یہوواہ آپکی فکر رکھتا ہے
یہوواہ آپکی فکر رکھتا ہے
”اپنی ساری فکر [خدا] پر ڈال دو کیونکہ اُسکو تمہاری فکر ہے۔“—۱-پطرس ۵:۷۔
۱. یہوواہ اور شیطان کس طریقے سے ایک دوسرے سے مکمل طور پر فرق ہیں؟
یہوواہ اور شیطان ایک دوسرے سے بالکل فرق ہیں۔ یہوواہ کی قربت میں آنے والے ہر شخص کو ابلیس دُھتکار دیتا ہے۔ ایک معیاری کتاب اس اختلاف کو واضح کرتی ہے۔ بائبل میں ایوب کی کتاب میں شیطان کے متذکرہ کاموں کی بابت انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا (۱۹۷۰) بیان کرتا ہے: ’شیطان کا کام زمین پر گھومنا اور لوگوں کے ایسے کاموں پر توجہ دلانا ہے جو انہیں قصوروار ٹھہراتے ہیں؛ لہٰذا اُس کا کام خدا کے برعکس ہے کیونکہ ”خداوند کی آنکھیں“ ساری زمین پر پھرتی ہیں اور اچھائی کی حوصلہافزائی کرتی ہیں۔ (۲-تواریخ ۱۶:۹) شیطان اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ انسان بےغرضی سے نیکی کرنے کے قابل ہے اور اُسے خدا کے اختیار اور اُس کی ٹھہرائی گئی حدود کے تحت انسانوں کو آزمانے کی اجازت دی گئی ہے۔‘ واقعی، کتنا تضاد ہے!—ایوب ۱:۶-۱۲؛ ۲:۱-۷۔
۲، ۳. (ا) ایوب کے ساتھ پیش آنے والے واقعات لفظ ”ابلیس“ کے مطلب کو موزوں طور پر کیسے واضح کرتے ہیں؟ (ب) بائبل کیسے ظاہر کرتی ہے کہ شیطان نے زمین پر یہوواہ کے خادموں پر الزام لگانا جاری رکھا ہے؟
۲ لفظ ”ابلیس“ کے لئے یونانی لفظ کا مطلب ”جھوٹا الزامتراش،“ یا ”تہمتی“ ہے۔ ایوب کی کتاب ظاہر کرتی ہے کہ شیطان نے یہوواہ کے وفادار خادم ایوب پر ذاتی مطلب کیلئے خدا کی خدمت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا: ”کیا اؔیوب یوں ہی خدا ایوب ۱:۹) ایوب کی کتاب کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ ایوب اپنی آزمائشوں اور مشکلات کے باوجود یہوواہ کے زیادہ قریب آتا گیا۔ (ایوب ۱۰:۹، ۱۲؛ ۱۲:۹، ۱۰؛ ۱۹:۲۵؛ ۲۷:۵؛ ۲۸:۲۸) اپنی آزمائش کے باوجود، اُس نے خدا سے کہا: ”مَیں نے تیری خبر کان سے سنی تھی پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے۔“—ایوب ۴۲:۵۔
سے ڈرتا ہے؟“ (۳ کیا شیطان نے ایوب کے زمانے کے بعد سے خدا کے وفادار خادموں پر الزام لگانا چھوڑ دیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ مکاشفہ کی کتاب ظاہر کرتی ہے کہ اس آخری زمانہ میں شیطان نے مسیح کے ممسوح بھائیوں اور اُنکے وفادار ساتھیوں پر الزام لگانا جاری رکھا ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۲؛ مکاشفہ ۱۲:۱۰، ۱۷) پس سچے مسیحیوں کے طور پر ہم سب کیلئے اپنے شفیق خدا یہوواہ کے تابع ہوتے ہوئے گہری محبت سے تحریک پاکر اُسکی خدمت کرنا اور یوں شیطان کے الزام کو جھوٹا ثابت کرنا نہایت اہم ہے۔ ایسا کرنے سے ہم یہوواہ کے دل کو شاد کرینگے۔—امثال ۲۷:۱۱۔
