مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جنگ کے بعد توسیع میں قدردانی سے شرکت

جنگ کے بعد توسیع میں قدردانی سے شرکت

میری کہانی میری زبانی

جنگ کے بعد توسیع میں قدردانی سے شرکت

از فلپ ایس.‏ ہوف‌مین

پہلی عالمی جنگ مئی ۱۹۴۵ میں ابھی ختم ہی ہوئی تھی۔‏ اُس سال دسمبر میں،‏ ناتھن ایچ.‏ نار نے جو عالمی پیمانہ پر یہوواہ کے گواہوں کی منادی کی کارگزاری کی نگرانی پر مامور تھا،‏ اپنے ۲۵ سالہ سیکرٹری ملٹن جی.‏ ہینشل کیساتھ ڈنمارک کا دورہ کِیا۔‏ اس دورے کیلئے جسکا بیتابی سے انتظار تھا ایک بڑا ہال کرایے پر لیا گیا۔‏ ہم نوجوانوں کیلئے بھائی ہینشل کی تقریر بالخصوص بہت ہیجان‌خیز تھی اگرچہ وہ ہماری ہی عمر کے تھے توبھی انہوں نے اسکا موضوع ”‏اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد رکھ“‏ منتخب کِیا تھا۔‏—‏واعظ ۱۲:‏۱‏۔‏

اس دورے کے دوران ہم نے سیکھا کہ منادی کے عالمگیر کام کو ترقی دینے کے لئے حیرت‌انگیز چیزیں وقوع میں آ رہی ہیں اور یہ کہ ہم اس میں شرکت کر سکتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ مثال کے طور پر،‏ نوجوان مردوں اور عورتوں کو مشنری کام کی تربیت دینے کیلئے ریاستہائےمتحدہ میں ایک نیا سکول کھولا گیا ہے۔‏ بھائی نار نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ہمیں اس کیلئے مدعو کِیا جاتا ہے تو ہمیں ”‏صرف یکطرفہ ٹکٹ“‏ دیا جائیگا اور ہمیں یہ نہیں بتایا جائے گا کہ ہم نے کہاں جانا ہے۔‏ اس کے باوجود ہم میں سے بعض نے درخواست دے دی۔‏

اس سے پہلے کہ مَیں دوسری عالمی جنگ کے مابعدی تجربات بیان کروں،‏ مَیں ۱۹۱۹ میں اپنی پیدائش کی طرف چلتا ہوں۔‏ جنگ سے پہلے اور اسکے بعد کئی ایک ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے میری زندگی کو بہت زیادہ متاثر کِیا۔‏

کالی بھیڑ کی معرفت بائبل سچائی

میری والدہ نے میری پیدائش سے پہلے ہی یہوواہ سے دُعا کی کہ اگر یہ لڑکا ہے تو اسے مشنری بننے کی توفیق عطا کرنا۔‏ اُس کا بھائی ایک بائبل سٹوڈنٹس تھا جیساکہ اُس وقت یہوواہ کے گواہ کہلاتے تھے مگر اُسکا خاندان اُسے ایک کالی بھیڑ سمجھتا تھا۔‏ ہمارا گھر کوپن‌ہیگن کے قریب تھا،‏ لہٰذا جب بائبل سٹوڈنٹس کا سالانہ کنونشن ہوتا تو میری والدہ ماموں تھامس کو اپنے ہاں قیام کرنے کے لئے مدعو کر لیا کرتی تھی جو کہ قدرے دُور رہتا تھا۔‏ سن ۱۹۳۰ تک اُس کے حیرت‌انگیز بائبل علم اور منطقی استدلال نے میری والدہ کو ایک بائبل سٹوڈنٹ بننے کیلئے قائل کر لیا۔‏

