مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏اپنی تربیت کر‘‏

‏’‏اپنی تربیت کر‘‏

‏’‏اپنی تربیت کر‘‏

سائی‌ٹئس،‏ ایل‌ٹئس،‏ فورٹئس—‏تیز،‏ اُونچا،‏ مضبوط!‏ قدیم روم اور یونان میں ایتھلیٹ اپنے لئے ایسے ہی آئیڈئلز کے آرزومند ہوتے تھے۔‏ صدیوں تک اولمپیا،‏ ڈالفائی اور نیمیا اور کرنتھس کے آبنائے پر دیوتاؤں کی ”‏برکت“‏ اور ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں کسرتی کھیلوں سے متعلق بڑی بڑی تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔‏ سالوں کی سخت محنت کے بعد اِن کھیلوں میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہوتا تھا۔‏ فتح حاصل کرنے والوں اور اُن کے آبائی شہر کے لئے عزت کا باعث بنتی تھی۔‏

ایسے ثقافتی ماحول میں،‏ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ مسیحی یونانی صحائف کو قلمبند کرنے والوں نے روحانی دوڑ کا موازنہ کسرتی کھیلوں سے کِیا ہے۔‏ اہم نکات کی تعلیم دینے کیلئے پطرس اور پولس دونوں رسولوں نے بڑی مہارت کے ساتھ کھیلوں پر مبنی مثالیں پیش کی تھیں۔‏ ہمارے زمانہ میں بھی وہ شدید مسیحی دوڑ جاری ہے۔‏ پہلی صدی کے مسیحیوں کو یہودی نظام‌اُلعمل کیساتھ نپٹنا تھا جبکہ آج ہمیں تباہی کے دہانے پر کھڑے ایک عالمی نظام کا ’‏مقابلہ‘‏ کرنا ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۵؛‏ ۳:‏۱-‏۵‏)‏ بعض شاید محسوس کریں کہ انفرادی طور پر اُنکے ”‏ایمان کی .‏ .‏ .‏ کشتی“‏ انتہائی سخت اور تھکا دینے والی ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۲‏)‏ بائبل میں بیان‌کردہ چند کسرتی موازنوں کا جائزہ لینا مفید ثابت ہوگا۔‏

ایک فائق تربیت‌کار

کھلاڑی کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک تربیت کرنے والے پر ہوتا ہے۔‏ قدیم کھیلوں کی بابت،‏ آرکیالوجی گریکا بیان کرتی ہے:‏ ”‏مقابلے میں شریک ہونے والوں کو یہ قسم کھانی پڑتی تھی کہ اُنہوں نے پورے دس مہینے تک تربیت حاصل کی ہے۔‏“‏ مسیحیوں کو بھی سخت تربیت کی ضرورت ہے۔‏ پولس نے مسیحی بزرگ تیمتھیس کو نصیحت کی تھی:‏ ’‏خدائی عقیدت کے ساتھ اپنی تربیت کر۔‏‘‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۷‏)‏ ایک مسیحی ”‏کھلاڑی“‏ کو کون تربیت دیتا ہے؟‏ خود یہوواہ خدا!‏ پطرس رسول نے لکھا:‏ ”‏خدا جو ہر طرح کے فضل کا چشمہ ہے .‏ .‏ .‏ آپ ہی تمہیں کامل اور قائم اور مضبوط کرے گا۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۱۰‏۔‏

اظہار ’‏آپ ہی تمہیں کامل کرے گا‘‏ یونانی فعل سے مشتق ہے جس کا تھیولاجیکل لیکسیکن آف دی نیو ٹسٹامنٹ کے مطابق،‏ بنیادی مطلب ”‏کسی چیز یا شخص کو اُس کے مقصد کے مطابق بنانا،‏ تیار کرنا اور اُسے استعمال میں لانا ہے۔‏“‏ اسی طرح،‏ لیڈل اور سکاٹ کا گریک-‏انگلش لیکسیکن تبصرہ کرتا ہے کہ اس فعل کی تعریف ”‏تیار کرنا،‏ تربیت کرنا یا مکمل طور پر لیس کرنا“‏ کی جا سکتی ہے۔‏ کن طریقوں سے یہوواہ ہمیں درپیش مسیحی دوڑ کیلئے تیار کرتا،‏ تربیت دیتا یا مکمل طور پر لیس کرتا ہے؟‏ اس موازنے کو سمجھنے کیلئے،‏ آئیے چند ایسے طریقوں پر غور کریں جو تربیت کرنے والے استعمال کرتے تھے۔‏

