ہم یہوواہ کے حضور اپنے دن کیسے گن سکتے ہیں؟
ہم یہوواہ کے حضور اپنے دن کیسے گن سکتے ہیں؟
”کل طلوعِآفتاب اور غروبِآفتاب کے درمیان کسی وقت دو سنہری گھنٹوں کو کھو دیا گیا جن میں سے ہر ایک ساٹھ بیشقیمت منٹوں پر مشتمل تھا۔ انہیں تلاش کرنے کیلئے کوئی انعام نہیں ٹھہرایا گیا کیونکہ انہیں پانا ناممکن ہے!“—لڈیا ایچ. سگورنے، امریکی مصنف (۱۷۹۶-۱۸۵۹)۔
ہماری زندگی کے ایّام بہت کم اور مختصر لگتے ہیں۔ زبورنویس داؤد نے زندگی کی بےثباتی پر غور کرتے ہوئے یہ دُعا کرنے کی تحریک پائی: ”اے [یہوواہ]! ایسا کر کہ مَیں اپنے انجام سے واقف ہو جاؤں اور اس سے بھی کہ میری عمر کی میعاد کیا ہے۔ مَیں جان لُوں کہ کیسا فانی ہوں۔ دیکھ! تُو نے میری عمر بالشتبھر کی رکھی ہے اور میری زندگی تیرے حضور بےحقیقت ہے۔“ داؤد کو اپنی زندگی میں اپنے قولوفعل کے ذریعے خدا کو خوش رکھنے کی فکر تھی۔ خدا پر اپنے توکل کے اظہار میں اُس نے بیان کِیا: ”میری اُمید تجھ ہی سے ہے۔“ (زبور ۳۹:۴، ۵، ۷) یہوواہ نے اُسکی سنی اور اُسے اُس کے اعمال کے مطابق اجر بھی دیا۔
دنبھر کے کامکاج کی مصروفیات اور تیزرفتار طرزِزندگی کی رَو میں بہہ جانا بہت آسان ہے۔ جب ہمیں بہت کم وقت میں بہت زیادہ کام کرنے پڑتے ہیں تو یہ ہمارے لئے خاص طور پر پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ کیا ہم بھی داؤد کی طرح ایسی زندگی بسر کرنے کی فکر رکھتے ہیں جسے خدا کی مقبولیت حاصل ہے؟ یہوواہ واقعی ہم میں سے ہر ایک پر نظر رکھتے ہوئے ہمارا بغور جائزہ لیتا ہے۔ خداترس ایوب نے کوئی ۶۰۰،۳ سال پہلے اس بات کو تسلیم کِیا کہ یہوواہ نے اُسکی راہوں پر نگاہ رکھی اور اُسکے کاموں کا جائزہ لیا۔ ایوب نے ایسا سوال پوچھا جسکا جواب مقصود نہیں تھا: ”جب وہ آئیگا تو مَیں اُسے کیا جواب دونگا؟“ (ایوب ۳۱:۴-۶، ۱۴) ہم روحانی ترجیحات قائم کرنے، اُس کے حکموں پر عمل کرنے اور اپنے وقت کا دانشمندانہ استعمال کرنے سے خدا کے حضور اپنے دن گننا سیکھ سکتے ہیں۔ آئیے ان معاملات پر اَور زیادہ محتاط طریقے سے غور کریں۔
روحانی معاملات کو ترجیح دیں
الہامی صحائف روحانی ترجیحات قائم کرنے کے سلسلے میں ہمیں موزوں طور پر نصیحت کرتے ہیں: ”عمدہ عمدہ باتوں کو پسند“ کرو۔ کونسی باتیں؟ ان میں ”علم اور ہر طرح کی تمیز“ شامل ہے۔ (فلپیوں ۱:۹، ۱۰) یہوواہ کے مقصد کی بابت علم حاصل کرنا اپنے وقت کا دانشمندانہ استعمال کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم، روحانی معاملات کو اپنی بنیادی فکر بنانا بااجر اور بامقصد زندگی کی ضمانت ہے۔
پولس رسول نے ہمیں یاددہانی کرائی کہ ”تجربہ سے معلوم کرتے رہو کہ خداوند کو کیا پسند ہے۔“ تجربہ سے معلوم کرنے میں اپنے دلی محرکات اور خواہشات کا جائزہ لینا بھی شامل ہے۔ رسول نے مزید بیان کِیا: ”[یہوواہ[ کی مرضی کو سمجھو کہ کیا ہے۔“ (افسیوں ۵:۱۰، ۱۷) پس یہوواہ کو کیا پسند ہے؟ ایک بائبل مثل جواب فراہم کرتی ہے: ”حکمت افضل اصل ہے۔ پس حکمت حاصل کر بلکہ اپنے تمام حاصلات سے فہم حاصل کر۔ اُسکی تعظیم کر۔ وہ تجھے سرفراز کریگی۔“ (امثال ۴:۷، ۸) یہوواہ خدائی حکمت حاصل کرنے اور اسے عمل میں لانے والے شخص سے خوش ہوتا ہے۔ (امثال ۲۳:۱۵) ایسی حکمت کی دلکشی یہ ہے کہ اسے نہ تو چھینا جا سکتا ہے اور نہ ہی تباہ کِیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت، یہ ”شریر کی راہ سے اور کجگو سے“ بچاتے ہوئے تحفظ فراہم کرتی ہے۔—امثال ۲:۱۰-۱۵۔
