ہمیں آزمائشوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
ہمیں آزمائشوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
امتحان! آزمائشیں! سب کو اِن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ شخصیتی اختلافات، معاشی مشکلات، ناقص صحت، لالچ، غلط کام کرنے کے سلسلے میں دوستوں کی طرف سے دباؤ، اذیت، غیرجانبداری یا بُتپرستی کے سلسلے میں ہمارے مؤقف سے متعلق چیلنج اور اسی طرح کی دیگر چیزیں اس کا باعث بن سکتی ہیں۔ آزمائشیں خواہ کسی بھی قسم کی کیوں نہ ہوں یہ اکثر پریشانی کا سبب بنتی ہیں۔ ہم کامیابی کیساتھ انکا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ کیا کسی طرح سے یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہیں؟
بہترین حمایت
قدیمی بادشاہ داؤد آزمائشوں سے پُر زندگی کے باوجود مرتے دم تک وفادار رہا۔ وہ کیسے برداشت کرنے کے قابل ہوا تھا؟ اُس نے اپنی قوت کے سرچشمے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: ”[یہوواہ] میرا چوپان ہے۔ مجھے کمی نہ ہوگی۔“ اُس نے مزید کہا: ”خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گذر ہو مَیں کسی بلا سے نہیں ڈرونگا کیونکہ تُو میرے ساتھ ہے۔ تیرے عصا اور تیری لاٹھی سے مجھے تسلی ہے۔“ (زبور ۲۳:۱، ۴) جیہاں، یہوواہ بےپناہ قوت کا سرچشمہ ہے۔ اُس نے نہایت کٹھن وقتوں میں داؤد کی نگہبانی کی اور وہ ہمارے لئے بھی بوقتِضرورت ایسا کرنے کیلئے تیار ہے۔
ہم کیسے یہوواہ کی حمایت حاصل کر سکتے ہیں؟ بائبل اس کی نشاندہی کرتے ہوئے بیان کرتی ہے: ”آزما کر دیکھو کہ [یہوواہ] کیسا مہربان ہے۔“ (زبور ۳۴:۸) یہ ایک مخلص دعوت تو ہے، مگر اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ یہوواہ کی خدمت کرنے اور اپنی زندگیاں اُس کی مرضی کی مطابقت میں گزارنے کی حوصلہافزائی ہے۔ ایسی روش اختیار کرنے کا مطلب کسی حد تک اپنی آزادی کو قربان کرنا ہے۔ بعض صورتوں میں یہ آزمائشوں یعنی اذیت اور تکلیف پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ تاہم، جو لوگ خلوصدلی سے یہوواہ کی اس دعوت کو قبول کرتے ہیں اُنہیں اس کے لئے کبھی پچھتانا نہیں پڑتا۔ یہوواہ اُن کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آتا ہے۔ وہ اُن کی راہنمائی اور روحانی طور پر اُن کی دیکھبھال کرتا ہے۔ وہ اپنے کلام، اپنی پاک رُوح اور مسیحی کلیسیا کے ذریعے اُنہیں سنبھالتا ہے۔ علاوہازیں وہ اُنہیں ہمیشہ کی زندگی کا انعام بھی دیگا۔—زبور ۲۳:۶؛ ۲۵:۹؛ یسعیاہ ۳۰:۲۱؛ رومیوں ۱۵:۵۔
جو لوگ یہوواہ کی خدمت کرنے کے لئے زندگی کو یکسر تبدیل کرنے والے فیصلے کرتے اور اپنے اس فیصلے پر قائم رہتے ہیں اُنہیں اس بات کا تجربہ ہوتا ہے کہ یہوواہ اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے۔ یشوع کی قیادت میں موعودہ مُلک میں داخل ہونے والے اسرائیلیوں کا بھی یہی تجربہ تھا۔ دریائے یردن پار کر لینے کے بعد اُنہیں متواتر آزمائشیں برداشت کرنا، جنگیں لڑنا اور کٹھن حالات کا سامنا کرنا تھا۔ مگر یہ نسل مصر سے نکلنے اور بیابان میں مرنے والے اپنے باپدادا کی نسبت زیادہ وفادار تھی۔ پس یہوواہ نے وفادار لوگوں کی حمایت کی اور یشوع کی زندگی کے اختتام پر اُنکی بابت بائبل ریکارڈ یوں بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] نے اُن سب باتوں کے مطابق جنکی قسم اُس نے اُنکے باپدادا سے کھائی تھی چاروں طرف سے اُنکو آرام دیا . . . اور جتنی اچھی باتیں [یہوواہ] نے اؔسرائیل کے گھرانے سے کہی تھیں اُن میں سے ایک بھی نہ چُھوٹی۔ سب کی سب پوری ہوئیں۔“ (یشوع ۲۱:۴۴، ۴۵) اگر ہم بھی آزمائشوں یا دیگر اوقات کے دوران یہوواہ پر مکمل بھروسا رکھتے ہیں تو ہم بھی اسکا تجربہ کر سکتے ہیں۔
