مسیحیوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے
مسیحیوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے
”ہم آپس میں ایک دوسرے کے عضو ہیں۔“—افسیوں ۴:۲۵۔
۱. ایک انسائیکلوپیڈیا انسانی جسم کی بابت کیا بیان کرتا ہے؟
انسانی جسم ایک تخلیقی شاہکار ہے! ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے: ”بعضاوقات لوگ انسانی جسم کو ایک ایسی مشین قرار دیتے ہیں جسکا کوئی ثانی نہیں۔ بیشک انسانی جسم کوئی مشین نہیں ہے۔ تاہم بہتیرے طریقوں سے اس کا موازنہ ایک مشین کے ساتھ کِیا جا سکتا ہے۔ ایک مشین کی طرح جسم بھی کئی حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ مشین کے ہر پُرزے کی طرح جسم کا ہر عضو بھی ایک مخصوص کام سرانجام دیتا ہے۔ تاہم جسم یا مشین کے تمام اعضا باہمی تعاون اور ہمآہنگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔“
۲. انسانی جسم اور مسیحی کلیسیا کس طرح ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں؟
۲ جیہاں، انسانی جسم کے کئی حصے یا عضو ہیں جن میں سے ہر ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کوئی بھی نس، شریان یا عضو بیکار نہیں ہے۔ اسی طرح، مسیحی کلیسیا کا ہر فرد اس کی روحانی صحت اور دلکشی کو بڑھا سکتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۲:۱۴-۲۶) کلیسیا کے کسی فرد کو خود کو دوسروں سے افضل یا غیراہم خیال نہیں کرنا چاہئے۔—رومیوں ۱۲:۳۔
۳. افسیوں ۴:۲۵ کیسے ظاہر کرتی ہے کہ مسیحیوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے؟
۳ جس طرح انسانی جسم کے مختلف اعضا ایک دوسرے کے بغیر کام نہیں کر سکتے اسی طرح مسیحیوں کو بھی ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ پولس رسول نے روح سے مسحشُدہ ساتھی ایمانداروں سے کہا: ”جھوٹ بولنا چھوڑ کر ہر ایک شخص اپنے پڑوسی سے سچ بولے کیونکہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے عضو ہیں۔“ (افسیوں ۴:۲۵) روحانی اسرائیل—”مسیح کا بدن“—کے اراکین ’آپس میں ایک دوسرے کے عضو ہیں‘ اسلئے ان کے درمیان حقیقی رابطہ اور بھرپور تعاون پایا جاتا ہے۔ جیہاں، وہ سب آپس میں ایک دوسرے کے عضو ہیں۔ (افسیوں ۴:۱۱-۱۳) زمینی اُمید رکھنے والے سچے اور تعاون کرنے والے مسیحی بھی خوشی سے ان کے لئے متحد ہیں۔
۴. کن طریقوں سے نئے آنے والے اشخاص کی مدد کی جا سکتی ہے؟
