مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

پردیس میں بچوں کی پرورش—‏چیلنج اور اَجر

پردیس میں بچوں کی پرورش—‏چیلنج اور اَجر

پردیس میں بچوں کی پرورش—‏چیلنج اور اَجر

ہزاروں لوگ ایک نئی طرزِ زندگی کی اُمید میں کسی نئے ملک میں منتقل ہو جاتے ہیں۔‏ یورپ میں اب ۲۰ ملین سے زائد نقل‌مکانی کرنے والے آباد ہیں،‏ ریاستہائےمتحدہ ۲۶ ملین سے زیادہ غیرملکیوں کا گھر ہے جبکہ آسٹریلیا کی ۲۱ فیصد سے زائد آبادی غیرملکی باشندوں پر مشتمل ہے۔‏ اکثر ان نقل‌مکانی کرنے والے خاندانوں کو ایک نئی زبان سیکھنے اور نئی ثقافت سے مطابقت پیدا کرنے کیلئے سخت کوشش کرنی پڑتی ہے۔‏

بچے عام طور پر بڑی جلدی اپنے نئے ملک کی زبان سیکھ لیتے ہیں اور اس زبان میں سوچنا شروع کرتے ہیں۔‏ تاہم اُن کے والدین کو اس کام میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔‏ جب بچے ایسے ملک میں پرورش پاتے ہیں جو اُن کے والدین کے لئے نیا ہے تو نئی زبان بولنے میں مشکلات رابطے میں ایک ایسا خلا پیدا کر سکتی ہیں جسے پُر کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏

نئے ملک کی زبان نہ صرف بچوں کی طرزِفکر کو متاثر کرتی ہے بلکہ اسکی ثقافت اُنکے احساسات پر بھی اثر ڈالتی ہے۔‏ والدین کو اپنے بچوں کے جوابی‌عمل کو سمجھنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔‏ لہٰذا،‏ غیر ملک میں اپنے بچوں کی ”‏[‏یہوواہ]‏ کی طرف سے تربیت اور نصیحت“‏ کے مطابق پرورش کرنے کی کوشش کرنے والے والدین خاص چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں۔‏—‏افسیوں ۶:‏۴‏۔‏

ذہن اور دل تک رسائی کرنے کا چیلنج

مسیحی والدین اپنے بچوں کو بائبل سچائی کی ”‏پاک زبان“‏ سکھانے کی خواہش اور ذمہ‌داری رکھتے ہیں۔‏ (‏صفنیاہ ۳:‏۹‏)‏ تاہم اگر بچے اپنے والدین کی زبان کا محدود علم رکھتے ہیں اور اگر والدین اُس زبان میں اظہارِخیال کرنا مشکل پاتے ہیں جس سے اُنکے بچے بخوبی واقف ہیں تو وہ اپنے بچوں کے دلوں پر یہوواہ کے قوانین کو کیسے نقش کر سکتے ہیں؟‏ (‏استثنا ۶:‏۷‏)‏ بچے شاید اپنے والدین کے الفاظ سمجھ تو جائیں لیکن اگر یہ اُن کے دل تک نہیں پہنچتے تو ایک لحاظ سے وہ اپنے گھر میں اجنبی بن جاتے ہیں۔‏

پیڈرو اور سینڈرا جنوبی امریکہ سے آسٹریلیا منتقل ہو گئے اور وہ اپنے دو نوعمر لڑکوں کی پرورش کرتے ہوئے اس چیلنج کا سامنا کرتے ہیں۔‏ * پیڈرو بیان کرتا ہے:‏ ”‏روحانی معاملات پر بات‌چیت دل اور جذبات سے کی جاتی ہے۔‏ آپکو گہرے اور پُرمعنی خیالات کا اظہار کرنا پڑتا ہے،‏ لہٰذا اس میں زیادہ مجموعۂ‌الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔‏“‏ سینڈرا مزید کہتی ہے:‏ ”‏اگر ہمارے بچے ہماری مادری زبان کی گہری سمجھ نہ رکھیں تو اُنکی روحانی زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔‏ وہ سیکھی ہوئی باتوں کے بنیادی اُصول کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہوئے سچائی کی قدر کھو سکتے ہیں۔‏ اُنکی روحانی سمجھ میں خلل پڑ سکتا ہے جو یہوواہ کیساتھ اُنکے رشتے کو متاثر کر سکتا ہے۔‏“‏

