مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏غیرقوموں میں اپنا چال‌چلن نیک رکھو“‏

‏”‏غیرقوموں میں اپنا چال‌چلن نیک رکھو“‏

‏”‏غیرقوموں میں اپنا چال‌چلن نیک رکھو“‏

‏”‏سب کی عزت کرو۔‏ برادری سے محبت رکھو۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۷‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ یہوواہ کے گواہوں کی بابت ایک اخباری نمائندے نے کیا تبصرہ کِیا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کے گواہ چال‌چلن کے اعلیٰ معیاروں کو کیوں برقرار رکھنا چاہتے ہیں؟‏

کئی سال پہلے،‏ اماریلو،‏ ٹیکساس،‏ یو.‏ایس.‏اے میں ایک اخباری نمائندے نے علاقے کے مختلف گرجاگھروں کا دَورہ کرنے کے بعد اپنی تحقیق کے نتائج پر رپورٹ دی۔‏ ایک گروہ اس کے ذہن میں نمایاں رہا۔‏ اس نے کہا:‏ ”‏مَیں تین سال تک،‏ اماریلو سوک سینٹر میں یہوواہ کے گواہوں کے سالانہ کنونشنوں پر حاضر ہوتا رہا۔‏ جب مَیں ان میں گھل‌مِل گیا تو مَیں نے کسی بھی شخص کو سگریٹ سلگاتے،‏ بیئر کا ڈبہ کھولتے یا بیہودہ‌گوئی کرتے نہیں دیکھا۔‏ مَیں اپنی زندگی میں  پہلے کبھی اتنے پاک‌صاف مہذب،‏ حیادار،‏ خوش‌طبع لوگوں سے نہیں ملا۔‏“‏  یہوواہ کے گواہوں کی بابت اکثر اس طرح کے تبصرے شائع ہو چکے ہیں۔‏ جو لوگ گواہوں جیسا اعتقاد نہیں رکھتے وہ بھی اُنکی تعریف کیوں کرتے ہیں؟‏

۲ عام طور پر،‏ خدا کے لوگوں کی تعریف ان کے نیک چال‌چلن کی وجہ سے ہوتی ہے۔‏ دُنیا میں معیار رُوبہ‌تنزل ہیں لیکن یہوواہ کے گواہ چال‌چلن کے اعلیٰ معیاروں کو ایک فرض،‏ اپنی پرستش کا ایک جُزو سمجھتے ہیں۔‏ وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ انکے کام یہوواہ اور انکے مسیحی بھائیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ان کا نیک چال‌چلن اُس سچائی کی حمایت کرتا ہے جس کی وہ منادی کرتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۸؛‏ ططس ۲:‏۷،‏ ۸‏)‏ توپھر،‏ آئیے دیکھیں کہ ہم اپنا نیک چال‌چلن کیسے برقرار رکھ سکتے اور یوں یہوواہ اور اس کے گواہوں کی  عمدہ شہرت کو سربلند رکھنے کے علاوہ کیسے خود بھی اس فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔‏

مسیحی خاندان

۳.‏ مسیحی خاندانوں کو کس چیز سے بچانے کی ضرورت ہے؟‏

۳ ذرا خاندان میں اپنے چال‌چلن پر غور کریں۔‏ گرہارٹ بیزر اور اروِن کے.‏ شوئیک کی کتاب دی نیو انکوِزیٹرز:‏ فریڈم آف ریلیجن اینڈ ریلیجئس اینوِی بیان کرتی ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ کے گواہوں]‏ کے نزدیک خاندان کی بالخصوص حفاظت کی جانی چاہئے۔‏“‏ یہ بیان سچ ہے اور آجکل ایسے بہت سے خطرات ہیں جن سے خاندان کو تحفظ کی ضرورت ہے۔‏ بچے ”‏ماں‌باپ کے نافرمان“‏ اور بالغ ”‏طبعی محبت سے خالی“‏ اور ”‏بےضبط“‏ ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۲،‏ ۳‏)‏ خاندان بیاہتا ساتھیوں پر تشدد کی جگہیں بن گئے ہیں؛‏ والدین اپنے بچوں سے بدسلوکی کرتے یا اپنے بچوں سے غفلت برتتے ہیں؛‏ نیز بچے بغاوت کرتے،‏ منشیات یا بداخلاقی کے مرتکب ہوتے یا گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔‏ یہ سب کچھ ’‏دُنیا کی رُوح‘‏ کے تباہ‌کُن اثر کا نتیجہ ہے۔‏ (‏افسیوں ۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ ہمیں اس روح کے خلاف اپنے خاندان کو بچانے کی ضرورت ہے۔‏ کیسے؟‏ اس کیلئے خاندان کے افراد کیلئے یہوواہ کی مشورت اور ہدایت پر دھیان دینا ضروری ہے۔‏