۴ ہر سال زمینی فردوس کی اُمید رکھنے والے لاکھوں لوگ بپتسمہ عبرانیوں ۶:۱-۳) اس مدد میں صحیفائی سوالات کے جواب دینا یا خدمتگزاری میں عملی مدد فراہم کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ ہم مسیحی اجلاسوں پر باقاعدہ شرکت کرنے کے اپنے عمدہ نمونہ سے نئے اشخاص کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہم مصیبت کے وقت حوصلہافزائی یا تسلی بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴، ۱۵) ہمیں ”حق پر چلتے“ رہنے میں دوسروں کی مدد کرنے کے مواقع تلاش کرنے کے مشتاق رہنا چاہئے۔ (۳-یوحنا ۴) خواہ ہم نوجوان ہیں یا عمررسیدہ، ہمیں سچائی کی راہ پر چلتے ہوئے کچھ عرصہ ہوا ہے یا کئی سال ہو گئے ہیں، ہم ساتھی ایمانداروں کی روحانی خوشحالی کو فروغ دے سکتے ہیں اور اس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ انہیں واقعی ہماری ضرورت ہے۔
لیتے ہیں۔ کلیسیا کے دیگر ارکان ’کمال کی طرف قدم بڑھانے‘ والوں کی خوشی سے مدد کرتے ہیں۔ (اُنہوں نے مطلوبہ مدد فراہم کی
۵. اکولہ اور پرسکلہ پولس کیلئے کیسے مددگار ثابت ہوئے؟
۵ شادیشُدہ مسیحی جوڑے ان لوگوں میں شامل ہیں جو ساتھی ایمانداروں کی مدد کرنے سے تسکین حاصل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اکولہ اور اُسکی بیوی پرسکلہ (پرسکہ) نے پولس کی مدد کی تھی۔ اُنہوں نے اسے اپنے گھر میں رکھا، اُس کیساتھ خیمہدوزی کا کام کِیا اور کرنتھس میں نئی کلیسیا قائم کرنے میں اُسکی مدد کی تھی۔ (اعمال ۱۸:۱-۴) تاہم بعض خفیہ طریقوں سے اُنہوں نے پولس کی خاطر اپنی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دی تھیں۔ اُس وقت وہ روم میں تھے جب پولس نے وہاں کے مسیحیوں سے کہا: ”پرسکہ اور اکولہ سے میرا سلام کہو وہ مسیح یسوؔع میں میرے ہمخدمت ہیں۔ اُنہوں نے میری جان کے لئے اپنا سر دے رکھا تھا اور صرف مَیں ہی نہیں بلکہ غیرقوموں کی سب کلیسیائیں اُنکی شکرگزار ہیں۔“ (رومیوں ۱۶:۳، ۴) اکولہ اور پرسکلہ کی طرح زمانۂجدید کے بعض مسیحی نہ صرف کلیسیائیں قائم کرتے اور مختلف طریقوں سے ساتھی پرستاروں کی مدد کرتے ہیں بلکہ بعضاوقات وہ اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر خدا کے دیگر خادموں کو اذیت کا نشانہ بننے یا موت سے بچاتے ہیں۔
۶. اپلوس نے کونسی مدد حاصل کی تھی؟
۶ اکولہ اور پرسکلہ نے خوشتقریر مسیحی اپلوس کی بھی مدد کی جو افسس کے لوگوں کو یسوع مسیح کی بابت تعلیم دے رہا تھا۔ اُس وقت اپلوس صرف شریعتی عہد کے خلاف گناہوں کی توبہ کی علامت کے طور پر دئے جانے والے یوحنا کے بپتسمہ سے واقف تھا۔ اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ اپلوس کو مدد کی ضرورت ہے اکولہ اور پرسکلہ نے ”اُس کو خدا کی راہ اَور زیادہ صحت سے بتائی۔“ غالباً اُنہوں نے اُسے سمجھایا ہو کہ مسیحی بپتسمے میں پانی میں مکمل ڈبکی لینا اور رُوحاُلقدس کے نزول سے استفادہ کرنا شامل ہے۔ اپلوس ایک اچھا طالبعلم ثابت ہوا۔ بعدازاں اخیہ میں اُس نے ”اُن لوگوں کی بڑی مدد کی جو فضل کے سبب سے ایمان لائے تھے۔ کیونکہ وہ کتابِمُقدس سے یسوؔع کا مسیح ہونا ثابت کرکے بڑے زوروشور سے یہودیوں کو علانیہ قائل کرتا رہا۔“ (اعمال ۱۸:۲۴-۲۸) ساتھی پرستاروں کے تبصرے اکثر خدا کے کلام کی سمجھ بڑھانے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