نیاناپیراکاسم اور ہیلن سری‌لنکا سے نقل‌مکانی کرکے جرمنی آئے اور اب اُنکے دو بچے ہیں۔‏ وہ تسلیم کرتے ہیں:‏ ”‏ہمارے خیال میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ہمارے بچے جرمن زبان سیکھنے کیساتھ ساتھ ہماری مادری زبان بھی بولیں۔‏ اپنے جذبات‌واحساسات اور دلی خیالات کے اظہار کیلئے اُنکا ہمارے ساتھ رابطہ بہت ضروری ہے۔‏“‏

یوراگوئے سے آسٹریلیا آنے والے میگیول اور کارمن بیان کرتے ہیں:‏ ”‏جن والدین کی صورتحال ہماری جیسی ہے اُنہیں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یا تو اُنہیں اُس نئی زبان کو اتنی اچھی طرح سیکھنا چاہئے کہ وہ اس میں روحانی معاملات کو سمجھنے اور سمجھانے کے قابل ہوں یا پھر اپنی آبائی زبان پر عبور حاصل کرنے کیلئے اپنے بچوں کو تیار کرنا چاہئے۔‏“‏

ایک خاندانی فیصلہ

یہ فیصلہ نقل‌مکانی کرنے والے کسی بھی خاندان کی روحانی خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے کہ خاندان میں ’‏یہوواہ سے تعلیم پانے‘‏ کیلئے کونسی زبان استعمال کی جائیگی۔‏ (‏یسعیاہ ۵۴:‏۱۳‏)‏ اگر خاندان کی مادری زبان بولنے والی کوئی کلیسیا قریب واقع ہے تو خاندان اس سے رفاقت رکھنے کا انتخاب کر سکتا ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ وہ اُس ملک کی قوی زبان بولنے والی کلیسیا میں جانے کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں جہاں وہ نقل‌مکانی کرکے آئے ہیں۔‏ کونسے عناصر اس فیصلے پر اثرانداز ہوتے ہیں؟‏

ڈمیٹریوس اور پیٹراؤلا جو قبرص سے نقل‌مکانی کرکے انگلینڈ آئے اور یہاں اُنہوں نے پانچ بچوں کی پرورش کی،‏ واضح کرتے ہیں کہ کونسی چیز نے اُنکے فیصلے کو متاثر کِیا:‏ ”‏شروع میں ہمارے خاندان نے یونانی زبان کی کلیسیا سے رفاقت رکھی۔‏ اس سے والدین کے طور پر ہماری بڑی مدد ہوئی لیکن یہ ہمارے بچوں کی روحانی نشوونما کیلئے ایک رکاوٹ ثابت ہوئی۔‏ اگرچہ وہ یونانی زبان کی بنیادی سمجھ رکھتے تھے توبھی اُنہیں گہری باتیں سمجھنے میں مشکل پیش آتی تھی۔‏ یہ بات اُنکی نسبتاً سُست روحانی ترقی سے ظاہر ہوئی۔‏ ایک خاندان کے طور پر ہم ایک انگریزی زبان والی کلیسیا میں چلے گئے اور اسکے شاندار نتائج ہمارے بچوں میں فوری طور پر عیاں تھے۔‏ اُنہوں نے روحانی تقویت حاصل کی۔‏ نئی کلیسیا میں منتقل ہونے کا فیصلہ آسان نہیں تھا تاہم ہمارے لئے یہ دانشمندانہ ثابت ہوا۔‏“‏

اسکے باوجود خاندان نے اپنی مادری زبان بولنا جاری رکھی اور وہ اسکے شاندار نتائج سے مستفید ہو رہے ہیں۔‏ انکے بچے بیان کرتے ہیں:‏ ”‏ایک سے زیادہ زبانیں جاننا فائدہ‌مند ثابت ہوتا ہے۔‏ اگرچہ انگریزی ہماری بنیادی زبان ہے تاہم یونانی زبان کے علم نے خاص طور پر گھر کے بڑےبوڑھوں کیساتھ مضبوط اور قریبی خاندانی رشتوں کو ممکن بنایا ہے۔‏ اس نے ہمیں نقل‌مکانی کرنے والے دیگر لوگوں کیلئے ہمدردی ظاہر کرنے کے قابل بھی بنایا ہے اور ہم میں ایک نئی زبان سیکھنے کا اعتماد پیدا کِیا ہے۔‏ لہٰذا جب ہم جوان ہوئے تو ہمارا خاندان نقل‌مکانی کرکے البانیہ زبان بولنے والی کلیسیا کی مدد کرنے لگا۔‏“‏