یہوواہ ہماری مدد کیلئے کوشاں ہے
۴، ۵. (ا) شیطان کے برعکس، یہوواہ زمین پر کیا تلاش کرتا ہے؟ (ب) اگر ہم یہوواہ کی خوشنودی کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
۴ ابلیس لوگوں پر الزام لگانے اور انہیں پھاڑ کھانے کی غرض سے زمین پر گھومتا پھرتا ہے۔ (ایوب ۱:۷، ۹؛ ۱-پطرس ۵:۸) اسکے برعکس، یہوواہ ایسے لوگوں کی تلاش کرتا ہے جنہیں اُسکی طاقت کی ضرورت ہے۔ حنانی نبی نے آسا بادشاہ کو بتایا: ”[یہوواہ] کی آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں تاکہ وہ اُنکی امداد میں جنکا دل اُسکی طرف کامل ہے اپنے تیئں قوی دکھائے۔“ (۲-تواریخ ۱۶:۹) شیطان کی نفرتانگیز تلاش اور یہوواہ کی پُرمحبت فکرمندی میں کتنا فرق ہے!
۵ یہوواہ ہماری ہر غلطی یا کمزوری کو پکڑنے کے لئے ہم پر نظر نہیں رکھتا۔ زبورنویس نے لکھا: ”اَے [یہوواہ]! اگر تُو بدکاری کو حساب میں لائے تو اَے [یہوواہ]! کون قائم رہ سکے گا؟“ (زبور ۱۳۰:۳) زبورنویس کا مضمر جواب ہے: کوئی بھی نہیں۔ (واعظ ۷:۲۰) اگر ہم پورے دل سے یہوواہ کے قریب جائیں تو اُسکی آنکھیں ہمیں ملامت کرنے کی بجائے ہماری کوششوں پر غور کرنے اور مدد اور معافی کیلئے ہماری دُعاؤں کا جواب دینے کیلئے ہم پر لگی رہینگی۔ پطرس رسول نے لکھا: ”[یہوواہ] کی نظر راستبازوں کی طرف ہے اور اُسکے کان اُنکی دُعا پر لگے ہیں۔ مگر بدکار [یہوواہ] کی نگاہ میں ہیں۔“—۱-پطرس ۳:۱۲۔
۶. داؤد کی مثال ہمارے لئے باعثِتسلی اور آگاہی کیوں ہے؟
۶ داؤد ناکامل ہونے کی وجہ سے سنگین گناہ کا مرتکب ہوا تھا۔ (۲-سموئیل ۱۲:۷-۹) تاہم اُس نے یہوواہ کے حضور اپنا دل اُنڈیل دیا اور مخلصانہ دُعا میں اُسکی قربت چاہی۔ (زبور ۵۱:۱-۱۲، بالائی عبارت) اگرچہ داؤد کو اپنے گناہ کے سنگین نتائج برداشت کرنا پڑے توبھی یہوواہ نے اُسکی دُعا سنی اور اُسے معاف کِیا۔ (۲-سموئیل ۱۲:۱۰-۱۴) یہ بات ہمارے لئے تسلی اور آگاہی کا باعث ہونی چاہئے۔ یہ جاننا کتنا تسلیبخش ہے کہ اگر ہم واقعی تائب ہیں تو یہوواہ ہمارے گناہوں کو معاف کرنے کیلئے تیار ہے لیکن یہ جاننا بھی سنجیدگی کا احساس پیدا کرتا ہے کہ گناہوں کے نتائج اکثر افسوسناک ہوتے ہیں۔ (گلتیوں ۶:۷-۹) اگر ہم یہوواہ کے قریب جانا چاہتے ہیں تو ہمیں جہاں تک ہو سکے ایسی ہر چیز سے دُور رہنا چاہئے جو اُسے ناپسند ہے۔—زبور ۹۷:۱۰۔
یہوواہ اپنے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے
۷. یہوواہ کیسے لوگوں کو تلاش کرکے اُنہیں اپنی طرف کھینچتا ہے؟
