”مَیں کوئی تبدیلی نہیں چاہونگی!“
میری کہانی میری زبانی
”مَیں کوئی تبدیلی نہیں چاہونگی!“
از گلیڈس ایلن
بعضاوقات مجھ سے سوال کِیا جاتا ہے، ”اگر آپ کو دوبارہ زندگی حاصل کرنے کا موقع ملے تو آپ کیا تبدیلی چاہینگی؟“ مَیں دیانتداری سے جواب دے سکتی ہوں، ”مَیں کوئی تبدیلی نہیں چاہونگی!“ مَیں وضاحت کرنا چاہونگی کہ مَیں ایسا کیوں محسوس کرتی ہوں۔
مَیں سن ۱۹۲۹ کے موسمِگرما میں دو سال کی تھی جب میرے والد میتھیو ایلن کیساتھ ایک شاندار واقعہ پیش آیا۔ اُنہوں نے کتابچہ ملینز ناؤ لیوینگ وِل نیور ڈائی! حاصل کِیا جو اُس وقت انٹرنیشنل بائبل سٹوڈنٹس کہلانے والے یہوواہ کے گواہوں نے شائع کِیا تھا۔ ہمارے والد نے دلچسپی کیساتھ صرف چند صفحات پڑھنے کے بعد خوشی سے کہا، ”مَیں نے اتنا عمدہ مواد پہلے کبھی نہیں پڑھا!“
بہت جلد میرے والد نے بائبل طالبعلموں کی دیگر مطبوعات حاصل کیں۔ اُنہوں نے سیکھی ہوئی باتیں بِلاتاخیر اپنے تمام پڑوسیوں کو بتانا شروع کر دیں۔ تاہم، ہمارے دیہی علاقے میں یہوواہ کے گواہوں کی کوئی کلیسیا نہیں تھی۔ باقاعدہ مسیحی رفاقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے میرے والد ۱۹۳۵ میں خاندان کیساتھ اورینگوائل، اونٹاریو، کینیڈا منتقل ہوئے اسلئےکہ وہاں ایک کلیسیا تھی۔
اُس زمانے میں بچوں کی کلیسیائی اجلاسوں پر حاضر ہونے کیلئے ہمیشہ حوصلہافزائی نہیں کی جاتی تھی؛ وہ عموماً اجلاس کی جگہ کے باہر بالغوں کے فارغ ہونے تک کھیلکود میں لگے رہتے تھے۔ میرے والد کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اُنکا خیال تھا کہ ”اگر اجلاس میرے لئے مفید ہیں تو میرے بچوں کیلئے بھی مفید ہیں۔“ کلیسیا کے ساتھ اُنکی رفاقت نئی ہونے کے باوجود اُنہوں نے میرے بھائی بوب، میری بہن ایلا اور روبی کو اور مجھے بالغوں
کیساتھ اجلاسوں پر شرکت کرنے کی ہدایت کی اور ہم نے ایسا ہی کِیا۔ بہت جلد دوسرے گواہوں کے بچے بھی اجلاسوں میں بیٹھنے لگے۔ اجلاس پر حاضری اور شرکت ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن گئے۔میرے والد بائبل سے گہری محبت رکھتے تھے اور نہایت دلچسپ انداز سے بائبل کہانیوں کو تمثیلی شکل میں پیش کِیا کرتے تھے۔ اُنہوں نے ان کے ذریعے ہمارے نوجوان دلوں پر اہم اسباق نقش کئے جو اب بھی میری خوشگوار یادوں کا حصہ ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہوواہ ان لوگوں کو برکت دیتا ہے جو اُسکے فرمانبردار رہتے ہیں۔
