سوالات از قارئین
سوالات از قارئین
کیا یہوواہ کے حضور مانی گئی منتوں کو ہمیشہ پورا کرنا لازمی ہے؟
صحیفائی مفہوم میں منت کوئی کام مکمل کرنے، نذر پیش کرنے، خدمت یا ذمہداری کو پورا کرنے یا بعض جائز چیزوں سے گریز کرنے کی بابت خدا سے کِیا گیا ایک سنجیدہ وعدہ ہے۔ بائبل میں بعض مشروط منتوں کا ذکر ملتا ہے جنہیں خدا کی طرف سے پہلے کوئی کام انجام دئے جانے کی صورت میں پورا کِیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر، سموئیل نبی کی ماں حنّہ نے ”منت مانی اور کہا اَے رُبالافواج! اگر تُو . . . اپنی لونڈی کو فراموش نہ کرے اور اپنی لونڈی کو فرزضعننیمنرینہ بخشے تو مَیں اُسے زندگیبھر کیلئے [یہوواہ] کو نذر کر دُونگی اور اُسترہ اُسکے سر پر کبھی نہ پھریگا۔“ (۱-سموئیل ۱:۱۱) بائبل رضاکارانہ منتوں کا بھی ذکر کرتی ہے۔ کیا صحیفائی منتیں پوری کرنا لازمی ہے؟
قدیم اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے بیان کِیا، ”جب تُو خدا کیلئے منت مانے تو اُسکے ادا کرنے میں دیر نہ کر۔“ وہ مزید کہتا ہے: ”تُو اپنی منت کو پورا کر۔ تیرا منت نہ ماننا اِس سے بہتر ہے کہ تُو منت مانے اور ادا نہ کرے۔“ (واعظ ۵:۴، ۵) موسیٰ کی معرفت اسرائیل کو دی گئی شریعت بیان کرتی ہے: ”جب تُو [یہوواہ] اپنے خدا کی خاطر منت مانے تو اُسکے پورا کرنے میں دیر نہ کرنا اسلئےکہ [یہوواہ] تیرا خدا ضرور اُسکو تجھ سے طلب کریگا تب تُو گنہگار ٹھہریگا۔“ (استثنا ۲۳:۲۱) واضح طور پر، خدا کے حضور مانی گئی منت ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہ معقول وجوہات کی بنیاد پر مانی جانی چاہئے اور منت ماننے والے شخص کو اس بات کا پورا یقین ہونا چاہئے کہ وہ اسے پورا کرنے کے قابل ہوگا۔ ورنہ اُس کیلئے یہ بہتر ہے کہ وہ منت نہ مانے۔ تاہم، کیا تمام منتیں پوری کرنا لازمی ہے؟
اگر منت ماننے کے بعد یہ معلوم ہو جائے کہ اسے پورا کرنا خدا کی مرضی کی مطابقت میں نہیں تو پھر کیا ہو؟ فرض کریں کہ یہ منت سچی پرستش کو کسی طرح بداخلاقی سے منسلک کرنے والی ہے؟ (استثنا ۲۳:۱۸) واضح طور پر ایسی منت پوری کرنا ضروری نہیں۔ علاوہازیں، موسوی شریعت کے تحت، ایک عورت کی مانی گئی منت کو اُسکا باپ یا شوہر منسوخ کر سکتا تھا۔—گنتی ۳۰:۳-۱۵۔
ایسے شخص کے معاملے پر بھی غور کریں جو خدا کے حضور منت مانتا ہے کہ وہ غیرشادیشُدہ رہیگا لیکن پھر وہ خود کو ایک مشکل صورتحال میں پاتا ہے۔ اُس کی منت اُسے ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں وہ محسوس کرتا ہے کہ اِسے پورا کرنے سے وہ اخلاقیت کے سلسلے میں الہٰی معیاروں کی خلافورزی کرنے کے خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ کیا اسکے باوجود اُسے اپنی منت پر قائم رہنا چاہئے؟ کیا اُس کیلئے یہ بہتر نہیں کہ وہ بداخلاقی سے بچنے کیلئے اپنی منت توڑ دے اور خود کو یہوواہ کے رحموکرم پر چھوڑتے ہوئے اُس سے معافی طلب کرے؟ صرف وہی اس معاملے کی بابت فیصلہ کر سکتا ہے۔ کوئی دوسرا شخص اُس کیلئے یہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔
اگر منت ماننے کے بعد ایک شخص کو احساس ہو کہ اُس نے جلدبازی سے کام لیا ہے تو پھر کیا ہو؟ کیا اُسے اپنی منت ادا کرنی چاہئے؟ افتاح کے لئے خدا کے حضور اپنی منت پوری کرنا آسان نہیں تھا تاہم اُس نے دیانتداری سے ایسا کِیا۔ (قضاۃ ۱۱:۳۰-۴۰) منت پوری کرنے میں ایک شخص کی ناکامی اُسکی تمام کوششوں کو برباد کرنے اور خدا کو ”بیزار“ کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ (واعظ ۵:۶) منت پوری کرنے کے معاملے کو معمولی خیال کرنا خدا کی خوشنودی کھو بیٹھنے پر منتج ہو سکتا ہے۔
یسوع مسیح نے بیان کِیا: ”تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اِس سے زیادہ ہے وہ بدی سے ہے۔“ (متی ۵:۳۷) ایک مسیحی کو نہ صرف خدا کیساتھ کئے گئے وعدے پورے کرنے کی فکر ہونی چاہئے بلکہ خدا اور انسانوں کیساتھ اپنے اقوال میں بھی قالصفنبھروسا ہونا چاہئے۔ اگر ایک شخص خود کو ایسی صورتحال میں پاتا ہے جہاں کسی کیساتھ اُسکا معاہدہ جو پہلے فائدہمند دکھائی دیتا تھا اب قریبی جائزے پر احمقانہ لگتا ہے تو پھر کیا ہو؟ اُسے ایسے معاملات کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم، خلوصدلانہ باتچیت کے بعد متعلقہ شخص اُسے اس ذمہداری سے آزاد کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔—زبور ۱۵:۴؛ امثال ۶:۲، ۳۔
منت اور دیگر معاملات کے سلسلے میں ہماری بنیادی فکر کیا ہونی چاہئے؟ ہمیں ہمیشہ یہوواہ خدا کیساتھ ایک اچھا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش میں رہنا چاہئے۔
[صفحہ ۳۰ پر تصویر کی عبارت]
حنّہ اپنی منت پوری کرنے سے نہیں ہچکچائی تھی
[صفحہ ۳۱ پر تصویر کی عبارت]
اگرچہ ایسا کرنا مشکل تھا توبھی افتاح نے اپنی منت پوری کی