۷ داؤد نے اپنے ایک زبور میں لکھا: ”[یہوواہ] اگرچہ بلندوبالا ہے توبھی خاکسار کا خیال رکھتا ہے۔ لیکن مغرور کو دُور ہی سے پہچان لیتا ہے۔“ (زبور ۱۳۸:۶) اسی طرح ایک دوسرا زبور بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] ہمارے خدا کی مانند کون ہے جو عالمِبالا پر تختنشین ہے جو فروتنی سے آسمانوزمین پر نظر کرتا ہے؟ وہ مسکین کو خاک سے . . . اُٹھا لیتا ہے۔“ (زبور ۱۱۳:۵-۷) جیہاں، کائنات کا قادرِمطلق خالق جب فروتنی سے زمین پر نگاہ دوڑاتا ہے تو اُسکی آنکھیں ”خاکسار“ اور ”مسکین“ لوگوں پر پڑتی ہیں ”جو اُن سب نفرتی کاموں کے سبب سے جو . . . کئے جاتے ہیں آہیں مارتے اور روتے ہیں۔“ (حزقیایل ۹:۴) وہ اپنے بیٹے کے ذریعے ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے بیان کِیا: ”کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لے . . . میرے پاس کوئی نہیں آ سکتا جب تک باپ کی طرف سے اُسے یہ توفیق نہ دی جائے۔“—یوحنا ۶:۴۴، ۶۵۔
۸، ۹. (ا) ہم سب کو یسوع کے پاس آنے کی ضرورت کیوں ہے؟ (ب) کونسی چیز فدیے کے بندوبست کو نہایت اہم بناتی ہے؟
یوحنا ۳:۳۶) اُنہیں خدا کے ساتھ میلملاپ کرنے کی ضرورت ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۵:۲۰) خدا نے امن قائم کرنے کے کسی بندوبست کا انتظام کرنے کی خاطر گنہگار انسانوں کی درخواست کا انتظار نہیں کِیا۔ پولس رسول نے لکھا: ”خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مؤا۔ . . . کیونکہ جب باوجود دُشمن ہونے کے خدا سے اُسکے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہو گیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُسکی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچینگے۔“—رومیوں ۵:۸، ۱۰۔
۸ گنہگارانہ اور خدا سے جُدائی کی حالت میں پیدا ہونے کی وجہ سے تمام انسانوں کو یسوع کے پاس آنے اور اُس کے فدیے کی قربانی پر ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ (۹ اس شاندار سچائی کی تصدیق کرنے کے لئے کہ خدا انسانوں کا اپنے ساتھ میل کراتا ہے، یوحنا رسول نے لکھا: ”جو محبت خدا کو ہم سے ہے وہ اِس سے ظاہر ہوئی کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اُس کے سبب سے زِندہ رہیں۔ محبت اِس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اِس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارہ کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا۔“ (۱-یوحنا ۴:۹، ۱۰) پہل انسان کی بجائے خدا نے کی تھی۔ کیا آپ ایسے خدا کے قریب جانا نہیں چاہتے جس نے ’گنہگاروں‘ بلکہ ’دُشمنوں‘ کی خاطر اتنی زیادہ محبت ظاہر کی ہے؟—یوحنا ۳:۱۶۔
یہوواہ کے طالب ہونے کی ضرورت
