مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مشنری تفویض ہمارا گھر بن گئی

مشنری تفویض ہمارا گھر بن گئی

میری کہانی میری زبانی

مشنری تفویض ہمارا گھر بن گئی

از ڈِک والڈرن

یہ ستمبر ۱۹۵۳ میں اتوار کی دوپہر کا وقت تھا۔‏ ہم جنوب‌مغربی افریقہ (‏موجودہ نیمبیا)‏ میں ابھی آئے ہی تھے۔‏ ہمیں اس مُلک میں آئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ہم دارالحکومت ونڈہوک میں عوامی اجلاس منعقد کرا رہے تھے۔‏ ہمیں کس بات نے آسٹریلیا سے افریقی مُلک آنے کی تحریک دی تھی؟‏ مَیں،‏ میری بیوی اور تین جوان خواتین خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرنے کیلئے مشنریوں کے طور پر یہاں آئے تھے۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۴‏۔‏

میری زندگی کا آغاز دُنیا کے دُوردراز علاقے آسٹریلیا میں ہوا۔‏ مَیں ۱۹۱۴ کے اہم سال میں پیدا ہوا۔‏ مَیں نے اپنی نوعمری میں بڑی کسادبازاری دیکھی اور خاندان کو زندہ رکھنے کے لئے مجھے بھی اپنی ذمہ‌داری پوری کرنی تھی۔‏ کوئی ملازمت نہ ہونے کے باعث مَیں نے جنگلی خرگوشوں کو پکڑنے کا طریقہ ایجاد کر لیا جن کی تعداد آسٹریلیا میں کافی تھی۔‏ لہٰذا،‏ خاندان کی خوراک کے لئے میری اہم معاونت خرگوش کے گوشت کو متواتر پہنچاتے رہنا تھا۔‏

جب ۱۹۳۹ میں دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی تو مَیں میلبورن کے شہر میں ٹراموں اور بسوں پر کام حاصل کرنے کے قابل ہو گیا۔‏ وہاں تقریباً ۷۰۰ آدمی تھے جو بسوں پر شفٹوں میں کام کرتے تھے اور ہر شفٹ پر میری ملاقات فرق ڈرائیور یا کنڈکٹر سے ہوتی تھی۔‏ مَیں اکثر ان سے یہ سوال پوچھتا،‏ ”‏آپ کا تعلق کس مذہب سے ہے؟‏“‏ جس کے جواب میں وہ مجھے اپنے اعتقادات کی بابت بتاتے تھے۔‏ واحد شخص جس نے مجھے تسلی‌بخش جواب دیا وہ ایک یہوواہ کا گواہ تھا۔‏ اُس نے بائبل پر مبنی فردوسی زمین کی بابت ایک پیغام کو واضح کِیا جہاں خداترس انسان ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔‏—‏زبور ۳۷:‏۲۹‏۔‏

اس اثنا میں،‏ میری ماں کا یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ ہو گیا۔‏ اکثراوقات جب مَیں شفٹ سے لیٹ گھر آتا تو میرے کھانے کے ساتھ کونسلیشن رسالے (‏اس وقت جاگو!‏ کہلاتا ہے)‏ کی ایک کاپی میرا انتظار کر رہی ہوتی۔‏ جوکچھ مَیں پڑھتا وہ مجھے اچھا لگتا۔‏ کچھ عرصے بعد،‏ مَیں نے نتیجہ اخذ کِیا کہ یہ سچا مذہب ہے اور مَیں سرگرمی کیساتھ ان میں شامل ہو گیا اور مئی ۱۹۴۰ میں بپتسمہ لے لیا۔‏

میلبورن میں ایک پائنیر ہوم تھا جہاں یہوواہ کے گواہوں کے تقریباً ۲۵ کُل‌وقتی خادم رہتے تھے۔‏ مَیں بھی ان کیساتھ رہنے لگا۔‏ روزبروز منادی کے کام کی بابت ان کے تجربات سننے سے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں ان کی صفوں میں شامل ہو سکوں۔‏ بالآخر مَیں نے پائنیر خدمت کے لئے درخواست دیدی۔‏ میری درخواست قبول کر لی گئی اور مجھے یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں خدمت کرنے کیلئے بلایا لیا گیا۔‏ یوں مَیں بیت‌ایل خاندان کا حصہ بن گیا۔‏

