مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏سپتواُجنتا“‏—‏ماضی اور حال میں کارآمد

‏”‏سپتواُجنتا“‏—‏ماضی اور حال میں کارآمد

‏”‏سپتواُجنتا“‏‏—‏ماضی اور حال میں کارآمد

ایتھیوپیا کا ایک بارُسوخ شخص یروشلیم سے اپنے گھر جا رہا تھا۔‏ اپنے رتھ پر سوار ایک صحرائی راستے سے گزرتے ہوئے وہ ایک مذہبی طومار پڑھتا جا رہا تھا۔‏ اس پر پڑھے جانے والے بیان کی وضاحت کا اسقدر گہرا اثر ہوا کہ اُس وقت سے اُسکی زندگی ہی بدل گئی۔‏ (‏اعمال ۸:‏۲۶-‏۳۸‏)‏ وہ شخص بائبل کے پہلے ترجمے—‏یونانی سپتواُجنتا سے یسعیاہ ۵۳:‏۷،‏ ۸ پڑھ رہا تھا۔‏ اس ترجمے نے بائبل کے پیغام کو پھیلانے میں اس قدر اہم کردار ادا کِیا ہے کہ صدیوں کے دوران اسے دُنیا بدل دینے والے بائبل ترجمے کا نام دیا گیا ہے۔‏

سپتواُجنتا کب اور کن حالات کے تحت تیار کِیا گیا تھا؟‏ ایسے ترجمے کی ضرورت کیوں پڑی؟‏ صدیوں کے دوران یہ کسقدر کارآمد ثابت ہوا ہے؟‏ کیا سپتواُجنتا آج بھی ہمیں کچھ سکھا سکتا ہے

یونانی بولنے والے یہودیوں کیلئے ترتیب دیا گیا

سن ۳۳۲ ق.‏س.‏ع.‏ میں،‏ جب سکندرِاعظم نے فینیکی شہر صور کو تباہ کرنے کے بعد مصر میں قدم رکھا تو اُسکا استقبال ایک نجات‌دہندہ کے طور پر کِیا گیا۔‏ وہاں اُس نے قدیم دُنیا کے تعلیمی مرکز،‏ سکندریہ کے شہر کی بنیاد ڈالی۔‏ تمام مفتوحہ علاقوں کے لوگوں میں یونانی ثقافت کو عام کرنے کی خواہش میں سکندر نے اپنی وسیع سلطنت میں عام یونانی زبان (‏کوئنے)‏ متعارف کرائی۔‏

تیسری صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں سکندریہ میں یہودیوں کی ایک بڑی آبادی موجود تھی۔‏ بابلی غلامی کے بعد فلسطین کے باہر منتشر کالونیوں میں رہنے والے بہتیرے یہودی سکندریہ منتقل ہو گئے تھے۔‏ یہ یہودی لوگ عبرانی زبان سے کس حد تک واقف تھے؟‏ میک‌کلن‌ٹاک اور سٹرانگ کا سائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ بات عام ہے کہ بابل کی اسیری سے لوٹنے والے یہودی قدیم عبرانی زبان کے علم سے بڑی حد تک ناواقف تھے لہٰذا اُن کے لئے فلسطین کی ہیکلوں میں موسوی کتابوں کی پڑھائی کی کلدانی زبان میں وضاحت کی جاتی تھی۔‏ .‏ .‏ .‏ سکندریہ کے یہودیوں کا عبرانی زبان کا علم اس سے بھی کم تھا؛‏ وہ سکندریہ کی یونانی زبان بولتے تھے۔‏“‏ بدیہی طور پر سکندریہ میں عبرانی صحائف کے یونانی ترجمے کے لئے ماحول اور حالات سازگار تھے۔‏