۴.‏ مسیحی خاندانی افراد ایک دوسرے کے سلسلے میں کونسی ذمہ‌داریاں رکھتے ہیں؟‏

۴ مسیحی جوڑے ایک دوسرے کیلئے اپنے جذباتی،‏ روحانی اور جسمانی فرائض سے باخبر ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳-‏۵؛‏ افسیوں ۵:‏۲۱-‏۲۳؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۷‏)‏ مسیحی والدین اپنی اولاد کے سلسلے میں بھاری ذمہ‌داری رکھتے ہیں۔‏ (‏امثال ۲۲:‏۶؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۱۴؛‏ افسیوں ۶:‏۴‏)‏ نیز جب مسیحی گھروں میں بچے بالغ ہو جاتے ہیں تو اُن کی بھی ذمہ‌داریاں ہوتی ہیں۔‏ (‏امثال ۱:‏۸،‏ ۹؛‏ ۲۳:‏۲۲؛‏ افسیوں ۶:‏۱؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۵:‏۳،‏ ۴،‏ ۸‏)‏ خاندانی ذمہ‌داریوں کو پورا کرنا کوشش،‏ عزم،‏ محبت اور خودایثاری کے جذبے کا تقاضا کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ جس حد تک تمام خاندانی افراد اپنی خداداد ذمہ‌داریوں کو پورا کرتے ہیں اُسی حد تک وہ ایک دوسرے اور کلیسیا کیلئے بابرکت ثابت ہوتے ہیں۔‏ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ خاندان کے بانی یہوواہ خدا کی عزت کا باعث ٹھہرتے ہیں۔‏—‏پیدایش ۱:‏۲۷،‏ ۲۸؛‏ افسیوں ۳:‏۱۵‏۔‏

مسیحی برادری

۵.‏ ہم ساتھی مسیحیوں کی رفاقت سے کونسی برکات حاصل کرتے ہیں؟‏

۵ مسیحیوں کے طور پر،‏ کلیسیا میں ساتھی ایمانداروں اور  ’‏عالمگیر برادری‘‏ کے لئے بھی ہماری کچھ ذمہ‌داریاں ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۹‏)‏ کلیسیا کیساتھ ہماری رفاقت ہماری روحانی صحت کے لئے نہایت اہم ہے۔‏ جب ہم ساتھی مسیحیوں کیساتھ رفاقت رکھتے ہیں تو ہم انکی حوصلہ‌افزا رفاقت اور ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کی طرف سے غذائیت‌بخش روحانی خوراک سے استفادہ کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ اگر ہمیں مسائل کا سامنا ہوتا ہے تو ہم صحیفائی اُصولوں پر مبنی ٹھوس مشورت کے لئے اپنے بھائیوں کے پاس جا سکتے ہیں۔‏ (‏امثال ۱۷:‏۱۷؛‏ واعظ ۴:‏۹؛‏ یعقوب ۵:‏۱۳-‏۱۸‏)‏ ہمارے بھائی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتے۔‏ خدا کی تنظیم کا حصہ ہونا کتنی بڑی برکت ہے!‏

۶.‏ پولس نے کیسے ظاہر کِیا کہ ساتھی مسیحیوں کے سلسلے میں ہماری بھی کچھ ذمہ‌داریاں ہیں؟‏

۶ تاہم،‏ ہم کلیسیا میں محض لینے کیلئے ہی نہیں بلکہ دینے کیلئے بھی ہیں۔‏ درحقیقت یسوع نے کہا:‏ ”‏دینا لینے سے مبارک ہے۔‏“‏ (‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏)‏ پولس رسول نے یہ لکھتے وقت خوشی سے دینے کے جذبے کو اُجاگر کِیا:‏ ”‏اپنی اُمید کے اقرار کو مضبوطی سے تھامے رہیں کیونکہ جس نے وعدہ کِیا ہے وہ سچا ہے۔‏ اور محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔‏ اور ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں جیسا بعض لوگوں کا دستور ہے بلکہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اُس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہو اُسی قدر زیادہ کِیا کرو۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۳-‏۲۵‏۔‏

