مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ فرمانبرداروں کو برکت اور تحفظ بخشتا ہے

یہوواہ فرمانبرداروں کو برکت اور تحفظ بخشتا ہے

یہوواہ فرمانبرداروں کو برکت اور تحفظ بخشتا ہے

‏”‏جو میری سُنتا ہے وہ محفوظ ہوگا اور آفت سے نڈر ہو کر اطمینان سے رہیگا۔‏“‏—‏امثال ۱:‏۳۳‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ خدا کی فرمانبرداری کیوں اہم ہے؟‏ وضاحت کریں۔‏

نہایت نرم‌وملائم پروں والے زرد رنگ کے چوزے بلندی پر منڈلانے والے عقاب سے بالکل بےخبر گھاس پر سے دانہ‌دنکا چن رہے ہیں۔‏ اچانک ان چوزوں کی ماں لرزہ‌خیز بلند آواز سے آگاہی دیتے ہوئے اپنے پَر پھیلاتی ہے۔‏ چوزے آن کی آن میں بھاگ کر اس کے پروں کے نیچے چھپ کر محفوظ ہو جاتے ہیں۔‏ عقاب حملے کا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔‏ * سبق؟‏ فرمانبرداری زندگی بچاتی ہے!‏

۲ یہ سبق آجکل کے مسیحیوں کیلئے اہم ہے کیونکہ شیطان خدا کے لوگوں کو شکار کرنے کیلئے اپنا پورا زور لگا رہا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹،‏ ۱۲،‏ ۱۷‏)‏ اس کا نشانہ ہماری روحانیت کو تباہ کرنا ہے تاکہ ہم یہوواہ کی کرمفرمائی اور ہمیشہ کی زندگی کا امکان کھو بیٹھیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ تاہم،‏ اگر ہم خدا کی قربت میں رہتے ہیں اور اس کے کلام اور تنظیم کی ہدایت پر فوراً عمل کرتے ہیں تو ہم اس کی حفاظتی نگہداشت کا یقین رکھ سکتے ہیں۔‏ زبورنویس نے لکھا:‏ ”‏وہ تجھے اپنے پروں سے چھپا لیگا اور تجھے اُس کے بازوؤں کے نیچے پناہ ملیگی۔‏“‏—‏زبور ۹۱:‏۴‏۔‏

ایک نافرمان قوم شکار ہو جاتی ہے

۳.‏ اسرائیل کی مسلسل نافرمانی کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۳ جبتک اسرائیلی قوم یہوواہ کی فرمانبردار رہی وہ اس کی نگہداشت سے مسلسل فائدہ اُٹھاتی رہی۔‏ پھربھی اکثروبیشتر لوگ اپنے صانع کو چھوڑ کر لکڑی اور پتھر کے معبودوں یعنی ”‏باطل چیزوں کی پیروی کرنے [‏لگ جاتے تھے]‏ جو نہ فائدہ پہنچا سکتی نہ رہائی دے سکتی ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۲:‏۲۱‏)‏ ایسی بغاوت کے صدیوں بعد،‏ مجموعی طور پر قوم ایسی برگشتگی میں پڑ گئی جہاں سے وہ واپس نہیں آ سکتی تھی۔‏ اسلئے یسوع نے افسوس ظاہر کِیا:‏ ”‏اَے یرؔوشلیم!‏ اَے یرؔوشلیم!‏ تُو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے اُنکو سنگسار کرتا ہے!‏ کتنی بار مَیں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اُسی طرح مَیں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں مگر تم نے نہ چاہا!‏ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے۔‏“‏—‏متی ۲۳:‏۳۷،‏ ۳۸‏۔‏

