مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مسیحی آخری ایّام میں غیرجانبدار رہتے ہیں

مسیحی آخری ایّام میں غیرجانبدار رہتے ہیں

مسیحی آخری ایّام میں غیرجانبدار رہتے ہیں

‏”‏جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏“‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۶‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ یسوع نے دُنیا کیساتھ اپنے شاگردوں کے تعلق کی بابت کیا کہا اور اس سے کون سے سوال پیدا ہوتے ہیں؟‏

اپنی زندگی کی آخری رات ایک کامل انسان کے طور پر،‏ یسوع نے ایک طویل دُعا کی جو اُس کے شاگردوں نے سنی۔‏ اس دُعا میں،‏ اس نے ایک ایسی بات کہی جس کا تعلق تمام مسیحیوں کی زندگی سے ہے۔‏ اپنے شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے،‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں نے تیرا کلام اُنہیں پہنچا دیا اور دُنیا نے اُن سے عداوت رکھی اسلئے کہ جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏ مَیں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تُو اُنہیں دُنیا سے اُٹھا لے بلکہ یہ کہ اُس شریر سے اُنکی حفاظت کر۔‏ جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏“‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۴-‏۱۶‏۔‏

۲ دو مرتبہ یسوع نے کہا کہ اُس کے شاگرد دُنیا کا حصہ نہیں ہونگے۔‏ مزیدبرآں،‏ یہ علیٰحدگی تناؤ کا سبب بنے گی—‏دُنیا اُن سے نفرت کریگی۔‏ تاہم،‏ مسیحیوں کو حیران‌وپریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں؛‏ یہوواہ ان کی حفاظت کرے گا۔‏ (‏امثال ۱۸:‏۱۰؛‏ متی ۲۴:‏۹،‏ ۱۳‏)‏ یسوع کے الفاظ کے پیشِ‌نظر،‏ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ’‏سچے مسیحی دُنیا کا حصہ کیوں نہیں ہیں؟‏ دُنیا کا حصہ نہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟‏ اگر دُنیا مسیحیوں سے نفرت رکھتی ہے تو وہ دُنیا کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏ خاص طور پر،‏ وہ دُنیا کی حکومتوں کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏‘‏ ان سوالات کے صحیفائی جواب اہم ہیں کیونکہ یہ ہم سب پر اثرانداز ہوتے ہیں۔‏

‏”‏ہم خدا سے ہیں“‏

۳.‏ کونسی بات ہمیں دُنیا سے علیٰحدہ کرتی ہے؟‏ (‏ب)‏ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ دُنیا شریر کے قبضے میں پڑی ہوئی ہے؟‏

۳ ہمارے دُنیا کا حصہ نہ ہونے کی وجہ یہوواہ کیساتھ ہمارا قریبی رشتہ ہے۔‏ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏ہم جانتے ہیں کہ ہم خدا سے ہیں اور ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ دُنیا کی بابت یوحنا کے الفاظ بالکل سچ ہیں۔‏ آجکل جنگیں،‏ جُرم،‏ ظلم،‏ استبداد،‏ بددیانتی اور بداخلاقی اسقدر عام ہے کہ یہ خدا کے برعکس شیطان کے اثر کی شہادت دیتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۲:‏۳۱؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴؛‏ افسیوں ۶:‏۱۲‏)‏ جب ایک شخص یہوواہ کا گواہ بن جاتا ہے تو اِس کے بعد وہ غلط کام نہیں کریگا نہ ہی انکی حمایت کریگا اور اسی وجہ سے وہ دُنیا کا حصہ نہیں ہوتا۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۲؛‏ ۱۳:‏۱۲-‏۱۴؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹-‏۱۱؛‏ ۱-‏یوحنا ۳:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

۴.‏ ہم کن طریقوں سے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یہوواہ کے ہیں؟‏