۷،‏ ۸.‏ ہم اپنی کلیسیا اور دیگر ممالک میں مسیحیوں کے لئے دینے کا رُجحان کیسے ظاہر کرتے ہیں؟‏

۷ کلیسیا کے اندر،‏ ہم اجلاسوں کے دوران تبصرہ کرتے یا پروگرام میں دیگر طریقوں سے حصہ لیتے وقت ”‏اپنی اُمید کا اقرار“‏ کرتے ہیں۔‏ ایسی کوششیں یقیناً ہمارے بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کا باعث بنتی ہیں۔‏ ہم اجلاس سے پہلے یا بعد میں اپنی بات‌چیت سے بھی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں۔‏ اس وقت کے دوران ہم کمزوروں کو مضبوط کر سکتے،‏ کم‌ہمتوں کو دلاسا دے سکتے اور بیماروں کو تسلی دے سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۴‏)‏ مخلص مسیحی اس طرح کے دینے میں فراخدل ہیں جس کی وجہ سے اجلاسوں پر پہلی مرتبہ حاضر ہونے والے ہمارے درمیان پائی جانے والی محبت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوتے ہیں۔‏—‏زبور ۳۷:‏۲۱؛‏ یوحنا ۱۵:‏۱۲؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۴:‏۲۵‏۔‏

۸ تاہم،‏ ہماری محبت ہماری کلیسیا تک ہی محدود نہیں ہے۔‏ اس میں ہماری پوری برادری شامل ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اسی لئے ہر کنگڈم ہال میں کنگڈم ہال فنڈ کیلئے عطیے کا ایک بکس رکھا ہوتا ہے۔‏ شاید ہمارا اپنا کنگڈم ہال عمدہ حالت میں ہو لیکن ہم جانتے ہیں کہ دیگر ممالک میں ہزاروں ساتھی مسیحیوں کے پاس جمع ہونے کی مناسب جگہ نہیں ہے۔‏ جب ہم کنگڈم ہال فنڈ کے لئے عطیہ دیتے ہیں تو ہم ایسے اشخاص کے لئے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں جنہیں ہم ذاتی طور پر نہیں جانتے۔‏

۹.‏ کس بنیادی وجہ سے یہوواہ کے گواہ ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں؟‏

۹ یہوواہ کے گواہ ایک دوسرے سے محبت کیوں رکھتے ہیں؟‏ یسوع نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۷‏)‏ نیز ایک دوسرے کے لئے ان کی محبت ان پر انفرادی اور اجتماعی طور پر خدا کی رُوح کے کارفرما ہونے کا ثبوت ہے۔‏ محبت ’‏روح کا پھل‘‏ ہے۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ یہوواہ کے گواہ ایسی دُنیا میں رہنے کے باوجود،‏ جہاں ’‏بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ گئی ہے‘‏ جب بائبل کا مطالعہ کرتے،‏ مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوتے اور خدا سے باقاعدگی کیساتھ دُعا کرتے ہیں تو محبت ان کے لئے فطرتی چیز بن جاتی ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۲‏۔‏

دُنیا کیساتھ نبھا کرنا

۱۰.‏ دُنیا کے سلسلے میں ہماری کیا ذمہ‌داری ہے؟‏

۱۰ ‏”‏اپنی اُمید کے اقرار“‏ کی بابت پولس کا بیان ہمیں ایک اَور ذمہ‌داری کی یاد دلاتا ہے۔‏ علانیہ اقرار میں اُن اشخاص کو خوشخبری کی منادی کرنا شامل ہے جو ابھی تک ہمارے مسیحی بھائی نہیں ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ رومیوں ۱۰:‏۹،‏ ۱۰،‏ ۱۳-‏۱۵‏)‏ ایسی منادی بھی دینے کا ایک عمل ہے۔‏ اس میں حصہ لینا وقت،‏ طاقت،‏ توانائی،‏ تیاری،‏ تربیت اور ذاتی وسائل کے استعمال کا تقاضا کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ پولس نے یہ بھی لکھا:‏ ”‏مَیں یونانیوں اور غیریونانیوں۔‏ داناؤں اور نادانوں کا قرضدار ہوں۔‏ پس مَیں تم کو بھی جو رؔومہ میں ہو خوشخبری سنانے کو حتیٰ‌المقدور تیار ہوں۔‏“‏ (‏رومیوں ۱:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ پولس کی طرح دُعا ہے کہ ہم اس ”‏قرض“‏ کی ادائیگی میں کنجوسی سے کام نہ لیں۔‏