۱۰، ۱۱. (ا) ہمیں یہوواہ کے طالب ہونے کیلئے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ (ب) ہمیں شیطان کے نظاماُلعمل کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱۰ بِلاشُبہ، یہوواہ ہمیں اپنی طرف آنے کیلئے مجبور نہیں کرتا۔ ہمیں اُسکی تلاش کرنی چاہئے تاکہ ”ٹٹول کر اُسے پائیں ہرچند وہ ہم میں سے کسی سے دُور نہیں۔“ (اعمال ۱۷:۲۷) ہمیں اُسکی تابعداری کی بابت یہوواہ کے تقاضے کو قبول کرنا چاہئے۔ شاگرد یعقوب نے لکھا: ”پس خدا کے تابع ہو جاؤ اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائیگا۔ خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئیگا۔ اَے گنہگارو! اپنے ہاتھوں کو صاف کرو اور اَے دو دِلو! اپنے دلوں کو پاک کرو۔“ (یعقوب ۴:۷، ۸) ہمیں یہوواہ کیلئے ثابتقدم رہنے اور ابلیس کی پُرزور مزاحمت کرنے کے سلسلے میں تذبذب سے کام نہیں لینا چاہئے۔
۱۱ اسکا مطلب شیطان کے بدکار نظاماُلعمل سے خود کو علیٰحدہ کرنا ہے۔ یعقوب نے یہ بھی لکھا: ”کیا تمہیں نہیں معلوم کہ دُنیا سے دوستی رکھنا خدا سے دشمنی کرنا ہے؟ پس جو کوئی دُنیا کا دوست بننا چاہتا ہے وہ اپنے آپ کو خدا کا دشمن بناتا ہے۔“ (یعقوب ۴:۴) اسکے برعکس، اگر ہم یہوواہ کے دوست بننا چاہتے ہیں تو ہمیں شیطان کی دُنیا کی عداوت کی توقع کرنی چاہئے۔—یوحنا ۱۵:۱۹؛ ۱-یوحنا ۳:۱۳۔
۱۲. (ا) داؤد نے کونسے تسلیبخش الفاظ لکھے؟ (ب) یہوواہ نے عزریاہ نبی کی معرفت کونسی آگاہی فراہم کی؟
۱۲ جب شیطان کی دُنیا کسی خاص طریقے سے ہماری مخالفت کرتی ہے تو ہمیں بالخصوص یہوواہ کی مدد کیلئے دُعا میں اُس سے رُجوع کرنا چاہئے۔ داؤد نے جسے کئی بار یہوواہ کی طرف سے نجات کا تجربہ ہوا تھا ہماری تسلی کیلئے لکھا: ”[یہوواہ] اُن سب کے قریب ہے جو اُس سے دُعا کرتے ہیں۔ یعنی اُن سب زبور ۱۴۵:۱۸-۲۰) یہ زبور ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم انفرادی طور پر آزمائش کا سامنا کرتے ہیں تو یہوواہ ہمیں بچا سکتا ہے اور وہ مجموعی طور پر اپنے لوگوں کو ”بڑی مصیبت“ سے بچائیگا۔ (مکاشفہ ۷:۱۴) اگر ہم یہوواہ کی قربت میں رہیں تو وہ بھی ہمارے قریب رہیگا۔ ”خدا کی روح“ کی راہنمائی میں عزریاہ نبی کی بیانکردہ سچائی کا عام اطلاق کِیا جا سکتا ہے: ”[یہوواہ] تمہارے ساتھ ہے جب تک تم اُسکے ساتھ ہو اور اگر تم اُسکے طالب ہو تو وہ تم کو ملیگا پر اگر تم اُسے ترک کرو تو وہ تم کو ترک کریگا۔“—۲-تواریخ ۱۵:۱، ۲۔
کے جو سچائی سے دُعا کرتے ہیں۔ جو اُس سے ڈرتے ہیں وہ اُن کی مُراد پوری کریگا۔ وہ اُنکی فریاد سنے گا اور اُنکو بچا لے گا۔ [یہوواہ] اپنے سب محبت رکھنے والوں کی حفاظت کریگا لیکن سب شریروں کو ہلاک کر ڈالیگا۔“ (یہوواہ کو ہمارے لئے حقیقی ہونا چاہئے
