سب پڑوسی کہاں چلے گئے ہیں؟
سب پڑوسی کہاں چلے گئے ہیں؟
”جدید معاشرے کی نظر میں ہمسایوں کی کوئی قدر نہیں۔“ —۱۹ ویں صدی کا انگریز مدبّر، بینجمن ڈزریلی۔
کیوبا کے عمررسیدہ لوگوں کا فلاحی کاموں کو فروغ دینے کا ایک خاص طریقہ ہے جس میں پڑوسیوں سے اچھا رابطہ یا بڑےبوڑھے افراد کے گروہوں کو استعمال کِیا جاتا ہے۔ سن ۱۹۹۷ کی رپورٹ کے مطابق، کیوبا کے ۵ میں سے ۱ شخص ان گروہوں میں شامل ہوتا ہے جن میں اُنہیں رفاقت، حمایت اور صحتمندانہ طرزِزندگی قائم رکھنے میں عملی مدد ملتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ میگزین بیان کرتا ہے کہ ”جب بھی کسی علاقے کے ڈاکٹروں کو ویکسین دینے کی مہم میں مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو اُنہیں بڑےبوڑھے اس مدد کیلئے زیادہ آمادہ اور اہل دکھائی دیتے ہیں۔“
تاہم، افسوس کی بات ہے کہ دُنیا کے بیشتر حصوں میں ہمسائے کوئی فکرمندی نہیں دکھاتے۔ مثال کے طور پر، وولفگینگ ڈرکس کے المناک معاملے پر غور کیجئے جو مغربی یورپ کی ایک اپارٹمنٹ عمارت میں رہتا تھا۔ کچھ سال پہلے دی کینبرا ٹائمز نے رپورٹ دی کہ اگرچہ اس عمارت میں رہنے والے ۱۷ خاندانوں نے یہ نوٹ کِیا کہ وولفگینگ آجکل دکھائی نہیں دے رہا توبھی ”کسی کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ اُس کا دروازہ کھٹکھٹا کر دیکھ لے کہ آیا وہ کیسا ہے۔“ جب مالک مکان آیا تو ”اُسے ٹیلیویژن کے سامنے کُرسی پر ایک ڈھانچا پڑا ملا۔“ اُس ڈھانچے کی گود میں ۵ دسمبر، ۱۹۹۳ کے ٹیلیویژن پروگراموں کی ایک فہرست پڑی تھی۔ وولفگینگ کو مرے ہوئے پانچ سال ہو گئے تھے۔ یہ ہمسایوں میں دلچسپی اور فکر کی کمی کی افسوسناک شہادت ہے! لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ایک مضموننگار نے دی نیو یارک ٹائمز میگزین میں بیان کِیا کہ دیگر علاقوں کی طرح اُس کے علاقے میں بھی ”سب ایک دوسرے سے اجنبی ہو گئے ہیں۔“ کیا آپ کا علاقہ بھی ایسا ہی ہے؟
یہ بات سچ ہے کہ بعض دیہی علاقوں میں آج بھی ہمسایوں سے بڑی محبت کی جاتی ہے اور بعض شہری علاقوں میں ہمسایوں کا خیال رکھنے کی بڑی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم، شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ اپنے ہی علاقے اور اڑوسپڑوس میں اجنبیت اور غفلت کا شکار محسوس کرتے ہیں۔ وہ گمنام زندگی گزارتے ہیں؟ کیسے؟
گمنام زندگی
ہم میں سے بیشتر کے پڑوسی تو بہت ہی قریب رہتے ہیں۔ ٹیلیویژن کی جگمگاتی روشنی، کھڑکیوں میں حرکت کرتے ہوئے سائے، جلتیبجھتی بتیاں، آتیجاتی کاروں کی آواز، سیڑھیوں پر پاؤں کی چاپ، دروازے بند کرتے اور کھولتے ہوئے چابیوں کی چھنچھن جیسی ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہمارے پڑوس میں کوئی ”رہتا“ ہے۔ تاہم، جب لوگ گمنام زندگی گزارتے یا مصروفیات کی وجہ سے دوسروں کو ملتے ہی نہیں تو ہمسائیگی کا حقیقی احساس ختم ہو جاتا ہے۔ لوگ شاید محسوس کریں کہ ہمسایوں سے ملنا یا اُن کے حقوق ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ آسٹریلیا کا اخبار ہیرلڈ سن تسلیم کرتا ہے: ”لوگ اپنے گردونواح میں گمنام زندگی گزارتے رہتے ہیں اور یوں سماجی ذمہداری کے پابند نہیں ہوتے۔ جن لوگوں کی معاشرے میں کوئی وقعت نہیں ہوتی اُنہیں بڑی آسانی سے نظرانداز یا خارج کر دیا جاتا ہے۔“
یہ تبدیلی حیرانکُن نہیں ہے۔ ”خودغرض“ لوگوں کی دُنیا میں تمام معاشرے لوگوں کے خودپسندانہ طرزِزندگی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۲) اسکا نتیجہ بہت زیادہ تنہائی اور بیگانگی ہے۔ علاقے کو ہر وقت خطرے میں ڈالنے والے تشدد اور جُرم کی حالت میں بیگانگی سے خاص طور پر بےاعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ پھر جلد ہی بےاعتمادی انسانی ہمدردی کو ختم کر دیتی ہے۔
آپکے علاقے میں صورتحال خواہ کیسی بھی ہو، آپ یقیناً تسلیم کریں گے کہ اچھے ہمسائے واقعی عمدہ اثاثہ ہوتے ہیں۔ جب سب لوگ ملکر ایک ہی نصباُلعین کی جانب بڑھتے ہیں تو بہت ترقی ہوتی ہے۔ اچھے ہمسائے برکت بھی ہوتے ہیں۔ اگلا مضمون ظاہر کریگا کہ یہ بات کیونکر سچ ہے۔