مالی مدد فراہم کرنا
۷. جب ساتھی مسیحیوں کو مالی مدد کی ضرورت پڑی تو فلپی کے رہنے والوں نے کیسا جوابیعمل دکھایا؟
۷ فلپی کی مسیحی کلیسیا کے ارکان پولس سے گہری محبت رکھتے تھے اور اُنہوں نے تھسلنیکے میں اُسکے قیام کے دوران اُس کیلئے جسمانی چیزیں بھی فراہم کی تھیں۔ (فلپیوں ۴:۱۵، ۱۶) جب یروشلیم کے بھائیوں کو مالی مدد کی ضرورت پڑی تو فلپی کے مسیحیوں نے دل کھول کر عطیات دئے۔ پولس نے فلپی کے بہنبھائیوں کے عمدہ جذبے کی اتنی قدر کی کہ اُس نے دوسرے ایمانداروں کو انکی مثال دی۔—۲-کرنتھیوں ۸:۱-۶۔
۸. اپفردتس نے کس جذبے کا مظاہرہ کِیا؟
۸ جب پولس قیدخانہ میں تھا تو فلپی کے لوگوں نے اسے نہ صرف تحائف بھیجے بلکہ اپنے خاص آدمی اپفردتس کو بھی اُس کے پاس روانہ کِیا۔ پولس نے بیان کِیا، ”[اپفردتس] مسیح کے کام کی خاطر مرنے کے قریب ہو گیا تھا اور اُس نے جان لگا دی تاکہ جو کمی تمہاری طرف سے میری خدمت میں ہوئی اُسے پورا کرے۔“ (فلپیوں ۲:۲۵-۳۰؛ ۴:۱۸) ہم یہ نہیں جانتے کہ اپفردتس بزرگ تھا یا خادم۔ تاہم، وہ ایک خودایثار اور مددگار مسیحی تھا اور پولس کو واقعی اُس کی ضرورت تھی۔ کیا آپکی کلیسیا میں اپفردتس کی مانند کوئی شخص ہے؟
وہ ”تسلی کا باعث“ تھے
۹. ارسترخس نے ہمارے لئے کونسا نمونہ قائم کِیا؟
۹ ہر کلیسیا میں اکولہ، پرسکلہ اور اپفردتس جیسے مہربان بہنبھائیوں کی بڑی قدر کی جاتی ہے۔ ہمارے بعض ساتھی پرستار کافی حد تک پہلی صدی کے ارسترخس جیسے ہو سکتے ہیں۔ وہ اور دیگر اشخاص غالباً بعض اہم معاملات میں ہمدردی یا مدد کا ذریعہ ثابت ہونے کی وجہ سے ”تسلی کا باعث رہے“ تھے۔ (کلسیوں ۴:۱۰، ۱۱) پولس کی مدد کرنے سے ارسترخس نے خود کو مشکل اوقات میں ایک حقیقی دوست ثابت کِیا۔ وہ ایک ایسا ہی شخص تھا جسکا بیان امثال ۱۷:۱۷ میں ملتا ہے: ”دوست ہر وقت محبت دکھاتا ہے اور بھائی مصیبت کے دن کے لئے پیدا ہوا ہے۔“ کیا ہم سب کو ساتھی مسیحیوں کے لئے ”تسلی کا باعث“ بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے؟ ہمیں خاص طور پر مصیبتزدہ لوگوں کی مدد کرنی چاہئے۔
۱۰. پطرس نے مسیحی بزرگوں کیلئے کونسا نمونہ قائم کِیا؟