۴ یوحنا نے کہا کہ دُنیا کے مقابلے میں مسیحی ”‏خدا سے ہیں۔‏“‏ خود  کو یہوواہ کیلئے مخصوص کرنے والے اُس کے ہیں۔‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏اگر ہم جیتے ہیں تو [‏یہوواہ]‏ کے واسطے جیتے ہیں اور اگر مرتے ہیں تو [‏یہوواہ]‏ کے واسطے مرتے ہیں۔‏ پس ہم جئیں یا مریں [‏یہوواہ]‏ ہی کے ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۸؛‏ زبور ۱۱۶:‏۱۵‏)‏ چونکہ ہم یہوواہ کے ہیں اسلئے ہم اُسے بِلاشرکتِ‌غیرے عقیدت دیتے ہیں۔‏ (‏خروج ۲۰:‏۴-‏۶‏)‏ لہٰذا،‏ ایک سچا مسیحی دُنیاوی مقاصد کیلئے اپنی زندگی وقف نہیں کرتا۔‏ نیز وہ قومی علامتوں کا احترام تو کرتا ہے مگر اپنے کاموں سے یا دل میں ان کی پرستش نہیں کرتا۔‏ وہ یقیناً ممتاز کھلاڑیوں یا دیگر جدید بُتوں کی پرستش نہیں کرتا۔‏ بیشک،‏ وہ دوسروں کے حقوق کا احترام کرتا ہے لیکن وہ صرف خالق ہی کی پرستش کرتا ہے۔‏ (‏متی ۴:‏۱۰؛‏ مکاشفہ ۱۹:‏۱۰‏)‏ یہ بات بھی اُسے دُنیا سے علیٰحدہ رکھتی ہے۔‏

‏”‏میری بادشاہی اس دُنیا کی نہیں“‏

۵،‏ ۶.‏ خدا کی بادشاہت کی تابعداری ہمیں دُنیا سے علیٰحدہ کیوں رکھتی ہے؟‏

۵ مسیحی یسوع مسیح کے پیروکار اور خدا کی بادشاہت کی رعایا ہیں یہ  بات بھی اُنہیں دُنیا سے علیٰحدہ رکھتی ہے۔‏ جب پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے  یسوع کا مقدمہ چل رہا تھا تو اُس نے کہا:‏ ”‏میری بادشاہی اس دُنیا کی نہیں۔‏ اگر میری بادشاہی دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ میں یہودیوں کے حوالہ نہ کِیا جاتا۔‏ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۶‏)‏ یہ بادشاہت وہ ذریعہ ہے جس سے یہوواہ کے نام کی تقدیس،‏ اس کی حاکمیت کی سربلندی اور آسمان کی طرح زمین پر بھی اُسکی مرضی پوری ہوگی۔‏ (‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ اپنی پوری خدمتگزاری میں،‏ یسوع نے بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کی اور کہا کہ اس کے شاگرد نظام‌اُلعمل کے خاتمے تک اس کا پرچار کرینگے۔‏ (‏متی ۴:‏۲۳؛‏ ۲۴:‏۱۴‏)‏ مکاشفہ ۱۱:‏۱۵ کے یہ نبوّتی الفاظ ۱۹۱۴ میں پورے ہوئے تھے:‏ ”‏دُنیا کی بادشاہی ہمارے خداوند اور اُسکے مسیح کی ہو گئی اور وہ ابدالآباد بادشاہی کریگا۔‏“‏ یہ آسمانی بادشاہت بہت جلد نسلِ‌انسانی پر واحد حکمرانی ہوگی۔‏ (‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏)‏ ایک وقت پر،‏ دُنیاوی حاکموں کو بھی اس کے اختیار کو تسلیم کرنا پڑیگا۔‏—‏زبور ۲:‏۶-‏۱۲‏۔‏

۶ ان تمام باتوں کے پیشِ‌نظر،‏ آجکل سچے مسیحی خدا کی بادشاہت  کی  رعایا ہیں اور وہ بادشاہت اور خدا کی راستبازی کی تلاش کرنے کے لئے یسوع کی مشورت پر دھیان دیتے ہیں۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳‏)‏ اسکی وجہ سے وہ اپنے مُلک سے بیوفائی نہیں کرتے مگر روحانی طور پر دُنیا سے ضرور علیٰحدہ رہتے ہیں۔‏ پہلی صدی کی طرح آجکل مسیحیوں کا بنیادی کام ’‏خدا کی بادشاہی کی مکمل گواہی‘‏ دینا ہے۔‏ (‏اعمال ۲۸:‏۲۳‏)‏ کسی انسانی حکومت کو اس خداداد کام میں رُکاوٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں۔‏

