ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں
ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں
صحائف بیان کرتے ہیں کہ ”ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں جیسا بعض لوگوں کا دستور ہے بلکہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اُس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہو اُسی قدر زیادہ کِیا کرو۔“ (عبرانیوں ۱۰:۲۵) واضح طور پر، سچے پرستاروں کو ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا لحاظ“ رکھنے کیلئے پرستش کی جگہ پر جمع ہونے کی ضرورت ہے۔—عبرانیوں ۱۰:۲۴۔
جب پولس رسول نے ہمارے سمٰعیلیعام کی پہلی صدی میں مذکورہبالا الفاظ لکھے تو یہودیوں کیلئے یروشلیم میں پرستش کرنے کیلئے ایک شاندار ہیکل موجود تھی۔ اسکے علاوہ یہودی عبادتخانے بھی تھے۔ یسوع نے ”عبادتخانوں اور ہیکل میں جہاں سب یہودی جمع ہوتے ہیں تعلیم دی۔“—یوحنا ۱۸:۲۰۔
جب پولس مسیحیوں کو ایک دوسرے کی حوصلہافزائی کے لئے باہم جمع ہونے کی نصیحت کر رہا تھا تو اُسکے ذہن میں جمع ہونے کی کونسی جگہیں تھیں؟ کیا دُنیائےمسیحیت کی عالیشان مذہبی عمارتیں کسی بھی طرح سے یروشلیم میں ہیکل کے بندوبست کی عکاسی کرتی ہیں؟ نامنہاد مسیحیوں نے شاندار مذہبی عمارتوں کا استعمال کب سے شروع کِیا؟
’یہوواہ کا گھر‘
خدا کی پرستش کی جگہ کے سلسلے میں پہلی ہدایات بائبل کی کتاب خروج میں ملتی ہیں۔ یہوواہ خدا نے اپنی برگزیدہ قوم—اسرائیلیوں—کو ”مسکن“ یا ”خیمۂاجتماع“ کی تعمیر کی ہدایت دی۔ عہد کا صندوق اور دیگر مُقدس ظروف وہاں رکھے جانے تھے۔ جب ۱۵۱۲ ق.س.ع. میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی تو ”مسکن [یہوواہ] کے جلال سے معمور“ ہو گیا۔ یہ خیمہ جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کِیا جا سکتا تھا، چار صدیوں سے زائد عرصہ تک خدا تک رسائی حاصل کرنے کے اُسکے بندوبست کا مرکزی حصہ بنا رہا۔ (خروج، ۲۵-۲۷ ابواب؛ ۴۰:۳۳-۳۸) بائبل اس خیمے کا حوالہ ”[یہوواہ] کی ہیکل“ اور ”[یہوواہ] کے گھر“ کے طور پر بھی دیتی ہے۔—۱-سموئیل ۱:۹، ۲۴۔
بعدازاں جب داؤد یروشلیم کا بادشاہ بنا تو اُس نے یہوواہ کے جلال کیلئے ایک مستقل گھر تعمیر کرنے کی مخلصانہ خواہش کا اظہار کِیا۔ چونکہ داؤد ایک جنگجو شخص تھا لہٰذا یہوواہ نے اُس سے کہا: ”تُو میرے نام کے لئے گھر نہ بنانا۔“ اسکی بجائے اُس نے ہیکل کی تعمیر کیلئے داؤد کے بیٹے سلیمان کا انتخاب کِیا۔ (۱-تواریخ ۲۲:۶-۱۰) ساڑھے سات سال کی تعمیر کے بعد سلیمان نے ۱۰۲۶ ق.س.ع. میں ہیکل کی مخصوصیت کی۔ یہوواہ نے اس عمارت کو قبول کرتے ہوئے فرمایا: ”اس گھر میں جسے تُو نے بنایا ہے اپنا نام ہمیشہ تک رکھنے کے لئے مَیں نے اُسے مُقدس کِیا اور میری آنکھیں اور میرا دل سدا وہاں لگے رہینگے۔“ (۱-سلاطین ۹:۳) جبتک اسرائیلی وفادار رہے یہوواہ کی برکت اُس گھر پر رہی۔ تاہم، درست روش سے مُنہ موڑ لینے پر یہوواہ کی خوشنودی اس جگہ پر نہ رہیگی اور وہ اُسے ”اپنے سامنے سے دُور کر“ دیگا۔—۱-سلاطین ۹:۴-۹؛ ۲-تواریخ ۷:۱۶، ۱۹، ۲۰۔