میرے والد نے ہمیں بائبل کے استعمال سے اپنے ایمان کا دفاع کرنا بھی سکھایا۔ ہم نے ایک کھیل کے ذریعے ایسا کرنا سیکھا تھا۔ مثلاً میرے والد کہتے تھے، ”مَیں ایمان رکھتا ہوں کہ مرنے کے بعد مَیں آسمان پر جاؤنگا۔ اب تم یہ ثابت کرو کہ میری سوچ غلط ہے۔“ روبی اور مَیں کنکارڈنس کی مدد سے اِس تعلیم کو مسترد کرنے والے صحائف تلاش کِیا کرتے تھے۔ جب ہم صحائف تلاش کرکے انہیں پڑھ لیتے تھے تو ابو کہتے تھے، ”بات تو دلچسپ ہے لیکن مَیں قائل نہیں ہوا۔“ پس ہم ایک بار پھر کنکارڈنس کھولتے تھے۔ ہمارے جوابات سے ابو کے مطمئن ہو جانے تک یہ سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا تھا۔ نتیجتاً روبی اور مَیں اپنے اعتقادات کی وضاحت اور اپنے ایمان کا دفاع کرنے کیلئے بہتر طور پر لیس ہوئے۔
انسان کے ڈر پر غالب آنا
گھر اور کلیسیائی اجلاسوں پر ملنے والی عمدہ تربیت کے باوجود مَیں یہ بات تسلیم کرتی ہوں کہ ایک مسیحی ہونا بعض طریقوں سے میرے لئے چیلنجخیز تھا۔ بہتیرے نوجوانوں کی طرح دوسروں سے، بالخصوص اپنے ہمجماعتوں سے فرق ہونا مجھے پسند نہیں تھا۔ اُس وقت انفارمیشن مارچ میرے ایمان کی ایک ابتدائی آزمائش تھی۔
اس میں بہنبھائیوں کا ایک گروپ اشتہارات اور تختیاں لئے شاہراہوں پر آہستہ آہستہ چلتا تھا۔ تقریباً ۰۰۰،۳ لوگوں پر مشتمل ہمارے علاقہ میں سب ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ایک انفارمیشن مارچ کے دوران مَیں قطار کے آخر میں ایک اشتہار لئے چل رہی تھی جسکا عنوان تھا ”مذہب ایک پھندا اور فساد ہے۔“ میرے کچھ ہمجماعتوں نے مجھے دیکھ لیا اور فوراً قطار میں میرے پیچھے کھڑے ہو کر کینیڈا کا قومی ترانہ پڑھنے لگے: ”گاڈ سیووِ دی کنگ۔“ مَیں نے اس صورتحال کا مقابلہ کیسے کِیا؟ مَیں نے رواںدواں رہنے کی خاطر طاقت کیلئے پُرجوش دُعا کی۔ جب مارچ ختم ہوا تو مَیں جلدی جلدی کنگڈم ہال پہنچی تاکہ اپنا اشتہار وہاں رکھوا کر گھر لوٹ سکوں۔ تاہم، وہاں موجود ذمہدار بھائی نے مجھے بتایا کہ کچھ دیر بعد ایک اَور مارچ شروع ہونے والا تھا اور اشتہار اُٹھانے کیلئے ایک رضاکار کی ضرورت تھی۔ لہٰذا مَیں اَور بھی دل لگا کر دُعا کرتے ہوئے ایک بار پھر باہر نکلی۔ تاہم، اِس مرتبہ میرے ہمجماعت اُکتا کر گھر جا چکے تھے۔ طاقت کیلئے کی جانے والی میری دُعائیں شکرگزاری میں بدل گئیں!—امثال ۳:۵۔
ہمارے گھر میں کُلوقتی خادموں کا ہمیشہ خیرمقدم کِیا جاتا تھا۔ وہ ایک پُرمسرت گروپ تھا اور اُنکی خاطرتواضع میں خوشی ہوتی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، میرے والدین نے ہمیشہ کُلوقتی خدمت کو اپنے بچوں کیلئے بہترین پیشہ خیال کِیا۔
