مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرتے رہیں

سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرتے رہیں

سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرتے رہیں

‏”‏جو باتیں تم نے مجھ سے سیکھیں اور حاصل کیں اور سنیں اور مجھ میں دیکھیں اُن پر عمل کِیا کرو تو خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے تمہارے ساتھ رہیگا۔‏“‏—‏فلپیوں ۴:‏۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ عام طور پر کیا بائبل مذہبی ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کی زندگیوں پر کوئی اثر ڈالتی ہے؟‏ واضح کریں۔‏

‏”‏مذہب مقبولیت حاصل کر رہا ہے لیکن اخلاقیت کا معیار گِرتا جا رہا ہے۔‏“‏ اخباری مراسلے ایمرجنگ ٹرینڈز کی اِس شہ‌سرخی نے ریاستہائےمتحدہ میں قومی سطح پر ایک سروے کے نتائج کی تلخیص کی۔‏ بدیہی طور پر،‏ اس ملک میں چرچ جانے اور اپنی زندگیوں میں مذہب کی اہمیت کو تسلیم کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‏ تاہم،‏ رپورٹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏اِن اثرآفرین اعدادوشمار کے باوجود بہتیرے امریکی انفرادی زندگیوں اور بالعموم معاشرے پر مذہبی ایمان کے اثر کی بابت مُتشکِک ہیں۔‏“‏

۲ یہ صورتحال صرف ایک ملک کی نہیں ہے۔‏ دُنیابھر میں بہتیرے لوگ بائبل کو قبول کرنے اور مذہبی ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اُنکی زندگی میں صحائف کا کوئی حقیقی اثر دکھائی نہیں دیتا۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۵‏)‏ ایک تحقیقی گروپ کے سربراہ نے بیان کِیا ”‏ہم اب بھی بائبل کی بڑی عزت کرتے ہیں تاہم اسکی پڑھائی،‏ مطالعے اور اطلاق کیلئے وقت نکالنا ماضی کی بات ہو چکی ہے۔‏“‏

۳.‏ (‏ا)‏ بائبل سچے مسیحیوں پر کیسا اثر ڈالتی ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع کے شاگرد فلپیوں ۴:‏۹ میں درج پولس کی مشورت کا اطلاق کیسے کرتے ہیں؟‏

۳ تاہم،‏ خلوصدل مسیحیوں کی حالت فرق ہے۔‏ خدا کے کلام کی مشورت کے اطلاق نے اُنکی سوچ اور چال‌چلن کو تبدیل کِیا ہے۔‏ نیز انکی نئی انسانیت کے اظہارات دوسروں کو واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۵-‏۱۰‏)‏ یسوع کے شاگردوں کیلئے بائبل کوئی ایسی کتاب نہیں جو بند پڑی دُھول جمع کرتی ہے۔‏ اسکے برعکس،‏ پولس رسول نے فلپی کے مسیحیوں کو بتایا:‏ ”‏جو باتیں تم نے مجھ سے سیکھیں اور حاصل کیں اور سنیں اور مجھ میں دیکھیں اُن پر عمل کِیا کرو تو خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے تمہارے ساتھ رہیگا۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۹‏)‏ مسیحی خدا کے کلام کی سچائی کو قبول کرنے کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتے ہیں۔‏ وہ سیکھی ہوئی باتوں پر مسلسل عمل کرتے ہوئے خاندان،‏ ملازمت،‏ کلیسیا اور زندگی کے دیگر حلقوں میں بائبل کی مشورت کا اطلاق بھی کرتے ہیں۔‏

۴.‏ خدا کے قوانین کا اطلاق ایک چیلنج کیوں ہے؟‏

۴ خدا کے قوانین اور اُصولوں کا اطلاق آسان نہیں ہے۔‏ ہم شیطان ابلیس کے زیرِاختیار دُنیا میں رہتے ہیں جسے بائبل ’‏اس جہان کا خدا‘‏ کہتی ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ لہٰذا ایسی کسی بھی چیز کی بابت محتاط رہنا لازمی ہے جو یہوواہ خدا کیلئے راست روش پر چلنے میں ہمارے لئے رُکاوٹ کا باعث بن سکتی ہے۔‏ ہم کیسے راستی برقرار رکھ سکتے ہیں؟‏