ایک وقت ایسا آیا جب اسرائیلی سچی پرستش سے منحرف ہو گئے۔ (۲-سلاطین ۲۱:۱-۵) ”چنانچہ [یہوواہ] کسدیوں کے بادشاہ کو اُن پر چڑھا لایا جس نے . . . خدا کے گھر کو جلا دیا اور یرؔوشلیم کی فصیل ڈھا دی اور اُسکے تمام محل آگ سے جلا دئے اور اُسکے سب قیمتی ظروف کو برباد کِیا۔ اور جو تلوار سے بچے وہ اُن کو بابلؔ کو لے گیا اور وہاں وہ اُسکے اور اُسکے بیٹوں کے غلام رہے۔“ بائبل کے مطابق، یہ ۶۰۷ ق.س.ع. میں واقع ہوا۔—۲-تواریخ ۳۶:۱۵-۲۱؛ یرمیاہ ۵۲:۱۲-۱۴۔
یسعیاہ نبی کی پیشینگوئی کے مطابق، خدا نے یہودیوں کو بابل کی غلامی سے آزاد کرانے کیلئے فارس کے بادشاہ خورس کو برپا کِیا۔ (یسعیاہ ۴۵:۱) وہ ۷۰ سالہ غلامی کے بعد ۵۳۷ ق.س.ع. میں ہیکل کی دوبارہ تعمیر کرنے کی غرض سے یروشلیم لوٹے۔ (عزرا ۱:۱-۶؛ ۲:۱، ۲؛ یرمیاہ ۲۹:۱۰) تعمیراتی کام میں رکاوٹوں کے باوجود، ۵۱۵ ق.س.ع. میں بالآخر ہیکل کے مکمل ہو جانے پر خدا کی پاک پرستش بحال ہو گئی تھی۔ اگرچہ وہ سلیمانی ہیکل کی طرح شانوشوکت والی نہیں تھی توبھی یہ تقریباً ۶۰۰ سال تک استعمال میں رہی۔ تاہم، یہ ہیکل بھی یہوواہ کی پرستش میں اسرائیلیوں کی غفلت کی نظر ہو گئی۔ جب یسوع مسیح زمین پر آیا تو اُس وقت ہیرودیس بادشاہ ہیکل کو دوبارہ تعمیر کروا رہا تھا۔ اس ہیکل کیساتھ کیا واقع ہونے والا تھا؟
”پتھر پر پتھر باقی نہ رہیگا“
یروشلیم کی ہیکل کی بابت یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا: ”یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہیگا جو گِرایا نہ جائیگا۔“ (متی ۲۴:۱، ۲) اِن الفاظ کی مطابقت میں، جس جگہ کو صدیوں تک خدا کی پرستش کا مرکز خیال کِیا جاتا تھا وہ یہودیوں کی بغاوت کو ختم کرنے کیلئے آنے والی رومی فوجوں کے ہاتھوں ۷۰ س.ع. میں تباہ ہو گئی۔ * یہ ہیکل پھر کبھی تعمیر نہیں ہوئی۔ ساتویں صدی میں یہاں مسلمانوں نے قُبتہُالصخر کے نام سے ایک مُقدس جگہ تعمیر کی جو آج بھی یہودیوں کی سابقہ جائےپرستش کی جگہ پر قائم ہے۔
یسوع کے شاگردوں کو کس بندوبست کے تحت پرستش کرنی تھی؟ کیا یہودی پسمنظر سے تعلق رکھنے والے ابتدائی مسیحی اس ہیکل میں خدا کی پرستش جاری رکھیں گے جو تباہ ہونے کو تھی؟ غیریہودی مسیحی خدا کی پرستش کہاں کرینگے؟ کیا دُنیائےمسیحیت کی مذہبی عمارتیں ہیکل کی جگہ لے لینگی؟ سامری عورت کیساتھ یسوع کی باتچیت ہمیں اس سلسلے میں بصیرت فراہم کرتی ہے۔