۷.‏ سچے مسیحی کیوں غیرجانبدار ہیں اور اُنہوں نے یہ کیسے ظاہر کِیا ہے؟‏

۷ یہوواہ کے گواہ یہوواہ کی ملکیت اور یسوع کے پیروکار ہونے کے علاوہ خدا کی بادشاہت کی رعایا ہونے کی وجہ سے ۲۰ ویں اور ۲۱ ویں صدی کے دوران قومی اور بین‌الاقوامی آویزشوں میں غیرجانبدار رہے ہیں۔‏ اُنہوں نے کسی کی طرفداری نہ کرنے،‏ کسی کے خلاف ہتھیار نہ اُٹھانے اور کسی بھی دُنیاوی تحریک کیلئے کوئی پروپیگنڈا نہ کرنے کا انتخاب کِیا ہے۔‏ بظاہر ناقابلِ‌برداشت اذیت کے سامنے ایمان کے شاندار مظاہرے میں اُنہوں نے اُصولوں کی پیروی کی ہے جن کا اظہار ۱۹۳۴ میں جرمنی کے حاکموں کے سامنے کِیا گیا تھا:‏ ”‏ہمیں سیاسی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ ہم مکمل طور پر خدا کی بادشاہت کیلئے وقف ہیں جسکا بادشاہ مسیح کو بنایا گیا ہے۔‏ ہم کسی شخص کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچائیں گے۔‏ ہم امن کیساتھ رہنے اور موقع ملنے پر تمام آدمیوں کے ساتھ نیکی کرنے سے خوش ہونگے۔‏“‏

مسیح کے ایلچی اور سفیر

۸،‏ ۹.‏ کن طریقوں سے یہوواہ کے گواہ آجکل ایلچی اور سفیر ہیں اور قوموں کیساتھ ان کے رشتے پر یہ بات کس طرح اثرانداز ہوتی ہے؟‏

۸ پولس نے خود کو اور ساتھی ممسوح مسیحیوں کو ”‏ایلچی“‏ کے طور  پر بیان کِیا جن کے ”‏وسیلہ سے خدا التماس کرتا ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۲۰؛‏ افسیوں ۶:‏۲۰‏)‏ سن ۱۹۱۴ سے لیکر،‏ روح سے مسح‌شُدہ مسیحیوں کو موزوں طور پر اُس خدا کی بادشاہت کے ایلچی کہا جا سکتا ہے جس کے وہ ”‏فرزند“‏ ہیں۔‏ (‏متی ۱۳:‏۳۸؛‏ فلپیوں ۳:‏۲۰؛‏ مکاشفہ ۵:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ مزیدبرآں،‏ یہوواہ نے ممسوح فرزندوں کے سفارتی کام میں اُن کی حمایت کے لئے قوموں سے ’‏دوسری بھیڑوں‘‏ کی ”‏ایک .‏ .‏ .‏ بڑی بِھیڑ“‏ جمع کی ہے اور اِن مسیحیوں کی اُمید زمینی ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۶‏)‏ اِن ’‏دوسری بھیڑوں‘‏ کو خدا کی بادشاہت کے ’‏سفیر‘‏ کہا جا سکتا ہے۔‏

۹ ایک ایلچی اور اس کا عملہ اُس مُلک کے معاملات میں دخل‌اندازی نہیں کرتا جہاں وہ خدمت کرتے ہیں۔‏ اسی طرح سے،‏ مسیحی دُنیا کے سیاسی معاملات میں غیرجانبدار رہتے ہیں۔‏ وہ کسی قوم،‏ نسل یا معاشرتی گروہ کے حق میں یا اس کے خلاف نہیں ہوتے۔‏ (‏اعمال ۱۰:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ اس کے برعکس،‏ وہ ”‏سب کے ساتھ نیکی“‏ کرتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۰‏)‏ یہوواہ کے گواہوں کی غیرجانبداری کا مطلب ہے کہ کوئی بھی شخص یہ دعویٰ کرنے سے ان کے پیغام کو صریحاً رد نہیں کر سکتا کہ وہ کسی مخالف نسلی،‏ قومی یا قبائلی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔‏

محبت کے ذریعے شناخت

۱۰.‏ ایک مسیحی کیلئے محبت کتنی اہم ہے؟‏

۱۰ مسبوق‌الذکر باتوں کے علاوہ،‏ مسیحی دیگر مسیحیوں کیساتھ اپنے رشتے کی وجہ سے بھی دُنیا کے معاملات میں غیرجانبدار رہتے ہیں۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۵‏)‏ برادرانہ محبت مسیحی ہونے کی کُنجی ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۴‏)‏ ایک مسیحی کا سب سے قریبی رشتہ دیگر مسیحیوں کیساتھ ہوتا ہے جسکا یہوواہ اور یسوع کیساتھ اُسکے رشتے پر گہرا پڑتا ہے۔‏ اس کی محبت مقامی کلیسیا کے اشخاص تک ہی محدود نہیں ہے۔‏ اس میں ”‏بھائی جو دُنیا میں ہیں“‏ وہ بھی شامل ہیں۔‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۹‏۔‏

۱۱.‏ یہوواہ کے گواہوں کا چال‌چلن ایک دوسرے کے لئے اُن کی محبت سے کیسے متاثر ہوتا ہے؟‏

۱۱ آجکل،‏ یہوواہ کے گواہ یسعیاہ ۲:‏۴ کے الفاظ کو پورا کرنے سے اپنی برادرانہ محبت ظاہر کرتے ہیں:‏ ”‏وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھالوں کو ہنسوے بنا ڈالیں گے اور قوم قوم پر تلوار نہ چلائے گی اور وہ پھر کبھی جنگ کرنا نہ سیکھینگے۔‏“‏ یہوواہ سے تعلیم پا کر،‏ سچے مسیحی خدا کے ساتھ اور ایک دوسرے کے ساتھ صلح سے رہتے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۵۴:‏۱۳‏)‏ خدا اور اپنے بھائیوں کیساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے،‏ اُن کیلئے یہ سوچنا بھی بعیدازقیاس ہے کہ دیگر ممالک میں ساتھی مسیحیوں—‏یا کسی اَور—‏کے خلاف ہتھیار اُٹھائیں۔‏ اُن کا امن‌واتحاد ان کی پرستش کا لازمی جُزو ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ واقعی خدا کی رُوح رکھتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۳۳:‏۱؛‏ میکاہ ۲:‏۱۲؛‏ متی ۲۲:‏۳۷-‏۳۹؛‏ کلسیوں ۳:‏۱۴‏)‏ وہ یہ جانتے ہوئے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی نگاہ صادقوں پر ہے،‏“‏ جو ’‏صلح کے طالب ہوتے اور اُسی کی پیروی کرتے ہیں۔‏‘‏—‏زبور ۳۴:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

دُنیا کی بابت مسیحیوں کا نظریہ

۱۲.‏ یہوواہ کے گواہ یہوواہ کے کس رُجحان کی نقل کرتے ہیں اور کیسے؟‏

۱۲ یہوواہ نے اس دُنیا کی کڑی عدالت کر دی ہے لیکن اُس نے انفرادی اشخاص کی عدالت ابھی تک نہیں کی ہے۔‏ یہ کام وہ یسوع کے ذریعے اپنے مقررہ وقت پر کریگا۔‏ (‏زبور ۶۷:‏۳،‏ ۴؛‏ متی ۲۵:‏۳۱-‏۴۶؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۱۰‏)‏ اس اثنا میں،‏ وہ نسلِ‌انسانی کیلئے بڑی محبت ظاہر کرتا ہے۔‏ اس نے تو اپنا اکلوتا بیٹا تک بخشدیا ہے تاکہ ہر ایک کو ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع مِل سکے۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ اگرچہ ہماری کوششیں اکثر تنقید کا نشانہ بنتی ہیں توبھی مسیحیوں کے طور پر ہم دوسروں کو نجات کیلئے خدا کی فراہمیوں کی بابت بتانے سے خدا کی نقل کرتے ہیں۔‏