روحانی معاملات کی بابت لاپرواہی کے میلان کی مزاحمت کرنا کسقدر دانشمندانہ بات ہے! ہمیں یہوواہ کا صحتمندانہ خوف ماننے اور اُس کی باتوں کے لئے قدردانی کا رُجحان پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ (امثال ۲۳:۱۷، ۱۸) ایسا ذہنی میلان زندگی کے کسی بھی دور میں پیدا کِیا جا سکتا ہے، تاہم جوانی میں اس درست نمونے پر چلنا اور بائبل اُصولوں کو اپنی شخصیت کا حصہ بنانا بہت بہتر ہے۔ دانشمند بادشاہ سلیمان بیان کرتا ہے، ”اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد کر۔“—واعظ ۱۲:۱۔
یہوواہ کے لئے قدردانی پیدا کرنے کا بہترین طریقہ اُس سے روزانہ ذاتی دُعا کرنا ہے۔ داؤد یہوواہ پر اعتماد ظاہر کرنے کی اہمیت سے واقف تھا لہٰذا اُس نے التجا کی: ”اَے [یہوواہ] میری دُعا سُن اور میری فریاد پر کان لگا۔ میرے آنسوؤں کو دیکھکر خاموش نہ رہ۔“ (زبور ۳۹:۱۲) کیا خدا کے ساتھ ہماری قربت بعضاوقات آنسوؤں کی حد تک ہمارے جذبات کو متاثر کرتی ہے؟ واقعی، ہم جتنا زیادہ یہوواہ کیساتھ ذاتی معاملات کی بابت رابطہ رکھتے اور اُس کے کلام پر غوروخوض کرتے ہیں وہ اتنا ہی زیادہ ہمارے قریب آتا ہے۔—یعقوب ۴:۸۔
تابعداری سیکھیں
موسیٰ ایک اَور ایماندار شخص تھا جس نے یہوواہ پر انحصار کرنے کی ضرورت کو محسوس کِیا۔ داؤد کی طرح موسیٰ جانتا تھا کہ زندگی مصائب سے پُر ہے۔ لہٰذااُس نے خدا سے درخواست کی کہ اُسے ’اپنے دن گننا سکھائے۔ ایسا کہ وہ دانا دل حاصل کرے۔‘ (زبور ۹۰:۱۰-۱۲) یہوواہ کے قوانین اور اُصولوں کو سیکھنے اور اُنکی مطابقت میں زندگی بسر کرنے سے ہی دانا دل حاصل کِیا جا سکتا ہے۔ موسیٰ یہ جانتا تھا، اس لئے اُس نے اسرائیل کے خلصموعود پر قابض ہونے سے پہلے خدا کے قوانین اور اُصولوں کو دہرانے سے اُنہیں اس اہم سچائی سے اچھی طرح واقف کرانے کی کوشش کی تھی۔ بعدازاں اسرائیل پر حکمرانی کرنے کیلئے یہوواہ کی طرف سے منتخبکردہ ہر انسانی بادشاہ کو شریعت کی ایک ذاتی کاپی کی نقل تیار کرنا اور اسے تمام عمر پڑھنا تھا۔ کس لئے؟ تاکہ وہ خدا کا خوف ماننا سیکھے۔ یہ بادشاہ کی فرمانبرداری کا ایک امتحان ہوتا تھا۔ یہ اُسے اپنے بھائیوں کو حقیر جاننے سے باز رکھتا اور اُسکی بادشاہت کو قیام بخشتا ہے۔ (استثنا ۱۷:۱۸-۲۰) یہوواہ نے داؤد کے بیٹے سلیمان سے یہ وعدہ دہرایا: ”اگر تُو میری راہوں پر چلے اور میرے آئین اور احکام کو مانے جیسے تیرا باپ داؔؤد چلتا رہا تو مَیں تیری عمر دراز کروں گا۔“—۱-سلاطین ۳:۱۰-۱۴۔
خدا کے نزدیک فرمانبرداری ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ اگر ہم یہوواہ کے بعض تقاضوں اور احکام کو معمولی خیال کرکے نظرانداز کر دیں تو وہ یقیناً ایسے رُجحان پر گہری نظر ڈالیگا۔ (امثال ۱۵:۳) اگرچہ ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا توبھی اس علم کو ہمیں یہوواہ کی تمام ہدایات کے لئے گہرا احترام ظاہر کرنے کی تحریک دینی چاہئے۔ جب ہم خدا کے قوانینواحکام پر دھیان دینے کی کوشش کرتے ہیں تو شیطان ’ہمیں روکنے‘ کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔—۱-تھسلنیکیوں ۲:۱۸۔
