مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کریں

‏”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کریں

‏”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کریں

‏”‏جو باتیں ہم نے سنیں اُن پر اَور بھی دل لگا کر غور کرنا چاہئے تاکہ بہ کر اُن سے دُور نہ چلے جائیں۔‏“‏ —‏عبرانیوں ۲:‏۱‏۔‏

۱.‏ ظاہر کریں کہ انتشارِخیال تباہ‌کُن کیسے ثابت ہوتا ہے۔‏

ہر سال صرف ریاستہائےمتحدہ ہی میں موٹر گاڑیوں کے حادثات ۰۰۰،‏۳۷ لوگوں کی جانیں لے لیتے ہیں۔‏ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ڈرائیور گاڑی چلاتے وقت سڑک پر دھیان دیں تو ایسی متعدد اموات سے بچا جا سکتا ہے۔‏ سڑک پر موجود علامات اور اشتہارات یا ان کے اپنے سیل فونز کا استعمال موٹر چلانے والے بعض اشخاص کی توجہ منتشر کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔‏ ایسے لوگ بھی ہیں جو ڈیش‌بورڈ پر اشیائےخوردنی رکھ کر ڈرائیونگ کے دوران کھاتے رہتے ہیں۔‏ ایسے تمام حالات میں انتشارِخیال تباہ‌کُن ثابت ہوتا ہے۔‏

۲،‏ ۳.‏ پولس نے عبرانی مسیحیوں کو کیا نصیحت کی اور اُسکی مشورت موزوں کیوں تھی؟‏

۲ موٹر گاڑیوں کی ایجاد سے تقریباً ۰۰۰،‏۲ سال پہلے پولس رسول نے انتشارِخیال کی ایک ایسی قسم کی شناخت کراوئی جو بعض عبرانی مسیحیوں کیلئے تباہ‌کُن ثابت ہوئی تھی۔‏ پولس نے بیان کِیا کہ قیامت‌یافتہ یسوع مسیح کو تمام فرشتوں سے افضل مقام دیا گیا تھا کیونکہ وہ خدا کے داہنی طرف بیٹھا تھا۔‏ بعدازاں رسول نے بیان کِیا:‏ ”‏اس لئے جو باتیں ہم نے سنیں اُن پر اَور بھی دل لگا کر غور کرنا چاہئے تاکہ بہ کر اُن سے دُور نہ چلے جائیں۔‏“‏—‏عبرانیوں ۲:‏۱‏۔‏

۳ عبرانی مسیحیوں کو یسوع کے متعلق ’‏سنی ہوئی باتوں پر اَور بھی دل لگا کر غور کرنے‘‏ کی ضرورت کیوں تھی؟‏ اسلئےکہ یسوع کو زمین پر سے صعود فرمائے ہوئے تقریباً ۳۰ سال ہو چکے تھے۔‏ اپنے مالک کی غیرموجودگی میں بعض عبرانی مسیحی سچے ایمان سے دُور ہوتے جا رہے تھے۔‏ ان کا سابقہ ضابطۂ‌پرستش،‏ یہودیت ان کیلئے انتشارِخیال کا باعث بن رہا تھا۔‏

زیادہ دھیان دینے کی ضرورت

۴.‏ بعض عبرانی مسیحی یہودیت کی طرف راغب کیوں ہو سکتے تھے؟‏

۴ ایک مسیحی دوبارہ یہودیت کی طرف کیسے راغب ہو سکتا تھا؟‏ شریعت کے تحت پرستش کا نظام دیدنی چیزوں پر مبنی تھا۔‏ لوگ کاہنوں کو دیکھ سکتے تھے اور سوختنی قربانیوں کی خوشبو لے سکتے تھے۔‏ تاہم،‏ مسیحیت بعض طریقوں سے کافی مختلف تھی۔‏ مسیحیوں کا سردار کاہن یسوع مسیح تھا لیکن وہ تین عشروں سے زمین پر دکھائی نہیں دیا تھا۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۴‏)‏ اُنکی ہیکل تھی لیکن اسکا پاک مقام آسمان تھا۔‏ (‏عبرانیوں ۹:‏۲۴‏)‏ شریعت کے تحت جسمانی ختنے کی بجائے مسیحیوں کا ختنہ ”‏دل کا اور روحانی“‏ تھا۔‏ (‏رومیوں ۲:‏۲۹‏)‏ پس،‏ عبرانی مسیحیوں کو مسیحیت غیرعملی دکھائی دینے لگی تھی۔‏