کرسٹوفر اور مارگریٹا بھی قبرص سے انگلینڈ منتقل ہوئے اور یہاں اُنہوں نے تین بچوں کی پرورش کی۔‏ اُنہوں نے یونانی زبان بولنے والی کلیسیا میں رہنے کا انتخاب کِیا ہے۔‏ اُنکا بیٹا نیکوس جو اب یونانی بولنے والی کلیسیا میں ایک بزرگ کے طور پر خدمت کر رہا ہے،‏ یاد کرتا ہے:‏ ”‏یونانی زبان بولنے والی ایک نئی کلیسیا میں شامل ہونے کیلئے ہماری حوصلہ‌افزائی کی گئی تھی۔‏ ہمارے خاندان نے اس پیشکش کو ایک تھیوکریٹک تفویض خیال کِیا۔‏“‏

مارگریٹا بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب دونوں لڑکے سات اور آٹھ سال کے ہوئے تو اُنہوں نے تھیوکریٹک منسٹری سکول میں اپنا اندراج کرایا۔‏ والدین کے طور پر،‏ ہم یونانی زبانی کی اُنکی محدود سمجھ کی بابت کچھ فکرمند تھے۔‏ تاہم،‏ ہر تفویض کو ایک خاندانی پروجیکٹ خیال کِیا جاتا تھا اور ہم تقاریر تیار کرنے میں اُنکی مدد کیلئے کئی گھنٹے صرف کرتے تھے۔‏“‏

اُن کی بیٹی جوآنا کہتی ہے:‏ ”‏مجھے یاد ہے کہ ابو گھر پر پڑے ایک بلیک‌بورڈ پر ہجے لکھ کر ہمیں یونانی زبان سکھایا کرتے تھے اور ہمیں انہیں اچھی طرح ذہن‌نشین کرنا پڑتا تھا۔‏ بہتیرے لوگوں کو ایک نئی زبان سیکھنے میں سالوں لگ جاتے تھے لیکن امی اور ابو کی مدد سے ہم نے بہت کم وقت میں یونانی زبان سیکھ لی۔‏“‏

بعض خاندان غیرملکی زبان بولنے والی کلیسیا میں مل جاتے ہیں کیونکہ والدین یہ محسوس کرتے ہیں کہ ’‏روحانی سمجھ‘‏ بڑھانے اور ترقی کرنے کیلئے انہیں آبائی زبان میں سچائی سیکھنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏کلسیوں ۱:‏۹،‏ ۱۰؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۳،‏ ۱۵‏)‏ یا پھر خاندان اپنی لسانی مہارتوں کو انکی زبان بولنے والے نقل‌مکانی کرنے والے دیگر لوگوں کو سچائی سکھانے میں مددگار خیال کر سکتا ہے۔‏

اس کے برعکس،‏ ایک خاندان محسوس کر سکتا ہے کہ جس ملک میں وہ نقل‌مکانی کرکے آئے ہیں اُس کی بنیادی زبان بولنے والی کلیسیا سے رفاقت رکھنا ان کے حق میں بہتر ہے۔‏ (‏فلپیوں ۲:‏۴؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۳:‏۵‏)‏ خاندان کے ساتھ بات‌چیت کرنے کے بعد دُعا کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنے کی ذمہ‌داری خاندانی سربراہ کی ہے۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۴؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳؛‏ فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ کونسی تجاویز ایسے خاندانوں کیلئے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں؟‏

چند عملی تجاویز

مسبوق‌الذکر پیڈرو اور سینڈرا کہتے ہیں:‏ ”‏اپنی مادری زبان کو فراموش نہ کرنے کا یقین کر لینے کے لئے ہم نے یہ اُصول بنایا ہے کہ ہم گھر پر سپینش بولینگے۔‏ اس اُصول پر چلنا کچھ مشکل ہے کیونکہ ہمارے بیٹے جانتے ہیں کہ ہم انگریزی سمجھتے ہیں۔‏ تاہم اگر ہم اس اُصول کی پیروی نہ کریں تو وہ بہت جلد سپینش کی سمجھ کھو سکتے ہیں۔‏“‏