پرستش اور رفاقت کیلئے باہم جمع ہونے کی صحیفائی مشورت پر عمل کرنا خاص طور پر اہم ہے۔ (استثنا ۳۱:۱۲، ۱۳؛ عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) لہٰذا ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہئے: ’کیا مجھے وہ کام کرنے کیلئے عزم اور مستقلمزاجی کی ضرورت ہے جو واقعی اہمیت کا حامل ہے؟‘ اگر ہم مالی طور پر مستحکم ہونے کی خاطر مسیحی اجلاسوں کے ذریعے حاصل ہونے والی رفاقت اور ہدایت کو نظرانداز کرتے ہیں تو یہوواہ کیساتھ ہمارا رشتہ کمزور پڑ سکتا ہے۔ پولس رسول نے لکھا: ”زر کی دوستی سے خالی رہو اور جو تمہارے پاس ہے اُسی پر قناعت کرو کیونکہ اُس [یہوواہ] نے خود فرمایا ہے کہ مَیں تجھ سے ہرگز دستبردار نہ ہونگا اور کبھی تجھے نہ چھوڑونگا۔“ (عبرانیوں ۱۳:۵) یہوواہ کے احکام کی فرمانبرداری کرنے کیلئے آمادگی اس بات پر مکمل بھروسا ظاہر کرتی ہے کہ وہ ہماری فکر رکھیگا۔
یسوع نے فرمانبرداری سیکھی اور اس سے فائدہ اُٹھایا۔ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ (عبرانیوں ۵:۸) جتنا زیادہ ہم فرمانبرداری کی خوبی کو فروغ دیں گے ہمارے لئے روزمرّہ کے معاملات میں بھی فرمانبردار رہنا آسان ہو جائے گا۔ بیشک، اپنی راستی پر قائم رہنے کے باعث ہمیں دوسروں کے ناخوشگوار اور نامہربانہ رویے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بالخصوص جائےملازمت، سکول یا مذہبی اعتبار سے منقسم گھرانے میں ایسا ممکن ہے۔ تاہم، ہم اسرائیل سے کہی جانے والی اس بات سے تسلی حاصل کر سکتے ہیں کہ اگر وہ ’خدا سے محبت رکھتے اور اُس کی بات سنتے اور اُسی سے لپٹے رہتے تو انہیں زندگی اور عمر کی درازی نصیب ہوتی۔‘ (استثنا ۳۰:۲۰) ہم بھی اس وعدے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
وقت کا دانشمندانہ استعمال کریں
اپنے وقت کے دانشمندانہ استعمال سے بھی یہوواہ کے حضور اپنے دن گننے میں ہماری مدد ہوگی۔ پیسوں کے برعکس جسے بچایا جا سکتا ہے، وقت کو صرف کرنا ضروری ہے ورنہ یہ ضائع ہو جائیگا۔ گزرا ہوا ہر گھنٹہ دوبارہ کبھی نہیں لوٹتا۔ اپنے تمام کاموں کو نپٹانا ممکن نہیں لہٰذا، کیا ہم اپنا وقت اپنی زندگی کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں؟ تمام مسیحیوں کا ایک بنیادی نشانہ بادشاہتی منادی اور شاگرد بنانے کے کام میں باقاعدہ شرکت ہونا چاہئے۔—متی ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹، ۲۰۔
ہم اپنے وقت کا دانشمندانہ استعمال صرف اُس صورت میں کر سکتے ہیں جب ہم اس کی اہمیت کو پوری طرح سمجھتے ہیں۔ افسیوں ۵:۱۶ موزوں طور پر ہمیں ’وقت کو غنیمت جاننے‘ کی نصیحت کرتی ہے، اس کا مطلب کم اہم چیزوں سے گریز کرتے ہوئے اپنا وقت بچانا ہے۔ اس کا مطلب وقت ضائع کرنے والے مشاغل کو کم کرنا ہے۔ حد سے زیادہ ٹیلیویژن دیکھنا یا انٹرنیٹ استعمال کرنا، بیفائدہ دُنیاوی کتابیں پڑھنا یا ضرورت سے زیادہ تفریحوطبع ہمیں تھکا سکتے ہیں۔ علاوہازیں، غیرمعمولی حد تک مادی چیزیں جمع کرنے کی جستجو دانا دل حاصل کرنے کے لئے ضروری وقت کو ختم کر سکتی ہے۔
