اچھے پڑوسی ایک بخشش ہیں
اچھے پڑوسی ایک بخشش ہیں
”ہمسایہ جو نزدیک ہو اُس بھائی سے جو دُور ہو بہتر ہے۔“—امثال ۲۷:۱۰۔
پہلی صدی کے ایک عالم نے یسوع سے پوچھا: ”میرا پڑوسی کون ہے؟“ جواب میں اُسے یہ بتانے کی بجائے کہ اُس کا پڑوسی کون ہے، یسوع نے اُسے یہ بتایا کہ کوئی کیسے حقیقی پڑوسی ٹھہرتا ہے۔ آپ غالباً یسوع کی تمثیل سے واقف ہیں۔ یہ نیک سامری کے نام سے مشہور ہے اور لوقا کی انجیل میں درج ہے۔ یسوع اِس کہانی کو یوں بیان کرتا ہے:
”ایک آدمی یرؔوشلیم سے یرؔیحو کی طرف جا رہا تھا کہ ڈاکوؤں میں گِھر گیا۔ اُنہوں نے اُس کے کپڑے اُتار لئے اور مارا بھی اور ادھمؤا چھوڑ کر چلے گئے۔ اتفاقاً ایک کاہن اُسی راہ سے جا رہا تھا اور اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔ اِسی طرح ایک لاوی اُس جگہ آیا۔ وہ بھی اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔ لیکن ایک سامری سفر کرتے کرتے وہاں آ نکلا اور اُسے دیکھ کر اُس نے ترس کھایا۔ اور اُس کے پاس آکر اُس کے زخموں کو تیل اور مے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کرکے سرای میں لے گیا اور اُس کی خبرگیری کی۔ دوسرے دن دو دینار نکال کر بھٹیارے کو دئے اور کہا اس کی خبرگیری کرنا اور جو کچھ اس سے زیادہ خرچ ہوگا مَیں پھر آکر تجھے ادا کر دونگا۔ اُن تینوں میں سے اُس شخص کا جو ڈاکوؤں میں گِھر گیا تھا تیری دانست میں کون پڑوسی ٹھہرا؟“—لوقا ۱۰:۲۹-۳۶۔
لوقا ۱۰:۳۷) حقیقی ہمسائے کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے کیا ہی اثرآفرین تمثیل! یسوع کی تمثیل ہمیں خود سے یہ پوچھنے کی تحریک دے سکتی ہے: ’مَیں کیسا پڑوسی ہوں؟ کیا میرا نسلی یا قومی پسمنظر اپنے پڑوسیوں کا تعیّن کرنے پر اثرانداز ہوتا ہے؟ کیا یہ عناصر مشکل میں مبتلا کسی شخص کی مدد کرنے کے سلسلے میں میرے فرض کو متاثر کرتے ہیں؟ کیا مَیں اچھا پڑوسی بننے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں؟‘
وہ عالم یقیناً بات سمجھ گیا تھا۔ بِلاجھجھک اُس نے درست طریقے سے زخمی شخص کے پڑوسی کو پہچان لیا تھا: ”وہ جس نے اُس پر رحم کِیا۔“ یسوع نے پھر اُس سے کہا: ”جا۔ تُو بھی ایسا ہی کر۔“ (کہاں سے شروع کریں؟
اگر ہم اس سلسلے میں بہتری لانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے ذہنی رُجحان کو پرکھنا ہوگا۔ ہمیں ایک اچھا پڑوسی بننے کی فکر ہونی چاہئے۔ اسکے نتیجے میں ہمیں اچھے پڑوسی بھی ملیں گے۔ تقریباً دو ہزار سال پہلے، یسوع نے اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں انسانی رشتوں سے متعلق اس اہم اُصول پر زور دیا۔ اُس نے بیان کِیا: ”پس جوکچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی اُنکے ساتھ کرو۔“ (متی ۷:۱۲) دوسروں کیساتھ عزتووقار اور شفقت سے پیش آنا اُنہیں ہمارے ساتھ اسی طرح پیش آنے کی تحریک دیتا ہے۔
صحافی اور مصنفہ، لیز فنڈربرگ دی نیشنز سِنس ۱۸۶۵، رسالے میں شائع ہونے والے مضمون ”اپنے پڑوسی سے محبت رکھ“ میں بعض ایسے سادہ کاموں کا ذکر کرتی ہے جو ہمسائیگی کے جذبے کی حوصلہافزائی کرنے کے لئے کئے جا سکتے ہیں۔ اُس نے لکھا: ”مَیں یہ چاہتی ہوں کہ پڑوسی ایک دوسرے کے لئے جو بہتیرے کام—اخبار گھر کے اندر پہنچانا، بچوں کی دیکھبھال کرنا، دُکان سے سوداسلف لا کر دینا—کرتے ہیں اُن سے ذاتی اُنس ظاہر ہو۔ مَیں بیگانی دُنیا، خوف اور جُرم کے باعث کمزور ہو جانے والے معاشرے میں ایسے ہی رشتے کی آرزو کرتی ہوں۔“ وہ مزید کہتی ہے: ”کہیں نہ کہیں سے تو اِس کا آغاز ہونا چاہئے۔ بہتر ہے کہ اس کا آغاز اپنے پڑوس سے ہی ہو۔“