کتاب دی اولمپک گیمز اِن اینشنٹ گریس بیان کرتی ہے:‏ ”‏نوجوانوں کو تربیت دینے والوں نے دو بنیادی طریقے استعمال کئے جن میں سے پہلا،‏ بہترین نتائج حاصل کرنے کے لئے شاگرد کی بھرپور جسمانی جدوجہد کرنے کے لئے حوصلہ‌افزائی کرنا اور دوسرا اپنی مہارت اور انداز کو بہتر بنانا تھا۔‏“‏

بالکل اسی طرح،‏ یہوواہ ہمیں اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئےکار لانے اور اُسکی خدمت میں اپنی مہارتوں کو بہتر بنانے کیلئے حوصلہ‌افزائی اور تقویت دیتا ہے۔‏ ہمارا خدا ہمیں اپنے کلام،‏ زمینی تنظیم اور پُختہ ساتھی مسیحیوں کے ذریعے ازسرِنو طاقت بخشتا ہے۔‏ بعض اوقات وہ ہمیں تنبیہ کے ذریعے بھی تربیت فراہم کرتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۶‏)‏ دیگر اوقات پر،‏ وہ ہم پر مختلف آزمائشیں اور مشکلات آنے کی اجازت دے سکتا ہے تاکہ ہم اپنے اندر برداشت پیدا کر سکیں۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۲-‏۴‏)‏ نیز وہ درکار طاقت بھی فراہم کرتا ہے۔‏ یسعیاہ نبی فرماتا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا انتظار کرنے والے ازسرِنو زور حاصل کرینگے۔‏ وہ عقابوں کی مانند بال‌وپر سے اُڑینگے وہ دوڑینگے اور نہ تھکیں گے۔‏ وہ چلینگے اور ماندہ نہ ہونگے۔‏—‏یسعیاہ ۴۰:‏۳۱‏۔‏

سب سے بڑھ کر،‏ یہوواہ فیاضی کے ساتھ ہمیں اپنی پاک رُوح عنایت کرتا ہے جو ہمیں اُس کی پسندیدہ خدمت بجا لانے کے لئے متواتر طاقت بخشتی ہے۔‏ (‏لوقا ۱۱:‏۱۳‏)‏ بیشتر معاملات میں،‏ خدا کے خادموں نے ایمان کے سلسلے میں طویل اور سخت آزمائشوں کی برداشت کی ہے۔‏ جن لوگوں نے ایسا کِیا ہے وہ ہماری ہی طرح کے عام مردوزن ہیں۔‏ مگر خدا پر اُن کے مکمل بھروسے نے اُنہیں برداشت کرنے کے قابل بنایا ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ ’‏حد سے زیادہ قدرت ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے۔‏‘‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏۔‏

ایک ہمدرد تربیت‌کار

قدیم تربیت‌کار کا ایک مقصد ”‏ایسی قسم کی ورزشوں کا تعیّن کرنا ہوتا تھا جو کہ ہر کھلاڑی اور مخصوص کھیل کیلئے درکار ہوتی تھیں،‏“‏ ایک سکالر بیان کرتا ہے۔‏ اسی طرح جب خدا ہماری تربیت کرتا ہے تو وہ ہمارے انفرادی حالات،‏ لیاقتوں،‏ بناوٹ اور حدبندیوں کو ملحوظِ‌خاطر رکھتا ہے۔‏ اکثراوقات،‏ یہوواہ سے تربیت حاصل کرتے وقت ہم ایوب کی مانند اُس سے درخواست کرتے ہیں:‏ ”‏یاد کر کہ تُو نے گندھی ہوئی مٹی کی طرح مجھے بنایا۔‏“‏ (‏ایوب ۱۰:‏۹‏)‏ اس کیلئے ہمارا ہمدرد تربیت‌کار کیسا جوابی‌عمل دکھاتا ہے؟‏ داؤد نے یہوواہ کی بابت لکھا:‏ ”‏وہ ہماری سرشت سے واقف ہے۔‏ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔‏“‏—‏زبور ۱۰۳:‏۱۴‏۔‏