۱۰ مسیحی بزرگوں کو خاص طور پر اپنے روحانی بہنبھائیوں کیلئے تسلی کا باعث ہونا چاہئے۔ مسیح نے پطرس رسول سے کہا: ”اپنے بھائیوں کو مضبوط کرنا۔“ (لوقا ۲۲:۳۲) پطرس ایسا کرنے کے قابل تھا کیونکہ یسوع کی قیامت کے بعد اُس نے بالخصوص پُختہ خوبیوں کا مظاہرہ کِیا تھا۔ پس آپ بزرگوں کو بھی حتیالمقدور رضامندی اور مہربانی سے ایسا ہی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ آپکے ساتھی ایمانداروں کو آپکی ضرورت ہے۔—اعمال ۲۰:۲۸-۳۰؛ ۱-پطرس ۵:۲، ۳۔
۱۱. تیمتھیس کے جذبے پر غور کرنے سے ہم کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
۱۱ پولس کا سفری ساتھی تیمتھیس ایک بزرگ تھا جو دوسرے مسیحیوں کی گہری فکر رکھتا تھا۔ صحت کے مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود تیمتھیس نے مضبوط ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولس کے ساتھ ”خوشخبری پھیلانے میں خدمت کی۔“ پس رسول فلپی کے لوگوں سے کہہ سکتا تھا: ’کیونکہ کوئی اَور ایسا ہمخیال میرے پاس نہیں جو صاف دلی سے تمہارے لئے فکرمند ہو۔‘ (فلپیوں ۲:۲۰، ۲۲؛ ۱-تیمتھیس ۵:۲۳؛ ۲-تیمتھیس ۱:۵) تیمتھیس جیسے جذبے کا مظاہرہ کرنے سے ہم بھی یہوواہ کے پرستاروں کیلئے باتمنہبرکت بن سکتے ہیں۔ بیشک، ہمیں ذاتی کمزوریوں اور مختلف آزمائشوں کا سامنا رہتا ہے تاہم، ہمیں بھی اپنے روحانی بہنبھائیوں کے لئے پُرمحبت فکرمندی اور پُختہ ایمان ظاہر کرنا چاہئے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُنہیں ہماری ضرورت ہے۔
دوسروں کیلئے فکرمند خواتین
۱۲. ہم تبیتا (ہرنی) کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۲ دوسروں کی فکر رکھنے والی خداترس خواتین میں سے ایک تبیتا تھی۔ اُس کے موت پر شاگردوں نے پطرس کو بلوایا اور اسے بالاخانہ میں لے گئے۔ وہاں ”سب بیوائیں روتی ہوئی اُس کے پاس آ کھڑی ہوئیں اور جو کُرتے اور کپڑے ہرنی نے اُن کے ساتھ میں رہ کر بنائے تھے دکھانے لگیں۔“ بِلاشُبہ، تبیتا (ہرنی) کو زندہ کر دیا گیا اور یقیناً اُس نے ”نیک کام اور خیرات“ کرنا جاری رکھا ہوگا۔ زمانۂجدید کی مسیحی کلیسیا میں بھی تبیتا جیسی خواتین موجود ہیں جو ضرورتمندوں لے لئے کپڑے بناتی یا دیگر نیک کام کرتی ہیں۔ بِلاشُبہ، اُن کے نیک کام بنیادی طور پر بادشاہتی مفادات کو فروغ دینے اور شاگرد بنانے کے کام سے تعلق رکھتے ہیں۔—اعمال ۹:۳۶-۴۲؛ متی ۶:۳۳؛ ۲۸:۱۹، ۲۰۔
۱۳. لدیہ نے ساتھی مسیحیوں کیلئے کیسے فکرمندی دکھائی؟
۱۳ خداترست لدیہ بھی دوسروں کیلئے فکرمندی ظاہر کرتی تھی۔ اُسکا تعلق تھواتیرہ سے تھا اور وہ فلپی میں رہتی تھی جب پولس نے تقریباً ۵۰ س.ع. اعمال ۱۶:۱۲-۱۵) لدیہ دوسروں کے لئے نیکی ظاہر کرنا چاہتی تھی لہٰذا اُس نے پولس اور اُسکے ساتھیوں پر زور دیا کہ وہ اُسکے گھر پر رہیں۔ ہم مہربان اور پُرمحبت مسیحیوں کی طرف سے ایسی مہماننوازی کی کتنی قدر کرتے ہیں!—رومیوں ۱۲:۱۳؛ ۱-پطرس ۴:۹۔