ہماری والدہ کو بائبل سے بڑا لگاؤ تھا۔‏ استثنا ۶:‏۷ میں درج حکم کی پیروی میں وہ مجھے اور میری بہن کو ’‏اُٹھتے بیٹھتے،‏ راہ چلتے،‏ لیٹتے یا جاگتے وقت‘‏ سکھایا کرتی تھی۔‏ مَیں وقت آنے پر گھرباگھر کی منادی میں شرکت کرنے لگا۔‏ مَیں غیرفانی جان اور دوزخ جیسے موضوعات پر بات‌چیت کرنا پسند کرتا تھا جنکی تعلیم چرچ دیتے تھے۔‏ مَیں بڑی مہارت کیساتھ بائبل سے دکھا سکتا تھا کہ ایسی تعلیمات غلط ہیں۔‏—‏زبور ۱۴۶:‏۳،‏ ۴؛‏ واعظ ۹:‏۵،‏ ۱۰؛‏ حزقی‌ایل ۱۸:‏۴‏۔‏

ہمارا خاندان متحد ہو گیا

کوپن‌ہیگن میں ۱۹۳۷ میں ہونے والے کنونشن کے بعد،‏ ڈنمارک میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں لٹریچر ڈپو میں عارضی مدد کی ضرورت تھی۔‏ مَیں نے حال ہی میں ایک کمرشل کالج میں اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور ہر قسم کی ذمہ‌داریوں سے آزاد تھا لہٰذا مَیں نے ڈپو میں مدد کی پیشکش کر دی۔‏ جب ڈپو میں کام ختم ہو گیا تو مجھے برانچ دفتر میں معاونت کرنے کیلئے کہا گیا۔‏ جلد ہی مَیں گھر چھوڑ کر کوپن‌ہیگن برانچ میں منتقل ہو گیا اگرچہ مَیں ابھی تک غیربپتسمہ‌یافتہ تھا۔‏ پُختہ مسیحیوں کیساتھ روزانہ رفاقت نے مجھے روحانی طور پر ترقی کرنے میں مدد دی۔‏ مَیں نے اگلے ہی سال،‏ یکم جنوری،‏ ۱۹۳۸ میں یہوواہ خدا کیلئے اپنی مخصوصیت کی علامت میں پانی بپتسمہ لیا۔‏

ستمبر ۱۹۳۹ میں،‏ دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی۔‏ بعدازاں،‏ اپریل ۹،‏ ۱۹۴۰ میں جرمن فوجیں ڈنمارک پر قابض ہو گئیں۔‏ کیونکہ ڈنمارک کے باشندوں کو خاطرخواہ شخصی آزادی حاصل تھی لہٰذا ہم اپنی منادی کی کارگزاری کو جاری رکھنے کے قابل تھے۔‏

اسکے بعد ایک حیران‌کُن واقع پیش آیا۔‏ میرے والد ایک سرگرم اور وفادار گواہ بن گئے اور یوں ہمارا خوشحال خاندان مکمل ہو گیا۔‏ پس جب مجھے ڈنمارک کے دیگر چار بھائیوں کیساتھ گلئیڈ سکول کی آٹھویں کلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تو میرے سارے خاندان نے میری حمایت کی۔‏ ستمبر ۱۹۴۶ سے شروع ہونے والا پانچ ماہ کا یہ کورس نیو یارک میں ساؤتھ لانسنگ کے باہر واقع ایک خوبصورت کیمپس میں منعقد ہوا۔‏

گلئیڈ اور گلئیڈ کے بعد تربیت

گلئیڈ نے شاندار نئے دوست بنانے کے مواقع فراہم کئے۔‏ ایک شام انگلینڈ سے آنے والے ہیرلڈ کنگ کیساتھ کیمپس کے باہر گھومتے ہوئے،‏ ہم باتیں کرنے لگے کہ ٹریننگ ختم ہونے کے بعد ہمیں کہاں بھیجا جا سکتا ہے۔‏ ہیرلڈ نے کہا ”‏میرا خیال نہیں کہ مَیں نے کبھی ڈوور کی سفید پہاڑیاں دیکھی ہیں۔‏“‏ اُس نے بالکل صحیح کہا تھا مگر اُسے یہ پہاڑیاں دیکھنے میں کوئی ۱۷ سال لگ گئے اور اِن میں سے ساڑھے چار سال چینی قیدخانے کے اندر قیدِتنہائی میں گزرے تھے!‏ *