۵.‏ پولس نے کیسے ظاہر کِیا کہ یسوع کا قائم‌کردہ نظامِ‌پرستش اُس سے افضل تھا جو شریعت کے تحت قائم تھا؟‏

۵ عبرانی مسیحیوں کو مسیح کے قائم‌کردہ نظامِ‌پرستش کی بابت ایک اہم حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت تھی۔‏ یہ دکھائی دینے والی چیزوں کی بجائے ایمان پر مبنی تھی تاہم یہ موسیٰ کی معرفت دی جانے والی شریعت سے افضل تھی۔‏ ”‏جب بکروں اور بیلوں کے خون اور گائے کی راکھ ناپاکوں پر چھڑکے جانے سے ظاہری پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔‏“‏ پولس نے لکھا،‏ ”‏تو مسیح کا خون جس نے اپنےآپ کو ازلی روح کے وسیلہ سے خدا کے سامنے بےعیب قربان کر دیا تمہارے دلوں کو مُردہ کاموں سے کیوں نہ پاک کریگا تاکہ زندہ خدا کی عبادت کریں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۹:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ بہتیرے طریقوں سے یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی پر ایمان لانے سے حاصل ہونے والی معافی اُس سے کہیں زیادہ افضل ہے جو شریعت کے تحت پیش کی جانے والی قربانیوں کے ذریعے فراہم کی جاتی تھی۔‏—‏عبرانیوں ۷:‏۲۶-‏۲۸‏۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ کس صورتحال نے عبرانی مسیحیوں کے لئے ”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کرنا ضروری بنا دیا تھا؟‏ (‏ب)‏ جب پولس نے عبرانیوں کے نام اپنا خط تحریر کِیا تو یروشلیم کی تباہی کے لئے کتنا وقت رہ گیا تھا؟‏ (‏دیکھیں فٹ‌نوٹ۔‏)‏

۶ عبرانی مسیحیوں کو ایک اَور وجہ کی بِنا پر یسوع کی بابت سنی ہوئی باتوں پر گہری توجہ دینے کی ضرورت تھی۔‏ اُس نے یروشلیم کی تباہی کی پیشینگوئی کی تھی۔‏ یسوع نے بیان کِیا تھا:‏ ”‏وہ دن تجھ پر آئینگے کہ تیرے دشمن تیرے گرد مورچہ باندھ کر تجھے گھیر لینگے اور ہر طرف سے تنگ کرینگے۔‏ اور تجھ کو اور تیرے بچوں کو جو تجھ میں ہیں زمین پر دے پٹکیں گے اور تجھ میں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ چھوڑینگے اسلئےکہ تُو نے اُس وقت کو نہ پہچانا جب تجھ پر نگاہ کی گئی۔‏“‏—‏لوقا ۱۹:‏۴۳،‏ ۴۴‏۔‏