مسبوق‌الذکر میگیول اور کارمن بھی یہ مشورہ دیتے ہیں:‏ ”‏اگر والدین اپنی مادری زبان میں باقاعدگی سے خاندانی مطالعہ اور روزانہ کی آیت پر بات‌چیت کریں تو بچے زبان کی بنیادی سمجھ سے زیادہ کچھ سیکھ جائینگے—‏وہ اس زبان میں اپنے مذہبی نظریات کا اظہار کرنے لگیں گے۔‏“‏

اس کے علاوہ،‏ میگیول مشورہ دیتا ہے:‏ ”‏گواہی کے کام کو پُرلطف بنائیں۔‏ ہمارا علاقہ ایک بڑے شہر کے وسیع حصے پر مشتمل ہے اور ہماری زبان بولنے والے لوگوں کی تلاش میں کار کا سفر کافی لمبا ہوتا ہے۔‏ ہم یہ وقت بائبل گیمز کھیلنے اور اہم معاملات پر بات‌چیت کرنے میں صرف کرتے ہیں۔‏ مَیں گواہی کے دوروں کی منصوبہ‌سازی کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ ہم بااَجر واپسی ملاقات کر سکیں۔‏ اس طرح دن کے آخر پر بچے کم‌ازکم ایک بامقصد بات‌چیت میں حصہ لینے کے قابل ہوتے ہیں۔‏“‏

ثقافتی اختلافات سے نپٹنا

خدا کا کلام نوجوانوں کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ اپنے باپ کی تربیت پر کان لگا اور اپنی ماں کی تعلیم کو ترک نہ کر۔‏“‏ (‏امثال ۱:‏۸‏)‏ تاہم مشکلات اُس وقت پیدا ہو سکتی ہیں جب باپ کا تربیتی معیار اور ماں کی ”‏تعلیم“‏ ایک ایسی ثقافت سے متاثر ہوتی ہے جس میں بچے پرورش پاتے ہیں۔‏

واقعی،‏ خاندان کا سربراہ اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے کہ وہ کیسے اپنے گھرانے کی راہنمائی کریگا اور اس سلسلے میں دوسرے خاندانوں کو بیجا مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۴،‏ ۵‏)‏ تاہم،‏ والدین اور بچوں کے درمیان اچھا رابطہ نئی روایات قبول کرنے کو آسان بناتا ہے۔‏

تاہم،‏ ترقی‌یافتہ ممالک کی کئی روایات یا رسومات مسیحیوں کی روحانی صحت کیلئے مُضر ہیں۔‏ اکثر مقبول موسیقی اور تفریح جنسی بداخلاقی،‏ لالچ اور بغاوت کو فروغ دیتی ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱:‏۲۶-‏۳۲‏)‏ مسیحی والدین محض زبان کو سمجھنے میں مشکل پیش آنے کی وجہ سے موسیقی اور تفریح کے سلسلے میں اپنے بچوں کے انتخاب کی نگرانی کی ذمہ‌داری سے دستبردار نہیں ہوتے۔‏ انہیں ٹھوس راہنما اُصول قائم کرنے چاہئیں۔‏ تاہم،‏ یہ بات ایک چیلنج پیش کر سکتی ہے۔‏

کارمن بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہم اکثر اُس موسیقی کے بول نہیں سمجھتے جو ہمارے بچے سنتے ہیں۔‏ اسکی دُھن تو شاید قابلِ‌قبول لگے تاہم اگر اس میں ذومعنی یا بداخلاقی کو فروغ دینے والے غیرمہذب الفاظ استعمال ہوئے ہوں تو ہم ان کی شناخت نہیں کر سکتے۔‏“‏ اُنہوں نے کیسے اس صورتحال پر قابو پایا ہے؟‏ میگیول بیان کرتا ہے:‏ ”‏ہم اپنے بچوں کو بداخلاق موسیقی کے خطرات سے آگاہ کرنے میں کافی وقت صرف کرتے ہیں اور یہوواہ کی نظر میں قابلِ‌قبول موسیقی کے انتخاب میں اُنکی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ ثقافتی اختلافات سے نپٹنے کیلئے نگرانی اور معقولیت کی ضرورت ہے۔‏—‏استثنا ۱۱:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ فلپیوں ۴:‏۵‏۔‏