میری گریجویشن کے بعد،‏ مجھے سفری نگہبان کے طور پر خدمت انجام دینے اور یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں کا دورہ کرنے اور اُنہیں روحانی طور پر مدد دینے کیلئے ٹیکساس،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ بھیج دیا گیا۔‏ میرا پُرتپاک خیرمقدم کِیا گیا۔‏ ٹیکساس کے بھائیوں کیلئے حال ہی میں گلئیڈ سکول سے آنے والے نوجوان یورپی بھائی کیساتھ ملاقات کرنا انتہائی دلچسپ تھا۔‏ مگر ٹیکساس میں صرف سات ماہ کے بعد مجھے بروکلن نیو یارک میں یہوواہ کے گواہوں کے عالمی ہیڈکوارٹرز آنے کی دعوت دی گئی۔‏ وہاں بھائی نار نے مجھے تمام شعبوں میں کارکردگی کی بابت جاننے کے دفتری کام کی تفویض سونپ دی۔‏ اس کے بعد جب مَیں واپس ڈنمارک جاؤنگا تو مجھے جوکچھ مَیں نے سیکھا ہے اُسے بالکل اُسی طرح کرنا ہوگا جیسے بروکلن میں ہوتا ہے۔‏ مقصد زیادہ مؤثر کارکردگی کیلئے عالمی پیمانہ پر تمام برانچوں کے کام کو یکساں چلانا تھا۔‏ بعدازاں بھائی نار نے مجھے جرمنی بھیج دیا۔‏

برانچوں میں ہدایات کا اطلاق کرنا

جب مَیں جولائی ۱۹۴۹ میں،‏ ویس‌بڈن جرمنی پہنچا تو بہت سے جرمن شہر ابھی تک کھنڈرات ہی تھے۔‏ منادی کے کام کی پیشوائی کرنے والے اشخاص وہ لوگ تھے جو ۱۹۳۳ میں ہٹلر کے برسرِاقتدار آنے کے وقت سے اذیت برداشت کر رہے تھے۔‏ اِن میں سے بعض آٹھ سے دس یا اس سے بھی زیادہ سال سے قیدخانوں اور مرکزِاسیران میں رہ چکے تھے!‏ مَیں نے ساڑھے تین سال یہوواہ کے اِن خادموں کیساتھ کام کِیا۔‏ اُنکی منفرد مثال مجھے ایک جرمن مؤرخ گیبرئیل یونان کے تبصرے کی یاد دلاتی ہے جس نے لکھا تھا:‏ ”‏نیشنل سوشلسٹ ڈکٹیٹرشپ کے تحت اس مضبوط مسیحی گروہ کے نمونے کے بغیر ہمیں اوچ‌وتز اور ہالوکاسٹ کے بعد یہ شک ہی رہتا کہ آیا یسوع کی مسیحی تعلیمات کی تعمیل ممکن ہے یا نہیں۔‏“‏

برانچ میں میری تفویض ڈنمارک جیسی ہی تھی کہ تنظیمی معاملات کو نئے اور متحد طریقے سے عمل میں لایا جائے۔‏ جیسے ہی جرمن بھائی یہ سمجھ گئے کہ ردوبدل کا مطلب اُنکے کام پر تنقید کرنا نہیں بلکہ وقت کے قریب‌تر ہو جانے کی وجہ سے مختلف برانچوں اور ہیڈکوارٹرز کے مابین قریبی رابطہ قائم کرنا ہے تو وہ جوش اور تعاون کے جذبے سے معمور ہو گئے۔‏