۱۱.‏ کونسے دو صحیفائی اُصول دُنیا کیساتھ ہمارے رشتے پر اثرانداز ہوتے ہیں لیکن ہم پھربھی کیا تسلیم کرتے ہیں؟‏

۱۱ کیا ساتھی پرستاروں کے علاوہ ہماری کچھ اَور بھی ذمہ‌داریاں ہیں؟‏ یقیناً۔‏ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ یسوع نے اپنے شاگردوں کے متعلق کہا تھا:‏ ”‏جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏“‏ تاہم،‏ ہم دُنیا میں رہتے،‏ روزی کماتے اور اس کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۱،‏ ۱۵،‏ ۱۶‏)‏ پس اس دُنیا کے سلسلے میں ہماری بھی کچھ ذمہ‌داریاں ہیں۔‏ وہ کیا ہیں؟‏ پطرس رسول نے اس سوال کا جواب دیا۔‏ یروشلیم کی تباہی سے کچھ دیر پہلے،‏ اُس نے ایشیائےکوچک کے مسیحیوں کے نام ایک خط لکھا جس میں ایک اقتباس دُنیا کے ساتھ متوازن رشتہ رکھنے کے سلسلے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‏

۱۲.‏ مسیحی کن طریقوں سے ”‏پردیسی اور مسافر“‏ ہیں اور اس لحاظ سے اُنہیں کن چیزوں سے بچنا چاہئے؟‏

۱۲ سب سے پہلے،‏ پطرس نے کہا:‏ ”‏اَے پیارو میں تمہاری منت کرتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو پردیسی اور مسافر جان کر اُن جسمانی خواہشوں سے پرہیز کرو جو روح سے لڑائی رکھتی ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۱‏)‏ سچے مسیحی روحانی مفہوم میں،‏ ”‏پردیسی اور مسافر“‏ ہیں کیونکہ انکی زندگیوں کا حقیقی نشانہ ہمیشہ کی زندگی—‏روح سے مسح‌شُدہ کیلئے آسمان پر اور ’‏دوسری بھیڑوں کیلئے مستقبل میں زمینی فردوس میں—‏کی اُمید ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۶؛‏ فلپیوں ۳:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ عبرانیوں ۱۱:‏۱۳؛‏ مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۴-‏۱۷‏)‏ تاہم،‏ جسمانی خواہشات کیا ہیں؟‏ ان میں دولتمند بننے اور اعلیٰ مرتبے کی خواہش،‏ بداخلاق جنسی خواہشات اور ”‏حسد“‏ اور ”‏لالچ“‏ جیسی خواہشات شامل ہیں۔‏—‏کلسیوں ۳:‏۵؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۴،‏ ۹؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

۱۳.‏ جسمانی خواہشات کیسے ہماری ”‏روح سے لڑائی رکھتی ہیں“‏؟‏

۱۳ ایسی خواہشات واقعی ہماری ”‏روح سے لڑائی رکھتی ہیں۔‏“‏ یہ خدا کیساتھ ہمارے رشتے کو کھوکھلا کر سکتیں اور یوں ہماری مسیحی اُمید (‏ہماری ”‏روح“‏ یا زندگی)‏ کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ اگر ہم بداخلاقی میں دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں تو ہم کیسے خود کو ”‏ایسی قربانی ہونے کیلئے نذر“‏ کر سکتے ہیں ”‏جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ“‏ ہے؟‏ اگر ہم مادہ‌پرستی کے پھندے میں پڑ جاتے ہیں تو ہم کیسے ”‏بادشاہت کی پہلے تلاش“‏ کر سکتے ہیں؟‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱،‏ ۲؛‏ متی ۶:‏۳۳؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ موسیٰ کے نمونے کی نقل کرتے ہوئے،‏ بہترین روش دُنیا کی پھسلاہٹوں کو رد کرکے اپنی زندگیوں میں یہوواہ کی خدمت کو پہلا درجہ دینا ہے۔‏ (‏متی ۶:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ عبرانیوں ۱۱:‏۲۴-‏۲۶‏)‏ دُنیا کے ساتھ متوازن رشتہ رکھنے میں یہ ایک اہم کُنجی ہے۔‏