کیا چیز یہوواہ پر ہمارے بھروسے کو کمزور کر سکتی ہے؟ ایک چیز کی نشاندہی کرتے ہوئے یسوع نے فرمایا: ”کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا . . . تُم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔“ (متی ۶:۲۴) اگر ہم یہوواہ پر بھروسا رکھتے ہیں تو ہم دُنیا کی طرح مادی حاصلات میں تحفظ تلاش نہیں کرینگے۔ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو نصیحت کی تھی: ”تم پہلے اُسکی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تمکو مل جائینگی۔“ (متی ۶:۳۳) مادی چیزوں کی بابت متوازن نظریہ رکھنے اور اپنی زندگی میں خدا کی بادشاہت کو پہلا درجہ دینے والا ایک مسیحی بالکل صحیح انتخاب کرتا ہے۔ (واعظ ۷:۱۲) ممکن ہے اُسے ایسا کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ کھونا پڑے۔ شاید اُسے مادی اعتبار سے قربانیاں دینی پڑیں۔ مگر اُسے اس کے بدلے میں بہت زیادہ برکات ملیں گی۔ یقیناً یہوواہ اُسکی مدد کریگا۔—یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸۔
آزمائشوں سے ہم کیا سیکھتے ہیں
’یہوواہ کی بھلائی کو آزما کر دیکھنے‘ کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں زندگی کے ناگہانی واقعات سے یا شیطان اور اُسکے انسانی نمائندوں کے حملوں سے تحفظ حاصل ہو جائیگا۔ (واعظ ۹:۱۱) نتیجتاً، کسی مسیحی کے خلوص اور عزم کی آزمائش ہو سکتی ہے۔ یہوواہ اپنے پرستاروں کو ایسی آزمائشوں سے گزرنے کی اجازت کیوں دیتا ہے؟ پطرس رسول نے اسکی ایک وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا: ”اگرچہ اب چند روز کے لئے ضرورت کی وجہ سے طرح طرح کی آزمایشوں کے سبب سے غمزدہ ہو۔ اور یہ اسلئے ہے کہ تمہارا آزمایا ہوا ایمان جو آگ سے آزمائے ہوئے فانی سونے سے بھی بہت ہی بیشقیمت ہے یسوؔع مسیح کے ظہور کے وقت تعریف اور جلال اور عزت کا باعث ٹھہرے۔“ (۱-پطرس ۱:۶، ۷) واقعی، آزمائشیں ہمیں اپنے ایمان کی خوبی اور یہوواہ کیلئے محبت کو ثابت کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ نیز یہ شیطان ابلیس کے الزامات اور طعنوں کا جواب دینے میں بھی مدد کرتی ہیں۔—امثال ۲۷:۱۱؛ مکاشفہ ۱۲:۱۰۔
آزمائشیں دیگر مسیحی خوبیاں پیدا کرنے میں بھی ہماری مدد کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، زبورنویس کے اِن الفاظ پر غور کیجئے: ”[یہوواہ] اگرچہ بلندوبالا ہے توبھی خاکسار کا خیال رکھتا ہے۔ لیکن مغرور کو دُور ہی سے پہچان لیتا ہے۔“ (زبور ۱۳۸:۶) ہم میں سے بیشتر فطرتاً فروتن نہیں مگر آزمائشیں یہ لازمی خوبی پیدا کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔ موسیٰ کے زمانے کو یاد کریں جب اسرائیل کو لگاتار من کھانے سے گھن آتی تھی۔ بدیہی طور پر، یہ اُنکی آزمائش تھی حالانکہ من معجزانہ طور پر فراہم کِیا گیا تھا۔ اس آزمائش کا مقصد کیا تھا؟ موسیٰ نے اُنہیں بتایا: ”[یہوواہ نے] تجھ کو بیابان میں . . . من کھلایا . . . تاکہ تجھ کو عاجز کرے اور تیری آزمایش کرکے آخر میں تیرا بھلا کرے۔“—استثنا ۸:۱۶۔