۷ یہ کب واقع ہونا تھا؟‏ یسوع نے اُس دن اور گھڑی کو ظاہر نہیں کِیا تھا۔‏ اسکی بجائے اُس نے یہ ہدایت دی:‏ ”‏جب تم یرؔوشلیم کو فوجوں سے گھرا ہوا دیکھو تو جان لینا کہ اُسکا اُجڑ جانا نزدیک ہے۔‏ اُس وقت جو یہوؔدیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں اور جو یرؔوشلیم کے اندر ہوں باہر نکل جائیں اور جو دیہات میں ہوں شہر میں نہ جائیں۔‏“‏ (‏لوقا ۲۱:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ یسوع کے اس بیان کے ۳۰ سال بعد،‏ یروشلیم میں رہنے والے بعض مسیحیوں نے اس کی اہمیت کھو دی اور اُنکی توجہ منتشر ہو گئی۔‏ اُنہوں نے گویا ڈرائیونگ کے دوران اپنی آنکھیں راستہ سے ہٹا لی تھیں۔‏ اگر وہ اپنی سوچ تبدیل نہ کرتے تو تباہی یقینی تھی۔‏ اُنکے خیالات سے قطع‌نظر،‏ یروشلیم کی بربادی ناگزیر تھی!‏ * یہ بات اُمیدافزا ہے کہ پولس کی نصیحت نے یروشلیم میں روحانی غنودگی کا شکار مسیحیوں کو بیدار کرنے کا کام انجام دیا۔‏

آجکل ”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کرنا

۸.‏ ہمیں خدا کے کلام کی سچائیوں پر ”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کیوں کرنا چاہئے؟‏

۸ پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح،‏ ہمیں بھی خدا کے کلام کی سچائیوں پر ”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کرنا چاہئے۔‏ کیوں؟‏ اسلئےکہ ہمیں بھی ایک قوم کی بجائے پورے نظام‌اُلعمل کی ناگزیر تباہی کا سامنا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۱:‏۱۸؛‏ ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۶‏)‏ بیشک،‏ ہم اُس خاص دن اور گھڑی کی بابت تو نہیں جانتے کہ یہوواہ کب کارروائی کرے گا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳۶‏)‏ اس کے باوجود ہم ان بائبل پیشینگوئیوں کی تکمیل کے عینی‌شاہد ہیں جو واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ ہم ”‏اخیر زمانہ“‏ میں رہتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ لہٰذا ہمیں ایسی تمام چیزوں سے محتاط رہنا چاہئے جو ہماری توجہ کو منتشر کر سکتی ہیں۔‏ ہمیں خدا کے کلام پر دھیان دینے اور وقت کی اہمیت کو سمجھنے کی ضروت ہے۔‏ ایسا کرنے ہی سے ہم ”‏ان سب ہونے والی باتوں سے بچنے“‏ میں کامیاب ہونگے۔‏—‏لوقا ۲۱:‏۳۶‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏ا)‏ ہم روحانی معاملات پر توجہ کیسے دے سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ خدا کا کلام ’‏ہمارے قدموں کیلئے چراغ‘‏ اور ’‏ہماری راہ کیلئے روشنی‘‏ کیسے ہے؟‏

۹ ان اہم اوقات میں ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم روحانی چیزوں پر ”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کرتے ہیں؟‏ اس کا ایک طریقہ مسیحی اجلاسوں،‏ اسمبلیوں اور کنونشنوں پر ہماری باقاعدہ حاضری ہے۔‏ ہمیں بائبل کے مستعد طالبعلم ہونا چاہئے تاکہ ہم اسکے مصنف یہوواہ کی قربت حاصل کر سکیں۔‏ (‏یعقوب ۴:‏۸‏)‏ اگر ہم ذاتی مطالعے اور اجلاسوں کے ذریعے یہوواہ کی بابت علم حاصل کرتے ہیں تو ہم زبورنویس کی طرح ہونگے جس نے خدا سے کہا:‏ ”‏تیرا کلام میرے قدموں کے لئے چراغ اور میری راہ کے لئے روشنی ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۹:‏۱۰۵‏۔‏

۱۰ مستقبل کی بابت خدا کے مقاصد کو بیان کرنے سے بائبل ’‏ہماری راہ کیلئے روشنی‘‏ فراہم کرتی ہے۔‏ یہ ’‏ہمارے قدموں کیلئے چراغ‘‏ بھی ہے۔‏ باالفاظِ‌دیگر،‏ یہ اگلا قدم اُٹھانے میں بھی ہماری مدد کرتی ہے جب ہمیں زندگی کے تکلیف‌دہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔‏ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم ساتھی ایمانداروں کیساتھ ہدایت حاصل کرنے کیلئے جمع ہوتے اور خدا کے کلام کی ذاتی پڑھائی کرتے وقت ”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کریں۔‏ ہم جو معلومات حاصل کرتے ہیں اُن سے ہمیں دانشمند بننے،‏ یہوواہ کو خوش کرنے اور اُسکے دل کو شاد کرنے والے مفید فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱؛‏ یسعیاہ ۴۸:‏۱۷‏)‏ ہم خدا کی روحانی فراہمیوں سے بھرپور فائدہ حاصل کرنے کیلئے اجلاسوں اور ذاتی مطالعے کے دوران اپنے توجہ کے دورانیے کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏

اجلاسوں پر اپنی توجہ میں بہتری لانا

۱۱.‏ بعض‌اوقات مسیحی اجلاسوں پر توجہ دینا ایک چیلنج کیوں ہو سکتا ہے؟‏

۱۱ بعض‌اوقات مسیحی اجلاسوں پر توجہ دینا ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔‏ بچوں کے رونے یا دیر سے آ کر نشست تلاش کرنے والے ایک شخص کی وجہ سے ذہن بآسانی انتشارِخیال کا شکار ہو سکتا ہے۔‏ پورے دن کے کام‌کاج کے بعد ہم تھک سکتے ہیں۔‏ پلیٹ‌فارم سے بات‌چیت کرنے والا شخص شاید دلچسپی اُبھارنے والا مقرر ثابت نہیں ہوتا جس کے باعث ہم بہت جلد انتشارِخیال میں پڑ سکتے ہیں یا شاید اُونگھنے لگ سکتے ہیں!‏ اہم معلومات کے پیشِ‌نظر ہمیں کلیسیائی اجلاسوں پر اپنی توجہ کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ تاہم ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۲.‏ کونسی چیز اجلاسوں پر توجہ دینے کو آسان بنا سکتی ہے؟‏

۱۲ اگر اچھی تیاری ہو تو اجلاسوں پر توجہ دینا عموماً آسان ہوتا ہے۔‏ لہٰذا کیوں نہ زیرِغور آنے والے مواد پر قبل‌ازوقت غور کرنے کیلئے وقت مختص کِیا جائے؟‏ ہفتہ‌وار بائبل پڑھائی کے تفویض‌کردہ ابواب کے کچھ حصے کو روزانہ پڑھنے اور اس پر غوروخوض کرنے کے لئے صرف چند منٹ ہی لگتے ہیں۔‏ تھوڑی سی منصوبہ‌سازی کے ساتھ ہم کلیسیائی کتابی مطالعے اور مینارِنگہبانی کے مطالعے کی تیاری کیلئے بھی وقت نکال سکتے ہیں۔‏ ہم کسی بھی شیڈول کا انتخاب کریں ایک بات یقینی ہے:‏ تیاری کلیسیائی اجلاسوں پر زیرِغور مواد پر توجہ دینے میں ہماری مدد کریگی۔‏

۱۳.‏ اجلاسوں پر زیرِبحث آنے والے مواد پر توجہ مُرتکز رکھنے میں کونسی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

۱۳ اچھی تیاری کے علاوہ،‏ بعض لوگ محسوس کرتے ہیں کہ کنگڈم ہال کی سامنے والی نشستوں پر بیٹھنے سے وہ اجلاسوں پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں۔‏ مقرر کیساتھ مرئی رابطہ رکھنا،‏ پڑھے جانے والے صحیفے کو بائبل سے دیکھنا اور نوٹس لینا انتشارِخیال سے بچنے کے دیگر طریقے ہیں۔‏ تاہم،‏ آمادہ دل توجہ کو بہتر بنانے کے کسی بھی طریقہ سے زیادہ اہم ہے۔‏ ہمیں باہم جمع ہونے کے مقصد کو سمجھنا چاہئے۔‏ ہم بنیادی طور پر یہوواہ کی پرستش کرنے کیلئے ساتھی ایمانداروں کیساتھ جمع ہوتے ہیں۔‏ (‏زبور ۲۶:‏۱۲؛‏ لوقا ۲:‏۳۶،‏ ۳۷‏)‏ اجلاس ہمارے لئے روحانی خوراک حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ یہ ہمیں ’‏محبت اور نیک کاموں میں ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرنے‘‏ کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