۱۳. ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمارے لئے حقیقی ہے؟
۱۳ پولس رسول نے موسیٰ کی بابت لکھا کہ ”وہ اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابت قدم رہا۔“ (عبرانیوں ۱۱:۲۷) واقعی، موسیٰ نے حقیقت میں یہوواہ کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ (خروج ۳۳:۲۰) تاہم، یہوواہ اُس کیلئے اسقدر حقیقی تھا کہ گویا وہ اُسے دیکھ سکتا تھا۔ اسی طرح ایوب نے بھی آزمائشوں کے بعد اپنی ایمان کی آنکھوں سے یہوواہ کو اپنے وفادار خادموں پر آزمائشیں آنے کی اجازت دینے لیکن انہیں کبھی نہ چھوڑنے والے خدا کے طور پر دیکھا تھا۔ (ایوب ۴۲:۵) حنوک اور نوح کی بابت کہا گیا کہ وہ ’خدا کیساتھ ساتھ چلتے تھے۔‘ اُنہوں نے خدا کو خوش کرنے اور اُسکی اطاعت کرنے کی کوشش کرنے سے ایسا کِیا۔ (پیدایش ۵:۲۲-۲۴؛ ۶:۹، ۲۲؛ عبرانیوں ۱۱:۵، ۷) اگر یہوواہ ہمارے لئے بھی اُتنا ہی حقیقی ہے جتنا کہ حنوک، نوح، ایوب اور موسیٰ کیلئے تھا تو ہم اپنی سب راہوں میں ’اُسکو پہچانینگے‘ اور وہ ’ہماری راہنمائی کریگا۔‘—امثال ۳:۵، ۶۔
۱۴. یہوواہ سے ”لپٹے“ رہنے سے کیا مُراد ہے؟
۱۴ اسرائیل کے ملکِموعود میں داخل ہونے سے کچھ دیر پہلے، موسیٰ نے اُنہیں نصیحت کی: ”تم [یہوواہ] اپنے خدا کی پیروی کرنا اور اُسکا خوف ماننا اور اُسکے حکموں پر چلنا اور اُسکی بات سننا۔ تم اُسی کی بندگی کرنا اور اُسی سے لپٹے رہنا۔“ (استثنا ۱۳:۴) اُنہیں یہوواہ کی پیروی اور اطاعت کرنی تھی اور اُسی سے لپٹے رہنا تھا۔ یہاں جس لفظ کا ترجمہ ”لپٹے رہنا“ کِیا گیا ہے اسکی بابت ایک بائبل عالم بیان کرتا ہے کہ ”اصلی متن ایک بہت قریبی اور ذاتی رشتے کو ظاہر کرتا ہے۔“ زبورنویس نے بیان کِیا: ”[یہوواہ] کے راز کو وہی جانتے ہیں جو اُس سے ڈرتے ہیں۔“ (زبور ۲۵:۱۴) اگر یہوواہ ہمارے لئے حقیقی ہو اور ہم اُس سے اسقدر محبت رکھیں کہ اُسے کسی بھی طرح ناخوش کرنے سے ڈریں تو ہم اُس کیساتھ ایسا بیشقیمت، قریبی رشتہ رکھ سکتے ہیں۔—زبور ۱۹:۹-۱۴۔
کیا آپ یہوواہ کی فکرمندی سے واقف ہیں؟
۱۵، ۱۶. (ا) زبور ۳۴ کیسے ظاہر کرتا ہے کہ یہوواہ کو آپ کی فکر ہے؟ (ب) اگر ہم اپنے حق میں یہوواہ کے کسی نیک کام کو یاد کرنا مشکل پاتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۵ شیطان کا ایک حربہ ہمیں اس حقیقت کو فراموش کرنے کی تحریک دینا ہے کہ ہمارا خدا یہوواہ اپنے وفادار خادموں کی ہمیشہ فکر رکھتا ہے۔ بادشاہ داؤد سب سے خطرناک صورتحال کا سامنا کرتے وقت بھی یہوواہ کے تحفظ سے بخوبی واقف تھا۔ جب اُسے جات کے بادشاہ اکیس کے سامنے پاگلپن کا ناٹک کرنا پڑا تو اُس نے ایک گیت، ایک خوبصورت زبور لکھا جس میں ایمان کے یہ اظہارات شامل تھے: ”میرے ساتھ [یہوواہ] کی بڑائی کرو۔ ہم ملکر اُس کے نام کی تمجید کریں۔ مَیں [یہوواہ] کا طالب ہوا۔ اُس نے مجھے جواب دیا اور میری ساری دہشت سے مجھے رہائی بخشی۔ [یہوواہ] سے ڈرنے والوں کی چاروں طرف اُسکا فرشتہ خیمہزن ہوتا ہے اور اُنکو بچاتا ہے۔ آزما کر دیکھو کہ [یہوواہ] کیسا مہربان ہے۔ مبارک ہے وہ آدمی جو اُس پر توکل کرتا ہے۔ [یہوواہ] شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔ صادق کی مصیبتیں بہت ہیں لیکن [یہوواہ] اُس کو اُن سب سے رہائی بخشتا ہے۔“—زبور ۳۴:۳، ۴، ۷، ۸، ۱۸، ۱۹؛ ۱-سموئیل ۲۱:۱۰-۱۵۔
۲-کرنتھیوں ۴:۷) اس کے ساتھ ہی ساتھ، شاید آپ کو اپنے حق میں یہوواہ کی کسی خاص نیکی کو یاد کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہو۔ ممکن ہے کہ آپ کو گزرے ہوئے ہفتے، مہینے، سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے کی بابت سوچنا پڑے۔ اگر ایسا ہے تو کیوں نہ یہوواہ کی قربت حاصل کرنے اور اپنے لئے اُس کی راہنمائی اور ہدایت کو سمجھنے کی مخلصانہ کوشش کی جائے؟ پطرس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی: ”خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو . . . اور اپنی ساری فکر اُس پر ڈال دو کیونکہ اُس کو تمہاری فکر ہے۔“ (۱-پطرس ۵:۶، ۷) واقعی، آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اُسے آپ کی کتنی فکر ہے!—زبور ۷۳:۲۸۔
۱۶ کیا آپ یہوواہ کی نجات کی طاقت کی بابت پُراعتماد ہیں؟ کیا آپ اُس کے ملکوتی تحفظ سے واقف ہیں؟ کیا آپ نے آزما کر دیکھا ہے کہ یہوواہ کیسا مہربان ہے؟ آپ نے آخری بار یہوواہ کی خاص مہربانی کا تجربہ کب کِیا تھا؟ یاد کرنے کی کوشش کریں؟ کیا ایسا اُس وقت ہوا جب خدمتگزاری میں آخری گھر پر جانے کے بعد آپ کی ہمت جواب دے گئی تھی؟ غالباً اُس وقت صاحبِخانہ کے ساتھ آپ کی باتچیت شاندار رہی۔ کیا آپ نے مزید طاقت اور برکت حاصل کرنے پر یہوواہ کا شکر ادا کرنا یاد رکھا؟ (یہوواہ کے طالب رہیں
۱۷. یہوواہ کے طالب رہنے کیلئے کونسی چیز ضروری ہے؟
۱۷ یہوواہ کے ساتھ اپنے رشتے کو قائم رکھنا ایک جاری عمل ہے۔ یسوع نے دُعا میں اپنے باپ سے کہا: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو یسوؔع مسیح جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ (یوحنا ۱۷:۳) یہوواہ اور اُس کے بیٹے کی بابت علم حاصل کرنا ہم سے مستقل کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمیں ”خدا کی تہ کی باتیں“ سمجھنے کے لئے دُعا اور رُوحاُلقدس کی مدد کی ضرورت ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۰؛ لوقا ۱۱:۱۳) ہمیں اپنے ذہنوں کو روحانی خوراک سے معمور کرنے کیلئے ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی راہنمائی کی بھی ضرورت ہے جو وہ ”وقت پر“ فراہم کرتا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵) یہوواہ نے اسی ذریعے سے ہمیں روزانہ اُسکا کلام پڑھنے، مسیحی اجلاسوں پر باقاعدہ حاضر ہونے اور ’بادشاہتی خوشخبری‘ کی منادی میں پُرجوش حصہ لینے کی نصیحت کی ہے۔ (متی ۲۴:۱۴) ایسا کرنے سے ہم اپنے شفیق خدا یہوواہ کے طالب رہینگے۔
۱۸، ۱۹. (ا) ہمیں کس کام کیلئے پُرعزم رہنا چاہئے؟ (ب) اگر ہم پُرعزم ہوکر ابلیس کی مزاحمت کریں اور یہوواہ کے طالب رہیں تو ہم کیسے برکت حاصل کرینگے؟
۱۸ شیطان ہر طرف سے یہوواہ کے لوگوں کو اذیت، مخالفت اور دباؤ کے ذریعے متاثر کرنے کی حتیٰلمقدور کوشش کرتا ہے۔ وہ ہمارے اطمینان کو ختم کرنے اور خدا کے ساتھ ہماری راست حیثیت کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ہم خلوصدل لوگوں کی تلاش کرنے اور عالمگیر حاکمیت کے مسئلے پر یہوواہ کا ساتھ دینے میں اُن کی مدد کرنے کے کام کو جاری رکھیں۔ تاہم اُس شریر سے ہماری حفاظت کرنے میں یہوواہ پر بھروسا رکھتے ہوئے ہمیں اُس کے وفادار رہنے کے لئے پُرعزم ہونا چاہئے۔ خدا کے کلام کی راہنمائی کی اطاعت کرنے اور اُسکی دیدنی تنظیم کیساتھ سرگرم رہنے سے ہم ہمیشہ اُسکی مدد کا یقین رکھ سکتے ہیں۔—یسعیاہ ۴۱:۸-۱۳۔
۱۹ پس دُعا ہے کہ ہم ابلیس اور اُسکے حربوں کی مزاحمت کرنے کیلئے پُرعزم رہتے ہوئے اپنے خدا یہوواہ کے طالب رہیں جو یقیناً ’ہمیں قائم اور مضبوط‘ کریگا۔ (۱-پطرس ۵:۸-۱۱) یوں ہم ’اپنے آپ کو خدا کی محبت میں قائم رکھینگے اور ہمیشہ کی زندگی کے لئے اپنے خداوند یسوع مسیح کی رحمت کے منتظر رہینگے۔‘—یہوداہ ۲۱۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• لفظ ”ابلیس“ کے کیا معنی ہیں اور ابلیس اس پر کیسے پورا اُترتا ہے؟
• زمین کے باشندوں کا مشاہدہ کرنے کے سلسلے میں یہوواہ اور ابلیس میں کیا فرق ہے؟
• یہوواہ کے قریب جانے کیلئے ایک شخص کو فدیہ قبول کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟
• یہوواہ سے ”لپٹے“ رہنے سے کیا مُراد ہے اور ہم کیسے اُس کے طالب رہ سکتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
ایوب اپنی آزمائشوں کے باوجود جانتا تھا کہ یہوواہ اُسکی فکر رکھتا ہے
[صفحہ ۱۷ پر تصویریں]
روزانہ بائبل پڑھائی، مسیحی اجلاسوں پر باقاعدہ حاضری اور منادی کے کام میں پُرجوش شرکت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ یہوواہ ہماری فکر رکھتا ہے