آپکی صحت کا کوئی ایسا مسئلہ ہو سکتا ہے جو آپکی خدمتگزاری کو محدود بنا سکتا ہے یا شاید آپ عزتِ‌نفس کی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔‏ ممکن ہے آپ کسی بُری عادت پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں یا شاید آپ محسوس کریں کہ آپ اپنے آس‌پڑوس،‏ جائےملازمت یا سکول میں ساتھیوں کے دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‏ آپ کے حالات خواہ کیسے بھی ہیں،‏ کبھی نہ بھولیں کہ یہوواہ آپکو اور آپکے مسائل کو دوسروں کی نسبت بہتر طور پر سمجھتا ہے!‏ ایک متفکر تربیت‌کار کے طور پر،‏ اگر آپ اُسکے قریب آتے ہیں تو وہ ہمیشہ آپکی مدد کرنے کیلئے تیار ہے۔‏—‏یعقوب ۴:‏۸‏۔‏

قدیم تربیت کرنے والے ”‏اُس ماندگی یا کمزوری کو بخوبی سمجھ سکتے تھے جو ورزش سے نہیں بلکہ دیگر نفسیاتی اسباب،‏ بدمزاجی،‏ مایوسی یا کسی ایسی ہی دوسری حالت سے پیدا ہوتی تھی۔‏ .‏ .‏ .‏ تربیت کرنے والے کو اتنا وسیع اختیار حاصل ہوتا تھا کہ وہ کھلاڑیوں کی نجی زندگیوں کا جائزہ لینے کے علاوہ حسبِ‌منشا مداخلت بھی کر سکتا تھا۔‏“‏

کیا آپ بھی اس دُنیا کے سخت دباؤ اور آزمائشوں کے تحت بعض‌اوقات ماندہ یا کمزور محسوس کرتے ہیں؟‏ تربیت‌کار کے طور پر،‏ یہوواہ آپ میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۷‏)‏ وہ آپ میں کسی روحانی کمزوری یا تھکن کو فوراً بھانپ لیتا ہے۔‏ اگرچہ یہواہ ہماری آزاد مرضی اور ذاتی انتخاب کی قدر کرتا ہے مگر ہماری دائمی بہبود کے لئے فکرمندی کے پیشِ‌نظر،‏ وہ بوقتِ‌ضرورت افراط سے مدد اور اصلاح کرتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۳۰:‏۲۱‏)‏ کیسے؟‏ بائبل اور بائبل پر مبنی مطبوعات،‏ کلیسیا میں روحانی بزرگوں اور ہماری عزیز برادری کے ذریعے وہ ایسا کرتا ہے۔‏

‏”‏سب طرح کا پرہیز“‏

بلاشُبہ،‏ کامیابی کیلئے محض ایک اچھے تربیت کرنے والے کے علاوہ اَور بھی بہت کچھ درکار تھا۔‏ زیادہ‌تر انحصار خود کھلاڑی اور سخت تربیت کیلئے اُسکی وابستگی پر تھا۔‏ ورزش اور طرزِزندگی کافی کٹھن ہوتی تھی کیونکہ تربیت میں نشیلی چیزوں سے اور غذائی پرہیز شامل تھا۔‏ پہلی صدی ق.‏س.‏ع.‏ کے شاعر،‏ ہورس نے کہا کہ اپنے نشانے تک پہنچنے کیلئے مقابلہ میں حصہ لینے والے ”‏عورت اور مے سے پرہیز“‏ کرتے تھے۔‏ نیز بائبل سکالر ایف.‏سی.‏کک کے مطابق،‏ کھیل کے شرکا کو ”‏دس ماہ تک خود پر قابو رکھنا اور سخت پرہیز کرنا ہوتا تھا۔‏“‏

کرنتھس کے قریب واقع ایک خاکنائے میں کھیلوں کیلئے مشہور شہر کے مسیحیوں کو لکھتے وقت پولس نے اس موازنے کو استعمال کِیا:‏ ”‏ہر پہلوان سب طرح کا پرہیز کرتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۵‏)‏ سچے مسیحی دُنیا کے مادہ‌پرستانہ،‏ بداخلاق اور ناپاک طرزِزندگی سے گریز کرتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۳-‏۵؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ بےدین اور غیرصحیفائی عادات کو ختم کرنے کے علاوہ مسیح جیسی خوبیاں پیدا کی جانی چاہئیں۔‏—‏کلسیوں ۳:‏۹،‏ ۱۰،‏ ۱۲‏۔‏