۱۴.‏ کونسی چیز ایک اجلاس کو واقعی کامیاب بناتی ہے؟‏

۱۴ بعض لوگ شرکاء کی تعلیمی مہارتوں کی بنیاد پر کسی اجلاس کے معیار کا اندازہ لگاتے ہیں۔‏ مقررین کی قابلیت کی بنیاد پر اجلاس کو عمدہ قرار دیا جا سکتا ہے۔‏ تاہم جب تعلیم مؤثر نہ ہو تو ہمارا نظریہ فرق ہو سکتا ہے۔‏ یہ بات سچ ہے کہ پروگرام میں حصہ لینے والوں کو فنِ‌تعلیم اور خاص طور پر دل تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیتوں کو عمل میں لانے کی حتی‌المقدور کوشش کرنی چاہئے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۶‏)‏ تاہم،‏ سامعین کے طور پر ہمیں حد سے زیادہ تنقید نہیں کرنی چاہئے۔‏ اگرچہ شرکاء کی تعلیمی مہارت اہمیت کی حامل ہے توبھی یہ ایک اجلاس کی کامیابی کا واحد عنصر نہیں۔‏ کیا آپ اتفاق نہیں کرینگے کہ ہماری بنیادی فکر مقرر کی اعلیٰ فنِ‌تقریر کی خوبیوں کی بجائے یہ ہونی چاہئے کہ ہم کس طرح سنتے ہیں؟‏ جب ہم اجلاسوں پر حاضر ہوتے اور پیش‌کردہ باتوں پر دھیان دیتے ہیں تو ہم خدا کی مرضی کی مطابقت میں اُسکی پرستش کرتے ہیں۔‏ ایک اجلاس کی کامیابی کا انحصار اسی بات پر ہوتا ہے۔‏ اگر ہم خدا کی بابت علم حاصل کرنے کے مشتاق ہیں تو ہم مقرر کی مہارتوں سے قطع‌نظر اجلاسوں سے استفادہ کرینگے۔‏ (‏امثال ۲:‏۱-‏۵‏)‏ پس ہمیں اجلاسوں پر ”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کرنے کیلئے پُرعزم رہنا چاہئے۔‏

ذاتی مطالعے سے بھرپور فائدہ حاصل کریں

۱۵.‏ ہم مطالعے اور غوروخوض سے کیسے استفادہ کر سکتے ہیں؟‏

۱۵ ہم ذاتی مطالعے اور غوروخوض کے مواقع پر ”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کرنے سے بھرپور فائدہ حاصل کرتے ہیں۔‏ بائبل اور مسیحی مطبوعات کی پڑھائی اور غوروخوض ہمیں خدا کے کلام کی سچائیوں کو اپنے دل پر نقش کرنے کے بیش‌قیمت مواقع فراہم کرتا ہے۔‏ اس سے ہماری سوچ اور طرزِعمل پر گہرا اثر پڑتا ہے۔‏ واقعی،‏ یہ خوشی سے یہوواہ کی مرضی پوری کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‏ (‏زبور ۱:‏۲؛‏ ۴۰:‏۸‏)‏ لہٰذا،‏ ہمیں اپنی توجہ مُرتکز رکھنے کی لیاقتوں کو فروغ دینا چاہئے تاکہ ہم مطالعے کے وقت انہیں عمل میں لا سکیں۔‏ انتشارِخیال کا شکار ہو جانا واقعی آسان ہے!‏ معمولی سا خلل—‏شاید فون کی گھنٹی یا کوئی اَور آواز ہماری توجہ منتشر کر سکتی ہے۔‏ یا محض ہماری توجہ کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے۔‏ ہم روحانی خوراک حاصل کرنے کے نیک ارادوں کیساتھ مطالعہ شروع کر سکتے ہیں لیکن بہت جلد ہمارا ذہن دوسری باتوں کی طرف چلا جاتا ہے۔‏ ہم خدا کے کلام کے ذاتی مطالعہ کے دوران ”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۶.‏ (‏ا)‏ ذاتی مطالعہ کیلئے وقت مختص کرنا ہمارے لئے کیوں ضروری ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ نے خدا کے کلام کے مطالعے کیلئے وقت کیسے نکالا ہے؟‏