‏’‏عمدہ چال‌چلن برقرار رکھیں‘‏

۱۴.‏ ہم مسیحیوں کے طور پر عمدہ چال‌چلن برقرار رکھنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟‏

۱۴ پطرس کے اگلے الفاظ میں ایک اَور اہم راہنما اُصول پایا جاتا ہے:‏ ”‏غیرقوموں میں اپنا چال‌چلن نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں وہ تمہیں بدکار جان کر تمہاری بدگوئی کرتے ہیں تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر اُنہی کے سبب سے ملاحظہ کے دن خدا کی تمجید کریں۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۲‏)‏ مسیحیوں کے طور پر ہم قابلِ‌نمونہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ سکول میں ہم سخت محنت کرتے ہیں۔‏ اگرچہ ہمارے آجر نامعقول نظر آئیں توبھی ہم اپنی ملازمت کی جگہ پر محنتی اور دیانتدار رہتے ہیں۔‏ ایک منقسم گھرانے میں ایماندار شوہر یا بیوی مسیحی اُصولوں پر عمل کرنے کی خاص کوشش کرتے ہیں۔‏ یہ ہمیشہ آسان نہیں ہوگا لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہمارا قابلِ‌نمونہ چال‌چلن یہوواہ کو خوش کرتا اور اکثر ایسے اشخاص پر اچھا اثر ڈالتا ہے جو گواہ نہیں ہیں۔‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۸-‏۲۰؛‏ ۳:‏۱‏۔‏

۱۵.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہوں کے چال‌چلن کا اعلیٰ معیار پوری دُنیا میں تسلیم کِیا جاتا ہے؟‏

۱۵ قابلِ‌نمونہ معیار قائم رکھنے میں بیشتر یہوواہ کے گواہوں کی کامیابی ان کی بابت ایسے تبصروں میں دیکھی جا سکتی ہے جو کئی سالوں سے شائع ہوئے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ اٹلی کے اخبار ایل‌ٹیمپو نے بیان کِیا:‏ ”‏یہوواہ کے گواہ جن لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ اُنہیں دیانتدار پاتے ہیں،‏ وہ ان کے ایمان کے اسقدر قائل ہو جاتے ہیں کہ وہ خود بھی اسکے پیرو معلوم ہوتے ہیں،‏ تاہم،‏ وہ اپنی اخلاقی راستی کیلئے احترام کے مستحق ہیں۔‏“‏ بیونس ائیرز،‏ ارجنٹینا کے ہیرلڈ اخبار نے بیان کِیا:‏ ”‏یہوواہ کے گواہوں نے کئی سال سے ثابت کِیا ہے کہ وہ محنتی،‏ سنجیدہ،‏ کفایت‌شعار اور خداترس شہری ہیں۔‏“‏ روسی سکالر سرگئی ایوان‌ینکو نے بیان کِیا:‏ ”‏یہوواہ کے گواہ پوری دُنیا میں مکمل طور پر قانون کی پیروی اور بالخصوص ٹیکسوں کی ادائیگی کے سلسلے میں اپنے فرض‌شناس رویے کیلئے مشہور ہیں۔‏“‏ زمبابوے میں یہوواہ کے گواہ جس عمارت کو اپنے کنونشن کیلئے استعمال کرتے ہیں اس کے مینیجر نے کہا:‏ ”‏مَیں بعض گواہوں کو کاغذ اُٹھاتے اور بیت‌الخلا صاف کرتے دیکھتا ہوں۔‏ میدان پہلے سے زیادہ صاف حالت میں چھوڑا جاتا ہے۔‏ جواں‌سال بھی بااُصول ہیں۔‏ کاش پوری دُنیا یہوواہ کے گواہوں سے بھری ہوتی۔‏“‏