دوسری صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں رہنے والے ایک یہودی،‏ ارسطوبولس نے لکھا کہ عبرانی شریعت کا یونانی ترجمہ بطلیموس فلدلفاس (‏۲۸۵-‏۲۴۶ ق.‏س.‏ع.‏)‏ کے دورِحکومت میں مکمل کِیا گیا تھا۔‏ اس بات پر اختلافِ‌رائے پائی جاتی ہے کہ ”‏شریعت“‏ سے ارسطوبولس کا کیا مطلب تھا۔‏ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ محض توریت کا حوالہ دے رہا تھا جبکہ دیگر لوگوں کے مطابق اُس نے غالباً تمام عبرانی صحائف کو مدِنظر رکھا ہوگا۔‏

بہرکیف،‏ روایت کے مطابق،‏ تقریباً ۷۲ یہودی علما نے عبرانی سے یونانی زبان میں صحائف کے اس پہلے ترجمے میں حصہ لیا تھا۔‏ بعدازاں،‏ ان کی تعداد کے لئے مجموعی طور پر ۷۰ کا عدد استعمال ہونے لگا۔‏ لہٰذا یہ ترجمہ سپتواُجنتا کہلایا جس کا مطلب ”‏۷۰“‏ ہے اور اس کے لئے ۷۰ کا رومی عدد LXX مختص کِیا گیا۔‏ دوسری صدی ق.‏س.‏ع.‏ کے آخر تک عبرانی صحائف کی تمام کتابیں یونانی زبان میں پڑھی جا سکتی تھیں۔‏ پس،‏ نام سپتواُجنتا یونانی زبان میں عبرانی صحائف کے ترجمہ کے لئے استعمال ہونے لگا۔‏

پہلی صدی میں کارآمد

یسوع مسیح اور اُس کے رسولوں سے پہلے اور اُن کے زمانے میں یونانی بولنے والے یہودیوں نے سپتواُجنتا کا بھرپور استعمال کِیا۔‏ پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ کے دن یروشلیم میں جمع ہونے والے یہودی اور نومرید ایشیا،‏ مصر،‏ لیبیا،‏ روم اور کریتے سے تعلق رکھتے تھے—‏ایسے علاقے جہاں یونانی زبان عام تھی۔‏ بِلاشُبہ،‏ وہ عموماً سپتواُجنتا پڑھتے تھے۔‏ (‏اعمال ۲:‏۹-‏۱۱‏)‏ لہٰذا اس ترجمے نے پہلی صدی میں خوشخبری کی تشہیر میں اہم کردار ادا کِیا۔‏

مثال کے طور پر،‏ کرینے،‏ سکندریہ،‏ کِلکیہ اور آسیہ کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے شاگرد ستفنس نے بیان کِیا:‏ ”‏یوؔسف نے اپنے باپ یعقوؔب اور سارے کُنبے کو جو پچھتّر جانیں تھیں [‏کنعان سے]‏ بلا بھیجا۔‏“‏ (‏اعمال ۶:‏۸-‏۱۰؛‏ ۷:‏۱۲-‏۱۴‏)‏ پیدایش ۴۶ باب میں عبرانی متن کے مطابق یوسف کے رشتہ‌داروں کی تعداد ستر تھی۔‏ لیکن سپتواُجنتا میں پچھتّر کا عدد استعمال ہوا ہے۔‏ بدیہی طور پر،‏ ستفنس نے سپتواُجنتا سے حوالہ دیا تھا۔‏—‏پیدایش ۴۶:‏۲۰،‏ ۲۶،‏ ۲۷‏۔‏

پولس رسول نے ایشیائےکوچک اور یونان میں اپنے دوسرے اور تیسرے مشنری دورے پر خدا کا خوف ماننے والے بہتیرے غیرقوم لوگوں اور ”‏خداپرست یونانیوں“‏ میں منادی کی تھی۔‏ (‏اعمال ۱۳:‏۱۶،‏ ۲۶؛‏ ۱۷:‏۴‏)‏ یہ لوگ سپتواُجنتا سے خدا کی بابت کچھ علم حاصل کرنے کی وجہ سے اُس کا مؤدبانہ خوف رکھتے یا اُس کی پرستش کرتے تھے۔‏ ان یونانی بولنے والے لوگوں میں منادی کرتے وقت پولس نے اکثر اس ترجمے کا حوالہ دیا یا اس کے کچھ حصوں کی وضاحت کی۔‏—‏پیدایش ۲۲:‏۱۸؛‏ گلتیوں ۳:‏۸‏۔‏