رسالے کینیڈین جیوگرافک نے بھی ایسا مفید نکتہ واضح کِیا جو پڑوسیوں کو ایک دوسرے کے لئے خوشگوار رُجحان اپنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ مصنف مارنی جیکسن نے بیان کِیا: ”آپ کی زندگی میں خاندان کی طرح پڑوسی بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا ہمیشہ آپ خود انتخاب نہیں کرتے۔ یہ ایسے رشتے ہوتے ہیں جو خوشخلقی اور رواداری کا تقاضا کرتے ہیں۔“
اچھے پڑوسی—اچھے مُعطی
یہ بات سچ ہے کہ ہم میں سے بہتیرے پڑوسیوں کے پاس جاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ نظر بچا کر نکل جانا اور خود کو الگ رکھنا آسان دکھائی دیتا ہے۔ تاہم، بائبل کہتی ہے کہ ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“ (اعمال ۲۰:۳۵) لہٰذا، اچھا پڑوسی اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں سے واقفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گہری دوستی پیدا نہ کرنے کے باوجود، وہ اکثر اوقات چند باتیں کرنے، شاید دوستانہ مسکراہٹ یا ہاتھ ہلانے کے مشکل مرحلے سے بھی گزر جاتا ہے۔
مذکورہبالا بیان کے مطابق یہ ایسے ”بہتیرے کام“ ہیں جو پڑوسی ایک دوسرے کے لئے کرتے ہیں اور جو ہمسائیگانہ تعلقات اُستوار کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ لہٰذا ایسے چھوٹے چھوٹے مہربانہ اظہارات کی تلاش میں رہنا اچھا ہوگا جو آپ کسی پڑوسی کے لئے دکھا سکتے ہیں کیونکہ اس سے اکثر تعاون اور باہمی احترام کا جذبہ فروغ پائے گا۔ مزیدبرآں، ایسا کرنے سے، ہم بائبل کی اس تلقین پر عمل کرینگے: ”بھلائی کے حقدار سے اُسے دریغ نہ کرنا جب تیرے مقدور میں ہو۔“—امثال ۳:۲۷؛ یعقوب ۲:۱۴-۱۷۔
اچھے پڑوسی—شکرگزار وصولکنندہ
یہ کہنا تو بہت ہی اچھی بات ہوگی کہ ہر کوئی شکرگزاری کے ساتھ مدد اور تحائف لیتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ مدد اور مخلصانہ تحائف کی پیشکش کو بھی اکثر اتنی ناشکری کے ساتھ لیا گیا ہے کہ دینے والا اکثر اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ’آئندہ مَیں ایسا نہیں کروں گا!‘ بعضاوقات، دوستانہ سلام کے ساتھ آپ کی تمام کوششوں
کے بدلے آپ کو اپنے پڑوسی کی طرف سے خاطرخواہ ردِعمل حاصل نہیں ہوتا۔تاہم، بیشتر معاملات میں لینے والا ناشکر نہیں ہوتا اگرچہ ہمیں سطحی طور پر ایسا دکھائی دے سکتا ہے۔ شاید اپنے ثقافتی پسمنظر کی وجہ سے وہ ہچکچاہٹ یا شرم کا شکار ہو جاتا ہے جسکی وجہ سے وہ بہت عجیب اور نامہربانہ انداز سے پیش آتا ہے۔ اسکے برعکس، اس ناشکر دُنیا میں شاید بعض لوگوں کو آپکی دوستی اور مہربانی عجیب دکھائی دے یا وہ آپکے محرکات پر شُبہ کرتے ہوں۔ اُنہیں کچھ یقیندہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس، دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کیلئے وقت اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، جو پڑوسی اچھا دینے والا اور شکرگزاری کیساتھ لینے والا بننا سیکھتے ہیں وہ پُرامن اور خوشکُن ہمسائیگی کے جذبے کو فروغ دیتا ہے۔