اَجر حاصل کرنا

پردیس میں بچوں کی پرورش زیادہ وقت اور کوشش کا تقاضا کرتی ہے۔‏ اس بات میں کوئی شک نہیں۔‏ تاہم والدین اور بچے دونوں اپنی کوششوں کیلئے بڑا اَجر حاصل کر سکتے ہیں۔‏

اعظم اور اُسکی بیوی سارہ ترکی سے نقل‌مکانی کرکے جرمنی آئے جہاں اُنہوں نے اپنے تین بچوں کی پرورش کی۔‏ اُنکا سب سے بڑا بیٹا اب سیلٹرز،‏ جرمنی میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں خدمت کر رہا ہے۔‏ اعظم بیان کرتا ہے:‏ ”‏اس سلسلے میں بچوں کیلئے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ ایسی خوبیاں پیدا کر سکتے ہیں جو دونوں ثقافتوں میں اہمیت کی حامل ہیں۔‏“‏

انٹونیو اور لوٹوناڈیو انگولا سے جرمنی آئے اور یہاں وہ نو بچوں کی پرورش کر رہے ہیں۔‏ ان کا خاندان لنگالا،‏ فرانسیسی اور جرمنی زبان بولتا ہے۔‏ انٹونیو بیان کرتا ہے:‏ ”‏مختلف زبان بولنے کی صلاحیت ہمارے خاندان کو کئی ممالک کے لوگوں کو گواہی دینے میں مدد کرتی ہے۔‏ یہ بات واقعی بڑی خوشی کا باعث ہے۔‏“‏

انگلینڈ منتقل ہونے والے ایک جاپانی جوڑے کے دو بچے محسوس کرتے ہیں کہ جاپانی اور انگریزی زبان کا علم اُن کیلئے بڑا فائدہ‌مند ثابت ہوا ہے۔‏ یہ نوجوان بیان کرتے ہیں:‏ ”‏دو زبانوں کے علم نے نوکری حاصل کرنے میں ہماری مدد کی۔‏ ہم نے انگریزی زبان کے بڑے کنونشنوں سے فائدہ اُٹھایا ہے۔‏ اس کیساتھ ساتھ ہمیں جاپانی بولنے والی کلیسیا میں خدمت کرنے کا شرف حاصل ہے جہاں ہماری زیادہ ضرورت ہے۔‏“‏

آپ کامیاب ہو سکتے ہیں

خدا کے خادموں نے بائبل وقتوں سے فرق ثقافتی اقدار رکھنے والے لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے بچوں کی پرورش کرنے کے چیلنج کا سامنا کِیا ہے۔‏ اگرچہ موسیٰ نے مصر میں پرورش پائی تاہم اسکے والدین کی تربیت کامیاب رہی۔‏ (‏خروج ۲:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ بابل کی غلامی میں کئی یہودیوں نے ان بچوں کی پرورش کی جو یروشلیم لوٹ کر سچی پرستش کو بحال کرنے کے قابل تھے۔‏—‏عزرا ۲:‏۱،‏ ۲،‏ ۶۴-‏۷۰‏۔‏

اسی طرح،‏ آجکل کے مسیحی والدین بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اپنے بچوں کے مُنہ سے ایسی بات سننا اُن کیلئے بھی باعثِ‌اجر ہو سکتا ہے جیسی ایک جوڑے نے اپنے بچوں سے سنی:‏ ”‏ہم اپنے والدین کی مشفقانہ فکرمندی کے باعث ایک متحد خاندان ہیں جن کیساتھ ہم ہمیشہ اچھے رابطے سے مستفید ہوئے ہیں۔‏ ہم خوش ہیں کہ ہم یہوواہ کی خدمت کرنے والے عالمگیر زمینی خاندان کا حصہ ہیں۔‏“‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 بعض نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

گھر پر صرف اپنی مادری زبان میں گفتگو کرنے سے بچے اس زبان کا بنیادی علم حاصل کرتے ہیں

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

ایک عام زبان گھر کے بڑےبوڑھوں اور بچوں کے درمیان رشتے کو محفوظ رکھتی ہے

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

بچوں کیساتھ بائبل مطالعہ کرنے سے ’‏اُنکی روحانی سمجھ‘‏ بڑھتی ہے