۴.‏ یہوواہ کی طرف سے یروشلیم کی تردید کا نمایاں اظہار ۷۰ س.‏ع.‏ میں کیسے ہوا؟‏

۴ یہوواہ نے بیوفا اسرائیل کو ترک کر دیا جس کا افسوسناک اظہار ۷۰ س.‏ع.‏ میں ہوا تھا۔‏ اس سال رومی فوجیں عقاب والے جھنڈوں کو بلند کرتے اور ہولناک قتل‌وغارت کرتے ہوئے یروشلیم پر ٹوٹ پڑیں۔‏ یہ شہر فسح منانے والے ہجوم سے بھرا تھا۔‏ ان کی بہتیری قربانیاں خدا کی خوشنودی حاصل نہ کر پائیں۔‏ یہ بات نافرمان بادشاہ ساؤل سے سموئیل کے المناک الفاظ کی یاددہانی تھی:‏ ”‏کیا [‏یہوواہ]‏ سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے جتنا اِس بات سے کہ [‏یہوواہ]‏ کا حکم مانا جائے؟‏ دیکھ فرمانبرداری قربانی سے اور بات ماننا مینڈھوں کی چربی سے بہتر ہے۔‏“‏—‏۱-‏سموئیل ۱۵:‏۲۲‏۔‏

۵.‏ یہوواہ کس قسم کی فرمانبرداری کا تقاضا کرتا ہے اور ہم کیسے جانتے ہیں کہ ایسی فرمانبرداری ممکن ہے؟‏

۵ فرمانبرداری پر اصرار کے باوجود،‏ یہوواہ اپنے ناکامل انسانوں کی حدود جانتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۳۰:‏۳،‏ ۴‏)‏ جس بات کا وہ تقاضا کرتا ہے وہ مخلص دل،‏ ایمان،‏ محبت اور اسے ناراض کرنے کا خوشگوار ڈر ہے۔‏ (‏استثنا ۱۰:‏۱۲،‏ ۱۳؛‏ امثال ۱۶:‏۶؛‏ یسعیاہ ۴۳:‏۱۰؛‏ میکاہ ۶:‏۸؛‏ رومیوں ۶:‏۱۷‏)‏ ایسی فرمانبرداری ممکن ہے اور یہ گواہوں کے بڑے بادل نے ظاہر کی ہے جس نے موت جیسی ناگزیر آزمائشوں کے تحت بھی اپنی راستی برقرار رکھی ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۳۶،‏ ۳۷؛‏ ۱۲:‏۱‏)‏ ان اشخاص نے یہوواہ کے دل کو شاد کِیا!‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ تاہم،‏ دیگر شروع میں وفادار رہے لیکن فرمانبرداری کی روش برقرار رکھنے میں ناکام رہ گئے۔‏ ان میں قدیم یہوداہ کا یوآس بادشاہ تھا۔‏

بُری صحبتوں نے ایک بادشاہ کو برباد کر دیا

۶،‏ ۷.‏ یہویدع کے دَورِحیات میں یوآس کس قسم کا بادشاہ تھا؟‏

۶ یوآس بادشاہ شِیرخوارگی میں قتل ہونے سے بڑی مشکل سے بچا تھا۔‏ جب یوآس سات برس کا تھا تو سردار کاہن یہویدع نے دلیری کیساتھ اُسے ہیکل سے باہر نکالا اور بادشاہ بنا دیا۔‏ خداترس یہویدع کی مشورت پر ایک باپ اور مشیر کے طور پر عمل کرنے سے نوجوان حاکم یوآس ”‏یہوؔیدع کاہن کے جیتے جی وہی جو [‏یہوواہ]‏ کی نظر میں ٹھیک ہے کرتا رہا۔‏“‏—‏۲-‏تواریخ ۲۲:‏۱۰–‏۲۳:‏۱،‏ ۱۱؛‏ ۲۴:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۷ یوآس کے نیک کاموں میں یہوواہ کی ہیکل کی مرمت کا کام شامل تھا—‏ جس کام کا ”‏یوآؔس .‏ .‏ .‏ ارادہ“‏ رکھتا تھا۔‏ اس نے سردار کاہن یہویدع کو مرمت کے کام کی مالی اعانت کرنے کیلئے یہوداہ اور یروشلیم سے ہیکل کے خراج کی بابت یاد دلایا جس کا ’‏حکم موسیٰ‘‏ نے دیا تھا۔‏ بدیہی طور پر،‏ یہویدع نے خدا کی شریعت کا مطالعہ کرنے اور اس کی فرمانبرداری کرنے کے لئے نوجوان بادشاہ کی حوصلہ‌افزائی کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔‏ نتیجتاً،‏ ہیکل کا کام اور ہیکل کے ظروف جلد بن گئے تھے۔‏—‏۲-‏تواریخ ۲۴:‏۴،‏ ۶،‏ ۱۳،‏ ۱۴؛‏ استثنا ۱۷:‏۱۸‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ بنیادی طور پر کونسی بات یوآس کی روحانی تنزلی کا باعث بنی؟‏ (‏ب)‏ بادشاہ کی نافرمانی بالآخر کس چیز کا باعث بنی؟‏