یسعیاہ ۶۰:۱۷) کیا ہم منادی اور تعلیم کیلئے خلوصدلی سے حمایت کرتے ہیں؟ (متی ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹، ۲۰) کیا ہم بائبل سچائی کے سلسلے میں ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی پیشکردہ وضاحتوں کو خوشدلی سے قبول کرتے ہیں؟ (متی ۲۴:۴۵-۴۷؛ امثال ۴:۱۸) کیا ہم نئینئی چیزیں، نئے فیشن یا نئی گاڑیاں حاصل کرنے کے دباؤ کی مزاحمت کرتے ہیں؟ ایک فروتن شخص ایسے سوالات کے جواب ہاں ہی میں دیگا۔—۱-پطرس ۱:۱۴-۱۶؛ ۲-پطرس ۳:۱۱۔
ہماری فروتنی کی بھی ایسے ہی آزمائش ہو سکتی ہے۔ کیسے؟ ہم تنظیمی تبدیلیوں کی بابت کیسا ردِعمل دکھاتے ہیں؟ (آزمائشیں برداشت کی خوبی پیدا کرنے میں بھی ہماری مدد کرتی ہیں۔ شاگرد یعقوب نے کہا: ”اَے میرے بھائیو! جب تم طرحطرح کی آزمایشوں میں پڑو۔ تو اِسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمایش صبر پیدا کرتی ہے۔“ (یعقوب ۱:۲، ۳) یہوواہ پر مکمل بھروسے کے ساتھ یکےبعددیگرے کامیابی سے آزمائشیں برداشت کرنا ثابتقدمی، استقلال اور راستی پیدا کرتا ہے۔ یہ اس جہان کے غضبناک خدا، شیطان کے آئندہ حملوں کی مزاحمت کرنے کیلئے ہمیں طاقت بخشتا ہے۔—۱-پطرس ۵:۸-۱۰؛ ۱-یوحنا ۵:۱۹؛ مکاشفہ ۱۲:۱۲۔
آزمائشوں کی بابت مناسب رُجحان رکھیں
خدا کے کامل بیٹے، یسوع مسیح نے زمین پر بہتیری آزمائشوں کو برداشت کرنے سے بیشمار فوائد حاصل کئے۔ پولس نے لکھا کہ یسوع نے ”دُکھ اُٹھااُٹھا کر فرمانبرداری سیکھی۔“ (عبرانیوں ۵:۸) یسوع کے جان دینے تک وفادار رہنے سے یہوواہ کے نام کو جلال ملا اور نسلِانسانی کیلئے فدیے کے طور پر اپنی کامل انسانی زندگی کی قیمت ادا کرنا بھی ممکن ہوا۔ یوں یسوع پر ایمان لانے والوں کو ابدی زندگی پانے کا امکان حاصل ہوا۔ (یوحنا ۳:۱۶) آزمائش کے تحت وفادار رہنے کی وجہ ہی سے یسوع اب ہمارا سردار کاہن اور مسندنشین بادشاہ ہے۔—عبرانیوں ۷:۲۶-۲۸؛ ۱۲:۲۔
ہماری بابت کیا ہے؟ آزمائش کے تحت ہماری وفاداری بھی ایسے ہی بڑی برکات پر منتج ہوتی ہے۔ بائبل آسمانی اُمید رکھنے والوں کی بابت کہتی ہے: ”مبارک وہ شخص ہے جو آزمایش کی برداشت کرتا ہے کیونکہ جب مقبول ٹھہرا تو زندگی کا وہ تاج حاصل کرے گا جس کا [یہوواہ] نے اپنے محبت کرنے والوں سے وعدہ کِیا ہے۔“ (یعقوب ۱:۱۲) زمینی اُمید رکھنے والوں کو بھی یقین ہے کہ اگر وہ وفاداری سے برداشت کریں گے تو اُنہیں زمینی فردوس میں ابدی زندگی ملے گی۔ (مکاشفہ ۲۱:۳-۶) نیز سب سے اہم بات یہ ہے کہ اُن کی وفادارانہ برداشت یہوواہ کے نام کے لئے تمجید کا باعث بنتی ہے۔
ہم یسوع کے نقشِقدم پر چلتے ہوئے اس نظام میں درپیش آنے والی تمام آزمائشوں میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳؛ ۱-پطرس ۲:۲۱) کیسے؟ یہوواہ پر بھروسا رکھنے سے جو اُن لوگوں کو ”حد سے زیادہ قدرت“ عطا کرتا ہے جو اُس پر تکیہ کرتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۷) ہمیں ایوب جیسا یقین رکھنا چاہئے جس نے اِس پُختہ اعتماد کیساتھ سخت آزمائشیں برداشت کیں: ”جب وہ مجھے تالیگا تو مَیں سونے کی مانند نکل آؤنگا۔“—ایوب ۲۳:۱۰۔
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
آزمائش کے تحت یسوع کی وفاداری یہوواہ کے نام کیلئے جلال کا باعث بنی۔ ہماری وفاداری سے بھی ایسا ہو سکتا ہے