۱۳.‏ ہمیں دُنیاوی حکمرانوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

۱۳ ہمیں دُنیاوی حکمرانوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏ پولس نے یہ لکھتے وقت اس سوال کا جواب دیا:‏ ”‏ہر شخص اعلےٰ حکومتوں کا تابعدار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں وہ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۳:‏۱،‏ ۲‏)‏ قادرِمطلق کے اجازت دینے پر انسان اختیار کے ”‏نسبتی“‏ مرتبے (‏ایک دوسرے کے سلسلے میں کم یا زیادہ لیکن یہوواہ سے ہمیشہ کم)‏ رکھتے ہیں۔‏ ایک مسیحی اس وجہ سے دُنیاوی اختیار کا مطیع ہے کہ یہ یہوواہ کیلئے فرمانبرداری کا ایک پہلو ہے۔‏ تاہم،‏ اگر خدا اور انسانی حکومت کے تقاضوں کے مابین اختلاف پیدا ہو جائے تو کیا ہو؟‏

خدا اور قیصر کا قانون

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ کس طریقے سے دانی‌ایل فرمانبرداری کے سلسلے میں ایک مسئلے سے بچ نکلنے کے لائق ہوا؟‏ (‏ب)‏ جب فرمانبرداری کے سلسلے میں ایک مسئلے سے بچنا ناممکن تھا تو تین عبرانیوں نے کونسا مؤقف اختیار کِیا؟‏

۱۴ دانی‌ایل اور اس کے تین ساتھیوں نے الہٰی اختیار کیلئے تابعداری اور انسانی حکومتوں کے لئے تابعداری میں توازن برقرار رکھنے کا عمدہ نمونہ قائم کِیا تھا۔‏  جب یہ چار عبرانی بابل میں اسیر تھے تو اُنہوں نے اس مُلک کے قوانین کی پابندی کی اور اسی وجہ سے انہیں فوراً خاص تربیت کے لئے چن لیا گیا۔‏  دانی‌ایل نے اس بات کو پہچانتے ہوئے کہ یہ تربیت یہوواہ کے قانون سے  ٹکرانے کا باعث بنے گی،‏ سرکاری اہلکار سے بات کی۔‏ نتیجتاً،‏ چاروں عبرانیوں کے ضمیر کا احترام کرتے ہوئے خاص انتظامات کئے گئے۔‏ (‏دانی‌ایل ۱:‏۸-‏۱۷‏)‏ یہوواہ کے گواہ غیرضروری مسائل سے اجتناب کرتے ہوئے سرکاری اہلکاروں کو موقع‌شناسی سے اپنا مؤقف بیان کرتے وقت دانی‌ایل کے نمونے پر چلتے ہیں۔‏

۱۵ تاہم،‏ ایک اَور موقع پر تابعداری کے سلسلے میں ایک مسئلہ تھا جس سے بچا نہیں جا سکتا تھا۔‏ بابلی بادشاہ نے دُورا کے میدان میں ایک مورت کھڑی کرائی جس میں اس مورت کی تقدیس پر تمام صوبوں کے منصب‌داروں کو جمع کِیا گیا۔‏ اُس وقت تک،‏ دانی‌ایل کے تین دوست بابل کے صوبے کے منصب‌داروں میں شامل ہو چکے تھے لہٰذا یہ حکم ان پر بھی عائد ہوتا تھا۔‏ تقریب کے موقع پر تمام جمع ہونے والوں کو مورت کے آگے سجدہ کرنا تھا۔‏ لیکن یہ تینوں عبرانی جانتے تھے کہ یہ خدا کے قانون کے خلاف ہوگا۔‏ (‏استثنا ۵:‏۸-‏۱۰‏)‏ پس جب سب جھکے تو وہ کھڑے رہے۔‏ بادشاہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے اُنہوں نے ہولناک موت کا خطرہ مول لے لیا اور ان کی زندگیاں صرف معجزے ہی سے بچ سکیں؛‏ لیکن اُنہوں نے یہوواہ کی نافرمانی کرنے کی بجائے موت کا انتخاب کِیا۔‏—‏دانی‌ایل ۲:‏۴۹–‏۳:‏۲۹‏۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ جب رسولوں کو منادی بند کرنے کا حکم دیا گیا تو اُنہوں نے کیا جواب دیا اور کیوں؟‏