‏”‏صحیح باتوں کا خاکہ“‏ یاد رکھیں

۵.‏ یسوع کے اس بیان کا کیا مطلب ہے کہ ”‏میرے پیچھے ہو لے“‏؟‏

۵ سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کا ایک طریقہ بےایمانوں کی طرف سے مخالفت کے باوجود وفاداری سے سچی پرستش کی حمایت کرنا ہے۔‏ برداشت کوشش کا تقاضا کرتی ہے۔‏ یسوع نے بیان کِیا،‏ ”‏اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔‏“‏ (‏متی ۱۶:‏۲۴‏)‏ یسوع نے یہ نہیں کہا کہ انہیں ایک ہفتہ،‏ مہینہ یا سال کیلئے اُسکی پیروی کرنی تھی۔‏ اسکی بجائے اُس نے بیان کِیا:‏ ”‏میرے پیچھے ہو لے۔‏“‏ اُسکے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری شاگردی ہماری زندگی کا ایک عارضی حصہ یا کوئی وقتی عہد نہیں ہے۔‏ سچی پرستش کی وفادارانہ حمایت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر صورت میں اپنی منتخب روش پر ایمانداری سے قائم رہینگے۔‏ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۶.‏ پہلی صدی کے مسیحیوں نے پولس سے صحیح باتوں کا کونسا خاکہ سیکھا تھا؟‏

۶ پولس نے اپنے ساتھی کارکُن تیمتھیس کی حوصلہ‌افزائی کی:‏ ”‏جو صحیح باتیں تُو نے مجھ سے سنیں اُس ایمان اور محبت کے ساتھ جو مسیح یسوؔع میں ہے اُنکا خاکہ یاد رکھ۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۱:‏۱۳‏)‏ پولس کا کیا مطلب تھا؟‏ یونانی لفظ جسکا ترجمہ ”‏خاکہ“‏ کِیا گیا ہے وہ لغوی طور پر ایک مُصوّر کی خاکہ‌کشی یا تصویر کا حوالہ دیتا ہے۔‏ اگرچہ یہ تصویر واضح نہیں ہوتی توبھی اسے دیکھنے والا فہیم شخص اسکے خاکے سے تصویر کی مکمل سمجھ حاصل کر سکتا ہے۔‏ اسی طرح،‏ پولس نے تیمتھیس اور دیگر لوگوں کو سچائی کا جو خاکہ سکھایا وہ ہر ممکنہ سوال کا ایک مخصوص جواب فراہم کرنے کیلئے ترتیب نہیں دیا گیا تھا۔‏ تاہم،‏ تعلیم کا یہ مجموعہ خلوصدل لوگوں کیلئے یہ سمجھنے میں کافی راہنمائی—‏یا علامتی مفہوم میں خاکہ—‏فراہم کرتا ہے کہ یہوواہ اُن سے کیا تقاضا کرتا ہے۔‏ واقعی،‏ خدا کو خوش کرنے کے لئے انہیں سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے سے سچائی کے اس خاکے کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔‏

۷.‏ مسیحی صحیح باتوں کے خاکے پر کیسے قائم رہ سکتے ہیں؟‏

۷ پہلی صدی میں ہمنیسؔ،‏ سکندؔر اور فلیتُسؔ جیسے اشخاص ایسے نظریات کو فروغ دے رہے تھے جو ’‏صحیح باتوں کے خاکہ‘‏ سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۸-‏۲۰؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ پہلی صدی کے مسیحی برگشتہ اشخاص کے بہکاوے میں آنے سے کیسے بچ سکتے تھے؟‏ وہ الہامی تحریروں کا محتاط مطالعہ اور اپنی زندگی میں انکا اطلاق کر سکتے تھے۔‏ پولس اور دیگر وفادار اشخاص کے نمونے پر چلنے والے اشخاص انہیں سکھائی گئی سچائی کے خاکے سے مطابقت نہ رکھنے والی کسی بھی تعلیم کی شناخت کرکے اسے رد کرنے کے قابل تھے۔‏ (‏فلپیوں ۳:‏۱۷؛‏ عبرانیوں ۵:‏۱۴‏)‏ وہ ’‏بحث اور لفظی تکرار کے مرض‘‏ میں مبتلا ہونے کی بجائے خدائی عقیدت کی درست روش میں ترقی کرتے رہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۳-‏۶‏)‏ ہم بھی سیکھی ہوئی سچائیوں کا اطلاق کرتے رہنے سے ایسا ہی کر سکتے ہیں۔‏ دُنیابھر میں یہوواہ کی خدمت کرنے والے لاکھوں لوگوں کو سکھائی گئی بائبل سچائی کے خاکے پر پُرعزم طریقے سے قائم دیکھنا بڑا ایمان‌افزا ہے۔‏—‏۱-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۲-‏۵‏۔‏

‏”‏کہانیوں“‏ کو رد کریں

۸.‏ (‏ا)‏ شیطان آجکل ہمارے ایمان کو تباہ کرنے کی کوشش کیسے کر رہا ہے؟‏ (‏ب)‏ ۲-‏تیمتھیس ۴:‏۳،‏ ۴ میں پولس کی کونسی آگاہی درج ہے؟‏

۸ شیطان سیکھی ہوئی باتوں کی بابت شک کے بیج بونے سے ہماری راستی کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ پہلی صدی کی طرح آج بھی برگشتہ اشخاص اور دیگر لوگ سیدھےسادھے لوگوں کے ایمان کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۲:‏۴؛‏ ۵:‏۷،‏ ۸‏)‏ بعض‌اوقات وہ یہوواہ کے لوگوں کے طریقوں اور محرکات کی بابت غلط معلومات یا سراسر جھوٹ کی تشہیر کے لئے ابلاغِ‌عامہ کو استعمال کرتے ہیں۔‏ پولس نے بعض لوگوں کے سچائی سے منحرف ہو جانے کی بابت آگاہی دی تھی۔‏ ”‏ایسا وقت آئیگا،‏“‏ اُس نے لکھا،‏ ”‏کہ لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہ کریں گے بلکہ کانوں کی کھجلی کے باعث اپنی اپنی خواہشوں کے موافق بہت سے اُستاد بنا لیں گے۔‏ اور اپنے کانوں کو حق کی طرف سے پھیر کر کہانیوں پر متوجہ ہونگے۔‏“‏—‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۳،‏ ۴‏۔‏

۹.‏ ”‏جھوٹی کہانیوں“‏ کا حوالہ دیتے ہوئے پولس کے ذہن میں کونسی بات ہو سکتی تھی؟‏

۹ صحیح باتوں کے خاکے پر قائم رہنے کی بجائے بعض لوگ ”‏کہانیوں“‏ کے فریب میں پھنس گئے۔‏ یہ کہانیاں کیا تھیں؟‏ پولس کے ذہن میں شاید ایسی فرضی کہانیاں تھیں جیسی طوبیاہ کی غیرالہامی کتاب میں پائی جاتی تھیں۔‏ * ان کہانیوں میں قیاس پر مبنی سنسنی‌خیز افواہیں بھی شامل ہو سکتی تھیں۔‏ اسکے علاوہ بعض لوگ—‏”‏اپنی اپنی خواہشوں کے موافق“‏—‏خدا کے معیاروں کی بابت اباحتی نظریے کی حمایت کرنے والوں یا کلیسیا کے پیشواؤں پر تنقید کرنے والوں کے استدلال سے متاثر تھے۔‏ (‏۳-‏یوحنا ۹،‏ ۱۰؛‏ یہوداہ ۴‏)‏ ٹھوکر کا باعث بننے والی مختلف وجوہات کی بِنا پر بعض لوگوں نے بدیہی طور پر کہانیوں کو خدا کے کلام کی سچائیوں پر فوقیت دی تھی۔‏ بہت جلد اُنہوں نے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور یوں خود کو روحانی خطرے میں ڈال دیا۔‏—‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

