیساتھ منطقی استدلال کرنے کا ماہر تھا۔ تاہم، اُس نے کبھی اس لیاقت کو غلط استعمال نہیں کِیا تھا۔ اپنی تعلیم میں اُس نے ہمیشہ سچائی کے فروغ کیلئے اپنی ذہنی صلاحیت کو استعمال کِیا۔ بعضاوقات اُس نے مذہبی مخالفین کے جھوٹے الزامات کو رد کرنے کیلئے نہایت اثرآفرین منطق کو استعمال کِیا۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو بہت سے معاملات میں اہم اسباق سکھانے کیلئے منطقی استدلال سے کام لیا۔ آئیے منطق استعمال کرنے کے سلسلے میں یسوع کی مہارت اور صلاحیت پر غور کریں۔
۱۷، ۱۸. یسوع نے فریسیوں کے جھوٹے الزام کی تردید کیلئے کونسی اثرآفرین منطق استعمال کی؟
۱۷ ذرا اُس موقع کو یاد کریں جب یسوع نے ایک بدروحگرفتہ اندھے گونگے کو شفا دی تھی۔ اس کی بابت سُن کر فریسیوں نے کہا: ”یہ بدروحوں کے سردار بعلزؔبُول [شیطان] کی مدد کے بغیر بدروحوں کو نہیں متی ۱۲:۲۲-۲۶) یسوع دراصل یہ بتا رہا تھا: ’تمہارے خیال سے اگر مَیں شیطان کا آدمی ہوں اور شیطان ہی کے کام کو بگاڑ رہا ہوں تو شیطان خود اپنے خلاف ہوا جس سے اُس کا زوال ہوگا۔‘ کیا یہ بہت ہی اثرآفرین منطق نہیں تھی؟
نکالتا۔“ غور کیجئے کہ فریسیوں نے یہ تسلیم کِیا کہ بدروحوں کو نکالنے کے لئے مافوقالبشر طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، لوگوں کو یسوع پر ایمان لانے سے باز رکھنے کے لئے اُنہوں نے اُس کی طاقت کو شیطان سے منسوب کر دیا۔ یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ اُنہوں نے اپنی بات کے منطقی نتیجے پر پوری طرح غور نہیں کِیا، یسوع نے جواب دیا: ”جس بادشاہی میں پھوٹ پڑتی ہے وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس شہر یا گھر میں پھوٹ پڑے گی وہ قائم نہ رہے گا۔ اور اگر شیطان ہی نے شیطان کو نکالا تو وہ آپ اپنا مخالف ہو گیا۔ پھر اس کی بادشاہی کیونکر قائم رہے گی؟“ (۱۸ پھر یسوع نے مزید اس معاملے پر استدلال کِیا۔ وہ یہ جانتا تھا کہ بعض فریسی خود بھی بدروحیں نکالتے ہیں۔ لہٰذا، اُس نے نہایت سادہ مگر حیرانکُن سوال پوچھا: ”اگر مَیں بعلزؔبُول کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو تمہارے بیٹے [یا شاگرد] کس کی مدد سے نکالتے ہیں؟“ (متی ۱۲:۲۷) ایک لحاظ سے یسوع یہ دلیل پیش کر رہا تھا: ’اگر مَیں شیطان کی مدد سے بدروحیں نکالتا ہوں تو تمہارے شاگرد بھی پھر اس کی قوت سے نکالتے ہونگے۔‘ فریسی اس سلسلے میں کیا کہہ سکتے تھے؟ وہ کبھی یہ بات نہیں مان سکتے تھے کہ اُنکے شاگرد شیطان کی قوت کے زیرِاثر تھے۔ ناقابلِتردید منطق سے یسوع نے اپنے خلاف اُنکے الزام کو غیرمعقول اور مضحکہخیز ثابت کر دیا۔
۱۹، ۲۰. (ا) یسوع نے کس مثبت انداز میں منطق استعمال کی؟ (ب) جب یسوع کے شاگردوں نے اُس سے درخواست کی کہ وہ اُنہیں دُعا کرنا سکھائے تو اُس نے ’کیوں نہ‘ کا اظہار کیسے استعمال کِیا؟
۱۹ اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لئے منطق استعمال کرنے کے علاوہ، یسوع نے یہوواہ کی بابت مثبت اور دل کو گرما دینے والی سچائی سکھانے کے لئے بھی منطق، قائل کرنے والے دلائل استعمال کئے۔ کئی مرتبہ اُس نے ’کہیں زیادہ‘ اور ’کیوں نہ‘ کا اظہار بھی استعمال کِیا اور یوں اپنے سامعین کی کسی جانیپہچانی سچائی کے علاوہ مزید حقائق کو سمجھنے میں مدد کی۔ آئیے دو مثالوں پر غور کریں۔
۲۰ جب یسوع کے شاگردوں نے اُس سے درخواست کی کہ اُنہیں دُعا کرنا سکھائے تو یسوع نے اسکے جواب میں ایک ایسے آدمی کی تمثیل بیان کی جسکی ’دلیرانہ مستقلمزاجی‘ نے بالآخر اُسکے غیرآمادہ دوست کو اپنی درخواست کے مطابق عمل کرنے پر آمادہ کر لیا۔ یسوع نے والدین کی رضامندی کا بھی ذکر کِیا کہ وہ اپنے بچوں کو ”اچھی چیزیں“ دینا چاہتے ہیں۔ پھر اُس نے یہ نتیجہ اخذ کِیا: ”پس جب تم بُرے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو رُوحاُلقدس کیوں نہ دیگا؟“ (لوقا ۱۱:۱-۱۳) یسوع کی بات کا مقصد مناسبت نہیں موازنہ تھا۔ اگر غیرآمادہ دوست بالآخر اپنے پڑوسی کی ضرورت پوری کرنے پر قائل ہو جاتا ہے اور اگر ناکامل انسانی والدین اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں توپھر ہمارا شفیق آسمانی باپ اپنے وفادار اور فروتنی سے دُعا مانگنے والے خادموں کو رُوحاُلقدس کیوں نہ دیگا!