۱۶ پہلی صدی میں،‏ یسوع مسیح کے رسولوں کو یروشلیم میں یہودی پیشواؤں کے سامنے لایا گیا اور انہیں یسوع کے نام سے منادی کرنے سے منع کِیا گیا۔‏ اُنہوں نے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏ یسوع انہیں تمام قوموں میں منادی کرنے کا حکم دے چکا تھا جس میں یہودیہ بھی شامل تھا۔‏ اس نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ یروشلیم اور باقی دُنیا میں اس کے گواہ ہوں گے۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ اعمال ۱:‏۸‏)‏ رسول جانتے تھے کہ یسوع کا حکم ان کیلئے خدا کی مرضی ظاہر کرتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۳۰؛‏ ۸:‏۲۸‏)‏ لہٰذا،‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏—‏اعمال ۴:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ ۵:‏۲۹‏۔‏

۱۷ رسول باغیانہ روش اختیار نہیں کر رہے تھے۔‏ (‏امثال ۲۴:‏۲۱‏)‏ تاہم،‏ جب انسانی حاکموں نے انہیں خدا کی مرضی پوری کرنے سے منع کِیا تو وہ صرف اتنا کہہ رہے تھے کہ ’‏ہمیں انسان کی بجائے خدا کا حکم ماننا چاہئے۔‏‘‏ یسوع نے کہا کہ ہمیں ”‏جو قیصرؔ کا ہے قیصرؔ کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا“‏ کرنا چاہئے۔‏ (‏مرقس ۱۲:‏۱۷‏)‏ اگر ہم انسان کے کہنے پر الہٰی حکم کی نافرمانی کرتے ہیں تو ہم جو خدا کا ہے وہ انسان کو دے رہے ہونگے۔‏ اس کی بجائے جو قیصر کا ہم پر واجب ہے اُسے دیتے ہیں لیکن ہم یہوواہ کے اعلیٰ‌ترین اختیار کو تسلیم کرتے ہیں۔‏ وہ کائنات کا حاکمِ‌اعلیٰ،‏ خالق اور اختیار کا منبع ہے۔‏—‏مکاشفہ ۴:‏۱۱‏۔‏

ہم ثابت‌قدم رہینگے

۱۸،‏ ۱۹.‏ ہمارے بھائیوں نے کونسا عمدہ مؤقف اختیار کِیا ہے اور ہم کیسے ان کے نمونے کی نقل کر سکتے ہیں؟‏

۱۸ اس وقت بیشتر حکومتیں یہوواہ کے گواہوں کا غیرجانبدارانہ مؤقف تسلیم کرتی ہیں اور ہم اس بات کیلئے شکرگزار ہیں۔‏ تاہم،‏ بعض ممالک میں،‏ گواہوں نے سخت اذیت کا سامنا کِیا ہے۔‏ ۲۰ ویں صدی کے دوران اور موجودہ وقت تک،‏ ہمارے بعض بھائی بہنوں نے سخت جدوجہد کی ہے اور روحانی مفہوم میں ”‏ایمان کی اچھی کشتی لڑ“‏ رہے ہیں۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۲‏۔‏

۱۹ ہم کیسے ان کی مانند ثابت‌قدم رہ سکتے ہیں؟‏ اوّل،‏ یاد رکھیں کہ ہمیں مخالفت کی توقع کرنی چاہئے۔‏ اگر ہمیں مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں چونکنا یا حیران نہیں ہونا چاہئے۔‏ پولس نے تیمتھیس کو خبردار کِیا تھا:‏ ”‏جتنے مسیح یسوؔع میں دینداری کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائینگے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۲؛‏ ۱-‏پطرس ۴:‏۱۲‏)‏ ایک ایسی دُنیا میں جہاں شیطان کا اثر بہت زیادہ ہے وہاں مخالفت کا سامنا نہ ہونا بھلا کیسے ممکن ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۷‏)‏ جب تک ہم وفادار ہیں کوئی نہ کوئی ہمیشہ ”‏لعن‌طعن“‏ کریگا۔‏—‏۱-‏پطرس ۴:‏۴‏۔‏