سن ۱۹۵۲ میں بھائی نار کے دفتر سے ایک خط موصول ہوا جس میں مجھے برن،‏ سوئٹزرلینڈ جانے کی ہدایت کی گئی۔‏ وہاں مجھے یکم جنوری،‏ ۱۹۵۳ میں برانچ اوورسیئر مقرر کر دیا گیا۔‏

سوئٹزرلینڈ میں نئی خوشیاں

سوئٹزرلینڈ پہنچنے کے کچھ ہی عرصہ بعد،‏ ایک کنونشن کے دوران میری ملاقات آستر سے ہوئی اور جلد ہی ہماری منگنی ہو گئی۔‏ اگست ۱۹۵۴ میں،‏ بھائی نار نے مجھے بروکلن آنے کی ہدایت کی جہاں ایک نیا اور حیران‌کُن کام میرا منتظر تھا۔‏ دُنیابھر کے برانچ دفاتر کے سائز اور کام کے زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے ایک نیا انتظام متعارف کروایا جا رہا تھا۔‏ دُنیا کو مختلف زونز میں تقسیم کر دیا گیا اور اِن میں سے ہر ایک دورہ ایک زون اوورسیئر نے کرنا تھا۔‏ مجھے دو زونز میں خدمت کا شرف دیا گیا:‏ یورپ اور بحیرۂروم کا علاقہ۔‏

بروکلن کے اپنے مختصر دورے کے بعد،‏ مَیں سوئٹزرلینڈ واپس آ گیا اور اپنے زون کے کام کے لئے تیاری شروع کر دی۔‏ میری اور آستر کی شادی ہو چکی تھی اور وہ بھی میرے ساتھ سوئٹزرلینڈ برانچ آفس میں خدمت انجام دینے لگی۔‏ اپنے پہلے دورے کے دوران مَیں نے—‏اٹلی،‏ یونان،‏ کُپرس،‏ مشرقِ‌وسطیٰ کے مختلف ممالک اور شمالی افریقہ کے ساحلی علاقہ‌جات نیز سپین اور پُرتگال—‏کُل ۱۳ ممالک کا دورہ کِیا۔‏ برن میں مختصر قیام کے بعد مَیں نے آہنی پردے کے پار مغرب کے دیگر یورپی ممالک کا سفر جاری رکھا۔‏ ہماری شادی کے پہلے سال کے دوران،‏ مَیں اپنے مسیحی بھائیوں کی خدمت کے سلسلے میں چھ ماہ تک گھر سے دُور رہا۔‏

حالات میں تبدیلی

سن ۱۹۵۷ میں،‏ آستر کو پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہے اور چونکہ بچوں والے والدین برانچ انتظام کے تحت کام نہیں کر سکتے لہٰذا ہم نے ڈنمارک واپس جانے کا فیصلہ کِیا جہاں ہمارے والد نے بخوشی ہمیں اپنے ساتھ ٹھہرنے کیلئے قبول کِیا۔‏ آستر ہماری بیٹی راخل اور میرے والد کی دیکھ‌بھال کرتی تھی جبکہ مَیں حال ہی میں تعمیرشُدہ نئے برانچ آفس کے کام میں مدد دے رہا تھا۔‏ مَیں نے کلیسیائی نگہبانوں کیلئے منعقد ہونے والے کنگڈم منسٹری سکول میں بطور انسٹرکٹر خدمت انجام دی اور زون اوورسیئر کے طور پر بھی خدمت جاری رکھی۔‏

زون کے کام کا مطلب زیادہ وقت کیلئے سفر کرنا تھا جس کی وجہ سے مَیں زیادہ عرصہ تک اپنی بیٹی سے دُور رہتا تھا۔‏ اسکے اپنے نتائج تھے۔‏ ایک مرتبہ مَیں نے پیرس میں کچھ وقت صرف کِیا جہاں ایک چھوٹا چھاپہ‌خانہ قائم کِیا جا رہا تھا۔‏ مجھے ملنے کیلئے آستر اور راخل ریل‌گاڑی کے ذریعے گار ڈیو نور آئیں۔‏ برانچ دفتر سے لیوپوڈ زونٹا اور مَیں اُنہیں ملنے کیلئے آئے۔‏ راخل ریل‌گاڑی کی سیڑھی پر کھڑی کبھی مجھے اور کبھی لیوپوڈ کو دیکھتی اور پھر آخر میں لیوپوڈ سے لپٹ گئی!‏