یہ کیسے کِیا جا سکتا ہے؟‏ سب سے پہلے،‏ ایک زوردار تمثیل کے ذریعے پولس کے جواب پر غور کریں:‏ ”‏مَیں اپنے بدن کو مارتا کوٹتا اور اُسے قابو میں رکھتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اَوروں میں منادی کرکے آپ نامقبول ٹھہروں۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۷‏۔‏

پولس نے یہاں کتنا پُرزور نکتہ بیان کِیا ہے!‏ وہ جسمانی طور پر خود کو اذیت دینے کی حمایت نہیں کر رہا تھا۔‏ اِس کے برعکس،‏ اُس نے خود یہ تسلیم کِیا کہ اُسے باطنی مسائل کا سامنا تھا۔‏ بعض‌اوقات وہ ایسے کام کر جاتا تھا جو وہ کرنا نہیں چاہتا تھا اور جو کرنا چاہتا تھا وہ نہیں کر پاتا تھا۔‏ مگر اُس نے کبھی بھی اپنی کمزوریوں کو اپنے اُوپر حاوی ہونے نہیں دیا تھا۔‏ جسمانی خواہشات اور خصلتوں پر سختی سے قابو پانے کے لئے وہ ’‏اپنے بدن کو مارتا کوٹتا تھا۔‏‘‏—‏رومیوں ۷:‏۲۱-‏۲۵‏۔‏

سب مسیحیوں کو ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ پولس نے کرنتھس کے چند ایسے لوگوں کے تبدیلی لانے کا ذکر کِیا جو پہلے حرامکاری،‏ بُت‌پرستی،‏ لونڈےبازی،‏ چوری اور اسی طرح کی دیگر عادات کا شکار تھے۔‏ کس چیز نے اُنہیں ایسی تبدیلی لانے کے قابل بنایا؟‏ یہ تبدیلی لانے کیلئے خدا کے کلام اور پاک رُوح کی طاقت کیساتھ ساتھ اُنکا اپنا عزم بھی شامل تھا۔‏ ”‏بعض تم میں ایسے ہی تھے بھی،‏“‏ پولس نے کہا،‏ ”‏مگر تم خداوند یسوؔع مسیح کے نام سے اور ہمارے خدا کے روح سے دھل گئے اور پاک ہوئے اور راستباز بھی ٹھہرے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹-‏۱۱‏)‏ اسی طرح پطرس نے بھی اُن لوگوں کا ذکر کِیا جو ایسی بُری عادات کو ترک کر چکے تھے۔‏ مسیحیوں کے طور پر،‏ وہ سب واقعی اپنے اندر تبدیلیاں لے آئے تھے۔‏—‏۱-‏پطرس ۴:‏۳،‏ ۴‏۔‏

بامقصد کاوشیں

پولس نے یہ کہتے ہوئے روحانی نشانوں کے لئے اپنی مستقل‌مزاجی اور مکمل توجہ کی بابت بیان کِیا:‏ ”‏مَیں اسی طرح مکوں سے لڑتا ہوں یعنی بےٹھکانا نہیں جو ہوا کو مارتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۶‏)‏ ایک پیشہ‌ور مکےباز کیسے مکے مارے گا؟‏ کتاب دی لائف آف دی گریکس اینڈ رومنز جواب دیتی ہے:‏ ”‏اس کے لئے اندھادھند زور لگانا ہی درکار نہیں ہوتا بلکہ کمزور حصوں پر وار کرنے کے لئے تیزبینی بھی درکار ہے۔‏ کسرتی سکولوں میں سیکھے جانے والے داؤپیچ اور حریف کو مات دینے میں تیزی بھی کم اہم نہیں ہیں۔‏“‏