مَیں نے اُنکی حوصلہافزائی کے جوابیعمل میں ۱۹۴۵ میں کُلوقتی خدمت کو ایک پیشے کے طور پر اختیار کر لیا۔ بعدازاں میں اپنی بہن ایلا کے پاس چلی گئی جو لنڈن، اونٹاریو میں پائنیر خدمت انجام دےرہی تھی۔ وہاں، مجھے خدمت کے ایک نئے پہلو سے متعارف کرایا گیا جو مَیں سمجھتی تھی کہ مَیں کبھی نہیں کر پاؤنگی۔ بھائی مقامی شرابخانوں میں جاکر ہر ٹیبل پر گاہکوں کو مینارِنگہبانی اور کنسولیشن (اب جاگو!) کی کاپیاں پیش کِیا کرتے تھے۔ خوشی کی بات ہے کہ یہ کام ہفتے کی دوپہر کو کِیا جاتا تھا لہٰذا مَیں اسے انجام دینے کیلئے درکار طاقت کیلئے پورا ہفتہ دُعا کر سکتی تھی! یہ کام میرے لئے آسان نہیں تھا لیکن یہ بااَجر تھا۔
اس کے علاوہ، مَیں نے نازی اجتماعی کیمپوں میں اذیت برداشت کرنے والے بھائیوں کی بابت کنسولیشن کے خاص شمارے پیش کرنا بھی سیکھا اور اس سلسلے میں خاص طور پر بڑی کارپوریشنوں کے پریذیڈنٹ سمیت کینیڈا کے نامور تاجروں سے رابطہ کِیا۔ مَیں نے سالوں کے دوران اِس بات کا تجربہ کِیا ہے کہ جبتک ہم طاقت کیلئے یہوواہ پر بھروسا رکھتے ہیں وہ ہمیشہ ہماری مدد کرتا ہے۔ جیساکہ میرے والد کہا کرتے تھے، یہوواہ اپنے فرمانبرداروں کو برکت بخشتا ہے۔
کیوبک میں خدمت کرنے کی دعوت کیلئے جوابیعمل
جولائی ۴، ۱۹۴۰ میں کینیڈا میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی عائد ہوئی۔ بعدازاں، پابندی ہٹائے جانے کے باوجود ہم کیوبک کے رومن کیتھولک صوبے میں اذیت کا نشانہ بنتے رہے تھے۔ یہاں پر ہمارے بھائیوں کے ساتھ زیادتی پر توجہ دلانے کیلئے ایک پُرزور اشتہار کیوبکز برنیگ ہیٹ فور گاڈ اینڈ کرائسٹ اینڈ فریڈم از دی شیم آف آل کینیڈا (خدا اور مسیح اور آزادی کیلئے کیوبک کی شدید نفرت پورے کینیڈا کیلئے باعثِرسوائی ہے) کے استعمال سے ایک خاص مہم چلائی گئی۔ یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی کے ممبر، ناتھن ایچ. نار نے مانٹریل کے شہر میں ہزاروں پائنیروں سے ملاقات کی تاکہ انہیں ہمارے کام کی نوعیت سے آگاہ کِیا جا سکے۔ بھائی نار نے ہمیں بتایا کہ اگر ہم اس مہم میں حصہ لینے کیلئے راضی ہیں تو ہمیں گرفتاری اور قید کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ یہ بات کسقدر سچ ثابت ہوئی! اس دوران مَیں ۱۵ مرتبہ گرفتار ہوئی۔ ہم میدانی خدمت میں جاتے وقت دانت صاف کرنے کا برش اور کنگھی اپنے ساتھ لیجاتے تھے تاکہ اگر ہمیں حوالات میں رات گزارنی پڑے تو مشکل نہ ہو!
