مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خاتمے کی نزدیکی کے پیشِ‌نظر فرمانبردار بنیں

خاتمے کی نزدیکی کے پیشِ‌نظر فرمانبردار بنیں

خاتمے کی نزدیکی کے پیشِ‌نظر فرمانبردار بنیں

‏”‏قومیں [‏شیلوہ]‏ کی مطیع ہونگی۔‏“‏—‏پیدایش ۴۹:‏۱۰‏۔‏

۱.‏ (‏ا)‏ ماضی میں یہوواہ کی فرمانبرداری سے اکثر کیا مطلب لیا جاتا تھا؟‏ (‏ب)‏ یعقوب نے اطاعت کے متعلق کونسی پیشینگوئی کی؟‏

یہوواہ کی اطاعت کا مطلب اکثر اوقات اسکے نمائندوں کی فرمانبرداری کرنا ہے۔‏ ان میں فرشتگان،‏ آبائی بزرگ،‏ منصف،‏ کاہن،‏ نبی اور بادشاہ شامل ہیں۔‏ اسرائیلی بادشاہوں کے تخت کو یہوواہ کا تخت تک بیان کِیا گیا ہے۔‏ (‏۱-‏تواریخ ۲۹:‏۲۳‏)‏ تاہم،‏ افسوس کی بات ہے کہ اسرائیل کے بیشتر حکمرانوں نے خدا کی نافرمانی کی اور اپنے اور اپنے ماتحتوں کیلئے مصیبت کا باعث ہوئے۔‏ لیکن یہوواہ نے اپنے وفاداروں کو اُمید کے بغیر نہیں چھوڑا؛‏ اُس نے انہیں راست بادشاہ دینے کے وعدے کیساتھ تسلی دی جس کی اطاعت کرنے سے راستباز خوشی حاصل کرینگے۔‏ (‏یسعیاہ ۹:‏۶،‏ ۷‏)‏ آبائی بزرگ یعقوب نے مرنے سے پہلے مستقبل کے اس بادشاہ کی بابت پیشینگوئی کی:‏ ”‏یہوؔداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اُسکی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا۔‏ جب تک شیلوؔہ نہ آئے اور قومیں اُسکی مطیع ہونگی۔‏“‏—‏پیدایش ۴۹:‏۱۰‏۔‏

۲.‏ ”‏شیلوؔہ“‏ کا کیا مطلب ہے اور اس کی شاہی حکمرانی میں کون شامل ہونگے؟‏

۲ عبرانی لفظ ”‏شیلوؔہ“‏ کا مطلب ہے،‏ ”‏وہ جس کا یہ ہے“‏ یا ”‏وہ جس کا حق ہے۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ شیلوہ حکمرانی کرنے کا حق وراثت میں حاصل کرتا ہے جسکی نمائندگی سلطنت اور عصا سے کی گئی ہے۔‏ مزیدبرآں،‏ اسکی شاہی حکمرانی میں یعقوب کی اولاد کے علاوہ تمام ”‏قومیں“‏ شامل ہونگی۔‏ یہ بات ابرہام کیساتھ یہوواہ کے اس وعدے سے ہم‌آہنگ ہے:‏ ”‏تیری اَولاد اپنے دُشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہوگی۔‏ اور تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائینگی کیونکہ تُو نے میری بات مانی۔‏“‏ (‏پیدایش ۲۲:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ یہوواہ نے ۲۹ س.‏ع.‏ میں یسوع ناصری کو رُوح‌اُلقدس سے مسح کرکے اس ”‏نسل“‏ کی شناخت کی تصدیق کر دی تھی۔‏—‏لوقا ۳:‏۲۱-‏۲۳،‏ ۳۴؛‏ گلتیوں ۳:‏۱۶‏۔‏