قیدوبند

بیت‌ایل میں میری تفویض آرا مشین چلانے کی تھی۔‏ وہاں مجھے ایندھن کی خاطر کوئلہ بنانے کیلئے لکڑی کاٹنی پڑتی تھی۔‏ اسے برانچ میں گاڑیوں کیلئے استعمال کِیا جاتا تھا کیونکہ جنگ کی وجہ سے ایندھن کی کمی تھی۔‏ آرے کی مشین پر ۱۲ لوگ کام کرتے تھے اور ہم سب پر فوجی خدمت لازمی تھی۔‏ کچھ زیادہ وقت نہ گزرا کہ ہمیں فوجی خدمت کیلئے بائبل پر مبنی ہمارے انکار کی بنیاد پر چھ ماہ کیلئے قید میں ڈال دیا گیا۔‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۴‏)‏ ہمیں قیدبامشقت کی سزا سنائی گئی۔‏ اُنہوں نے ہمیں کیا کام کرنے کیلئے دیا؟‏ حیرانی کی بات ہے جس کام کی تربیت ہم نے بیت‌ایل میں حاصل کی تھی ہمیں وہی کام سونپا گیا!‏

ہم نے لکڑی کاٹنے کا کام اتنی عمدگی سے کِیا کہ قیدخانہ کے حاکم نے سخت احکام کے باوجود ایسی چیزیں جو ہمیں دستیاب نہیں ہونی چاہئے تھیں یعنی بائبل اور بائبل پر مبنی مطبوعات اپنے پاس رکھنے کی اجازت دیدی۔‏ اُس وقت کے دوران مَیں نے انسانی تعلقات کے سلسلے میں عمدہ سبق سیکھا۔‏ بیت‌ایل میں کام کرتے ہوئے ایک بھائی کیساتھ اکثر میرے اختلافات رہتے تھے۔‏ ہماری شخصیات بالکل فرق تھیں۔‏ آپ کے خیال میں اُنہوں نے قیدخانہ کی اسی کوٹھری میں میرے ساتھ کسے ڈالا؟‏ جی‌ہاں،‏ اسی بھائی کو۔‏ اب ہمیں ایک دوسرے کو جاننے کا واقعی موقع ملا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ایک دوسرے کے قریبی اور دائمی دوست بن گئے۔‏

کچھ عرصے بعد،‏ آسٹریلیا میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگا دی گئی۔‏ تمام فنڈز ضبط کر لئے گئے اور بیت‌ایل میں بھائیوں کے مالی حالات بہت تنگ ہو گئے۔‏ ایک موقع پر،‏ ان میں سے ایک نے میرے پاس آ کر مجھ سے کہا:‏ ”‏ڈِک مَیں قصبے میں جا کر منادی کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس جوتے نہیں ہیں صرف کام والے بُوٹ ہیں۔‏“‏ مَیں اس کی مدد کرکے خوش ہوا اور وہ میرے جوتے پہن کر قصبے کی طرف چل پڑا۔‏

بعدازاں،‏ خبر ملی کہ اُسے منادی کرنے کی وجہ سے گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا گیا ہے۔‏ مَیں اُسے ایک رُقعہ ارسال کئے بغیر رہ نہ سکا:‏ ”‏آپ کیساتھ جوکچھ ہوا مجھے اس کا افسوس ہے۔‏ مَیں خوش ہوں کہ مَیں نے وہ جوتے نہیں پہنے ہوئے تھے۔‏“‏ لیکن جلد ہی میرے غیرجانبدارانہ مؤقف کی وجہ سے مجھے بھی دوسری مرتبہ گرفتار کر لیا گیا۔‏ میری رہائی کے بعد،‏ مجھے بیت‌ایل خاندان کو خوراک فراہم کرنے والے کھیت میں تفویض کِیا گیا۔‏ اس وقت تک ہم ایک عدالتی مقدمہ جیت چکے تھے اور یہوواہ کے گواہوں کی سرگرمیوں سے پابندی اُٹھائی لی گئی تھی۔‏

ایک سرگرم مبشر کیساتھ شادی

فارم پر مَیں نے شادی کی بابت سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا اور مَیں نے ایک نوجوان پائنیر بہن کیرالی کلوگن کو پُرکشش پایا۔‏ کیرالی کی نانی نے اپنے خاندان میں سب سے پہلے بائبل کے پیغام میں دلچسپی دکھائی تھی۔‏ بسترِمرگ پر اس نے کیرالی کی ماں ویرا سے کہا:‏ ”‏اپنے بچوں کی پرورش اس طرح سے کرو کہ وہ خدا سے محبت کریں اور اسکی خدمت کریں اور ایک دن ہم فردوسی زمین پر ملیں گے۔‏“‏ بعدازاں،‏ جب ایک پائنیر کتابچہ ملینز ناؤ لیونگ وِل نیور ڈائی کیساتھ ویرا کے دروازے پر آیا تو ان الفاظ کا مطلب سمجھ آنا شروع ہوا۔‏ کتابچے نے ویرا قائل کر دیا کہ نسلِ‌انسانی کے لئے خدا کا یہ مقصد ہے کہ وہ فردوسی زمین پر زندگی سے لطف اُٹھائیں۔‏ (‏مکاشفہ ۲۱:‏۴‏)‏ اس نے ۱۹۳۰ کے دہے کے اوائل میں بپتسمہ لے لیا اور جیسے اس کی ماں نے اس کی حوصلہ‌افزائی کی اس نے اپنی تین بیٹیوں—‏لُوسی،‏ جین اور کیرالی—‏کی خدا سے محبت کو فروغ دینے کے لئے مدد کی۔‏ تاہم،‏ کیرالی کے باپ نے اپنے خاندان کی مذہبی دلچسپی کے باعث سخت مخالفت کی جیسے یسوع خبردار کر چکا تھا کہ خاندان کے اندر ایسا ہوگا۔‏—‏متی ۱۰:‏۳۴-‏۳۶‏۔‏