شروع میں ہم لوگوں کی توجہ سے بچنے کیلئے اپنا زیادہتر کام رات کے وقت کِیا کرتے تھے۔ مَیں اشتہاروں کی اضافی رسد اپنے گلے میں لٹکائے ہوئے ایک بیگ میں رکھتی تھی جو میرے کوٹ کے نیچے چھپا ہوتا تھا۔ اشتہاروں سے بھرا یہ بیگ کافی موٹا تھا اور یوں لگتا تھا کہ جیسے مَیں حاملہ ہوں۔ بھری ہوئی گاڑیوں میں اپنے علاقہ تک سفر کرتے ہوئے یہ بات میرے فائدہ میں جاتی تھی۔ کئی بار کوئی مہربان شخص ”حاملہ“ عورت کو جگہ دینے کیلئے اپنی نشست خالی کر دیتا تھا۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اشتہار تقسیم کرنے کا کام دن میں بھی کرنے لگے۔ ہم تین یا چار گھروں پر اشتہار چھوڑنے کے بعد کسی دوسرے علاقے میں چلے جاتے تھے۔ عموماً ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ تاہم، اگر کسی پادری کو علاقے میں ہماری موجودگی کا پتہ چل جاتا تو ہم مصیبت کی توقع کر سکتے تھے۔ ایک مرتبہ، ایک پادری نے ۵۰ یا ۶۰ بالغوں اور بچوں کی ایک بِھیڑ کو ہم پر انڈے اور ٹماٹر پھینکنے پر اُکسایا۔ ہم نے ایک مسیحی بہن کے گھر پناہ لی اور وہاں ہمیں رات کو فرش پر سونا پڑا۔
کیوبک میں فرنچ بولنے والے لوگوں کو منادی کرنے کی بڑی ضرورت تھی، لہٰذا دسمبر ۱۹۵۸ میں میری بہن روبی اور مَیں نے فرانسیسی زبان سیکھنا شروع کی۔ اسکے بعد ہمیں اس صوبے میں فرانسیسی بولنے والے کئی علاقوں میں تفویض کِیا گیا۔ ہر تفویض ایک منفرد تجربہ ثابت ہوئی۔ ایک جگہ ہم دو سال تک دن میں آٹھ گھنٹے گھرباگھر جاتے رہے لیکن کسی نے ہمارے لئے دروازہ نہ کھولا! لوگ دروازے پر آکر پردے گِرا دیتے تھے۔ لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ آج اُس قصبے میں دو کلیسیائیں کامیابی سے چل رہی ہیں۔
یہوواہ ہر طرح سے سنبھالتا ہے
ہم نے ۱۹۶۵ میں سپیشل پائنیر خدمت شروع کی۔ ایک سپیشل پائنیر تفویض پر ہم ۱-تیمتھیس ۶:۸ میں درج پولس کے اس بیان کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ گئے: ”پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اسی پر قناعت کریں۔“ اپنے اخراجات کی کفالت کیلئے ہمیں ایک بجٹ پر احتیاط کیساتھ چلنا پڑتا تھا۔ لہٰذا ہم گھر کے کرائے، کمرہ گرم کرنے کی سہولت، بجلی اور کھانے کیلئے پیسے الگ رکھتے تھے۔ اسکے بعد، باقی مہینے کے ذاتی خرچے کیلئے ہمارے پاس ۲۵ سینٹ (ڈالر کا چوتھائی حصہ) بچتے تھے۔
زبور ۳۷:۲۵ کے الفاظ کسقدر سچ ہیں: ”مَیں نے صادق کو بیکس اور اُسکی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا“!
ہم محدود وسائل کی وجہ سے اپنے گھر گرم کرنے والے آلے کو رات کے وقت صرف چند گھنٹوں کیلئے چلاتے تھے۔ لہٰذا ہمارے بیڈروم کا درجۂحرارت ۶۰ ڈگری سے اُوپر کبھی نہیں ہوا اور اکثر بہت سردی ہوتی تھی۔ ایک دن روبی کے بائبل مطالعے کا بیٹا ہم سے ملنے آیا۔ اُس نے گھر جا کر اپنی ماں کو ضرور بتایا ہوگا کہ ہم بہت سردی میں رہتے تھے اسلئے اُس وقت سے اُسکی ماں ہر ماہ ہمیں دس ڈالر بھیجا کرتی تھی تاکہ ہم تیل خرید کر ہر وقت ہیٹر چلا سکیں۔ ہم نے کبھی بھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں کی۔ ہم امیر نہیں تھے لیکن ہماری ضروریات ہمیشہ پوری ہوتی تھیں۔ ہم بچی ہوئی چیزوں کو بخشش خیال کرتے تھے۔ہم پر آنے والی مخالفت کے باوجود اپنے کئی بائبل طالبعلموں کو سچائی قبول کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے نہایت خوشی ہوئی۔ ان میں سے بعض نے کُلوقتی خدمت کو پیشہ بنا لیا جو خاص طور پر میرے لئے خوشی کا باعث تھا۔
نئے چیلنجوں سے کامیابی سے نپٹنا
سن ۱۹۷۰ میں ہماری نئی تفویض کارنوال، اونٹاریو تھی۔ کارنوال منتقل ہونے کے تقریباً ایک سال کے بعد ماں بیمار پڑ گئی۔ والد کا انتقال ۱۹۵۷ میں ہوا تھا اور مَیں اور میری دو بہنوں نے ۱۹۷۲ میں ماں کی موت تک باری باری ان کیدیکھبھال کی۔ ہماری سپیشل پائنیر ساتھی ایلا لیزٹزا اور این کوالینکو نے اس وقت میں ہماری مشفقانہ مدد کی اور ہماری طاقت کا باعث بنیں۔ اُنہوں نے ہماری غیرموجودگی میں ہمارے بائبل مطالعوں اور ہماری دیگر ذمہداریوں کا خیال رکھا۔ ہم نے امثال ۱۸:۲۴ کی صداقت کا تجربہ کِیا جو بیان کرتی ہے: ”ایسا دوست بھی ہے جو بھائی سے زیادہ محبت رکھتا ہے“!