ہمارا ناکامل جسم ہمارے حریفوں میں سے ایک ہے۔‏ کیا ہم نے اپنے ”‏کمزور حصوں“‏ کی شناخت کر لی ہے؟‏ کیا ہم اپنے آپ کو اُسی طرح دیکھنے کے لئے تیار ہیں جیسے دوسرے ہمیں دیکھتے ہیں بالخصوص جیسے شیطان ہمیں دیکھتا ہے؟‏ اس کے لئے دیانتداری کیساتھ اپنا تجزیہ اور جانچ کرنا نیز تبدیلی پیدا کرنے کے لئے رضامندی کا تقاضا کِیا جاتا ہے۔‏ خودفریبی میں مبتلا ہونا بڑا آسان ہے۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۲۲‏)‏ اپنی کسی غیردانشمندانہ روش کی توجیہ کرنا کتنا آسان ہے!‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۵:‏۱۳-‏۱۵،‏ ۲۰،‏ ۲۱‏)‏ یہ ’‏ہوا کو مکے مارنے‘‏ کے مترادف ہے۔‏

اِن آخری دنوں میں،‏ یہوواہ کو خوش کرنے اور زندگی حاصل کرنے کے خواہاں لوگ درست اور غلط کا انتخاب،‏ خدا کی کلیسیا اور کجرو دُنیا میں امتیاز کرنے میں تاخیر نہیں کر سکتے۔‏ اُنہیں اپنے طورطریقوں میں بےقیام اور ڈانوانڈول بننے سے گریز کرنا ہوگا۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۸‏)‏ اُنہیں لاحاصل چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہئے۔‏ جب ایک شخص مستقل‌مزاجی کیساتھ سیدھے راستے پر گامزن رہتا ہے تو وہ خوش ہوگا اور ’‏اُسکی ترقی سب آدمیوں پر ظاہر ہوگی۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۵‏۔‏

پس مسیحی دوڑ جاری ہے۔‏ ہمارا عظیم تربیت‌کار یہوواہ پُرمحبت طور پر برداشت اور انجام‌کار فتح کے لئے درکار ہدایت اور مدد فراہم کرتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷‏)‏ ماضی کے کھلاڑیوں کی طرح،‏ ہمیں ایمان کی اپنی کشتی میں خود کو تنبیہ کرتے رہنے نیز ضبطِ‌نفس اور مستقل‌مزاجی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ہماری بامقصد کاوشیں بکثرت اَجر پر منتج ہوں گی۔‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۶‏۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر بکس]‏

‏’‏اُسے تیل لگائیں‘‏

قدیم اسرائیل میں کھلاڑیوں کی تربیت کا ایک حصہ تدہین‌کار کے ذمہ تھا۔‏ اُسکا کام کسرت کرنے والے اشخاص کے بدنوں پر تیل کی مالش کرنا تھا۔‏ تربیت‌کاروں نے دیکھا تھا کہ ”‏تربیت دینے سے پہلے مہارت کیساتھ مالش کے مفید اثرات مرتب ہوتے تھے نیز یہ تربیت کا دورانیہ مکمل کرنے والے کھلاڑی کو واپس نارمل حالت میں لانے کے عمل میں معاونت کرتی تھی،‏“‏ ”‏دی اولمپک گیمز اِن اینشنٹ گریس“‏ بیان کرتی ہے۔‏

جیسےکہ تیل کی مالش ایک شخص کے جسم کو آرام‌وسکون اور علاج کے طور پر شفا بخشتی ہے،‏ اُسی طرح خدا کے کلام کا اطلاق ایک ماندہ مسیحی ”‏کھلاڑی“‏ کی اصلاح کر سکتا اور اُسے تسکین اور شفا بخش سکتا ہے۔‏ پس یہوواہ کی راہنمائی کے تحت،‏ کلیسیا کے بزرگوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ علامتی معنوں میں ’‏یہوواہ کے نام سے اُس کو تیل مل کر‘‏ ایسے شخص کے لئے دُعا کریں،‏ کیونکہ یہ روحانی صحتیابی کیلئے انتہائی ضروری قدم ہے۔‏—‏یعقوب ۵:‏۱۳-‏۱۵؛‏ زبور ۱۴۱:‏۵‏۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

قربانی گذراننے کے بعد،‏ کھلاڑی یہ قسم کھاتے تھے کہ اُنہوں نے دس ماہ کی تربیت حاصل کی ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Musée du Louvre, Paris

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر کا حوالہ]‏

Copyright British Museum