میں وہاں منادی کی تھی۔ لدیہ ایک یہودی نومرید تھی لیکن اُس وقت فلپی میں غالباً بہت کم یہودی تھے اور کوئی عبادتخانہ بھی نہیں تھا۔ جب پولس نے اُسے اور دیگر عقیدتمند خواتین کو خوشخبری سنائی تو وہ سب ایک ندی کے قریب جمع تھیں۔ سرگزشت بیان کرتی ہے: ”[لدیہ] کا دل [یہوواہ] نے کھولا تاکہ پولس کی باتوں پر توجہ کرے۔ اور جب اُس نے اپنے گھرانے سمیت بپتسمہ لے لیا تو منت کرکے کہا کہ اگر تم مجھے [یہوواہ] کی ایماندار بندی سمجھتے ہو تو چل کر میرے گھر میں رہو۔ پس اُس نے ہمیں مجبور کِیا۔“ (ہمیں آپ نوجوانوں کی بھی ضرورت ہے
۱۴. یسوع مسیح نے نوجوان لوگوں کیساتھ کیسا سلوک کِیا؟
۱۴ مسیحی کلیسیا کا آغاز خدا کے مہربان اور رحمدل بیٹے یسوع مسیح نے کِیا تھا۔ لوگ اُس کی دردمندی اور محبت کی وجہ سے اُس کی قربت میں رہنا چاہتے تھے۔ ایک موقع پر جب کچھ لوگ اپنے بچوں کو اُس کے پاس لائے تو شاگردوں نے اُنہیں منع کرنے کی کوشش کی۔ تاہم یسوع نے کہا: ”بچوں کو میرے پاس آنے دو۔ اُن کو منع نہ کرو کیونکہ خدا کی بادشاہی ایسوں ہی کی ہے۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کوئی خدا کی بادشاہی کو بچے کی طرح قبول نہ کرے وہ اُس میں ہرگز داخل نہ ہوگا۔“ (مرقس ۱۰:۱۳-۱۵) بادشاہتی برکات حاصل کرنے کے لئے ہمیں بچوں کی طرح فروتن اور تربیتپذیر ہونا چاہئے۔ بچوں کو اپنی گود میں لے کر اُنہیں برکت دینے سے یسوع نے بچوں کے لئے اپنی محبت کا اظہار کِیا۔ (مرقس ۱۰:۱۶) آجکل آپ نوجوانوں کی بابت کیا ہے؟ یقین رکھیں کہ کلیسیا آپ سے محبت رکھتی ہے اور آپکی ضرورت محسوس کرتی ہے۔
۱۵. لوقا ۲:۴۰-۵۲ میں یسوع کی زندگی کے متعلق کونسے حقائق درج ہیں اور اُس نے نوجوانوں کیلئے کونسا نمونہ قائم کِیا؟
۱۵ یسوع نے نوعمری سے ہی خدا اور صحائف کے لئے محبت ظاہر کی۔ جب وہ ۱۲ سال کا تھا تو وہ اپنے والدین یوسف اور مریم کیساتھ حمئیلفسح کے لوقا ۲:۴۰-۵۲) یسوع نے ہمارے نوجوانوں کیلئے کیا ہی عمدہ مثال قائم کی! واقعی، اُنہیں بھی اپنے والدین کے تابع رہنا اور روحانی باتوں کی بابت سیکھنے میں دلچسپی لینی چاہئے۔—استثنا ۵:۱۶؛ افسیوں ۶:۱-۳۔
موقع پر اپنے آبائی وطن ناصرۃ سے یروشلیم گیا۔ واپسی پر یسوع کے والدین کو پتہ چلا کہ یسوع اُن کیساتھ سفر کرنے والے گروہ میں موجود نہیں۔ آخرکار اُنہوں نے اُسے ہیکل کے صحن میں بیٹھے یہودی اُستادوں کی باتیں سنتے اور اُن سے سوال کرتے پایا۔ اس بات پر حیران ہوتے ہوئے کہ یوسف اور مریم نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں ہے یسوع نے پوچھا: ”کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے؟“ یسوع اپنے والدین کے ساتھ گھر لوٹ آیا، اُن کے تابع رہا اور حکمت اور قدوقامت میں ترقی کرتا گیا۔ (۱۶. (ا) جب یسوع ہیکل میں گواہی دے رہا تھا تو بعض لڑکوں نے بلند آواز میں کیا کہا؟ (ب) آجکل نوجوان مسیحیوں کو کیا شرف حاصل ہے؟