ایک دوسری ڈرامائی تبدیلی اُس وقت واقع ہوئی جب ۴۵ سال کی عمر میں مَیں نے اپنے خاندان کی کفالت کیلئے کُل‌وقتی خدمت کو خیرباد کہا۔‏ یہوواہ کے گواہوں کے خادم کے طور پر میرے تجربے کی بِنا پر مجھے ایکسپورٹ مینیجر کی ملازمت مل گئی۔‏ تقریباً نو سال تک اُسی کمپنی کیلئے کام کرنے اور راخل کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد،‏ ہم نے بادشاہتی مُنادوں کی زیادہ ضرورت والے علاقے میں جانے کی حوصلہ‌افزائی کیلئے جوابی‌عمل دکھانے کا فیصلہ کِیا۔‏

ناروے میں مواقع کا جائزہ لینے کے بعد،‏ مَیں نے وہاں ایک ایجنسی سے ملازمت کے امکانات کی بابت پوچھا۔‏ جواب حوصلہ‌افزا نہیں تھا۔‏ ایک ۵۵ سالہ شخص کیلئے بہت ہی کم امکان تھے۔‏ اس کے باوجود،‏ مَیں نے اوسلو میں برانچ دفتر سے رابطہ کِیا اور اس اعتماد کے ساتھ کہ ملازمت مل جائے گی،‏ ڈروبک کے قصبے کے قریب کرایے پر مکان حاصل کر لیا۔‏ پس مجھے ملازمت مل گئی اور اس کے بعد ناروے میں بادشاہتی خدمت کا کام نہایت پُرلطف رہا۔‏

بہترین وقت وہ تھا جب ہماری کلیسیا کے بیشتر لوگ غیرتفویض‌شُدہ علاقے میں کام کیلئے شمال کی طرف جانے لگے۔‏ ہم کیم‌پنگ والے علاقوں میں گھر کرایے پر خرید لیتے تھے اور ہر روز خوبصورت پہاڑی علاقے میں چیدہ چیدہ گھروں پر ملاقات کرتے تھے۔‏ اِن ملنسار لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی بابت بتانا ایک خوشگوار تجربہ تھا۔‏ بہت زیادہ لٹریچر پیش کِیا گیا مگر واپسی ملاقاتیں اگلے سال ہی کی جا سکتی تھیں۔‏ اس کے باوجود لوگ ہمیں نہیں بھولے تھے!‏ آستر اور راخل کو آج بھی وہ وقت یاد ہے جب ہمارے واپس آنے پر ہمیں خاندان کے بچھڑے ہوئے افراد کی طرح گلے لگایا جاتا تھا۔‏ تین سال تک ناروے میں رہنے کے بعد ہم ڈنمارک واپس آ گئے۔‏

خاندانی زندگی کی خوشیاں

جلد ہی راخل کی منگنی ایک کُل‌وقتی سرگرم خادم نیل‌ہواو کے ساتھ ہو گئی۔‏ اپنی شادی کے بعد نیل اور راخل اُس وقت تک پائنیرنگ کرتے رہے جبتک اُنکے بچے نہ ہو گئے۔‏ نیل نہ صرف ایک اچھا شوہر بلکہ ایک اچھا باپ بھی تھا اور اپنے خاندان میں حقیقی دلچسپی لیتا تھا۔‏ ایک دن صبح سویرے وہ اپنے بیٹے کو سورج طلوع ہونے کا منظر دکھانے کیلئے سائیکل پر ساحل کے کنارے لے گیا۔‏ ایک پڑوسی نے بچے سے پوچھا کہ وہ وہاں کیا کرنے گئے تھے۔‏ اُس نے جواب دیا:‏ ”‏ہم نے یہوواہ سے دُعا کی تھی۔‏“‏

چند سال بعد مَیں نے اور آستر نے اپنے دو اسباط بنیمین اور ندیا کو بپتسمہ لیتے دیکھا۔‏ مشاہدین میں نیل بھی شامل تھا جوکہ اچانک سے میرے سامنے آ گیا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا:‏ ”‏مرد رویا نہیں کرتے۔‏“‏ تاہم،‏ دوسرے ہی لمحے ہم دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگے۔‏ ایسا داماد ہونے کی بھی اپنی ہی بات ہے جسے آپ اپنے غم اور خوشی دونوں میں شریک کر سکتے ہیں!‏

حالات میں مزید ردوبدل

ایک دوسری برکت کا تجربہ اُس وقت ہوا جب مجھے اور آستر کو واپس ڈنمارک برانچ آفس میں کام کرنے کیلئے بلایا گیا۔‏ تاہم،‏ اُس وقت تک ہولبیک میں ایک بڑی برانچ سہولت تعمیر کرنے کا کام جاری تھا۔‏ مجھے رضاکار کارکنوں کے ذریعے انجام پانے والے تعمیراتی کام کی نگرانی کرنے کا شرف حاصل تھا۔‏ شدید سردی کے باوجود،‏ ۱۹۸۲ کے آخر تک اس پروجیکٹ نے مکمل ہونا تھا اور ہم سب ایک بڑی اور بہتر عمارت میں منتقل ہونے پر بہت خوش تھے!‏

جلد ہی مَیں دفتری کام میں مصروف ہو گیا جس سے مجھے بہت اطمینان حاصل ہوتا تھا جبکہ آستر ٹیلی‌فون آپریٹر کی خدمات انجام دے رہی تھی۔‏ تاہم،‏ جلد ہی اُسے کولہے کی جراحی کے عمل سے گزرنا پڑا اور اس کے ڈیڑھ سال بعد اُس کا پتے کا آپریشن ہوا۔‏ برانچ کے بھائیوں کی طرف سے دکھائی جانے والی پُرمحبت فکرمندی کے باوجود،‏ ہم نے سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ ہم برانچ کو چھوڑ دیں۔‏ ہم اُسی کلیسیا میں آ گئے جس میں ہماری بیٹی اور خاندان تھا۔‏

آجکل آستر کی صحت اچھی نہیں لیکن مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اپنی مشترکہ خدمت کے تمام سالوں کے دوران حالات میں مختلف تبدیلیوں کے باوجود،‏ وہ ایک شاندار مددگار اور ساتھی ثابت ہوئی ہے۔‏ خراب صحت کے باوجود،‏ ہم دونوں منادی کی کارگزاری میں خاطرخواہ حصہ لیتے ہیں۔‏ جب مَیں اپنی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مَیں شکرگزاری کیساتھ زبورنویس کے اِن الفاظ کو دہراتا ہوں:‏ ”‏اَے خدا!‏ تُو مجھے بچپن سے سکھاتا آیا ہے۔‏“‏—‏زبور ۷۱:‏۱۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 15 جولائی ۱۵،‏ ۱۹۶۳ کے دی واچ‌ٹاور کے صفحہ ۴۳۷-‏۴۴۲ کو دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

سن ۱۹۴۹ میں زیرِتعمیر جرمنی برانچ میں لٹریچر شپمنٹ اُتارتے ہوئے

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

میرے ساتھی کارکنوں میں مرکزِاسیران سے واپس لوٹنے والے گواہ شامل تھے

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویریں]‏

آستر کیساتھ اب اور اکتوبر ۱۹۵۵ میں،‏ برن بیت‌ایل میں شادی کے دن