۲۰.‏ ہمیں کونسی تقویت‌بخش سچائیاں یاد دلائی گئی ہیں؟‏

۲۰ دوم،‏ ہمیں یقین ہے کہ یہوواہ اور اس کے فرشتے ہماری حمایت کریں گے۔‏ جیسے زمانۂ‌قدیم کے الیشع نے کہا،‏ ”‏ہمارے ساتھ والے اُن کے ساتھ والوں سے زیادہ ہیں۔‏“‏ (‏۲-‏سلاطین ۶:‏۱۶؛‏ زبور ۳۴:‏۷‏)‏ ایسا ممکن ہے کہ یہوواہ اپنے نیک مقصد کے لئے مخالفین کو کچھ وقت تک دباؤ ڈالنے کی اجازت دے۔‏ تاہم وہ ہمیں برداشت کرنے کے لئے ضروری طاقت بھی عطا کرے گا۔‏ (‏یسعیاہ ۴۱:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ بعض نے اپنی جانیں گنوا دی ہیں لیکن یہ بات بھی ہمیں مایوس نہیں کرتی۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور رُوح کو قتل نہیں کر سکتے اُن سے نہ ڈرو بلکہ اُسی سے ڈرو جو رُوح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۱۶-‏۲۳،‏ ۲۸‏)‏ ہم اس نظام‌اُلعمل میں محض ”‏مسافر“‏ ہیں۔‏ ہم یہاں پر ”‏حقیقی زندگی،‏“‏ خدا کے نئے نظام میں ہمیشہ کی زندگی پر ”‏قبضہ“‏ کرنے کے لئے اپنا وقت استعمال کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۱؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۹‏)‏ جبتک ہم خدا کے وفادار رہتے ہیں کوئی انسان ہمیں اس اَجر سے محروم نہیں کر سکتا ہے۔‏

۲۱.‏ ہمیں کونسی بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے؟‏

۲۱ لہٰذا،‏ آئیے ہم یہوواہ خدا کیساتھ متشرف رشتے کو یاد رکھیں۔‏ دُعا ہے کہ ہم ہمیشہ مسیح کے پیروکار اور بادشاہت کی رعایا ہونے کے اپنے شرف کی قدر کرتے رہیں۔‏ آئیے ہم پورے دل‌وجان کے ساتھ اپنے بھائیوں سے محبت رکھیں اور دُعا ہے کہ ہم ہمیشہ اُس محبت میں شادمان ہوں جو ہم اُن سے حاصل کرتے ہیں۔‏ سب سے بڑھکر،‏ زبورنویس کے الفاظ پر ہمیشہ دھیان دیں:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی آس رکھ۔‏ مضبوط ہو اور تیرا دل قوی ہو۔‏ ہاں [‏یہوواہ]‏ ہی کی آس رکھ۔‏“‏ (‏زبور ۲۷:‏۱۴؛‏ یسعیاہ ۵۴:‏۱۷‏)‏ اس طرح ہم ماضی کے بیشمار مسیحیوں کی مانند اپنی یقینی اُمید کیساتھ قائم رہینگے اور ایسے وفادار غیرجانبدار مسیحی ہونگے جو دُنیا کا حصہ نہیں ہیں۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• یہوواہ کیساتھ ہمارا رشتہ ہمیں اس دُنیا سے کیسے علیٰحدہ رکھتا ہے؟‏

‏• خدا کی بادشاہت کی رعایا کے طور پر ہم اس دُنیا میں غیرجانبدارانہ مؤقف کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟‏

‏• کن طریقوں سے ہمارے بھائیوں کی محبت ہمیں غیرجانبدار اور دُنیا سے علیٰحدہ رکھتی ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ 15 پر تصویر]‏

خدا کی بادشاہت کیلئے ہماری تابعداری دُنیا کیساتھ ہمارے رشتے پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟‏

‏[‏صفحہ 16 پر تصویر]‏

ایک ہوتُو اور ایک تُوتسی خوشی کیساتھ ملکر کام کرتے ہیں

‏[‏صفحہ 17 پر تصویر]‏

یہودی اور عربی مسیحی بھائی ہیں

‏[‏صفحہ 17 پر تصویر]‏

سربیائی،‏ بوسنیائی اور کروشیائی مسیحی ایک دوسرے کی رفاقت سے محظوظ ہو رہے ہیں

‏[‏صفحہ 18 پر تصویر]‏

جب حکمران ہمیں خدا کا قانون توڑنے کا حکم دیں تو کونسی روش درست ہے؟‏