۱۶ ایک نوجوان شخص کے طور پر آپ شاید سکول میں یا اپنے والدین کے ساتھ گھرباگھر یہوواہ کی بابت گواہی دیتے ہیں۔ (یسعیاہ ۴۳:۱۰-۱۲؛ اعمال ۲۰:۲۰، ۲۱) جب یسوع اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے ہیکل میں لوگوں کو گواہی اور شفا دے رہا تھا تو کچھ لڑکوں نے بلند آواز سے کہا: ”اشیسبضرداؔؤد کو ہوشعنا۔“ اس بات سے خفا ہوکر سردار کاہنوں اور فقیہوں نے کہا: ”تُو سنتا ہے کہ یہ کیا کہتے ہیں؟“ یسوع نے اُن سے کہا، ”ہاں۔ کیا تم نے یہ کبھی نہیں پڑھا کہ بچوں اور شِیرخواروں کے مُنہ سے تُو نے حمد کو کامل کرایا؟“ (متی ۲۱:۱۵-۱۷) ان لڑکوں کی طرح کلیسیا کے نوجوانوں کو بھی خدا اور اُسکے بیٹے کی ستائش کرنے کا شرف حاصل ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ بادشاہتی مُنادوں کے طور پر ہمارے ساتھ خدمت کریں کیونکہ ہم آپکی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
ناموافق حالات کے دوران
۱۷، ۱۸. (ا) پولس نے یہودیہ کے مسیحیوں کے لئے عطیات کا انتظام کیوں کِیا؟ (ب) یہودیہ کے ایمانداروں کیلئے رضاکارانہ عطیات نے یہودی اور غیرقوم مسیحیوں پر کیسا اثر ڈالا؟
۱۷ اپنے حالات سے قطعنظر، محبت ہمیں ضرورت کے وقت ساتھی مسیحیوں کی مدد کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ (یوحنا ۱۳:۳۴، ۳۵؛ یعقوب ۲:۱۴-۱۷) بہنبھائیوں کی محبت نے پولس کو اخیہ، گلتیہ، مکدنیہ اور آسیہ کی کلیسیاؤں سے عطیات جمع کرنے کا انتظام کرنے کی تحریک دی تھی۔ یروشلیم میں شاگردوں نے جس اذیت، خانہجنگی اور قحط کا تجربہ کِیا پولس کے مطابق وہ شاید اُن کے لئے ”دُکھوں“، ”مصیبتوں“ اور ’اپنے مال کے لٹ جانے‘ پر منتج ہوا تھا۔ (عبرانیوں ۱۰:۳۲-۳۴؛ اعمال ۱۱:۲۷–۱۲:۱) لہٰذا وہ یہودیہ کے ضرورتمند مسیحیوں کے لئے عطیات جمع کرنے کے کام کی نگرانی پر مامور تھا۔—۱-کرنتھیوں ۱۶:۱-۳؛ ۲-کرنتھیوں ۸:۱-۴، ۱۳-۱۵؛ ۹:۱، ۲، ۷۔
۱۸ یہودیہ کے مُقدسین کیلئے رضاکارانہ عطیات نے ثابت کر دیا کہ یہوواہ کے یہودی اور غیرقوم پرستاروں کے درمیان اخوت موجود تھی۔ مالی عطیات کے ذریعے غیرقوم مسیحیوں کو یہودیہ کے ساتھی پرستاروں کی طرف سے ملنے والی روحانی بصیرت کیلئے اپنی شکرگزاری ظاہر کرنے کا موقع بھی ملا تھا۔ یوں جسمانی اور روحانی دونوں طرح سے ایک دوسرے کی مدد ہوئی تھی۔ (رومیوں ۱۵:۲۶، ۲۷) آجکل بھی محبت سے تحریک پاکر ضرورتمند ساتھی ایمانداروں کے لئے رضاکارانہ طور پر عطیات دئے جاتے ہیں۔ (مرقس ۱۲:۲۸-۳۱) اس لحاظ سے بھی ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے تاکہ سب کے پاس برابر ہو اور ’جس نے تھوڑا جمع کِیا اُسکا کچھ کم نہ نکلے۔‘—۲-کرنتھیوں ۸:۱۵۔