واقعی، زندگی آزمائشوں سے پُر ہے۔ یہوواہ کی پُرمحبت مدد نے مجھے ان کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا ہے۔ مَیں ابھی بھی کُلوقتی خدمت میں خوشی حاصل کر رہی ہوں۔ بوب نے جسکا انتقال ۱۹۹۳ میں ہوا ۲۰ سے زائد سال پائنیر خدمت کی جن میں سے ۱۰ بیشقیمت سال اُس نے اپنی بیوی ڈول کیساتھ پائنیر خدمت کی۔ میری بڑی بہن ایلا جسکی موت اکتوبر ۱۹۹۸ میں ہوئی ۳۰ سال سے زائد عرصہ تک پائنیر رہی اور اُس نے ہمیشہ ایک پائنیر جذبہ برقرار رکھا۔ سن ۱۹۹۱ میں، تشخیص سے ظاہر ہوا کہ میری دوسری بہن روبی کو کینسر ہے۔ تاہم اُس نے اپنی محدود طاقت کو خوشخبری کی منادی میں استعمال کِیا۔ وہ ستمبر ۲۶، ۱۹۹۹ میں اپنی موت کی صبح تک خوشطبع
رہی۔ اب میری بہنیں میرے ساتھ نہیں تاہم میرے روحانی بہنبھائیوں کے خاندان نے اپنی مزاح کی حس برقرار رکھنے میں میری مدد کی ہے۔اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتے ہوئے مَیں اس میں کیا تبدیلی پسند کرونگی؟ میری شادی نہیں ہوئی لیکن مجھے شفیق والدین، ایک بھائی اور بہنوں کی برکت ملی جنہوں نے اپنی زندگیوں میں سچائی کو مقدم رکھا۔ مَیں بہت جلد انہیں قیامت میں دیکھنے کی اُمید رکھتی ہوں۔ یہ سب کچھ میرے لئے اسقدر حقیقی ہے کہ مَیں اس وقت بھی اپنے باپ کی بانہیں اپنے گرد محسوس کر سکتی ہوں اور اپنی ماں سے گلے ملتے ہوئے اُسکی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھ سکتی ہوں۔ ایلا، روبی اور بوب خوشی سے جھوم رہے ہیں۔
اس اثنا میں، مَیں اپنی صحت اور توانائی یہوواہ کی ستائش اور اُس کی تعظیم کیلئے استعمال کرنے کا پُختہ عزم رکھتی ہوں۔ کُلوقتی پائنیر خدمت ایک شاندار، بااَجر طرزِزندگی ہے۔ یہ زبورنویس کے اس بیان کی مطابقت میں ہے جو یہوواہ کی راہوں میں چلنے والے لوگوں کی بابت کہتا ہے: ”تُو مبارک اور سعادتمند ہوگا۔“—زبور ۱۲۸:۱، ۲۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویریں]
میرے والد بائبل سے گہری محبت رکھتے تھے اور اُس نے ہمیں اس کے استعمال سے اپنے ایمان کا دفاع کرنا سکھایا
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
بائیں سے دائیں: روبی، مَیں، بوب، ایلا، امی اور ابو، ۱۹۴۷
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
پہلی صف؛ بائیں سے دائیں: مَیں، روبی اور ایلا ڈسٹرکٹ کنونشن پر، ۱۹۹۸