مسیحی تابعداری

۱۶.‏ دُنیاوی حکام کیساتھ ہمارا کیا تعلق ہے اور کیوں؟‏

۱۶ پطرس نے دُنیاوی حکام کا بھی ذکر کِیا۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏خداوند کی خاطر انسان کے ہر ایک انتظام کے تابع رہو۔‏ بادشاہ کے اس لئےکہ وہ سب سے بزرگ ہے۔‏ اور حاکموں کے اس لئےکہ وہ بدکاروں کی سزا اور نیکوکاروں کی تعریف کے لئے اُسکے بھیجے ہوئے ہیں۔‏ کیونکہ خدا کی یہ مرضی ہے کہ تم نیکی کرکے نادان آدمیوں کی جہالت کی باتوں کو بند کر دو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ ہم منظم حکومتوں سے فوائد حاصل کرتے ہیں اور پطرس کی بات سے ہدایت پاکر ہم ان کے قوانین کی پابندی کرتے اور اپنے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔‏ جبکہ ہم قانون کی خلاف‌ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے حکومتوں کے خداداد حق کو تسلیم کرتے ہیں توبھی دُنیاوی حکام کی تابعداری کرنے کی اہم وجہ ”‏خداوند کی خاطر“‏ ہے۔‏ یہ خدا کی مرضی ہے۔‏ مزیدبرآں،‏ ہم غلطی کیلئے سزا پانے سے یہوواہ کے نام پر رسوائی لانا نہیں چاہتے۔‏—‏رومیوں ۱۳:‏۱،‏ ۴-‏۷؛‏ ططس ۳:‏۱؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱۷‏۔‏

۱۷.‏ جب ”‏نادان آدمی“‏ ہماری مخالفت کرتے ہیں تو ہم کس بات کا اعتماد رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۷ افسوس کی بات ہے کہ بعض بااختیار ”‏نادان آدمی“‏ ہمیں  اذیت دیتے یا دیگر طریقوں سے ہماری مخالفت کرتے ہیں—‏جیسےکہ ہماری شہرت کو نقصان پہنچانے کی خاطر ہمارے خلاف مہم چلانا۔‏ تاہم،‏ یہوواہ کے وقتِ‌مقررہ پر،‏ ان کے جھوٹ ہمیشہ بےنقاب ہو جاتے ہیں اور ان کی ”‏جہالت کی باتیں“‏ خوش‌اسلوبی کے ساتھ بند ہو جاتی ہیں۔‏ ہمارے مسیحی چال‌چلن کا ریکارڈ مُنہ بولتا ثبوت ہے۔‏ اسی وجہ سے دیانتدار حکومتی اہلکار نیکی کرنے والوں کے طور پر ہماری تعریف کرتے ہیں۔‏—‏رومیوں  ۱۳:‏۳‏؛‏ ططس ۲:‏۷،‏ ۸‏۔‏

خدا کے بندے

۱۸.‏ مسیحیوں کے طور پر،‏ ہم کن طریقوں سے اپنی آزادی کا ناجائز استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں؟‏

۱۸ پطرس اب خبردار کرتا ہے:‏ ”‏اپنے آپ کو آزاد جانو مگر اِس آزادی کو بدی کا پردہ نہ بناؤ بلکہ اپنے آپ کو خدا کے بندے جانو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۶؛‏ گلتیوں ۵:‏۱۳‏)‏ آجکل ہمارا بائبل علم ہمیں جھوٹی مذہبی تعلیمات سے خبردار کرتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۸:‏۳۲‏)‏ مزیدبرآں،‏ ہم آزاد مرضی کے مالک ہیں اور  ہم انتخابات کر سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ہم اپنی آزادی کا ناجائز استعمال نہیں کرتے۔‏ جب رفاقت،‏ لباس،‏ آرائش‌وزیبائش اور تفریح—‏حتیٰ‌کہ کھانے پینے—‏کی بات آتی ہے تو ہم یاد رکھتے ہیں کہ حقیقی مسیحی من‌مانی کرنے والے نہیں بلکہ خدا کے خادم ہیں۔‏ ہم اپنی جسمانی خواہشات یا دُنیا کے فیشن اور رُجحانات کے غلام بننے کی بجائے یہوواہ کی خدمت کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔‏—‏گلتیوں ۵:‏۲۴؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۲؛‏ ططس ۲:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