۱۰.‏ زمانۂ‌جدید کی بعض کہانیاں کونسی ہیں اور یوحنا نے احتیاط کی ضرورت کو کیسے نمایاں کِیا؟‏

۱۰ جوکچھ ہم سنتے اور پڑھتے ہیں اس کی بابت انتخاب‌پسند بننے اور اسکا محتاط جائزہ لینے سے ہم کہانیوں کی کشش سے بچ سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ابلاغِ‌عامہ اکثر بداخلاقی کو فروغ دیتا ہے۔‏ بہتیرے لوگ لاادریت یا صریحی دہریت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔‏ اعلیٰ مبصر خدا کی الہامی کتاب ہونے کی بابت بائبل کے دعوے کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔‏ نیز زمانۂ‌جدید کے برگشتہ لوگ مسیحیوں کے ایمان کو تباہ کرنے کیلئے شک‌وشُبے کے بیج بونے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‏ پہلی صدی کے جھوٹے نبیوں کی طرف سے ایک تقابلی خطرے کی بابت یوحنا رسول نے آگاہی دی:‏ ”‏اَے عزیزو!‏ ہر ایک روح [‏الہامی اظہارات،‏ این‌ڈبلیو‏]‏ کا یقین نہ کرو بلکہ روحوں [‏الہامی اظہارات این‌ڈبلیو‏]‏ کو آزماؤ کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں یا نہیں کیونکہ بہت سے جھوٹے نبی دُنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۴:‏۱‏)‏ پس ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‏

۱۱.‏ کس ایک طریقے سے ہم خود کو آزما کر دیکھ سکتے ہیں کہ آیا ہم ایمان میں قائم ہیں یا نہیں؟‏

۱۱ اس سلسلے میں پولس نے لکھا:‏ ”‏تم اپنے آپ کو آزماؤ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۵‏)‏ رسول اس بات کا تعیّن کرنے کیلئے اپنے آپ کو مسلسل آزمانے کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے کہ آیا ہم تمام مسیحی اعتقادات کی پیروی کر رہے ہیں۔‏ اگر ہم غیرمطمئن لوگوں کی باتوں سے متاثر ہونے کی طرف مائل ہیں تو ہمیں اپنا دُعائیہ جائزہ لینا چاہئے۔‏ (‏زبور ۱۳۹:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ کیا ہم یہوواہ کے لوگوں میں خامیاں تلاش کرنے کا میلان رکھتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو اسکی کیا وجہ ہے؟‏ کیا ہم نے کسی شخص کے اقوال یا افعال سے ٹھوکر کھائی ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو کیا اس معاملے کی بابت ہمارا نقطۂ‌نظر معقول ہے؟‏ اس نظام‌اُلعمل میں پیش آنے والی ہر پریشانی عارضی ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۱۷‏)‏ اگر ہمیں کلیسیا میں کسی تکلیف کا تجربہ ہوا ہے توبھی ہم خدا کی خدمت کیوں چھوڑیں؟‏ اگر ہم کسی بات سے پریشان ہیں تو کیا معاملے کو سلجھانے کی کوشش کرنے کے بعد اسے یہوواہ پر چھوڑ دینا بہتر نہیں؟‏—‏زبور ۴:‏۴؛‏ امثال ۳:‏۵،‏ ۶؛‏ افسیوں ۴:‏۲۶‏۔‏