۸ افسوس کی بات ہے کہ یوآس کی فرمانبرداری عارضی تھی۔‏ کیوں؟‏ خدا کا کلام بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہوؔیدع کے مرنے کے بعد یہوؔداہ کے سردار آ کر بادشاہ کے حضور کورنش بجا لائے۔‏ تب بادشاہ نے اُنکی سنی۔‏ اور وہ [‏یہوواہ]‏ اپنے باپ‌دادا کے خدا کے گھر کو چھوڑ کر یسیرتوں اور بُتوں کی پرستش کرنے لگے اور اُنکی اس خطا کے باعث یہوؔداہ اور یرؔوشلیم پر غضب نازل ہوا۔‏“‏ یہوداہ کے سرداروں کے ناخوشگوار اثر کی وجہ سے بادشاہ نے خدا کے نبیوں کی ایک نہ سنی جن میں سے ایک یہویدع کا بیٹا زکریاہ تھا جس نے یوآس اور لوگوں کو انکی نافرمانی کی وجہ سے تنبیہ کی تھی۔‏ یوآس نے توبہ کرنے کی بجائے زکریاہ کو سنگسار کرا دیا۔‏ یوآس کسقدر سنگدل اور نافرمان آدمی بن گیا تھا—‏یہ سب بُری صحبتوں کے اثر کی وجہ سے ہوا تھا!‏—‏۲-‏تواریخ ۲۴:‏۱۷-‏۲۲؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۳‏۔‏

۹.‏ یوآس اور سرداروں کا انجام نافرمانی کی حماقت کو کیسے ظاہر کرتا ہے؟‏

۹ یہوواہ کو چھوڑ دینے سے یوآس اور اس کے شریر ساتھیوں کے ساتھ کیا واقع ہوا؟‏ ارامی فوجوں کا دستہ—‏”‏آدمیوں کا چھوٹا ہی جتھا“‏—‏حملہ‌آور ہوا اور ”‏قوم کے سب سرداروں کو ہلاک کِیا۔‏“‏ ان حملہ‌آوروں نے بادشاہ سے اس کی املاک اور مذبح کا سونا اور چاندی زبردستی لے لیا۔‏ اگرچہ یوآس بچ گیا توبھی نحیف اور بیمار ہو گیا۔‏ اس کے تھوڑی دیر بعد اس کے اپنے خادموں میں سے بعض نے سازش کرکے اسے قتل کر دیا۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۲۴:‏۲۳-‏۲۵؛‏ ۲-‏سلاطین ۱۲:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ اسرائیل سے یہوواہ کے الفاظ کتنے سچ تھے:‏ ”‏لیکن اگر تُو ایسا نہ کرے کہ [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کی بات سن کر اُسکے سب احکام اور آئین پر .‏ .‏ .‏ احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی“‏!‏—‏استثنا ۲۸:‏۱۵‏۔‏