۱۹-‏۲۱.‏ (‏ا)‏ ہم دُنیاوی حاکموں کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ بعض نے کس طرح ”‏برادری سے محبت“‏ دکھائی ہے؟‏ (‏پ)‏ ہماری اہم‌ترین ذمہ‌داری کیا ہے؟‏

۱۹ پطرس مزید بیان کرتا ہے:‏ ”‏سب کی عزت کرو۔‏ برادری سے محبت رکھو۔‏ خدا سے ڈرو۔‏ بادشاہ کی عزت کرو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۷‏)‏ یہوواہ خدا کی طرف سے انسانوں کو مختلف مرتبوں پر فائز رہنے کی اجازت دینے کی وجہ سے ہم ان انسانوں کے لئے واجب احترام ظاہر کرتے ہیں۔‏ ہم تو ان کے لئے دُعا تک بھی کرتے ہیں تاکہ ہمیں امن‌وامان اور خدائی  عقیدت کے ساتھ اپنی خدمتگزاری کو جاری رکھنے کی اجازت رہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۱-‏۴‏)‏ تاہم،‏ اس اثنا میں ہم ”‏برادری سے محبت“‏ رکھتے ہیں۔‏ ہم ہمیشہ اپنے بھائیوں کے نقصان کی بجائے ان کی بھلائی کے لئے کام کرتے ہیں۔‏

۲۰ مثال کے طور پر،‏ جب ایک افریقی قوم نسلی تشدد سے  پاش‌پاش تھی تو یہوواہ کے گواہوں کا چال‌چلن نمایاں تھا۔‏ سوئٹزرلینڈ کے اخبار ریفورمیرٹ پریس نے رپورٹ دی:‏ ”‏۱۹۹۵ میں افریقی حقوق کی تنظیم .‏ .‏ .‏ یہوواہ کے گواہوں کے علاوہ تمام چرچز کے [‏اس آویزش میں]‏ ملوث ہونے کا ثبوت پیش کرنے کے قابل تھی۔‏“‏ جب بیرونی دُنیا تک المناک واقعات کی رپورٹیں پہنچیں تو یورپ کے یہوواہ کے گواہوں نے فوراً اس متاثرہ علاقے میں اپنے بھائیوں اور دوسروں کے لئے خوراک اور طبّی امداد بھیجی۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۰‏)‏ اُنہوں نے امثال ۳:‏۲۷ کے الفاظ پر دھیان دیا:‏  ”‏بھلائی کے حقدار سے اُسے دریغ نہ کرنا جب تیرے مقدور میں ہو۔‏“‏

۲۱ تاہم،‏ دُنیاوی اختیار کے لئے عزت دکھانے اور اپنے بھائیوں سے محبت رکھنے کے علاوہ کہیں زیادہ اہم ذمہ‌داری پائی جاتی ہے۔‏ یہ کیا ہے؟‏ پطرس نے کہا:‏ ”‏خدا سے ڈرو۔‏“‏ ہم کسی بھی انسان سے زیادہ  خدا  کے  مقروض ہیں۔‏ یہ بات کس حد تک سچ ہے؟‏ نیز ہم خدا کے حضور اپنے فرائض کو دُنیاوی حکام کی تابعداری کے ساتھ کیسے متوازن کر سکتے ہیں؟‏ ان سوالات کے جواب اگلے مضمون میں دئے جائینگے۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• مسیحی اپنے خاندان میں کونسی ذمہ‌داریاں رکھتے ہیں؟‏

‏• ہم کلیسیا میں دینے کا رُجحان کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہم دُنیا کے سلسلے میں کونسی ذمہ‌داری رکھتے ہیں؟‏

‏• چال‌چلن کا اعلیٰ معیار قائم رکھنے سے بعض کونسے فوائد حاصل ہوتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

مسیحی خاندان خوشی کا ذریعہ کیسے ہو سکتا ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویریں]‏

یہوواہ کے گواہ ایک دوسرے سے محبت کیوں رکھتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویریں]‏

کیا ہم اپنے بھائیوں کو ذاتی طور پر نہ جاننے کے باوجود ان سے محبت ظاہر کر سکتے ہیں؟‏