وقت کی محتاط منصوبہسازی کی حمایت کرنے والے لوگ بیان کرتے ہیں: ”واضح نشانے قائم کئے بغیر اپنے وقت کا اچھا استعمال کرنا ناممکن ہے۔“ نشانے قائم کرنے کے سلسلے میں وہ پانچ معیار تجویز کرتے ہیں: واضح، قالصفنپیمائش، قالصفنحصول، حقیقتپسند اور وقت کے مطابق۔
ایک اہم نشانہ اپنی بائبل پڑھائی کو بہتر بنانا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا قدم مکمل بائبل پڑھنے کا واضح نشانہ قائم کرنا ہے۔ اگلا قدم اپنے نشانے کو قالصفنپیمائش بنانا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم اپنی ترقی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ نشانوں کو ہمیں کوشش اور ترقی کرنے کی تحریک دینی چاہئے۔ انہیں قالصفنحصول اور حقیقتپسند بھی ہونا چاہئے۔ ذاتی صلاحیتوں، مہارتوں اور دستیاب وقت کو بقبونظر رکھنا چاہئے۔ بعض لوگوں کو نشانہ حاصل کرنے کیلئے زیادہ وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آخر میں، ہمیں اپنے نشانے کیلئے وقت مختص کرنا چاہئے۔ کسی کام کو پورا کرنے کی ایک تاریخ مقرر کرنا اسے ختم کرنے کی جستجو کو بڑھاتا ہے۔
یہوواہ کے گواہوں کے عالمی ہیڈکوارٹرز یا دُنیابھر میں اسکی کسی برانچ میں خدمت کرنے والے عالمگیر بیتایل خاندان کے تمام اراکین بیتایل میں اپنے پہلے سال کے دوران مکمل بائبل کی پڑھائی کا واضح نشانہ رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سودمند بائبل پڑھائی اُنکی روحانی ترقی اور انہیں مفید تعلیم دینے والے خدا یہوواہ کیساتھ ایک قریبی رشتے کو فروغ دیتی ہے۔ (یسعیاہ ۴۸:۱۷) کیا ہم بھی باقاعدہ بائبل پڑھائی کو اپنا نشانہ بنا سکتے ہیں؟
اپنے دن گننے کے فوائد
روحانی معاملات کو بنیادی توجہ دینا کئی برکات پر منتج ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ احساسِتکمیل پیدا کرکے زندگی کو بامقصد بناتا ہے۔ مخلصانہ دُعا میں یہوواہ کیساتھ باقاعدہ رابطہ ہمیں اُسکے قریب لاتا ہے۔ دُعا کا عمل اُس پر ہمارے بھروسے کو ظاہر کرتا ہے۔ بائبل اور ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی طرف سے فراہمکردہ بائبل پر مبنی مطبوعات کی باقاعدہ پڑھائی سے ہم خدا کی بات سننے کیلئے اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) اس سے دانا دل حاصل کرنے میں ہماری مدد ہوتی ہے تاکہ ہم زندگی میں درست فیصلے اور انتخابات کر سکیں۔—زبور ۱:۱-۳۔
ہم یہوواہ کے احکام کی اطاعت کرنے سے خوشی حاصل کرتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ہمارے لئے کوئی بوجھ نہیں ہے۔ (۱-یوحنا ۵:۳) یہوواہ کے حضور اپنا ہر دن گنتے ہوئے ہم اُس کیساتھ اپنا رشتہ مضبوط کرتے ہیں۔ ہم ساتھی مسیحیوں کیلئے بھی واقعی روحانی طور پر مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے اعمال یہوواہ خدا کو خوش کرتے ہیں۔ (امثال ۲۷:۱۱) نیز اب اور ہمیشہ کیلئے یہوواہ کی مقبولیت سے استفادہ کرنے سے بڑا اجر اَور کوئی نہیں!
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
مسیحی روحانی معاملات کی بابت ایک سنجیدہ نظریہ رکھتے ہیں
[صفحہ ۲۲ پر تصویریں]
کیا آپ اپنے وقت کا دانشمندانہ استعمال کر رہے ہیں؟
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
یہوواہ کے حضور اپنا ہر دن گنتے ہوئے ہم اُس کیساتھ اپنا رشتہ مضبوط کرتے ہیں