سامری صدیوں سے، سامریہ میں کوہِگرزیم پر واقع ایک وسیع مقدس میں خدا کی پرستش کر رہے تھے۔ سامری عورت نے یسوع سے کہا، ”ہمارے باپ دادا نے اس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنا چاہیے یرؔوشلیم میں ہے۔“ یسوع نے جواب میں کہا: ”اے عورت! میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یرؔوشلیم میں۔“ یسوع نے وضاحت کی کہ یہوواہ کی پرستش کے لئے کسی دیدنی ہیکل کی ضرورت نہیں رہیگی کیونکہ ”خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار روح اور سچائی سے اُس کی پرستش کریں۔“ (یوحنا ۴:۲۰، ۲۱، ۲۴) بعدازاں پولس رسول نے اتھینے کے لوگوں کو بتایا: ”جس خدا نے دُنیا اور اُس کی سب چیزوں کو پیدا کِیا وہ آسمان اور زمین کا مالک ہوکر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا۔“—اعمال ۱۷:۲۴۔
واضح طور پر، دُنیائےمسیحیت کی مذہبی عمارتوں کا قبلازمسیحی دَور میں ہیکل کے بندوبست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسی لئے پہلی صدی کے مسیحیوں کو ایسی جگہیں تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم، رسولوں کی وفات کے بعد، سچی تعلیمات سے انحراف کا دَور—برگشتگی—شروع ہو گیا۔ (اعمال ۲۰:۲۹، ۳۰) رومی شہنشاہ قسطنطین کے ۳۱۳ س.ع. میں برائےنام مسیحیت قبول کرنے سے کئی سال پہلے اقبالی مسیحیوں نے یسوع کی تعلیم سے منحرف ہونا شروع کر دیا تھا۔
قسطنطین نے ”مسیحیت“ کو بُتپرستانہ رومی مذہب کیساتھ شامل کر دیا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے: ”خود قسطنطین نے روم میں تین بڑے گرجاگھر: سینٹ پیٹرز، سان پاؤلو فیوری لی میورا اور لاٹیرانو میں سان گیوانی کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ اُس نے صلیب والی عمارتوں کی شروعات کی جو مغربی یورپ میں قرونِوسطیٰ کے دوران گرجاگھروں کی تعمیر کا معیار بن گیا۔“ روم میں دوبارہ تعمیرکردہ سینٹ پیٹر چرچ اب بھی رومن کیتھولک چرچ کا مرکز خیال کِیا جاتا ہے۔
مؤرخ وِل ڈیورانٹ بیان کرتا ہے، ”چرچ نے قبلازمسیحی [بُتپرست] روم کی بعض مذہبی رسومات اور طریقۂپرستش کو اپنا لیا۔“ ان میں ”چرچ کی عمارتوں کا نمونہ بھی شامل تھا۔“ دسویں سے پندرھویں صدی تک ایسے گرجاگھروں اور عبادتخانوں کی تعمیر میں تیزی آ گئی جن میں طرزِتعمیر کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ اُسی دوران دُنیائےمسیحیت کی ایسی بیشمار شاندار عمارتیں وجود میں آئیں جنہیں اب میخچوتعمیر کی یادگار خیال کِیا جاتا ہے۔
کیا لوگ چرچ میں عبادت کرنے سے ہمیشہ روحانی تازگی اور حوصلہافزائی حاصل کرتے ہیں؟ برازیل سے فرانسسکو بیان کرتا ہے، ”میرے لئے چرچ جانا مذہب کا سب سے تھکا دینے والا کٹھن تجربہ تھا۔ وہاں پر کی جانے والی عبادت
ایک بےمقصد دہرائی جانے والی رسم تھی جس نے میری حقیقی ضروریات کو کبھی پورا نہیں کِیا۔ مَیں اس کے اختتام کا بےچینی سے انتظار کرتا تھا۔“ تاہم، سچے پرستاروں کو باہم جمع ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ لہٰذا انہیں کونسے بندوبست کے تحت جمع ہونا چاہئے؟’اُنکے گھر میں موجود کلیسیا‘