جب مصیبت آتی ہے
مصیبت کے وقت میں اچھا پڑوسی خاص طور پر بیشقیمت ثابت ہوتا ہے۔ مصیبت کے وقت ہی ہمسائیگی کا حقیقی جذبہ دکھائی دیتا ہے۔ ایسے وقت میں پڑوسی بہت سے بےغرضانہ کام انجام دیتے ہیں۔ المناک وقت پڑوسیوں کو فوراً تعاون اور ایک دوسرے کی خدمت کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ اختلافات رکھنے والے بھی ایسے وقت میں شانہبشانہ ملکر کام کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر، دی نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ دی کہ جب ۱۹۹۹ میں ترکی میں ایک تباہکُن زلزلہ آیا تو روایتی دُشمنوں نے بھی ہمسائیگی کا مظاہرہ کِیا۔ یونان کی کالمنگار اینا ستریو نے ایتھنز کے اخبار میں لکھا کہ ”ہمیں تُرکوں سے نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے۔ لیکن اُنکی شدید تکلیف سے ہمیں کوئی خوشی نہیں ملتی۔ بچوں کی لاشیں دیکھ کر ہم بہت غمگین ہوئے اور اتنا روئے کہ جیسے ہماری قدیم عداوت ختم ہو گئی ہو۔“ جب جان بچانے کا کام باضابطہ طور پر ختم کر دیا گیا تو یونانی ٹیموں نے بچنے والوں کی تلاش بند کرنے سے انکار کر دیا۔
کسی آفت کے بعد بچانے کے کام میں شریک ہونا واقعی اپنے ہمسایوں کے حق میں کِیا جانے والا قابلِتحسینوتعریف کام ہے۔ لیکن کسی ہمسائے کو مصیبت آنے سے پہلے آگاہ کرنا اس سے بھی زیادہ قابلِقدر کام ہے۔ تاریخ اس افسوسناک بات کی شاہد ہے کہ جو لوگ پڑوسیوں کو آنے والی مصیبت سے آگاہ کرتے ہیں اُنہیں پسند نہیں کِیا جاتا کیونکہ آگاہ کرنے کے وقت اُس مصیبت کو سمجھنا اور اُسکا تصور کرنا مشکل ہوتا ہے۔ آگاہی دینے والوں کا اکثر یقین ہی نہیں کِیا جاتا۔ اپنی نازک حالت سے ناواقف لوگوں کی مدد کرنے والوں کو مستقلمزاجی اور خودایثاری کی ضرورت ہے۔
ہمسائیگی کا سب سے بڑا کام
کسی قدرتی آفت سے کہیں زیادہ عجیب چیز نسلِانسانی پر نازل ہونے والی ہے۔ یہ قادرِمطلق خدا کا پیشازوقت بیانکردہ کام ہے جس سے وہ زمین کو جُرم، بدکاری اور دیگر مسائل سے پاک کرے گا۔ (مکاشفہ ۱۶:۱۶؛ ۲۱:۳، ۴) یہ نہایت عجیب اور اہم واقعہ ضرور رونما ہوگا! یہوواہ کے گواہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دُنیا کو ہلا دینے والے اس واقعہ سے بچنے کے لئے درکار علم فراہم کرنے کے مشتاق ہیں۔ اسی لئے وہ مستقلمزاجی کے ساتھ ساری دُنیا میں مشہور اپنے منادی کے کام میں مشغول رہتے ہیں۔ (متی ۲۴:۱۴) وہ خدا اور پڑوسی کی محبت کے باعث خوشی سے ایسا کرتے ہیں۔
لہٰذا، جب یہوواہ کے گواہ آپکے گھر پر آئیں یا کہیں اَور ملیں تو تعصّب یا آزردگی کو اُن کی بات سننے میں حائل نہ ہونے دیں۔ وہ اچھے پڑوسی بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پس بائبل مطالعہ کرنے کیلئے اُن کی پیشکش کو قبول کریں۔ یہ سیکھیں کہ خدا کا کلام ہمیں کیسے یقین دلاتا ہے کہ بہت جلد مستقبل میں پڑوسیوں کی خوشگوار رفاقت کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن ہوگا۔ اُس وقت کوئی نسلی، مذہبی یا طبقاتی امتیاز ایسے اطمینانبخش رشتے کو تباہ نہیں کریگا جسکی ہم واقعی خواہش کرتے ہیں۔
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
ہمسایوں کیلئے مہربانہ کام کرنا اچھا ہے
[تصویر کا حوالہ]
.Globe: Mountain High Maps® Copyright © 1997 Digital Wisdom, Inc