۲۱، ۲۲. (ا) یسوع نے مادی اشیا کی بابت پریشانی کے ساتھ نپٹنے کے سلسلے میں دانشمندانہ مشورہ پیش کرتے ہوئے کیا استدلال کِیا؟ (ب) یسوع کے تعلیم دینے کے چند طریقوں پر غور کرنے کے بعد، ہم کس نتیجے پر پہنچتے ہیں؟
۲۱ یسوع نے مادی اشیا کی بابت پریشانی کے ساتھ نپٹنے کی بابت کہیں زیادہ ہے۔ سوسن کے درختوں پر غور کرو کہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں۔ . . . پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائیگی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اَے کم اعتقادو تمکو کیوں نہ پہنائیگا؟“ (لوقا ۱۲:۲۴، ۲۷، ۲۸) واقعی، اگر یہوواہ پرندوں اور پھولوں کی دیکھبھال کرتا ہے تو وہ اپنے خادموں کی کتنی زیادہ دیکھبھال کریگا! ایسے مشفقانہ مگر اثرآفرین استدلال نے بِلاشُبہ یسوع کے سامعین کے دلوں پر اثر کِیا ہوگا۔
دانشمندانہ مشورہ پیش کرتے ہوئے بھی ایسے ہی استدلال کِیا۔ اُس نے بیان کِیا: ”کووّں پر غور کرو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ اُنکے کھتا ہوتا ہے نہ کوٹھی۔ تَو بھی خدا اُنہیں کھلاتا ہے۔ تمہاری قدر تو پرندوں سے۲۲ یسوع کے تعلیم دینے کے چند طریقوں پر غور کرنے کے بعد، ہم آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اُسے پکڑنے میں ناکام رہنے والے پیادے کسی مبالغہآرائی سے یہ بات نہیں کہہ رہے تھے کہ ”انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کِیا۔“ لیکن تمثیلوں کا استعمال تعلیم دینے کا وہ طریقہ ہے جس کیلئے غالباً یسوع زیادہ مشہور ہے۔ اُس نے ایسا طریقہ کیوں استعمال کِیا؟ نیز کس چیز نے اُسکی تمثیلوں کو اتنا مؤثر بنا دیا تھا؟ ان سوالوں پر اگلے مضمون میں بات کی جائیگی۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 1 پیادے صدرعدالت کے نمائندے اور سردار کاہنوں کے اختیار کے تابع تھے۔
^ پیراگراف 3 مینارِنگہبانی، اگست ۱۵، ۲۰۰۲ کے شمارے میں ”مَیں نے تُم کو ایک نمونہ دکھایا“ اور ”میرے پیچھے ہو لے“ کے مضامین دیکھیں۔
^ پیراگراف 6 یہ آخری اقتباس جو اعمال ۲۰:۳۵ میں درج ہے، صرف پولس ہی اسکا حوالہ دیتا ہے اگرچہ اناجیل کے الفاظ میں اسکا مفہوم ضرور ملتا ہے۔ پولس نے یہ بات کسی (شاید اُس رسول سے جس نے یسوع سے یہ بات سنی تھی یا پھر خود قیامتیافتہ یسوع) کی زبانی سنی تھی یا پھر اُسے اسکا الہام ہوا تھا۔—اعمال ۲۲:۶-۱۵؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۶، ۸۔
^ پیراگراف 8 یہودی دو درہم (دو دن کی اُجرت) ہیکل کیلئے سالانہ ٹیکس ادا کرتے تھے۔ محصول کی رقم ہیکل کی مرمت، وہاں کی خدمات اور قوم کیلئے روزانہ ادا کی جانے والی قربانیوں کیلئے استعمال ہوتی تھی۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• کن مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یسوع سادگی اور فصاحت سے تعلیم دیتا تھا؟
• یسوع اپنی تعلیم میں سوال کیوں استعمال کرتا تھا؟
• مبالغہ کیا ہوتا ہے اور یسوع نے اس طرزِتعلیم کو کیسے استعمال کِیا؟
• یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہوواہ کی بابت دل کو گرما دینے والی سچائیاں سکھانے کیلئے منطقی استدلال کیسے استعمال کِیا؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۹ پر تصویر]
یسوع نے سادہ زبان استعمال کی جسے عام لوگ بھی سمجھ سکتے تھے
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
فریسی ’مچھر کو چھانتے لیکن اُونٹ کو نگل جاتے تھے‘