۱۲.‏ بیریہ کے لوگوں نے ہمارے لئے ایک عمدہ مثال کیسے قائم کی تھی؟‏

۱۲ ذاتی مطالعے اور کلیسیائی اجلاسوں پر ملنے والی معلومات پر تنقید کرنے کی بجائے ہمیں انکی بابت ایک روحانی طور پر صحتمندانہ نظریہ اپنانا چاہئے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ نیز خدا کے کلام پر شک کرنے کی بجائے،‏ پہلی صدی میں صحائف کا محتاط جائزہ لینے والے بیریہ کے لوگوں کے رُجحان کی نقل کرنا کسقدر دانشمندی کی بات ہے!‏ (‏اعمال ۱۷:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ اسکے بعد ہمیں کہانیوں کو رد کرکے سچائی پر قائم رہتے ہوئے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔‏

۱۳.‏ ہم نادانستہ طور پر کہانیاں کیسے پھیلا سکتے ہیں؟‏

۱۳ ہمیں ایک اَور قسم کی کہانی سے بچنے کی ضرورت ہے۔‏ اکثر ای-‏میل کے ذریعے کئی سنسنی‌خیز خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔‏ خاص طور پر اگر معلومات کے اصل ماخذ کا پتہ نہ ہو تو ایسی خبروں کی بابت محتاط رہنا دانشمندی کی بات ہے۔‏ اگر ایک قابلِ‌بھروسا مسیحی کوئی تجربہ یا کہانی بھیجے توبھی ممکن ہے کہ وہ حقائق کا براہِ‌راست علم نہ رکھتا ہو۔‏ اسی لئے غیرمصدقہ بیانات دہرانے یا پھیلانے سے محتاط رہنا ضروری ہے۔‏ یقیناً ہم ”‏بیہودہ .‏ .‏ .‏ کہانیوں“‏ کو دہرانا نہیں چاہیں گے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۷‏)‏ چونکہ ہم پر ایک دوسرے سے سچ بولنے کی ذمہ‌داری ہے لہٰذا ہم کسی بھی ایسی بات سے گریز کرکے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہیں جو نادانستہ طور پر جھوٹ پھیلانے کا سبب بن سکتی ہے۔‏—‏افسیوں ۴:‏۲۵‏۔‏

سچائی پر عمل کرنے کے فوائد

۱۴.‏ خدا کے کلام سے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کے نتیجے میں کونسے فوائد حاصل ہوتے ہیں؟‏

۱۴ ذاتی بائبل مطالعے اور مسیحی اجلاسوں پر سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا کئی فوائد پر منتج ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہم اپنے ہم‌ایمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کا تجربہ کر سکتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۰‏)‏ بائبل اُصولوں کا اطلاق ہمارے مزاج کو بہتر بنائے گا۔‏ (‏زبور ۱۹:‏۸‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے سے ہم ”‏خدا کی تعلیم کو رونق“‏ بخشتے ہیں اور دوسروں کو سچی پرستش کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔‏—‏ططس ۲:‏۶-‏۱۰‏۔‏

۱۵.‏ (‏ا)‏ ایک نوجوان نے سکول میں گواہی دینے کیلئے دلیری کا مظاہرہ کیسے کِیا؟‏ (‏ب)‏ آپ نے اس تجربہ سے کیا سیکھا ہے؟‏