باہم جمع ہونے کے سلسلے میں پہلی صدی کے ایمانداروں کی مثال کا جائزہ مسیحیوں کیلئے نمونہ فراہم کرتا ہے۔ صحائف ظاہر کرتے ہیں کہ وہ عموماً گھروں پر جمع ہوا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر پولس رسول نے لکھا: ”پرسکہ اور اکولہ سے میرا سلام کہو وہ مسیح یسوع میں میرے ہمخدمت ہیں۔ اور اُس کلیسیا سے بھی سلام کہو جو اُنکے گھر میں ہے۔“ (رومیوں ۱۶:۳، ۵؛ کلسیوں ۴:۱۵؛ فلیمون ۲) کنگ جیمز ورشن کی طرح بعض انگریزی ترجمے ”کلیسیا“ کیلئے یونانی لفظ (ایکلیسیا) کا ترجمہ ”چرچ“ کرتے ہیں۔ تاہم یہ اصطلاح کسی عمارت کی بجائے ایک مشترکہ مقصد کیلئے جمع ہونے والے لوگوں کے ایک گروہ کا حوالہ دیتی ہے۔ (اعمال ۸:۱؛ ۱۳:۱) سچے مسیحیوں کو پرستش کیلئے عالیشان مذہبی عمارتوں کی ضرورت نہیں۔
تاہم ابتدائی مسیحی کلیسیاؤں میں اجلاس کیسے منعقد کئے جاتے تھے؟ شاگرد یعقوب مسیحی اجلاس کا حوالہ دینے کیلئے یونانی لفظ کی شکل سناگوج استعمال کرتا ہے۔ (یعقوب ۲:۲) اس یونانی لفظ کا مطلب ”باہم جمع ہونا“ ہے اور یہ ایکلیسیا کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ تاہم وقت کیساتھ ساتھ یہ اصطلاح اس جگہ یا عمارت کیلئے استعمال ہونے لگی جہاں لوگ جمع ہوا کرتے تھے۔ پہلی صدی کے یہودی مسیحی یہودی عبادتخانوں کی رسومات سے واقف تھے۔ *
یہودی اپنی سالانہ عیدوں کیلئے یروشلیم کی ہیکل میں جمع ہوا کرتے تھے تاہم عبادتخانے یہوواہ کی بابت سیکھنے اور شریعت کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے مقامی جگہوں کا کام انجام دیتے تھے۔ عبادتخانوں میں دُعا اور صحائف کی پڑھائی کے علاوہ اس پر مفصل باتچیت اور نصیحت کی جاتی تھی۔ جب پولس اور اُسکے دیگر ساتھی انطاکیہ کے عبادتخانہ میں گئے تو ”عبادتخانہ کے سرداروں نے اُنہیں کہلا بھیجا کہ اَے بھائیو! اگر لوگوں کی نصیحت کے واسطے اعمال ۱۳:۱۵) جب ابتدائی یہودی مسیحی گھروں پر جمع ہوئے تو بِلاشُبہ اُنہوں نے اسی نمونے پر اپنے اجلاسوں کو صحیفائی تعلیم اور روحانی تقویت کیلئے منعقد کِیا تھا۔
تمہارے دل میں کوئی بات ہو تو بیان کرو۔“ (حوصلہافزائی کیلئے کلیسیائیں
ابتدائی مسیحیوں کی طرح یہوواہ کے گواہ فیزمانہ بائبل سے ہدایت حاصل کرنے اور صحتمندانہ رفاقت سے محظوظ ہونے کیلئے عام جائےپرستش پر جمع ہوتے ہیں۔ کئی سالوں تک وہ گھروں پر جمع ہوا کرتے تھے اور آج بھی کچھ علاقوں میں وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ تاہم اب کلیسیاؤں کی تعداد ۰۰۰،۹۰ سے زیادہ ہو گئی ہے اور ان جگہوں کو جہاں وہ بنیادی طور پر جمع ہوتے ہیں کنگڈم ہالز کہا جاتا ہے۔ یہ عمارتیں نمائشی یا گرجاگھروں کی طرح نہیں ہیں۔ یہ کارآمد اور عام عمارتیں ہیں جو ۱۰۰ سے ۲۰۰ اشخاص پر مشتمل کلیسیاؤں کو خدا کا کلام سننے اور سیکھنے کیلئے ہفتہوار اجلاسوں پر جمع ہونے کے قابل بناتی ہیں۔