ایک سیکرٹری نے فرمانبرداری سے اپنی جان بچا لی

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ باروک کیلئے یہوواہ کی مشورت پر غور کرنا کیوں مفید ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے باروک کو کیا مشورہ دیا؟‏

۱۰ کیا آپ بعض‌اوقات مسیحی خدمتگزاری میں محض چند لوگوں کے دلچسپی دکھانے کی وجہ سے بےحوصلہ محسوس کرتے ہیں؟‏ کیا آپ کبھی‌کبھار کسی متموّل شخص اور اس کے تن‌پرور طرزِزندگی سے حسد کرتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو یرمیاہ کے سیکرٹری باروک پر اور اس کیلئے یہوواہ کی شفیق مشورت پر غور کریں۔‏

۱۱ باروک اُس وقت ایک نبوّتی پیغام تحریر کر رہا تھا جب وہ یہوواہ کی توجہ کا مرکز بنا۔‏ کیوں؟‏ باروک نے اپنی زندگی پر افسوس ظاہر کرنا شروع کر دیا اور خدا کی خدمت کے شرف سے بڑھکر کسی بہتر چیز کی خواہش کی۔‏ باروک کی اس تبدیلی کو دیکھ کر یہوواہ نے واضح مگر نرم مشورت دی:‏ ”‏کیا تُو اپنے لئے امورِعظیم کی تلاش میں ہے؟‏ اُنکی تلاش چھوڑ دے کیونکہ .‏ .‏ .‏ جہاں کہیں تُو جائے تیری جان تیرے لئے غنیمت ٹھہراؤنگا۔‏“‏—‏یرمیاہ ۳۶:‏۴؛‏ ۴۵:‏۵‏۔‏

۱۲.‏ ہمیں اس نظام‌اُلعمل میں اپنے لئے ”‏امورِعظیم“‏ کی تلاش سے کیوں بچنا چاہئے؟‏

۱۲ کیا آپ یرمیاہ کے لئے مکمل وفاداری اور دلیری کیساتھ خدمت کرنے والے باروک سے کہے گئے یہوواہ کے الفاظ میں اس عمدہ آدمی کے لئے گہری فکر دیکھ سکتے ہیں؟‏ اسی طرح آجکل،‏ یہوواہ ان اشخاص کے لئے گہری فکر رکھتا ہے جو اس دُنیا کی رنگینی کی جستجو کرنے کی آزمائش میں پڑ جاتے ہیں۔‏ خوشی کی بات ہے کہ باروک کی مانند ایسے بہتیرے اشخاص نے ذمہ‌دار روحانی بھائیوں کے ذریعے مشفقانہ اصلاح کے لئے جوابی‌عمل دکھایا ہے۔‏ (‏لوقا ۱۵:‏۴-‏۷‏)‏ جی‌ہاں،‏ دُعا ہے کہ ہم سب اس بات کو سمجھیں کہ اس نظام میں ”‏امورِعظیم“‏ کی تلاش کرنے والوں کے لئے کوئی مستقبل نہیں ہے۔‏ ایسے اشخاص نہ صرف حقیقی خوشی حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ اس سے بدتر اس دُنیا اور اس کی خودغرضانہ خواہشات سمیت جلد مٹ جائیں گے۔‏—‏متی ۶:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵-‏۱۷‏۔‏

۱۳.‏ باروک کی بابت سرگزشت میں فروتنی کا کونسا درس پایا جاتا ہے؟‏

۱۳ باروک کی بابت سرگزشت ہمیں فروتنی کا بھی ایک عمدہ سبق سکھاتی ہے۔‏ غور کریں کہ یہوواہ نے باروک کو براہِ‌راست مشورت نہیں دی بلکہ یرمیاہ کے ذریعے کلام کِیا تھا جس کی ناکاملیتوں اور مخصوص عادات سے باروک غالباً اچھی طرح واقف تھا۔‏ (‏یرمیاہ ۴۵:‏۱،‏ ۲‏)‏ تاہم،‏ باروک متکبر نہیں تھا؛‏ اس نے فروتنی سے مشورت کے حقیقی ماخذ—‏یہوواہ—‏کو پہچان لیا۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۲۶:‏۳،‏ ۴،‏ ۱۶؛‏ امثال ۱۸:‏۱۲؛‏ ۱۹:‏۲۰‏)‏ پس اگر ہم ’‏کسی قصور میں پکڑے جاتے ہیں‘‏ اور خدا کے کلام سے ضروری مشورہ حاصل کرتے ہیں تو آئیے باروک کی پختگی،‏ روحانی بصیرت اور فروتنی کی نقل کریں۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۱‏۔‏

۱۴.‏ اپنے درمیان پیشوائی کرنے والوں کے فرمانبردار رہنا کیوں فائدہ‌مند ہے؟‏

۱۴ ہمارا فروتن رویہ مشورت دینے والوں کی بھی مدد کرتا ہے۔‏ عبرانیوں ۱۳:‏۱۷ بیان کرتی ہے:‏ ”‏اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو کیونکہ وہ تمہاری روحوں کے فائدہ کے لئے اُن کی طرح جاگتے رہتے ہیں جنہیں حساب دینا پڑے گا تاکہ وہ خوشی سے یہ کام کریں نہ کہ رنج سے کیونکہ اس صورت میں تمہیں کچھ فائدہ نہیں۔‏“‏ کتنی مرتبہ بزرگ اپنے گلّہ‌بانی کے کام کے اس مشکل پہلو کو پورا کرنے کی خاطر ضروری دلیری،‏ حکمت اور موقع‌شناسی کے لئے یہوواہ کے حضور اپنا دل اُنڈیل دیتے ہیں!‏ ہمیں چاہئے کہ ’‏ایسوں کو مانیں۔‏‘‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۶:‏۱۸‏۔‏

۱۵.‏ (‏ا)‏ یرمیاہ نے باروک پر کیسا اعتماد ظاہر کِیا؟‏ (‏ب)‏ باروک کو اپنی فروتن تابعداری کا اَجر کیسے ملا؟‏

۱۵ باروک نے اپنی سوچ میں اصلاح کر لی تھی جو اِس بات سے ظاہر ہوتی ہے کیونکہ یرمیاہ اسے نہایت چیلنج‌خیز تفویض عطا کرتا ہے یعنی کہ وہ ہیکل میں جا کر اس عدالتی پیغام کو تحریر کرے جو یرمیاہ کی زبانی اُسے ملا تھا۔‏ کیا باروک نے ایسا کیا؟‏ جی‌ہاں،‏ اُس نے ”‏سب کچھ جیسا یرؔمیاہ نبی نے اُسکو فرمایا تھا ویسا ہی کِیا۔‏“‏ درحقیقت،‏ اس نے تو یروشلیم کے سرداروں کیلئے پیغام تک پڑھ ڈالا جس کیلئے بِلاشُبہ دلیری درکار تھی۔‏ (‏یرمیاہ ۳۶:‏۱-‏۶،‏ ۸،‏ ۱۴،‏ ۱۵‏)‏ جب ۱۸ سال بعد بابلیوں کے ہاتھوں شہر کا زوال ہوا تو ذرا تصور کریں کہ باروک بچ جانے کیلئے کسقدر شکرگزار رہا ہوگا کیونکہ اُس نے یہوواہ کی آگاہی پر دھیان دیا اور اپنے لئے ”‏امورِعظیم“‏ کی تلاش چھوڑ دی تھی!‏—‏یرمیاہ ۳۹:‏۱،‏ ۲،‏ ۱۱،‏ ۱۲؛‏ ۴۳:‏۶‏۔‏

محاصرے کے دوران فرمانبرداری زندگی بچاتی ہے

۱۶.‏ یہوواہ نے ۶۰۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں بابلی محاصرے کے دوران یروشلیم کے یہودیوں کیلئے کیسے دردمندی ظاہر کی؟‏

۱۶ جب یروشلیم کا خاتمہ ۶۰۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں واقع ہوا تو فرمانبرداروں کے لئے خدا کی دردمندی ایک مرتبہ پھر نظر آتی ہے۔‏ محاصرے کی انتہا پر یہوواہ نے یہودیوں سے کہا:‏ ”‏دیکھو مَیں تم کو حیات کی راہ اور موت کی راہ دکھاتا ہوں۔‏ جو کوئی اِس شہر میں رہے گا وہ تلوار اور کال اور وبا سے مرے گا لیکن جو نکلکر کسدیوں میں جو تم کو گھیرے ہوئے ہیں چلا جائے گا وہ جئے گا اور اُس کی جان اُس کے لئے غنیمت ہوگی۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۲۱:‏۸،‏ ۹‏)‏ اگرچہ یروشلیم کے باشندے ہلاکت کے مستحق تھے توبھی یہوواہ نے اپنے فرمانبرداروں کے لئے اس بحرانی اور آخری لمحات میں بھی دردمندی ظاہر کی۔‏ *

۱۷.‏ (‏ا)‏ جب یہوواہ نے یرمیاہ کو محاصرے میں گِھرے ہوئے یہودیوں کو ’‏کسدیوں کے ساتھ جانے‘‏ کے لئے کہا تو کن دو طریقوں سے اُس کی فرمانبرداری کی آزمائش ہوئی تھی؟‏ (‏ب)‏ ہم یرمیاہ کی دلیرانہ فرمانبرداری کے نمونے سے کیسے استفادہ کر سکتے ہیں؟‏

۱۷ یہودیوں کو ہتھیار ڈالنے کے لئے کہنا بِلاشُبہ اس بات نے یرمیاہ کی فرمانبرداری کو ضرور آزمایا ہوگا۔‏ ایک بات تو سچ ہے کہ وہ خدا کے نام کے لئے غیرت رکھتا تھا۔‏ وہ نہیں چاہتا تھا کہ دُشمن اُسے بےحرمت کریں جو اپنی فتح کو بےجان بُتوں سے منسوب کرتے ہیں۔‏ (‏یرمیاہ ۵۰:‏۲،‏ ۱۱؛‏ نوحہ ۲:‏۱۶‏)‏ مزیدبرآں،‏ یرمیاہ جانتا تھا کہ لوگوں کو ہتھیار ڈالنے کے لئے کہنے سے وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہا تھا کیونکہ بہتیروں کو اس کی باتیں غدارانہ لگیں۔‏ اُس نے ڈرنے کی بجائے فرمانبرداری سے یہوواہ کے فیصلوں کا اعلان کِیا۔‏ (‏یرمیاہ ۳۸:‏۴،‏ ۱۷،‏ ۱۸‏)‏ یرمیاہ کی مانند،‏ ہم بھی ایک نامقبول پیغام کا اعلان کرتے ہیں۔‏ یہ وہی پیغام ہے جس کے لئے یسوع کی تحقیر کی گئی تھی۔‏ (‏یسعیاہ ۵۳:‏۳؛‏ متی ۲۴:‏۹‏)‏ پس ہم ’‏آدمیوں سے نہ ڈریں‘‏ بلکہ یرمیاہ کی مانند دلیری سے یہوواہ کی فرمانبرداری کریں اور اُس پر پورا بھروسا رکھیں۔‏—‏امثال ۲۹:‏۲۵‏۔‏

جُوج کے حملے کے تحت فرمانبرداری

۱۸.‏ یہوواہ کے خادم مستقبل میں فرمانبرداری کی کونسی آزمائشوں کا سامنا کرینگے؟‏

۱۸ جلد ہی شیطان کا پورا شریر نظام غیرمعمولی ”‏بڑی مصیبت“‏ میں ہلاک کر دیا جائے گا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۲۱‏)‏ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے پہلے اور اس کے دوران خدا کے لوگ اپنے ایمان اور فرمانبرداری کی بڑی آزمائشوں کا سامنا کریں گے۔‏ مثال کے طور پر،‏ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ ’‏ماجوؔج کی زمین کے جوؔج‘‏ کے کردار میں شیطان یہوواہ کے خادموں پر بھرپور حملہ کرے گا اور فوجوں کو جمع کرے گا جس کا ذکر ”‏بھاری لشکر۔‏ .‏ .‏ .‏ زمین کو بادل کی طرح چھپا“‏ لینے والے کے طور پر کِیا گیا ہے۔‏ (‏حزقی‌ایل ۳۸:‏۲،‏ ۱۴-‏۱۶‏)‏ خدا کے ان‌گنت اور نہتے لوگ یہوواہ کے ”‏پروں“‏ کے نیچے پناہ لیں گے جو وہ فرمانبرداروں کو بچانے کے لئے پھیلاتا ہے۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ (‏ا)‏ بحرِقلزم پر اسرائیل کیلئے فرمانبرداری کیوں لازمی تھی؟‏ (‏ب)‏ بحرِقلزم کی سرگزشت پر دُعائیہ غوروخوض آجکل ہمیں کیسے فائدہ پہنچا سکتا ہے؟‏

۱۹ یہ صورتحال ہمیں مصر سے اسرائیل کے خروج کی یاد دلاتی ہے۔‏ مصر کو دس آفتوں سے مارنے کے بعد،‏ یہوواہ نے اپنے لوگوں کی ملکِ‌موعود کی جانب مختصر راستے کی بجائے بحرِقلزم کی جانب راہنمائی کی جہاں وہ حملے کی صورت میں فکرمند ہو سکتے تھے۔‏ فوجی نقطۂ‌نظر سے یہ تباہ‌کُن نظر آ سکتا ہے۔‏ اگر آپ وہاں ہوتے تو کیا آپ نے یہ جانتے ہوئے کہ ملکِ‌موعود فرق سمت میں ہے،‏ موسیٰ کی معرفت یہوواہ کے حکم کی پورے اعتماد کیساتھ تعمیل کی ہوتی؟‏—‏خروج ۱۴:‏۱-‏۴‏۔‏

۲۰ خروج ۱۴ باب میں ہم پڑھتے ہیں کہ یہوواہ اپنے لوگوں کو قدرت کے ہیبتناک مظاہر کیساتھ بچاتا ہے۔‏ جب ہم وقت نکال کر ایسی سرگزشتوں کا مطالعہ کرتے اور ان پر غور کرتے ہیں تو ہمارے ایمان کو بہت زیادہ تقویت مل سکتی ہے!‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۹‏)‏ حتیٰ‌کہ جب یہوواہ کے احکام انسانی استدلال کے خلاف بھی دکھائی دیتے ہوں توبھی اس کے جواب میں مضبوط ایمان ہمیں اسکی فرمانبرداری کرنے کیلئے مستحکم کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ پس خود سے پوچھیں،‏ ’‏کیا مَیں مستعد بائبل مطالعے،‏ دُعا اور غورخوض اور خدا کے لوگوں کیساتھ رفاقت کے ذریعے اپنے ایمان کو مضبوط بنا رہا ہوں؟‏‘‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵؛‏ ۱۲:‏۱-‏۳‏۔‏

فرمانبرداری اُمید پیدا کرتی ہے

۲۱.‏ یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے والوں کو حال اور مستقبل میں کونسی برکات حاصل ہونگی؟‏

۲۱ یہوواہ کی فرمانبرداری کو اپنی زندگی کا شعار بنانے والے اس وقت بھی امثال ۱:‏۳۳ کی تکمیل کا تجربہ کرتے ہیں:‏ ”‏جو میری سنتا [‏فرمانبرداری کرتا]‏ ہے وہ محفوظ ہوگا اور آفت سے نڈر ہو کر اطمینان سے رہیگا۔‏“‏ ان انتہائی تسلی‌بخش الفاظ کا اطلاق یہوواہ کے آنے والے روزِانتقام کے دوران ہوگا!‏ درحقیقت،‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا:‏ ”‏جب یہ باتیں ہونے لگیں تو سیدھے ہو کر سر اُوپر اُٹھانا اسلئےکہ تمہاری مخلصی نزدیک ہوگی۔‏“‏ (‏لوقا ۲۱:‏۲۸‏)‏ واضح طور پر،‏ صرف خدا کے فرمانبردار لوگوں کو ان الفاظ پر دھیان دینے کا اعتماد حاصل ہے۔‏—‏متی ۷:‏۲۱‏۔‏

۲۲.‏ (‏ا)‏ یہوواہ کے لوگوں کے اعتماد رکھنے کی کیا وجہ ہے؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کن معاملات پر بات کی جائیگی؟‏

۲۲ اعتماد کی ایک وجہ یہ ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ خدا کچھ نہیں کرتا جب تک کہ اپنا بھید اپنے خدمت‌گذرا نبیوں پر پہلے آشکارا نہ کرے۔‏“‏ (‏عاموس ۳:‏۷‏)‏ آجکل،‏ یہوواہ ماضی کی طرح نبیوں کو الہام نہیں بخشتا بلکہ اُس نے ایک نوکر جماعت تفویض کی ہے کہ اپنے گھرانے کو بروقت روحانی خوراک فراہم کرے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ لہٰذا،‏ یہ بات کتنی اہم ہے کہ ہم اس ”‏نوکر“‏ کی فرمانبرداری کریں!‏ اگلا مضمون ظاہر کرے گا کہ ایسی فرمانبرداری اس نوکر کے مالک یسوع کے لئے ہمارے رُجحان کو منعکس کرتی ہے۔‏ وہ ایک ایسی ہستی ہے جس کی ’‏قومیں .‏ .‏ .‏ مطیع ہونگی۔‏‘‏—‏پیدایش ۴۹:‏۱۰‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 1 ایک فلاحی سوسائٹی کی کتاب کے مطابق،‏ مرغی کو اکثر بزدل اور کمزور پرندہ سمجھا جاتا ہے مگر ”‏وہ اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے آخری دم تک لڑتی ہے۔‏“‏

^ پیراگراف 16 یرمیاہ ۳۸:‏۱۹ ظاہر کرتی ہے کہ کئی یہودی کسدیوں میں ’‏چلے گئے‘‏ اور موت سے بچ گئے لیکن اسیری سے نہیں بچ سکے۔‏ آیا اُنہوں نے یرمیاہ کی باتیں سن کر خود کو حوالے کر دیا یا نہیں یہ ہم نہیں جانتے۔‏ تاہم،‏ ان کے بچ جانے سے نبی کے الفاظ کی تصدیق ضرور ہوئی تھی۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• اسرائیل کی مسلسل نافرمانی کا کیا نتیجہ نکلا تھا؟‏

‏• یوآس بادشاہ اپنی زندگی کے شروع اور بعد میں اپنے ساتھیوں سے کیسے متاثر ہوا تھا؟‏

‏• ہم باروک سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏• جب یہ نظام اپنے خاتمے کو پہنچتا ہے تو یہوواہ کے فرمانبردار لوگوں کو کیوں ڈرنے کی ضرورت نہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

یہویدع کی راہنمائی کے تحت نوجوان یوآس یہوواہ کا مطیع رہا

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

یوآس نے بُری صحبتوں سے متاثر ہو کر خدا کے نبی کو قتل کروا دیا

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

کیا آپ نے یہوواہ کے مطیع رہ کر اُسکی نجات‌بخش طاقت کا مشاہدہ کِیا ہوتا؟‏