۱۵ یہوواہ کے گواہوں میں شامل بہتیرے نوجوان بائبل کے ذاتی مطالعے اور مسیحی مطبوعات کے علاوہ کلیسیائی اجلاسوں پر باقاعدہ حاضری سے سیکھی ہوئی باتوں کا اطلاق کرتے ہیں۔‏ اُنکا عمدہ چال‌چلن سکول میں ساتھی طالبعلموں اور اساتذہ کے لئے ایک پُرزور گواہی کا باعث بنتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۲‏)‏ ریاستہائےمتحدہ میں ۱۳ سالہ لیزلی کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ عموماً ساتھی طالبعلموں سے اپنے ایمان کی بابت بات کرنا مشکل پاتی تھی لیکن ایک دن ایک تبدیلی واقع ہوئی۔‏ ”‏کلاس میں اس موضوع پر بات‌چیت ہو رہی تھی کہ لوگ کیسے مختلف چیزیں فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ ایک لڑکی نے ہاتھ کھڑا کرکے یہوواہ کے گواہوں کا ذکر کِیا۔‏“‏ ایک گواہ کے طور پر لیزلی کا جوابی‌عمل کیا تھا؟‏ وہ بیان کرتی ہے،‏ ”‏جب مَیں نے اپنے ایمان کا دفاع کِیا تو سب چونک گئے اسلئےکہ مَیں سکول میں عموماً چپ ہی رہتی تھی۔‏“‏ لیزلی کی دلیری کیا رنگ لائی؟‏ لیزلی بیان کرتی ہے،‏ ”‏مَیں نے ایک طالبعلم کے سوالوں کے جواب میں ایک بروشر اور اشتہار پیش کِیا۔‏“‏ جب سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے والے نوجوان دلیری سے سکول میں گواہی دیتے ہیں تو یہوواہ کسقدر خوش ہوتا ہے!‏—‏امثال ۲۷:‏۱۱؛‏ عبرانیوں ۶:‏۱۰‏۔‏

۱۶.‏ ایک نوجوان گواہ نے تھیوکریٹک منسٹری سکول سے کیسے فائدہ اُٹھایا ہے؟‏

۱۶ ایسی ہی ایک اَور مثال الیزبتھ کی ہے۔‏ سات سال کی عمر سے شروع کرتے ہوئے،‏ اپنے ابتدائی سکول کے تمام سالوں کے دوران اس نوجوان لڑکی کی جب بھی تھیوکریٹک منسٹری سکول میں کوئی تفویض ہوتی تو وہ اپنے اساتذہ کو کنگڈم ہال مدعو کِیا کرتی تھی۔‏ ٹیچر کے حاضر نہ ہونے پر الیزبتھ سکول کے بعد اُسے اپنی تقریر سنایا کرتی تھی۔‏ سکول کے آخری سال میں الیزبتھ نے تھیوکریٹک منسٹری سکول کے فوائد پر دس صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ لکھی اور چار اساتذہ کی موجودگی میں اسے پیش کِیا۔‏ اُسے تھیوکریٹک منسٹری سکول کی تقریر پر ایک مظاہرہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی جس کے لئے اُس نے جس موضوع کا انتخاب کِیا اُس کا عنوان تھا ”‏خدا بُرائی کی اجازت کیوں دیتا ہے؟‏“‏ الیزبتھ نے تھیوکریٹک منسٹری سکول میں یہوواہ کے گواہوں کے تعلیمی پروگرام سے فائدہ اُٹھایا ہے۔‏ وہ بہتیرے ایسے نوجوانوں میں سے ایک ہے جو یہوواہ کے کلام سے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرکے اُسکی تمجید کا باعث بنتے ہیں۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏ا)‏ بائبل دیانتداری کی بابت کیا نصیحت کرتی ہے؟‏ (‏ب)‏ ایک یہوواہ کے گواہ نے ایک شخص کو کیسے متاثر کِیا؟‏

۱۷ بائبل مسیحیوں کو تمام باتوں میں دیانتدار رہنے کی نصیحت کرتی ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۸‏)‏ بددیانتی دوسروں کیساتھ اور بالخصوص یہوواہ کے ساتھ ہمارے رشتے کو متاثر کر سکتی ہے۔‏ (‏امثال ۱۲:‏۲۲‏)‏ ہمارا قابلِ‌بھروسا چال‌چلن اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور یہ یہوواہ کے گواہوں کیلئے بہتیرے لوگوں کے گہرے احترام کا باعث بنا ہے۔‏