۱۹، ۲۰. مثال سے ظاہر کریں کہ یہوواہ کے لوگ قدرتی آفات کا شکار علاقوں میں کیسے مدد فراہم کرتے ہیں۔
۱۹ اس بات کو یاد رکھتے ہوئے کہ مسیحیوں کو ایک دوسرے کی ضرورت
ہے ہم اپنے ہمایمان بہنبھائیوں کی مدد کے لئے تیار رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، غور کریں کہ سن ۲۰۰۱ کے اوائل میں جب زلزلوں کے آنے اور تودوں کے گرنے سے السلواڈور میں تباہی مچ گئی تو کیا واقع ہوا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق: ”السلواڈور کے تمام علاقوں میں بھائیوں نے فوری طور پر امدادی کوششیں شروع کر دیں۔ گواٹیمالا، ریاستہائےمتحدہ اور کینیڈا سے بھائیوں نے ہماری مدد کی۔ . . . بہت کم وقت میں ۵۰۰ سے زائد گھر اور ۳ خوبصورت کنگڈم ہال تعمیر کر لئے گئے۔ ان خودایثار بھائیوں کی محنت اور تعاون کے ذریعے شاندار گواہی دی گئی۔“۲۰ جنوبی افریقہ کی ایک رپورٹ نے بیان کِیا: ”موزمبیق کے بہتیرے علاقوں میں تباہی مچانے والے شدید طوفانوں نے ہمارے کئی مسیحی بھائیوں کو بھی متاثر کِیا۔ موزمبیق کی برانچ نے انکی بیشتر ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام کِیا۔ تاہم اُنہوں نے ضرورتمند بھائیوں کے لئے استعمالشُدہ مگر معیاری کپڑوں کی درخواست کی۔ ہم موزمبیق کے بھائیوں کے لئے کپڑوں سے بھرا ایک ۴۰ فٹ بڑا کنٹینر بھیجوانے میں کامیاب ہوئے۔“ جیہاں، ان طریقوں سے بھی ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
۲۱. اگلے مضمون میں کس بات پر غور کِیا جائیگا؟
۲۱ جیساکہ پہلے بیان کِیا گیا انسانی جسم کے تمام حصے اہم ہیں۔ مسیحی کلیسیا کے سلسلے میں بھی یہ بات درست ہے۔ اس کے تمام اراکین کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ اُنہیں بھی متحد ہوکر خدمت کرتے رہنا چاہئے۔ اگلے مضمون میں ایسے بعض عناصر پر غور کِیا جائے گا جو ایسا کرنا ممکن بناتے ہیں۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• انسانی جسم اور مسیحی کلیسیا میں کیا مشابہت پائی جاتی ہے؟
• جب ساتھی ایمانداروں کو مدد کی ضرورت پڑی تو ابتدائی مسیحیوں نے کیسا جوابیعمل ظاہر کِیا؟
• کونسی صحیفائی مثالیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مسیحیوں کو ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
اکولہ اور پرسکلہ دوسروں کی فکر رکھتے تھے
[صفحہ ۱۲ پر تصویریں]
مشکل اوقات میں یہوواہ کے لوگ ایک دوسرے کی اور دیگر اشخاص کی مدد کرتے ہیں