یہوواہ کے گواہوں کی بہتیری کلیسیائیں ہفتے میں تین بار جمع ہوتی ہیں۔ ایک اجلاس کسی دلچسپ حالیہ مضمون پر عوامی تقریر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسکے بعد بائبل موضوع یا پیشینگوئی پر مبنی مطالعہ ہوتا ہے جسکا مواد مینارِنگہبانی رسالے سے لیا جاتا ہے۔ ایک اَور اجلاس ایک سکول کی صورت میں ہوتا ہے جو بائبل کا پیغام پیش کرنے میں تربیت دینے کیلئے ترتیب دیا جاتا ہے۔ اسکے بعد منعقد ہونے والا اجلاس بالخصوص مسیحی خدمتگزاری میں عملی تجاویز پیش کرنے کیلئے ترتیب دیا جاتا ہے۔ گواہ ہفتے میں ایک بار بائبل مطالعے کیلئے چھوٹے گروپوں کی شکل میں گھروں پر جمع ہوتے ہیں۔ اِن تمام اجلاسوں پر سب لوگ آ سکتے ہیں۔ ان میں کبھی چندہ نہیں لیا جاتا۔
مسبوقالذکر فرانسسکو نے کنگڈم ہال میں اجلاسوں کو نہایت مفید پایا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”پہلا اجلاس جس پر مَیں حاضر ہوا شہر کے مرکز میں واقع ایک سادہ سی عمارت میں منعقد ہوا تھا اور ہال چھوڑتے وقت مَیں ایک اچھا تاثر لے کر نکلا۔ وہاں پر حاضر ہونے والے لوگ بڑے مہربان تھے اور مَیں ان کے درمیان موجود محبت کو محسوس کر سکتا تھا۔ مَیں دوبارہ وہاں جانے کیلئے بےچین تھا۔ درحقیقت اُس وقت سے لیکر مَیں کسی اجلاس سے غیرحاضر نہیں ہوا۔ یہ مسیحی اجلاس تازگیبخش اور میری روحانی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ جب مَیں کسی وجہ سے بےحوصلہ ہوتا ہوں توبھی مَیں اس اعتماد کیساتھ کنگڈم ہال جاتا ہوں کہ مَیں تقویت حاصل کرکے گھر لوٹوں گا۔“
یہوواہ کے گواہوں کے مسیحی اجلاسوں پر بائبل کی تعلیم، تقویتبخش رفاقت اور خدا کی تمجید کرنے کا موقع آپ کیلئے بھی دستیاب ہے۔ ہم آپ کو اپنے گھر کے قریب کنگڈم ہال پر حاضر ہونے کی پُرتپاک دعوت دیتے ہیں۔ یہ آپ کیلئے خوشی کا باعث ہوگا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 11 رومیوں نے ہیکل کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔ دیوارِگریہ جہاں دُور دُور سے آنے والے بہتیرے یہودی دُعا کرتے ہیں وہ اس ہیکل کا حصہ نہیں ہے۔ یہ محض ہیکل کے صحن کی دیوار کا ایک حصہ تھی۔
^ پیراگراف 20 ممکنہ طور پر یہودی عبادتخانے اُس وقت تعمیر کئے گئے تھے جب ۷۰ سالہ بابلی غلامی کے دوران ہیکل موجود نہیں تھی یا غلامی سے لوٹنے کے بعد یہ زلیصفنتعمیر تھی۔ پہلی صدی تک فلسطین کے ہر قصبے میں ایک اور بڑے شہروں میں ایک سے زیادہ عبادتخانے موجود تھے۔
[صفحہ ۴ پر تصویریں]
خیمۂاجتماع اور بعدازاں تعمیرکردہ ہیکل یہوواہ کی پرستش کے عمدہ مراکز ثابت ہوئے
[صفحہ ۶ پر تصویر]
روم میں سینٹ پیٹر چرچ
[صفحہ ۷ پر تصویر]
ابتدائی مسیحی گھروں پر جمع ہوا کرتے تھے
[صفحہ ۸ پر تصویریں]
یہوواہ کے گواہ گھروں پر اور کنگڈم ہالوں میں مسیحی اجلاس منعقد کرتے ہیں