۱۶ ایک شیڈول تیار کرنا اور مطالعہ کیلئے مفید جگہ کا انتخاب کرنا فائدہ‌مند ہوتا ہے۔‏ ہم میں سے بہتیرے خلوت کیلئے وقت تلاش کرنا مشکل پاتے ہیں۔‏ دن‌بھر کی مصروفیات سے ہم ایسا محسوس کر سکتے ہیں کہ جیسے ہم تیز دریا میں بہنے والی ایک شاخ کی مانند ہیں۔‏ واقعی،‏ ہمیں دریا کے بہاؤ کی مزاحمت کرتے ہوئے اطمینان کے کسی چھوٹے جزیرے کی تلاش کرنی چاہئے۔‏ ہم محض اس انتظار میں نہیں رہ سکتے کہ کبھی نہ کبھی مطالعے کا موقع مل ہی جائیگا۔‏ اسکی بجائے ہمیں مطالعے کیلئے وقت نکالتے ہوئے صورتحال پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ بعض لوگ صبح کے دوران کچھ وقت مختص کرتے ہیں جب خلل کم ہوتا ہے۔‏ دیگر لوگ شام کے وقت کو بہتر پاتے ہیں۔‏ تاہم،‏ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں خدا اور اُسکے بیٹے کی بابت صحیح علم حاصل کرنے کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۳‏)‏ پس ہمیں ذاتی مطالعے کیلئے وقت مختص کرنا چاہئے اور پھر اس شیڈول کی پابندی کرنی چاہئے۔‏

۱۷.‏ غوروخوض کیا ہے اور یہ ہمیں کیسے فائدہ پہنچا سکتا ہے؟‏

۱۷ غوروخوض—‏مطالعہ کے ذریعے سیکھی ہوئی باتوں پر غور کرنے کا عمل—‏بیش‌قیمت ہے۔‏ یہ خدا کے خیالات کو اپنے دل میں نقش کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‏ غوروخوض بائبل کی نصیحت کا اطلاق کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم ’‏کلام پر عمل کرنے والے بنیں نہ محض سننے والے۔‏‘‏ (‏یعقوب ۱:‏۲۲-‏۲۵‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ غوروخوض یہوواہ کے قریب جانے میں ہماری مدد کرتا ہے کیونکہ یہ ہمیں اُس کی خوبیاں ظاہر کرنے اور یہ سمجھنے کے قابل بناتا ہے کہ مطالعہ کا مواد انہیں کیسے نمایاں کرتا ہے۔‏

۱۸.‏ مؤثر غوروخوض کیلئے کیسی حالتیں ضروری ہیں؟‏

۱۸ مطالعے اور غوروخوض سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لئے ہمیں اپنے ذہن کو انتشارِخیال میں ڈالنے والی چیزوں سے پاک رکھنا چاہئے۔‏ غوروخوض کرتے وقت نئے مواد کو ذہن‌نشین کرنے کے لئے ہمیں موجودہ زندگی میں خلل کا باعث بننے والی چیزوں سے بچنا چاہئے۔‏ ایسا کرنے کے لئے وقت اور تنہائی کی ضرورت ہے تاہم روحانی خوراک اور خدا کے کلام میں پائی جانے والی سچائی کے پانیوں سے مستفید ہونا کس قدر تازگی‌بخش ہے!‏