۱۸ فلپ نامی ایک فوجی کے تجربے پر غور کریں۔‏ اُس نے ایک دستخط‌شُدہ چیک جو پُر نہیں کِیا گیا تھا کھو دیا اور اُسے اس بات کا احساس اُس وقت ہوا جب ڈاک کے ذریعے اسے لوٹایا گیا۔‏ ایک یہوواہ کے گواہ کو یہ چیک ملا تھا اور اس کیساتھ منسلک ایک خط نے وضاحت کی کہ جس شخص کو یہ ملا تھا وہ اپنے مذہبی اعتقادات سے تحریک پاکر اسے لوٹا رہا ہے۔‏ فلپ دنگ رہ گیا۔‏ اُس نے بیان کِیا،‏ ”‏وہ میرے ۰۰۰،‏۹ ڈالر چٹ کر سکتے تھے!‏“‏ ایک اَور موقع پر،‏ چرچ میں اُسکی ٹوپی چوری ہونے سے اُسے مایوسی ہوئی تھی۔‏ بظاہر،‏ اُسکی ٹوپی لینے والا ایک واقف‌کار تھا جبکہ ہزاروں ڈالر ایک اجنبی نے لوٹائے تھے!‏ واقعی،‏ دیانتدار مسیحی یہوواہ خدا کی تعظیم کا باعث بنتے ہیں!‏

سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا جاری رکھیں

۱۹،‏ ۲۰.‏ سیکھی ہوئی صحیفائی باتوں کی مطابقت میں عمل کرنے سے ہمیں کیسے فائدہ پہنچے گا؟‏

۱۹ خدا کے کلام سے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے والے کئی فوائد حاصل کرتے ہیں۔‏ شاگرد یعقوب نے لکھا:‏ ”‏جو شخص آزادی کی کامل شریعت پر غور سے نظر کرتا رہتا ہے وہ اپنے کام میں اسلئے برکت پائیگا کہ سنکر بھولتا نہیں بلکہ عمل کرتا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۱:‏۲۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ اگر ہم سیکھی ہوئی صحیفائی باتوں کی مطابقت میں عمل کریں تو ہمیں حقیقی خوشی ملیگی اور ہم بہتر طور پر زندگی کے دباؤ کا سامنا کرنے کے قابل ہونگے۔‏ سب سے بڑھکر،‏ ہمیں یہوواہ کی برکت اور ہمیشہ کی زندگی کا امکان حاصل ہوگا!‏—‏امثال ۱۰:‏۲۲؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۶‏۔‏

۲۰ پس خدا کے کلام کا مطالعہ جاری رکھنے کے لئے پُرعزم رہیں۔‏ یہوواہ کے پرستاروں کے ساتھ باقاعدہ جمع ہوں اور مسیحی اجلاسوں پر پیش‌کردہ مواد پر دھیان دیں۔‏ سیکھی ہوئی باتوں کا اطلاق کریں،‏ ان پر عمل کرتے رہیں تو ”‏خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے تمہارے ساتھ رہے گا۔‏“‏—‏فلپیوں ۴:‏۹‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 ممکنہ طور پر تیسری صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں لکھی گئی کتاب طوبیاہ میں طوبیاس نامی ایک یہودی کی توہم‌پرستانہ کہانی بھی شامل ہے۔‏ اُسکی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بہت بڑی مچھلی کے دل،‏ پتے اور جگر کے ذریعے شفائیہ اور ارواح‌پرستانہ قوتیں حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• ’‏صحیح باتوں کا خاکہ‘‏ کیا ہے اور ہم اس پر کیسے قائم رہ سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں کن ”‏کہانیوں“‏ کو رد کرنا چاہئے؟‏

‏• خدا کے کلام سے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے والے کن فوائد کا تجربہ کرتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

ابتدائی مسیحی برگشتہ اشخاص کے فریب میں آنے سے کیسے بچ سکتے تھے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویریں]‏

شک‌وشُبے کے بیج ابلاغِ‌عامہ،‏ انٹرنیٹ اور زمانۂ‌جدید کے برگشتہ لوگوں کے ذریعے بوئے جا سکتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

غیرمصدقہ خبروں کو پھیلانا غیردانشمندی ہے

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویریں]‏

سکول،‏ ملازمت اور دیگر جگہوں پر یہوواہ کے گواہ خدا کے کلام سے پڑھی جانے والی باتوں کا اطلاق کرتے ہیں