یسوع کی پہلی بادشاہت

۳.‏ جب یسوع نے آسمان کو صعود فرمایا تو اُس نے کونسی حکمرانی حاصل کی؟‏

۳ جب یسوع نے آسمان کو صعود فرمایا تو اُس نے دُنیا کی قوموں پر حکومت کا عصا فوراً نہیں سنبھالا تھا۔‏ (‏زبور ۱۱۰:‏۱‏)‏ تاہم،‏ اُس نے ایک ”‏بادشاہی“‏ حاصل کی تھی جس میں اسکی فرمانبرداری کرنے والی رعایا تھی۔‏ پولس رسول نے اس بادشاہی کی نشاندہی کی:‏ ”‏[‏خدا]‏ نے ہم [‏روح سے مسح‌شُدہ مسیحیوں]‏ کو تاریکی کے قبضہ سے چھڑا کر اپنے عزیز بیٹے کی بادشاہی میں داخل کِیا۔‏“‏ (‏کلسیوں ۱:‏۱۳‏)‏ یہ مخلصی ۳۳ س.‏ع.‏ کے پنتِکُست پر یسوع کے وفادار پیروکاروں پر رُوح‌اُلقدس کے نزول کیساتھ شروع ہوئی تھی۔‏—‏اعمال ۲۱:‏۱-‏۴؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۹‏۔‏

۴.‏ کن طریقوں سے یسوع کے ابتدائی شاگردوں نے فرمانبرداری ظاہر کی،‏ اور یسوع نے ایک گروہ کے طور پر ان کی کیسے شناخت کرائی؟‏

۴ ‏”‏مسیح کے ایلچی“‏ کے طور پر روح سے مسح‌شُدہ شاگردوں نے اطاعت‌شعاری سے دوسروں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا جو اس روحانی بادشاہت کے ”‏ہموطن“‏ بنیں گے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۲۰؛‏ افسیوں ۲:‏۱۹؛‏ اعمال ۱:‏۸‏)‏ مزیدبرآں،‏ انہیں ”‏باہم یک‌دل اور یک‌رای ہو کر کامل بنے“‏ رہنا تھا تاکہ وہ اپنے بادشاہ یسوع مسیح کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۱۰‏)‏ ایک گروپ کے طور پر،‏ وہ ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ یا وفادار داروغہ جماعت کو تشکیل دیتے ہیں۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵؛‏ لوقا ۱۲:‏۴۲‏۔‏

خدا کے ”‏داروغہ“‏ کی اطاعت کے باعث برکت

۵.‏ قدیم وقتوں سے لیکر،‏ یہوواہ نے اپنے بندوں کو کیسے تعلیم دی ہے؟‏

۵ یہوواہ نے ہمیشہ اپنے لوگوں کیلئے اُستاد مہیا کئے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب یہودی بابل سے لوٹے تو عزرا اور دیگر لائق اشخاص نے محض لوگوں کو خدا کی شریعت پڑھ کر نہیں سنائی تھی بلکہ اُنہوں نے اس شریعت میں سے ”‏صاف آواز سے پڑھا“‏ پھر خدا کے کلام کے ”‏معنی بتائے اور اُن کو عبارت سمجھا دی۔‏“‏—‏نحمیاہ ۸:‏۸‏۔‏

۶،‏ ۷.‏ نوکر جماعت نے اپنی گورننگ باڈی کے ذریعے کیسے بروقت روحانی خوراک فراہم کی ہے اور کیوں نوکر جماعت کی اطاعت موزوں ہے؟‏