۱۹.‏ (‏ا)‏ ذاتی مطالعہ کے سلسلے میں بعض لوگوں نے اپنی توجہ کا دورانیہ کیسے بڑھایا ہے؟‏ (‏ب)‏ مطالعہ کی بابت ہمارا رُجحان کیسا ہونا چاہئے اور اس اہم کارگزاری سے ہم کونسے فوائد حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ اگر ہماری توجہ کا دورانیہ کم ہے اور ایک مختصر وقت کیلئے مطالعہ کرنے کے بعد ہمارا ذہن بھٹکنے لگتا ہے تو پھر کیا ہو؟‏ بعض لوگوں نے محسوس کِیا ہے کہ شروع میں کم وقت کیلئے مطالعہ کرنا اور پھر آہستہ آہستہ اسکی مدت کو بڑھانا توجہ مُرتکز کرنے کی انکی لیاقتوں میں بہتری کا باعث بنا ہے۔‏ ہمارا مقصد مطالعے سے جان چھڑانے کی بجائے اس پر کافی وقت صرف کرنا ہے۔‏ ہمیں زیرِغور مضمون کیلئے گہری دلچسپی پیدا کرنی ہے۔‏ نیز ہم دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت کے ذریعے فراہم‌کردہ وسیع مواد کے استعمال سے مزید تحقیق کر سکتے ہیں۔‏ ’‏خدا کی تہ کی باتوں‘‏ پر غور کرنا نہایت فائدہ‌مند ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۰‏)‏ ایسا کرنے سے ہم خدا کی بابت اپنے علم میں اضافہ اور اپنے حواس کی تربیت کر سکتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۴‏)‏ اگر ہم خدا کے کلام کے مستعد طالبعلم ہیں تو ہم ”‏اَوروں کو بھی سکھانے کے قابل“‏ ہونگے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲‏۔‏

۲۰.‏ ہم یہوواہ خدا کیساتھ ایک ذاتی رشتہ کیسے اُستوار اور قائم رکھ سکتے ہیں؟‏

۲۰ مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے اور ذاتی مطالعہ کرنے سے یہوواہ کے ساتھ ایک ذاتی رشتہ اُستوار کرنے اور قائم رکھنے میں ہماری بڑی مدد ہوگی۔‏ بدیہی طور پر،‏ زبورنویس کی بابت بھی یہ بات سچ تھی جس نے خدا سے بیان کِیا:‏ ”‏آہ!‏ مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں۔‏ مجھے دن‌بھر اُسی کا دھیان رہتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۹۷‏)‏ پس ہمیں اجلاسوں،‏ اسمبلیوں اور کنونشنوں پر باقاعدہ حاضر ہونے کی حتی‌المقدور کوشش کرنی چاہئے۔‏ نیز دُعا ہے کہ ہم بائبل مطالعے اور غوروخوض کے لئے وقت نکال سکیں۔‏ یوں خدا کے کلام پر ”‏اَور بھی دل لگا کر غور“‏ کرنے سے ہم کثیر برکات کا تجربہ کریں گے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 عبرانیوں کے نام خط غالباً ۶۱ س.‏ع.‏ میں لکھا گیا تھا۔‏ اگر ایسا تھا تو سیسٹیئس گیلس کی فوج نے تقریباً پانچ سال بعد یروشلیم کا محاصرہ کِیا تھا۔‏ بہت جلد فوجیں پیچھے ہٹ گئیں اور یوں چوکنا مسیحیوں کو بھاگنے کا موقع مل گیا۔‏ چار سال بعد،‏ جنرل ٹائٹس کے تحت رومی افواج نے شہر کو تباہ‌وبرباد کر دیا۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• بعض عبرانی مسیحی سچے ایمان سے کیوں دُور ہو رہے تھے؟‏

‏• ہم مسیحی اجلاسوں پر توجہ کیسے مُرتکز رکھ سکتے ہیں؟‏

‏• کونسی چیز بائبل کے ذاتی مطالعے اور غوروخوض سے فائدہ اُٹھانے میں ہماری مدد کریگی؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

عبرانی مسیحیوں کو یروشلیم کی ناگزیر تباہی‌وبربادی کی بابت محتاط رہنا تھا

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

والدین مسیحی اجلاسوں سے استفادہ کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں