”ابلیس کا مقابلہ کرو“
”ابلیس کا مقابلہ کرو“
”ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائیگا۔“—یعقوب ۴:۷۔
۱. موجودہ دُنیا کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے اور ممسوح مسیحیوں اور اُنکے ساتھیوں کو چوکس رہنے کی ضرورت کیوں ہے؟
”خدا تو غائب ہو چکا ہے مگر ابلیس موجود ہے۔“ فرانسیسی مصنف اینڈرے مالرو کے ان الفاظ کا اطلاق ہماری موجودہ دُنیا پر کرنا موزوں ہے۔ واقعی، انسانوں کے کام خدا کی مرضی کی بجائے ابلیس کی مکاریوں کا عکس پیش کرتے ہیں۔ شیطان انسانوں کو ”ہر طرح کی جھوٹی قدرت اور نشانوں اور عجیب کاموں کے ساتھ۔ اور ہلاک ہونے والوں کے لئے ناراستی کے ہر طرح کے دھوکے کے ساتھ“ گمراہ کر رہا ہے۔ (۲-تھسلنیکیوں ۲:۹، ۱۰) تاہم اس ”اخیر زمانہ“ میں شیطان اپنی تمامتر کوششیں خدا کے مخصوصشُدہ خادموں پر مرکوز کرتے ہوئے ممسوح جماعت کے ساتھ جنگ کرتا ہے ”جو خدا کے حکموں پر عمل کرتی ہے اور یسوؔع کی گواہی دینے پر قائم ہے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱؛ مکاشفہ ۱۲:۹، ۱۷) اِن گواہوں کو زمینی اُمید رکھنے والے اپنے ساتھیوں سمیت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
۲. شیطان نے حوا کو کیسے بہکایا اور پولس رسول نے کس اندیشے کا اظہار کِیا؟
۲ شیطان سراسر فریبی ہے۔ اُس نے سانپ کو آلۂکار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے حوا کے ذہن میں یہ ڈالکر دھوکا دیا کہ وہ خدا سے خودمختار ہو کر زیادہ خوشی حاصل کر سکتی ہے۔ (پیدایش ۳:۱-۶) کوئی چار ہزار سال بعد، پولس رسول نے کرنتھس کے مسیحیوں کی بابت اپنے اندیشوں کا اظہار کِیا کہ کہیں وہ شیطان کی مکاری کا شکار نہ ہو جائیں۔ پولس نے لکھا: ”مَیں ڈرتا ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح سانپ نے اپنی مکاری سے حوا کو بہکایا اُسی طرح تمہارے خیالات بھی اُس خلوص اور پاکدامنی سے ہٹ جائیں جو مسیح کے ساتھ ہونی چاہئے۔“ (۲-کرنتھیوں ۱۱:۳) شیطان لوگوں کے ذہنوں کو آلودہ اور اُنکی سوچ کو بگاڑتا ہے۔ جس طرح اُس نے حوا کو بہکایا وہ مسیحیوں کو بھی غلط استدلال کرنے اور یہ سمجھنے پر اُکسا سکتا ہے کہ اُنکی خوشی کا انحصار کسی ایسی چیز پر ہے جو یہوواہ اور اُسکے بیٹے کو ناپسند ہے۔
۳. یہوواہ ابلیس سے بچانے کیلئے کیا تحفظ فراہم کرتا ہے؟
۳ شیطان کا موازنہ ایک صیاد سے کِیا جا سکتا ہے جو اپنے شکار کو بےخبری میں اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ شیطان کے پھندوں سے زبور ۹۱:۱-۳) ہمیں یہوواہ کی مکمل حفاظت کی ضرورت ہے جو وہ اپنے کلام، روح اور تنظیم کے ذریعے فراہم کرتا ہے تاکہ ہم ”ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہ“ سکیں۔ (افسیوں ۶:۱۱) ”منصوبوں“ کے لئے یونانی لفظ کا ترجمہ ”مکارانہ کام“ یا ”حربے“ بھی کِیا جا سکتا ہے۔ بِلاشُبہ، ابلیس یہوواہ کے خادموں کو پھانسنے کی اپنی کوششوں میں بہتیرے مکارانہ کام اور حربے استعمال کرتا ہے۔
بچنے کیلئے ہمیں ’حق تعالیٰ کے پردہ میں رہنے‘ کی ضرورت ہے، یہ تحفظ کی ایسی علامتی جگہ ہے جو یہوواہ ایسے لوگوں کے لئے فراہم کرتا ہے جو اپنے کاموں سے اُس کی عالمگیر حاکمیت کے لئے تابعداری ظاہر کرتے ہیں۔ (ابتدائی مسیحیوں کیلئے شیطان کے پھندے
۴. ابتدائی مسیحی کس قسم کے ماحول میں رہتے تھے؟
۴ پہلی اور دوسری صدی س.ع. کے مسیحی ایسے دَور میں رہتے تھے جب رومی سلطنت اپنے عروج پر تھی۔ پیکس رومانا (رومی امن) نے تجارت کو فروغ دیا۔ اس خوشحالی کی وجہ سے حکمران طبقے کے پاس کافی فارغ وقت ہوا کرتا تھا اور اُنہوں نے عوام کو لامحدود تفریح فراہم کرنے کا یقین کر لیا تاکہ وہ بغاوت کے لئے سر نہ اُٹھا سکیں۔ بعضاوقات عام تعطیلات کام کرنے والے دنوں کے برابر ہوا کرتی تھی۔ لیڈر حضرات لوگوں کو پیٹ بھرنے اور ذہن کو مصروف رکھنے کیلئے سرکاری خزانے سے روٹی اور سرکس کے تماشے فراہم کِیا کرتے تھے۔
۵، ۶. (ا) مسیحیوں کے لئے رومی تھیئٹروں اور بیضوی شکل کی تماشاگاہوں میں جانے کی عادت غیرمناسب کیوں تھی؟ (ب) شیطان نے کونسا حربہ استعمال کِیا اور مسیحی اس سے کیسے بچ سکتے تھے؟
۵ کیا یہ صورتحال ابتدائی مسیحیوں کیلئے خطرے کا باعث تھی؟ رسولی زمانہ کے بعد کے طرطلیان جیسے مصنف کی تحریری آگاہیوں سے یہ نتیجہ اخذ کِیا جا سکتا ہے کہ اُس وقت بہتیری تفریحی کارگزاریاں سچے مسیحیوں کیلئے کثیر روحانی اور اخلاقی خطرات پیش کرتی تھیں۔ ایک بات تو یہ تھی کہ بیشتر عوامی تقریبات اور کھیل مُلحد دیوتاؤں کی تعظیم کے لئے منعقد کئے جاتے تھے۔ (۲-کرنتھیوں ۶:۱۴-۱۸) تھیئٹروں میں بھی بہتیرے روایتی ڈرامے بداخلاقی یا خونریزی سے پُر ہوا کرتے تھے۔ وقت کیساتھ ساتھ روایتی ڈراموں کیلئے عوام کا شوق کم ہوتا گیا اور انکی جگہ شہوتانگیز ناٹکوں نے لے لی۔ اپنی کتاب ڈیلی لائف ان اینشنٹ روم میں مؤرخ جیروم کارکوپینو بیان کرتا ہے: ”ان ڈراموں میں اداکاروں کو اپنا مکمل لباس اُتارنے کی اجازت دی جاتی تھی۔ . . . بہت زیادہ خون بہایا جاتا تھا۔ . . . [گنگ تماشا] کجروی کی انتہا تک پہنچ جاتا تھا اور اس نے پوری ریاست کی عوام کو مغلوب کر لیا تھا۔ انہیں ایسے تماشوں سے کراہیت نہیں آتی تھی اسلئےکہ بیضوی شکل کی تماشاگاہوں میں بےرحم خونریزی دیکھ دیکھ کر وہ پہلے ہی سے بےحس اور اخلاقی تنزلی کا شکار ہو چکے تھے۔“—متی ۵:۲۷، ۲۸۔
۶ بیضوی شکل کی تماشاگاہوں میں تیغزن موت تک ایک دوسرے کیساتھ مقابلہ کرتے یا خونخوار جانوروں کیساتھ اُس وقت تک لڑتے تھے جب تک انہیں مار نہ ڈالیں یا خود نہ مر جائیں۔ سزائےموت پانے والے مجرموں اور آخرکار بہتیرے مسیحیوں کو وحشی درندوں کا لقمہ بنایا جاتا تھا۔ اُن ابتدائی وقتوں میں بھی شیطان ا-کرنتھیوں ۱۵:۳۲، ۳۳۔
کی چال تھی کہ بداخلاقی اور تشدد کیلئے لوگوں کو اسقدر بےحس بنا دیا جائے کہ یہ چیزیں ان کی زندگی میں عام اور ان کی ضرورت بن جائیں۔ اس پھندے سے بچنے کا واحد طریقہ تھیئٹروں اور بیضوی شکل کی تماشاگاہوں سے دُور رہنا تھا۔—۷، ۸. (ا) ایک مسیحی کیلئے رتھوں کے مقابلوں پر جانا ایک غیردانشمندانہ عمل کیوں ہو سکتا تھا؟ (ب) شیطان رومی حماموں کے ذریعے مسیحیوں کو کیسے پھانس سکتا تھا؟
۷ وسیع مستطیل شکل کے میدانوں میں رتھوں کے مقابلے ہوا کرتے تھے جو دلچسپ تو تھے لیکن اکثراوقات بِھیڑ کے متشدّد ہو جانے کی وجہ سے مسیحیوں کیلئے نامناسب تھے۔ تیسری صدی کے ایک مصنف نے بیان کِیا کہ بعض تماشائی لڑائیجھگڑے پر اُتر آتے تھے اور کارکوپینو بیان کرتا ہے کہ ”دوڑ کے میدان کے محرابوں کے نیچے نجومیوں اور کسبیوں کے خاص اڈے ہوا کرتے تھے۔“ واضح طور پر رومی دوڑ کے میدان مسیحیوں کے لئے مناسب نہیں تھے۔—۱-کرنتھیوں ۶:۹، ۱۰۔
۸ مشہور رومی حماموں کی بابت کیا ہے؟ بیشک، صافستھرا رہنے کے لئے نہانے میں کوئی بُرائی نہیں۔ تاہم بہتیرے رومی حمام وسیع سہولیات پر مشتمل تھے جن میں مساج کے کمرے، جمنازیم، جوا کھیلنے اور کھانےپینے کی جگہیں شامل تھیں۔ اگرچہ اُصولی طور پر نہانے کیلئے مردوں اور عورتوں کے حمام مختلف ہوا کرتے تھے توبھی اکثر دونوں کو ایک ساتھ نہانے کی اجازت دی جاتی تھی۔ سکندریہ کے کلیمنٹ نے لکھا: ”حمام مردوں اور عورتوں کیلئے بِلاامتیاز کھلے رہتے ہیں اور وہاں وہ شہوتپرستی کیلئے خود کو بےنقاب کرتے ہیں۔“ پس شیطان مسیحیوں کو پھانسنے کیلئے ایک قابلِقبول عوامی جگہ کو بآسانی استعمال کر سکتا تھا۔ دانشمند لوگ اس سے دُور رہتے تھے۔
۹. ابتدائی مسیحیوں کو کونسے پھندوں سے گریز کرنا تھا؟
۹ رومی سلطنت کے عروج کے زمانے میں جوئےبازی لوگوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ تھا۔ ابتدائی مسیحی محض رتھوں کے مقابلوں سے دُور رہنے کی صورت ہی میں ان پر لگنے والی شرائط سے بچ سکتے تھے۔ تاہم، سراؤں اور مےخانوں کے پسِپردہ غیرقانونی جوئےبازی عام تھی۔ کھلاڑی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں موجود پتھروں یا ہڈیوں کی طاق یا جفت تعداد پر شرط لگاتے تھے۔ جوئےبازی لوگوں کی زندگیوں کی رونق تھی کیونکہ یہ محنت کے بغیر روپیہ کمانے کی اُمید پیش کرتی تھی۔ (افسیوں ۵:۵) علاوہازیں، ایسے مےخانوں میں کام کرنے والی عورتیں عموماً کسبیاں ہوا کرتی تھیں جو جنسی بداخلاقی کا خطرہ پیش کرتی تھیں۔ یہ بعض ایسے پھندے تھے جو شیطان نے رومی مملکت کے شہروں میں رہنے والے مسیحیوں کی راہ میں بچھائے تھے۔ کیا آجکل معاملات فرق ہیں؟
آجکل شیطان کے پھندے
۱۰. آجکل کی صورتحال رومی سلطنت کے حالات سے کیسے مشابہت رکھتی ہے؟
۱۰ بنیادی طور پر، صدیوں کے دوران شیطان کے ہتھکنڈوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ پولس رسول نے کرنتھس کے بداخلاق شہر میں رہنے والے مسیحیوں کو پُرزور نصیحت کی تاکہ شیطان کا اُن پر ”داؤ نہ چلے۔“ اُس نے بیان کِیا: ”ہم [شیطان] کے حیلوں سے ناواقف نہیں۔“ (۲-کرنتھیوں ۲:۱۱) آجکل بہتیرے ترقییافتہ ممالک کی صورتحال اُس وقت کی رومی سلطنت جیسی ہے جب وہ اپنے عروج پر تھی۔ بیشتر لوگوں کے پاس پہلے سے کہیں زیادہ فارغ وقت ہے۔ حکومتی قرعہاندازیاں غریبوں کیلئے بھی اُمید کی کرن پیش کرتی ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں کو مصروف رکھنے کیلئے کم داموں میں گھٹیا تفریح عام ہے۔ کھیلوں کے میدان بھرے پڑے ہیں، لوگ جوئےبازی میں مشغول ہیں، بِھیڑ بعضاوقات اور کھلاڑی اکثر تشدد پر اُتر آتے ہیں۔ لوگ گھٹیا موسیقی سننے کے عادی بن چکے ہیں اور تھیئٹروں کے علاوہ فلموں اور ٹیوی پر بھی شہوتانگیز ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔ بعض ممالک میں بھاپ والے کمروں یا گرم پانی کے چشموں پر عورتوں اور مردوں کا اکٹھے غسل کرنا عام ہے جبکہ بعض ساحلوں پر ننگے نہانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ مسیحیت کی ابتدائی صدیوں کی طرح شیطان آج بھی خدا کے خادموں کو دُنیاوی تفریحطبع کے ذریعے پھانسنے کی کوشش کرتا ہے۔
۱۱. آرام اور تفریح کی خواہش میں کونسے پوشیدہ پھندے ہیں؟
۱۱ ایسی دُنیا میں جہاں دباؤ بہت زیادہ ہے، سکون اور تفریح کی ضرورت محسوس کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ تاہم ابتدائی مسیحیوں کیلئے امکانی خطرہ پیش کرنے والے رومی حماموں کی بعض سہولیات کی طرح، تعطیلات اور سیروتفریح کیلئے کچھ جگہیں زمانۂجدید کے مسیحیوں کو بداخلاقی اور شرابنوشی میں پھانسنے کیلئے شیطان کا بچھایا ہوا جال ثابت ہوئی ہیں۔ پولس نے کرنتھس کے مسیحیوں کو لکھا: ”فریب نہ کھاؤ۔ بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔ راستباز ہونے کے لئے ہوش میں آؤ اور گناہ نہ کرو کیونکہ بعض خدا سے ناواقف ہیں۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳، ۳۴۔
۱۲. شیطان کے بعض حربے کونسے ہیں جن کو وہ آجکل یہوواہ کے خادموں کو پھنسانے کیلئے استعمال کرتا ہے؟
۱۲ ہم نے حوا کے معاملے میں دیکھا کہ شیطان نے کیسے مکاری سے اُس کی سوچ کو بگاڑا تھا۔ (۲-کرنتھیوں ۱۱:۳) آجکل ابلیس کا ایک حربہ مسیحیوں کو یہ سوچنے کی ترغیب دینا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو یہ ظاہر کرنے سے کہ یہوواہ کے گواہ عام لوگوں کی طرح ہیں، وہ بعض اشخاص کو مسیحی سچائی کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ بعضاوقات وہ بہت آگے نکل جاتے ہیں اور نتیجہ اسکے برعکس ہوتا ہے۔ (حجی ۲:۱۲-۱۴) شیطان کا ایک دوسرا حربہ پیروجوان مخصوصشُدہ مسیحیوں کو دوہری زندگی بسر کرکے ’خدا کے پاک روح کو رنجیدہ کرنے‘ کی تحریک دینا ہے۔ (افسیوں ۴:۳۰) بعض اشخاص انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے اس پھندے میں پھنس گئے ہیں۔
۱۳. کونسا پوشیدہ پھندا ابلیس کا ایک ہتھکنڈہ ہے اور اس سلسلے میں امثال کی کونسی نصیحت موزوں ہے؟
۱۳ شیطان کا ایک اَور حربہ جادوگری کا پوشیدہ پھندا ہے۔ کوئی بھی سچا مسیحی جانبوجھ کر شیاطینی یا ارواحپرستانہ کاموں میں حصہ نہیں لیتا۔ تاہم، بعض لوگ نادانستہ طور پر ایسی فلموں، ٹیوی پروگراموں، ویڈیو گیمز اور بچوں کی کتابوں اور مزاحیہ رسالوں کی بابت لاپروائی برتتے ہیں جن میں تشدد یا پُراسرار کاموں کو نمایاں کِیا جاتا ہے۔ ہمیں ایسی ہر چیز سے دُور رہنا چاہئے جسکا پُراسرار کاموں سے ذرا سا بھی تعلق ہے۔ دانشمند مثل بیان کرتی ہے: ”کجرو کی راہ میں کانٹے اور پھندے ہیں جو اپنی جان کی نگہبانی کرتا ہے اُن سے دُور رہے گا۔“ (امثال ۲۲:۵) جب شیطان ’اِس جہان کا خدا ہے،‘ لہٰذا کوئی بھی مقبول چیز ممکنہ طور پر اُس کا ایک پوشیدہ پھندا ہو سکتی ہے۔—۲-کرنتھیوں ۴:۴؛ ۱-یوحنا ۲:۱۵، ۱۶۔
یسوع نے ابلیس کا مقابلہ کِیا
۱۴. یسوع نے ابلیس کی پہلی آزمائش کی مزاحمت کیسے کی؟
۱۴ یسوع نے ابلیس کی مخالفت کرنے اور اسے بھگانے میں ایک عمدہ نمونہ قائم کِیا۔ اپنے بپتسمے اور چالیس دن کے فاقے کے بعد شیطان نے یسوع کو آزمایا۔ (متی ۴:۱-۱۱) پہلی آزمائش میں فاقے کے بعد یسوع کی فطرتی بھوک سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی گئی۔ شیطان نے یسوع کو اپنے پہلے معجزے کے ذریعے اپنی جسمانی ضرورت کو پورا کرنے کی دعوت دی۔ استثنا ۸:۳ کا حوالہ دیتے ہوئے یسوع نے اپنی طاقت کا خودغرضانہ استعمال کرنے سے انکار کِیا اور روحانی خوراک کو جسمانی خوراک پر ترجیح دی۔
۱۵. (ا) شیطان نے یسوع کو آزمانے کیلئے کونسی فطری خواہش کا ناجائز استعمال کِیا؟ (ب) آجکل ابلیس خدا کے خادموں کے خلاف کونسا بنیادی حربہ استعمال کرتا ہے اور ہم اُسکا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟
پیدایش ۳۹:۹ اور ۱-کرنتھیوں ۶:۱۸ جیسی آیات کو یاد کر سکتے ہیں۔
۱۵ اس آزمائش کی بابت ایک دلچسپ خیال یہ ہے کہ ابلیس نے یسوع کو جنسی گناہ کرنے پر نہیں اُکسایا تھا۔ بھوک جو قدرتی طور پر کھانے کی خواہش پیدا کرتی ہے اس موقع پر یسوع کو آزمانے کیلئے بظاہر سب سے پُرزور جسمانی خواہش تھی۔ آجکل ابلیس خدا کے لوگوں کو پھانسنے کیلئے کونسی آزمائشیں استعمال کرتا ہے؟ یہ بیشمار اور مختلف طرح کی ہیں لیکن یہوواہ کے لوگوں کی راستی کو توڑنے کیلئے اُسکا بنیادی حربہ جنسی آزمائشوں کو استعمال کرنا ہے۔ یسوع کی نقل کرنے سے ہم ابلیس کا مقابلہ اور آزمائشوں کی مزاحمت کر سکتے ہیں۔ جس طرح یسوع نے مناسب صحائف کو یاد کرنے سے شیطان کی پیشکشوں کو مسترد کِیا، ہم بھی آزمائش کا سامنا کرتے وقت۱۶. (ا) شیطان نے دوسری مرتبہ یسوع کو کیسے آزمایا؟ (ب) شیطان کن طریقوں سے ہمیں یہوواہ کو آزمانے کی تحریک دے سکتا ہے؟
۱۶ اسکے بعد، ابلیس نے یسوع کو ہیکل کی دیوار سے کودنے اور فرشتوں کے ذریعے اُسکی حفاظت کرنے کی خدائی صلاحیت کو آزمانے کا چیلنج پیش کِیا۔ استثنا ۶:۱۶ کا حوالہ دیتے ہوئے یسوع نے اپنے باپ کو آزمانے سے انکار کر دیا۔ شیطان شاید ہمیں کسی ہیکل کی دیوار سے کودنے کی آزمائش میں نہ ڈالے تاہم وہ ہمیں یہوواہ کو آزمانے کی تحریک دے سکتا ہے۔ کیا ہم یہ تجربہ کرنے کی آزمائش میں پڑتے ہیں کہ ہم کوئی تنبیہ حاصل کئے بغیر کس حد تک اپنی آرائشوزیبائش میں دُنیاوی فیشن کو اَپنا سکتے ہیں؟ کیا ہم قابلِاعتراض تفریح کے سلسلے میں آزمائے جاتے ہیں؟ ایسا کرنے سے ہم یہوواہ کو آزما سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا میلان رکھتے ہیں تو شیطان ہم سے بھاگنے کی بجائے ہمارے قریب رہ کر ہمیں اپنی طرف راغب کرنے کی مسلسل کوشش کر سکتا ہے۔
۱۷. (ا) ابلیس نے تیسری بار یسوع کو کیسے آزمایا؟ (ب) یعقوب ۴:۷ ہمارے معاملے میں کیسے صادق آ سکتی ہے؟
۱۷ جب شیطان نے صرف ایک مرتبہ اُسکی پرستش کرنے کے عوض دُنیا کی تمام بادشاہی یسوع کے نام کر دینے کی پیشکش کی تو یسوع نے اپنے باپ کی بِلاشرکتِغیرے پرستش کرنے کے عزم پر قائم رہتے ہوئے ایک بار پھر صحائف کا حوالہ دیکر اُسکا مقابلہ کِیا۔ (استثنا ۵:۹؛ ۶:۱۳؛ ۱۰:۲۰) شیطان شاید ہمیں دُنیا کی بادشاہی کی پیشکش نہ کرے توبھی وہ مادی چیزوں کی چمک، بلکہ ذاتی ملکیت حاصل کرنے کے امکان سے ہمیں مستقل طور پر آزما سکتا ہے۔ کیا ہم یہوواہ کی بِلاشرکتِغیرے عقیدت رکھتے ہوئے یسوع جیسا جوابیعمل ظاہر کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہمارا تجربہ بھی یسوع جیسا ہوگا۔ متی کی سرگزشت بیان کرتی ہے: ”تب ابلیس اُسکے پاس سے چلا گیا۔“ (متی ۴:۱۱) اگر ہم مناسب بائبل اُصولوں کو یاد کرنے اور ان پر عمل کرنے سے شیطان کی پُرزور مزاحمت کریں تو وہ ہم سے بھاگ جائیگا۔ شاگرد یعقوب نے لکھا: ”ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائیگا۔“ (یعقوب ۴:۷) ایک مسیحی نے فرانس میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس کو لکھا: ”شیطان واقعی چالاک ہے۔ مجھے اپنی بہترین کوششوں کے باوجود اپنے جذبات اور خواہشات پر قابو پانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ تاہم ہمت، تحمل اور سب سے بڑھکر یہوواہ کی مدد سے مَیں ثابتقدم رہنے اور سچائی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کے قابل ہوا ہوں۔“
ابلیس کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح لیس
۱۸. کونسے روحانی ہتھیار ہمیں ابلیس کا مقابلہ کرنے کیلئے لیس کرتے ہیں؟
۱۸ یہوواہ نے ہمیں ”ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہنے“ کیلئے درکار تمام روحانی ہتھیار فراہم کئے ہیں۔ (افسیوں ۶:۱۱-۱۸) سچائی کیلئے ہماری محبت مسیحی کارگزاری کیلئے ہماری کمریں کس کر ہمیں تیار کریگی۔ یہوواہ کے راست معیاروں کو برقرار رکھنے کا ہمارا عزم بکتربند کی طرح ہمارے دلوں کی حفاظت کریگا۔ اگر ہم نے پاؤں میں خوشخبری کے جوتے پہن رکھے ہیں تو ہم باقاعدگی سے منادی کے کام میں حصہ لے سکیں گے اور نتیجتاً ہم مضبوطی اور روحانی تحفظ حاصل کرینگے۔ ہمارا مضبوط ایمان ایک سپر کی طرح ہمیں ”اُس شریر کے سب جلتے ہوئے تیروں،“ اُس کے مکارانہ حملوں اور آزمائشوں سے محفوظ رکھیگا۔ یہوواہ کے وعدوں کی تکمیل پر ہماری پُختہ اُمید ایک خود کی طرح ہماری فکری صلاحیتوں کو محفوظ رکھتے ہوئے ہمیں ذہنی سکون فراہم کریگی۔ (فلپیوں ۴:۷) اگر ہم خدا کے کلام کو عمل میں لانے کی مہارت حاصل کر لیتے ہیں تو ہم اسے ایک تلوار کی طرح استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو شیطان کی روحانی غلامی سے آزاد ہونے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ہم اسے اپنے دفاع کیلئے بھی استعمال کر سکتے ہیں جیساکہ یسوع نے آزمائش کے وقت کِیا تھا۔
۱۹. ’ابلیس کا مقابلہ‘ کرنے کے علاوہ اَور کس چیز کی ضرورت ہے؟
۱۹ ”خدا کے سب ہتھیار“ باندھنے اور دُعا میں مشغول رہنے سے ہم شیطان کے حملے کے پیشِنظر یہوواہ کے تحفظ کی بابت پُراعتماد رہ سکتے ہیں۔ (یوحنا ۱۷:۱۵؛ ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳) تاہم یعقوب نے ظاہر کِیا کہ صرف ’ابلیس کا مقابلہ‘ کرنا ہی کافی نہیں۔ سب سے بڑھکر ہمیں ’خدا کے تابع‘ ہونے کی ضرورت ہے جو ہماری فکر رکھتا ہے۔ (یعقوب ۴:۷، ۸) اگلے مضمون میں اس بات پر غور کِیا جائے گا کہ ہم یہ سب کیسے کر سکتے ہیں؟
آپ کیسے جواب دینگے؟
• ابتدائی مسیحیوں کو شیطان کے کونسے پھندوں سے بچنا تھا؟
• آجکل ابلیس یہوواہ کے خادموں کو پھانسنے کیلئے کونسے حربے استعمال کرتا ہے؟
• یسوع نے ابلیس کی آزمائشوں کا مقابلہ کیسے کِیا تھا؟
• کونسے روحانی ہتھیار ہمیں ابلیس کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۸، ۹ پر تصویر]
یسوع نے ابلیس کا پُرزور مقابلہ کِیا
[صفحہ ۱۰ پر تصویریں]
پہلی صدی کے مسیحیوں نے پُرتشدد اور بداخلاق تفریح کو رد کِیا
[تصویر کا حوالہ]
J. G. Heck/The Complete Encyclopedia of Illustration