۶ پہلی صدی میں،‏ جب ۴۹ س.‏ع.‏ میں ختنے کا مسئلہ اُٹھا تو ابتدائی نوکر جماعت کی گورننگ باڈی نے معاملے پر دُعائیہ غوروفکر کِیا اور صحیفائی نتائج پر پہنچے۔‏ جب اُنہوں نے اپنے فیصلے کا ایک خط کے ذریعے اعلان کِیا تو کلیسیاؤں نے دی جانے والی ہدایت کی تعمیل کی اور خدا کی کثیر برکات سے استفادہ کِیا۔‏ (‏اعمال ۱۵:‏۶-‏۱۵،‏ ۲۲-‏۲۹؛‏ ۱۶:‏۴،‏ ۵‏)‏ اسی طرح جدید زمانے میں،‏ دیانتدار نوکر نے اپنی گورننگ باڈی کے ذریعے مسیحی غیرجانبداری،‏ خون کے تقدس اور منشیات اور تمباکو کے استعمال جیسے اہم مسائل کی وضاحت کی ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۴؛‏ اعمال ۲۱:‏۲۵؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۷:‏۱‏)‏ یہوواہ نے اپنے لوگوں کو اپنے کلام اور دیانتدار نوکر کی اطاعت کرنے کی وجہ سے برکت بخشی ہے۔‏

۷ نوکر جماعت کے مطیع ہونے سے،‏ خدا کے لوگ مالک یسوع مسیح کی اطاعت بھی ظاہر کرتے ہیں۔‏ ایسی اطاعت نے جدید زمانے میں یسوع کے اختیار کو بڑھانے کی وجہ سے اضافی اہمیت حاصل کر لی ہے جیساکہ یعقوب کی بسترِمرگ کی پیشینگوئی میں بیان کِیا گیا ہے۔‏

شیلوہ زمین کا جائز حکمران بنتا ہے

۸.‏ مسیح کا اختیار کیسے اور کب وسیع ہوا تھا؟‏

۸ یعقوب کی پیشینگوئی میں قبل‌ازوقت بیان کِیا گیا کہ ”‏قومیں“‏ شیلوہ کی ”‏مطیع ہونگی۔‏“‏ واضح طور پر،‏ مسیح کی حکمرانی روحانی اسرائیل سے بڑھکر ہوگی۔‏ اس میں کون شامل ہونگے؟‏ مکاشفہ ۱۱:‏۱۵ جواب دیتی ہے:‏ ‏”‏دُنیا کی بادشاہی ہمارے خداوند اور اُسکے مسیح کی ہو گئی اور وہ ابدالآباد بادشاہی کریگا۔‏“‏ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ یسوع نے ۱۹۱۴ میں نبوّتی ”‏سات دوروں“‏—‏”‏غیرقوموں کی میعاد“‏—‏کے اختتام پر اس اختیار کو حاصل کر لیا تھا۔‏ * (‏دانی‌ایل ۴:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ لوقا ۲۱:‏۲۴‏)‏ اس سال میں مسیحائی بادشاہ کے طور پر مسیح کی نادیدہ ”‏موجودگی“‏ اور ”‏اپنے دُشمنوں پر حکمرانی“‏ کرنے کا اُس کا وقت شروع ہو گیا تھا۔‏—‏متی ۲۴:‏۳؛‏ زبور ۱۱۰:‏۲‏۔‏

۹.‏ جب یسوع نے اپنی بادشاہی حاصل کی تو اس نے کیا کِیا اور نسلِ‌انسانی پر،‏ بالخصوص اسکے اپنے شاگردوں پر اس کا بالواسطہ کیا اثر پڑا؟‏

۹ بادشاہتی اختیار حاصل کرنے کے فوراً بعد یسوع کا پہلا کام نافرمانی کی تجسیم—‏شیطان—‏کو اس کے شیاطین سمیت ”‏زمین“‏ پر پھینک دینا تھا۔‏ اُس وقت سے لیکر،‏ ان بدروحوں نے نسلِ‌انسانی کیلئے بےپناہ مصیبت برپا کرنے کے علاوہ ایسے ماحول کو ترقی دی ہے جو یہوواہ کی فرمانبرداری کو ایک چیلنج بناتا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۱۲؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ درحقیقت،‏ اس کی روحانی جنگ میں شیطان کا اہم نشانہ ’‏خدا کے حکموں پر عمل کرنے اور یسوؔع کی گواہی دینے پر قائم‘‏ رہنے والے یہوواہ کے ممسوح اشخاص اور انکی ساتھی ’‏دوسری بھیڑیں‘‏ ہیں۔‏—‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۷؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۶‏۔‏