مسیحی یونانی صحائف میں عبرانی صحائف سے تقریباً ۳۲۰ براہِ‌راست حوالہ‌جات اور کُل ملا کر کوئی ۸۹۰ اقتباسات اور حوالے شامل ہیں۔‏ ان میں سے بہتیرے سپتواُجنتا پر مبنی ہیں۔‏ نتیجتاً عبرانی مسودوں کی بجائے اس ترجمے سے لئے گئے حوالہ‌جات الہامی مسیحی یونانی صحائف کا حصہ بنے۔‏ یہ حقیقت کس قدر اہم ہے!‏ یسوع نے پیشینگوئی کی تھی کہ زمین کی تمام قوموں میں بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کی جائے گی۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ یہوواہ اس مقصد کی تکمیل کے لئے دُنیابھر کے لوگوں کی مختلف زبانوں میں اپنے الہامی کلام کے ترجمے کی اجازت دیتا۔‏

زمانۂ‌جدید میں کارآمد

سپتواُجنتا آج بھی بیش‌قیمت ہے اور اسکا استعمال بعدازاں عبرانی مسودوں میں نقل‌نویسوں کی نادانستہ غلطیوں کی شناخت کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ پیدایش ۴:‏۸‏،‏ این‌ڈبلیو کے بیان کے مطابق:‏ ”‏قاؔئن نے اپنے بھائی ہابلؔ کو کہا:‏ [‏’‏آو ہم کھیت میں چلیں۔‏‘‏]‏ اور جب وہ دونوں کھیت میں تھے تو یوں ہوا کہ قاؔئن نے اپنے بھائی ہابلؔ پر حملہ کِیا اور اُسے قتل کر ڈالا۔‏“‏

قوسین کی عبارت ”‏آو ہم کھیت میں چلیں“‏ دسویں صدی س.‏ع.‏ سے تعلق رکھنے والے عبرانی مسودوں میں موجود نہیں ہے۔‏ تاہم،‏ یہ سپتواُجنتا کے پُرانے مسودوں اور چند ابتدائی حوالہ‌جات میں شامل ہے۔‏ ان عبرانی مسودوں میں اس بیان کو متعارف کرانے والا لفظ تو موجود ہے لیکن اس کے بعد کوئی عبارت نہیں دی گئی۔‏ اسکی کیا وجہ تھی؟‏ پیدایش ۴:‏۸ میں دو متواتر جزوجملوں کا اختتام ”‏کھیت میں“‏ کے اظہار سے ہوتا ہے۔‏ میک‌کلن‌ٹاک اور سٹرانگ کا سائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے:‏ ”‏عبرانی نقل‌نویسوں کی آنکھ نے غالباً ایک جیسے دو الفاظ سے دھوکا کھا کر .‏ .‏ .‏ دونوں جزوجملہ کو نظر انداز کر دیا تھا۔‏“‏ پس نقل‌نویس نے ”‏آو ہم کھیت میں چلیں“‏ کے پہلے اظہار کو غلطی سے چھوڑ دیا ہوگا۔‏ واضح طور پر،‏ سپتواُجنتا کے علاوہ دیگر قدیم مسودے جو اب تک موجود ہیں عبرانی متن کی بعدازاں کی جانے والی نقلوں میں غلطیوں کی شناخت کرنے میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔‏

تاہم،‏ سپتواُجنتا کی نقلوں میں بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں اور بعض‌اوقات عبرانی متن کے ذریعے یونانی متن کو درست کِیا جاتا ہے۔‏ پس،‏ یونانی اور دیگر زبانوں کے ترجموں کا موازنہ عبرانی مسودوں کیساتھ کرنے سے ترجمے اور نقل‌نویسی کی غلطیوں کی شناخت اور خدا کے کلام کے درست ترجمے کا یقین کِیا جا سکتا ہے۔‏

سپتواُجنتا کی مکمل کاپیاں جو اب بھی موجود ہیں چوتھی صدی س.‏ع.‏ سے تعلق رکھتی ہیں۔‏ ان مسودوں اور بعد میں نقل کی جانے والی کاپیوں میں الہٰی نام یہوواہ جسکی نمائندگی عبرانی میں ٹیٹراگریمٹن ‏(‏یود ھے واو ھے)‏ سے ہوتی ہے موجود نہیں۔‏ ان کاپیوں میں اُس جگہ متبادل الفاظ ”‏خدا“‏ اور ”‏خداوند“‏ استعمال ہوئے ہیں جہاں عبرانی متن میں ٹیٹراگریمٹن آتا ہے۔‏ تاہم،‏ ۱۹۶۱ میں فلسطین کی ایک دریافت نے اس معاملے پر روشنی ڈالی۔‏ قمران کے کھنڈرات میں غاروں کی تحقیق کرنے والی ایک ٹیم نے قدیم چمڑے کے طوماروں کے حصے دریافت کئے جو بارہ نبیوں (‏ہوسیع سے ملاکی)‏ کے تھے۔‏ یہ تحریریں ۵۰ ق.‏س.‏ع.‏ سے لے کر ۵۰ س.‏ع.‏ سے تعلق رکھتی تھیں۔‏ ان ابتدائی حصوں میں ٹیٹراگریمٹن کی جگہ یونانی الفاظ ”‏خدا“‏ اور ”‏خداوند“‏ کا استعمال نہیں کِیا گیا۔‏ پس اس سے صحائف کے ابتدائی سپتواُجنتا ترجمے میں الہٰی نام کے استعمال کی تصدیق ہوتی ہے۔‏

سن ۱۹۷۱ میں قدیم پیپرس کے طومار (‏فاؤڈ ۲۶۶ پاپائرائی)‏ کے حصوں کو شائع کِیا گیا۔‏ پہلی یا دوسری صدی ق.‏س.‏ع.‏ سے تعلق رکھنے والے سپتواُجنتا کے یہ حصے کیا ظاہر کرتے تھے؟‏ الہٰی نام ان میں بھی محفوظ تھا۔‏ سپتواُجنتا کے یہ ابتدائی حصے اس بات کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ یسوع اور اُسکے پہلی صدی کے شاگرد خدا کا نام جانتے تھے اور اسے استعمال کرتے تھے۔‏

بائبل تاریخ میں سب سے زیادہ ترجمہ کی گئی کتاب ہے۔‏ دُنیا کے ۹۰ فیصد سے زائد انسانی خاندان اپنی زبان میں اسے پڑھ سکتے ہیں۔‏ ہم خاص طور پر شکرگزار ہیں کہ جدید زبان میں بائبل کے مکمل یا اس کے کچھ حصوں کا درست ترجمہ،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن آف دی ہولی سکرپچرز اب ۴۰ سے زائد زبانوں میں دستیاب ہے۔‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن آف دی ہولی سکرپچرز—‏وِد ریفرنسز میں سپتواُجنتا اور دیگر قدیم مسودوں کے ہزاروں فٹ‌نوٹ موجود ہیں۔‏ واقعی،‏ سپتواُجنتا ہمارے زمانہ کے بائبل طالبعلموں کی دلچسپی اور قدردانی کا حامل ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

شاگرد فلپس نے ”‏سپتواُجنتا“‏ سے پڑھے گئے ایک اقتباس کی وضاحت کی

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویریں]‏

پولس رسول نے اکثر ”‏سپتواُجنتا“‏ سے حوالہ دیا