۱۰.‏ بائبل کی کن پیشینگوئیوں کی تکمیل حقیقی مسیحیوں کے خلاف شیطان کی جنگ کی ناکامی کی ضمانت پیش کرتی ہے؟‏

۱۰ تاہم شیطان کا ناکام ہونا یقینی ہے کیونکہ یہ ”‏خداوند کا دن“‏ ہے اور یسوع کو ’‏اپنی فتح کو مکمل‘‏ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‏ (‏مکاشفہ ۱:‏۱۰؛‏ ۶:‏۲‏)‏ مثال کے طور پر،‏ وہ ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ روحانی اسرائیل پر آخری مہر ہونے کی یقین‌دہانی کریگا۔‏ وہ ”‏ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِ‌زبان کی ایک ایسی بڑی بِھیڑ“‏ کی حفاظت کریگا ”‏جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۱-‏۴،‏ ۹،‏ ۱۴-‏۱۶‏)‏ تاہم،‏ اپنے ممسوح رفیقوں کے برعکس،‏ یہ یسوع کی فرمانبردار زمینی رعایا بن جائینگے۔‏ (‏دانی‌ایل ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ دُنیا کے منظر پر ان کی موجودگی پہلے ہی سے حقیقی ثبوت پیش کرتی ہے کہ شیلوہ واقعی ”‏دُنیا کی بادشاہی“‏ کا حاکم ہے۔‏—‏مکاشفہ ۱۱:‏۱۵‏۔‏

‏”‏خوشخبری کو ماننے“‏ کا وقت اب ہے

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏ اس موجودہ نظام‌العمل کے خاتمے سے صرف کون بچینگے؟‏ (‏ب)‏ ”‏دُنیا کی روح“‏ سے متاثر ہونے والوں میں کونسے شخصیتی خصائل پیدا ہو جاتے ہیں؟‏

۱۱ ہمیشہ کی زندگی کے خواہشمند تمام اشخاص کو فرمانبرداری سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ بائبل واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ ”‏جو خدا کو نہیں پہچانتے اور ہمارے خداوند یسوؔع کی خوشخبری کو نہیں مانتے“‏ وہ خدا کے روزِانتقام سے نہیں بچینگے۔‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۸‏)‏ تاہم،‏ بائبل کے آئین‌وقوانین کے خلاف موجودہ شریر ماحول اور اس کی باغیانہ روح خوشخبری کی اطاعت کو ایک چیلنج بنا دیتی ہیں۔‏

۱۲ بائبل خدا کے خلاف باغیانہ رُجحان کو ”‏دُنیا کی روح“‏ کے طور پر بیان کرتی ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۲‏)‏ لوگوں پر اس کے اثر کو واضح کرتے ہوئے پولس رسول نے افسس کے پہلی صدی کے مسیحیوں کو لکھا:‏ ”‏تم پیشتر دُنیا کی روش پر چلتے تھے اور ہوا کی عملداری کے حاکم یعنی اُس روح کی پیروی کرتے تھے جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے۔‏ اِن میں ہم بھی سب کے سب پہلے اپنے جسم کی خواہشوں میں زندگی گذارتے اور جسم اور عقل کے ارادے پورے کرتے تھے اور دوسروں کی مانند طبعی طور پر غضب کے فرزند تھے۔‏“‏—‏افسیوں ۲:‏۲،‏ ۳‏۔‏

۱۳.‏ مسیحی دُنیا کی روح کا مؤثر طریقے سے کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں اور کن مفید نتائج کیساتھ؟‏

۱۳ خوشی کی بات ہے کہ افسس کے مسیحی نافرمانی کی روح کے غلام نہیں رہے تھے۔‏ اس کے برعکس،‏ وہ خدا کی روح کے مطیع ہونے سے اس کے فرزند بن گئے اور اس کے کثیر اور خوشگوار پھل کی فصل کاٹی۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ اسی طرح آجکل،‏ خدا کی روح—‏کائنات کی انتہائی اثرآفرین قوت—‏یہوواہ کے فرمانبردار بننے کیلئے لاکھوں لوگوں کی مدد کر رہی ہے جسکا نتیجہ یہ ہے کہ انہیں ”‏اُمید کے واسطے آخر تک“‏ پورا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔‏—‏عبرانیوں ۶:‏۱۱؛‏ زکریاہ ۴:‏۶‏۔‏

۱۴.‏ یسوع نے آخری دنوں میں رہنے والے تمام مسیحیوں کو خاص باتوں سے کیسے چوکس کِیا جو ان کی فرمانبرداری کی آزمائش کرینگی؟‏

۱۴ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ہمیں شیلوہ کی زبردست حمایت حاصل ہے جو اپنے باپ کے ساتھ ملکر کسی دشمن—‏شیاطین یا انسان—‏کو ہماری برداشت سے زیادہ ہماری فرمانبرداری کی آزمائش کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳‏)‏ درحقیقت،‏ ہماری روحانی لڑائی میں،‏ یسوع نے کئی مسائل کا ذکر کِیا جن کا ہم ان آخری ایّام میں سامنا کریں گے۔‏ اس نے ایسا سات خطوط کے ذریعے کِیا جو اس نے یوحنا رسول کو ایک رویا میں دئے تھے۔‏ (‏مکاشفہ ۱:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ ان میں یقیناً اس وقت کے مسیحیوں کے لئے اہم مشورے شامل تھے لیکن ان کا بنیادی اطلاق ۱۹۱۴ سے ”‏خداوند کے دن“‏ میں ہوتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ یہ بات کتنی موزوں ہے کہ ہم ان پیغامات پر توجہ دیں!‏ *

بےحسی،‏ بداخلاقی،‏ مادہ‌پرستی سے بچیں

۱۵.‏ افسس کی کلیسیا کو جو مسئلہ درپیش تھا ہمیں اُس سے کیوں خبردار رہنا چاہئے اور ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏۲-‏پطرس ۱:‏۵-‏۸‏)‏

۱۵ یسوع کا پہلا خط افسس کے نام تھا۔‏ کلیسیا کو اس کی برداشت پر شاباش دینے کے بعد یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏مگر مجھ کو تجھ سے یہ شکایت ہے کہ تُو نے اپنی پہلی سی محبت چھوڑ دی۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲:‏۱-‏۴‏)‏ اِسی طرح آجکل بھی بعض مسیحیوں نے پُرجوش محبت چھوڑ دی ہے جو وہ خدا کیلئے پہلے کبھی رکھتے تھے۔‏ ایسی کمزوری ایک شخص کے خدا کیساتھ رشتے کو کمزور کر سکتی ہے لہٰذا اس پر فوری توجہ دی جانی چاہئے۔‏ ایسی محبت کو کیسے ازسرِنو بیدار کِیا جا سکتا ہے؟‏ باقاعدہ بائبل مطالعے،‏ اجلاسوں پر حاضری،‏ دُعا اور غوروخوض کے ذریعے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏)‏ سچ ہے کہ اس کیلئے ”‏کمال کوشش“‏ درکار ہے جو واقعی مفید ہے۔‏ (‏۲-‏پطرس ۱:‏۵-‏۸‏)‏ اگر اپنی ذات کا دیانتدارانہ جائزہ یہ آشکارا کرتا ہے کہ ہماری محبت ٹھنڈی پڑ چکی ہے تو پھر یسوع کی فہمائش کی تابعداری میں فوری طور پر صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کریں:‏ ”‏پس خیال کر کہ تُو کہاں سے گرا ہے اور توبہ کرکے پہلے کی طرح کام کر۔‏“‏—‏مکاشفہ ۲:‏۵‏۔‏

۱۶.‏ پرگمن اور تھواتیرہ کی کلیسیاؤں میں کونسے روحانی خطرات موجود تھے اور اُن سے یسوع کی باتیں ہمارے زمانے کے لئے کیوں موزوں ہیں؟‏

۱۶ پرگمن اور تھواتیرہ کے مسیحیوں کی اُن کی وفاداری،‏ برداشت اور گرمجوشی کیلئے تعریف کی گئی تھی۔‏ (‏مکاشفہ ۲:‏۱۲،‏ ۱۳،‏ ۱۸،‏ ۱۹‏)‏ اسکے باوجود،‏ اُن میں سے بعض بلعام اور ایزبل کا سا بدطینت جذبہ ظاہر کر رہے تھے جس نے جنسی بداخلاقی اور بعل کی پرستش کے ذریعے قدیم اسرائیل پر بُرا اثر ڈالا تھا۔‏ (‏گنتی ۳۱:‏۱۶؛‏ ۱-‏سلاطین ۱۶:‏۳۰،‏ ۳۱؛‏ مکاشفہ ۲:‏۱۴،‏ ۱۶،‏ ۲۰-‏۲۳‏)‏ مگر ہمارے ایّام یعنی ”‏خداوند کے دن“‏ کی بابت کیا ہے؟‏ کیا ایسے ہی خراب اثرات آج بھی نظر آتے ہیں؟‏ جی‌ہاں،‏ کیونکہ آجکل خدا کے لوگوں کے اندر خارج ہونے کی سب سے بڑی وجہ بداخلاقی ہی ہے۔‏ اسلئے یہ کتنا ضروری ہے کہ ہم کلیسیا کے اندر اور باہر ایسے تمام اشخاص کیساتھ رفاقت سے گریز کریں جو اخلاقی طور پر بُرا اثر ڈال سکتے ہیں!‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۹-‏۱۱؛‏ ۱۵:‏۳۳‏)‏ جو لوگ شیلوہ کی فرمانبردار رعایا بننا چاہتے ہیں وہ قابلِ‌اعتراض تفریح اور مطبوعہ اور انٹرنیٹ پر فحاشی سے بھی گریز کرینگے۔‏—‏عاموس ۵:‏۱۵؛‏ متی ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

۱۷.‏ سردیس اور لودیکیہ کی روحانی حالت کی بابت یسوع کے نظریے اور اُنکے نظریات اور رُجحان میں کیا فرق تھا؟‏

۱۷ ماسوا چند اشخاص کے،‏ سردیس کی کلیسیا کی کوئی تعریف نہیں کی گئی تھی۔‏ یہ بظاہر ’‏زندہ کہلاتی‘‏ تھی مگر روحانی سردمہری اتنی زیادہ جڑ پکڑ چکی تھی کہ یسوع کی نظروں میں یہ ’‏مُردہ‘‏ ہی تھی۔‏ خوشخبری کے لئے وفاداری محض سطحی تھی۔‏ کیا ہی بڑی سزا!‏ (‏مکاشفہ ۳:‏۱-‏۳‏)‏ لودیکیہ کی کلیسیا کی حالت بھی بالکل ایسی ہی تھی۔‏ یہ مادی دولت پر فخر کرتی اور کہتی تھی،‏ ”‏مَیں دولتمند ہوں،‏“‏ جبکہ مسیح کے نزدیک یہ ’‏کمبخت اور خوار اور غریب اور اندھی اور ننگی‘‏ تھی۔‏—‏مکاشفہ ۳:‏۱۴-‏۱۷‏۔‏

۱۸.‏ کوئی شخص خدا کی نظروں میں روحانی طور پر نیم‌گرم ہونے سے کیسے بچ سکتا ہے؟‏

۱۸ آجکل،‏ بعض وفادار مسیحی بھی نافرمانی کے اُسی نمونے پر چل رہے ہیں۔‏ شاید اُنہوں نے دُنیا کی روح کو اپنی زندگیوں سے فوری تعمیل کے احساس کو چھین لینے کی اجازت دے دی ہے اور یوں روحانی طور پر بائبل مطالعے،‏ دُعا،‏ مسیحی اجلاسوں اور خدمتگزاری کی بابت نیم‌گرم میلان اختیار کر لیا ہے۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۳،‏ ۴،‏ ۱۱،‏ ۱۲‏)‏ کتنا ضروری ہے کہ یہ لوگ روحانی دولت کمانے سے مسیح کی فرمانبرداری کریں اور مسیح سے ”‏آگ میں تپایا ہوا سونا خرید“‏ لیں!‏ (‏مکاشفہ ۳:‏۱۸‏)‏ ایسی خالص دولت میں ’‏نیک کاموں میں دولتمند ہونا،‏ فیاض اور دوسروں کو دینے کیلئے مستعد رہنا‘‏ شامل ہے۔‏ ان قیمتی روحانی اثاثوں میں امیر بننے سے ہم ’‏آیندہ کے لئے اپنے واسطے ایک اچھی بنیاد قائم کر سکتے ہیں تاکہ حقیقی زندگی پر قبضہ کر سکیں۔‏‘‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۷-‏۱۹‏۔‏

اُنکی فرمانبرداری کی تعریف کی گئی

۱۹.‏ یسوع نے سمرنہ اور فلدلفیہ کے مسیحیوں کی تعریف اور نصیحت کیسے کی تھی؟‏

۱۹ سمرنہ اور فلدلفیہ کی کلیسیائیں وفاداری میں اپنے بیمثال نمونے کی وجہ سے نمایاں تھیں کیونکہ اُنکے نام یسوع کے خطوط میں کوئی تنبیہ شامل نہیں تھی۔‏ اُس نے سمرنہ کے لوگوں سے کہا:‏ ”‏مَیں تیری مصیبت اور غریبی کو جانتا ہوں (‏مگر تُو دولتمند ہے)‏۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲:‏۹‏)‏ لودیکیہ کے اُن لوگوں کے بالکل برعکس جو دُنیاوی دولت پر فخر کرتے تھے مگر حقیقت میں غریب تھے!‏ بِلاشُبہ،‏ اِبلیس کسی کو مسیح کیلئے وفاداری اور فرمانبرداری کرتے ہوئے دیکھ کر خوش نہیں تھا۔‏ پس یسوع نے آگاہ کِیا:‏ ”‏جو دُکھ تجھے سہنے ہونگے اُن سے خوف نہ کر۔‏ دیکھو ابلیس تم میں سے بعض کو قید میں ڈالنے کو ہے تاکہ تمہاری آزمایش ہو اور دس دن تک مصیبت اُٹھاؤ گے۔‏ جان دینے تک بھی وفادار رہ تو مَیں تجھے زندگی کا تاج دُونگا۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲:‏۱۰‏)‏ اسی طرح یسوع نے یہ کہتے ہوئے فلدلفیہ کے لوگوں کی تعریف کی تھی:‏ ”‏تُو نے میرے کلام پر عمل کِیا ہے اور میرے نام کا انکار نہیں کِیا۔‏ جوکچھ تیرے پاس ہے اُسے تھامے رہ تاکہ کوئی تیرا تاج نہ چھین لے۔‏“‏—‏مکاشفہ ۳:‏۸،‏ ۱۱‏۔‏

۲۰.‏ آجکل لاکھوں لوگ کن حالات کے باوجود اور کیسے یسوع کے الفاظ پر کاربند رہے ہیں؟‏

۲۰ سن ۱۹۱۴ سے شروع کرکے ”‏خداوند کے دن“‏ میں ایک وفادار بقیہ اور اُن کے ساتھ دوسری بھیڑوں کے لوگ جو اب لاکھوں کی تعداد کو پہنچ رہے ہیں وہ بھی اپنی گرمجوش خدمتگزاری اور وفاداری کے باعث یسوع کے الفاظ پر قائم ہیں۔‏ پہلی صدی کے اپنے بھائیوں کی طرح،‏ بعض نے مسیح کی فرمانبرداری کرنے کے باعث دُکھ اُٹھائے ہیں اور مرکزِاسیران میں بھی رہے ہیں۔‏ دیگر اپنے اردگرد کے متموّل اور حریص ماحول کے باوجود اپنی آنکھ کو سادہ رکھنے سے یسوع کے الفاظ پر کاربند رہے ہیں۔‏ (‏متی ۶:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہر طرح کے ماحول اور حالات کے تحت،‏ سچے مسیحی اپنی فرمانبرداری کے ذریعے یہوواہ کے دل کو شاد کرتے رہے ہیں۔‏—‏امثال ۲۷:‏۱۱‏۔‏

۲۱.‏ (‏ا)‏ نوکر جماعت کونسی ذمہ‌داری پوری کرتی رہیگی؟‏ (‏ب)‏ ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم واقعی شیلوہ کی فرمانبرداری کرنا چاہتے ہیں؟‏

۲۱ جوں‌جوں ہم بڑی مصیبت کے نزدیک پہنچ رہے ہیں ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ اپنے مالک،‏ مسیح کی فرمانبرداری پر مصالحت نہ کرنے کے عزم پر قائم ہے۔‏ اس میں خدا کے گھرانے کیلئے بروقت روحانی خوراک فراہم کرنا شامل ہے۔‏ پس آئیے یہوواہ کی شاندار تھیوکریٹک تنظیم اور جو کچھ یہ فراہم کرتی ہے اُس کی قدر کرتے رہیں۔‏ اس طرح ہم شیلوہ کے لئے اپنی اطاعت کا اظہار کرتے ہیں جو اپنی تمام فرمانبردار رعایا کو ہمیشہ کی زندگی دیگا۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷؛‏ ۲۵:‏۴۰؛‏ یوحنا ۵:‏۲۲-‏۲۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 ‏”‏سات دوروں“‏ کی وضاحت کیلئے یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کا باب ۱۰ دیکھیں‏۔‏

^ پیراگراف 14 براہِ‌مہربانی اِن سات خطوط کی مفصل بحث کیلئے یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب ریولیشن—‏اِٹس گرینڈ کلائمکس ایٹ ہینڈ!‏ کے صفحہ ۳۳ سے آگے مطالعہ کریں۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• یعقوب کی بسترِمرگ کی پیشینگوئی کے مطابق،‏ یسوع نے کونسا کردار ادا کرنا تھا؟‏

‏• ہم کیسے یسوع کو شیلوہ تسلیم کرتے ہیں نیز ہمیں کس روح سے گریز کرنا چاہئے؟‏

‏• مکاشفہ میں سات کلیسیاؤں کے نام خطوط میں ہمارے زمانے کے لئے کونسی مناسب مشورت پائی جاتی ہے؟‏

‏• کن طریقوں سے ہم سمرنہ اور فلدلفیہ کی قدیم کلیسیاؤں کی نقل کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویریں]‏

عقلمند ”‏داروغہ“‏ کی فرمانبرداری کرنے کے باعث یہوواہ اپنے لوگوں کو برکت دیتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

شیطان کا اثر خدا کی فرمانبرداری کو مشکل بنا دیتا ہے

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

یہوواہ کیساتھ مضبوط رشتہ ہمیں اُسکی فرمانبرداری کرنے میں مدد دیتا ہے