کلوگن خاندان موسیقی کی صلاحیت رکھتا تھا ان کے بچوں میں سے ہر ایک ساز بجانا جانتا تھا۔‏ کیرالی وائلن بجانا جانتی تھی اور ۱۹۳۹ میں ۱۵ سال کی عمر میں اسے موسیقی میں ڈپلومہ دیا گیا تھا۔‏ دوسری جنگِ‌عظیم کے چھڑ جانے سے کیرالی نے اپنے مستقبل کی بابت سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا۔‏ اس کیلئے فیصلہ کرنے کا وقت آ گیا کہ وہ اپنی زندگی کیساتھ کیا کریگی۔‏ ایک طرف موسیقی میں کیرئیر کا امکان تھا۔‏ اسے میلبورن میں سمفونی آرکسٹرا بجانے کی دعوت پہلے ہی مل چکی تھی۔‏ اس کی دوسری جانب اسے بادشاہتی منادی کے عظیم کام کیلئے اپنا وقت وقف کرنے کا امکان حاصل تھا۔‏ کافی سوچنے کے بعد،‏ کیرالی اور اس کی دو بہنوں نے ۱۹۴۰ میں بپتسمہ لیا اور کُل‌وقتی بادشاہتی کام کیلئے تیاریاں کرنے لگیں۔‏

کیرالی نے فوراً ہی کُل‌وقتی خدمت کے لئے ارادہ کر لیا جب آسٹریلیا برانچ سے ایک ذمہ‌دار بھائی لائیڈ بیری اُس کے پاس آیا جنہوں نے بعدازاں یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی کے ایک رکن کے طور پر خدمت انجام دی۔‏ اس نے میلبورن میں ایک تقریر دینے کے بعد کیرالی سے کہا:‏ ”‏مَیں ابھی بیت‌ایل جا رہا ہوں۔‏ آپ میرے ساتھ ریل‌گاڑی میں بیت‌ایل خاندان کیوں نہیں چلتی؟‏“‏ اس نے خوشی کیساتھ اس دعوت کو قبول کر لیا۔‏

کیرالی اور بیت‌ایل خاندان کی دیگر بہنوں نے جنگ کے سالوں میں پابندی کے دوران آسٹریلیا کے بھائیوں کیلئے بائبل مطبوعات پہنچانے میں اہم کردار ادا کِیا۔‏ درحقیقت اُنہوں نے بھائی میلکم ویل کی نگرانی میں زیادہ چھپائی کا کام کِیا۔‏ کتابیں دی نیو ورلڈ اور چلڈرن چھاپی اور مجلد کی گئیں اور دو سال سے زائد عرصہ کی پابندی کے دوران مینارِنگہبانی کے تمام شمارے شائع ہوئے۔‏

پولیس سے بچنے کے لئے چھاپہ‌خانے کو ۱۵ مرتبہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا۔‏ ایک معاملے میں،‏ بائبل لٹریچر کو اس عمارت کے تہہ‌خانے میں چھاپا گیا جس میں مختلف طرح سے چھپائی کی جاتی تھی۔‏ استقبالیہ میں بیٹھی بہن ایک بٹن دباتی جس سے خطرے کی صورت میں ایک گھنٹی بجتی اس طرح وہاں موجود بہنیں تفتیش شروع ہونے سے پہلے مطبوعات کو چھپا دیتی تھیں۔‏

ایسی ہی ایک تفتیش کے دوران،‏ بعض بہنیں ڈر گئیں جب انہیں پتا چلا کہ مینارِنگہبانی کی ایک کاپی سامنے میز پر پڑی ہے۔‏ پولیس والا آیا اور اُس نے عین مینارِنگہبانی کے اُوپر اپنا بریف کیس رکھ دیا اور تفتیش شروع کر دی۔‏ کچھ نہ ملنے پر اس نے اپنا بریف کیس اُٹھایا اور چل دیا!‏

پابندی اُٹھائے جانے اور بھائیوں کو برانچ کی املاک واپس کر دئے جانے کے بعد بہتیروں کو سپیشل پائنیروں کے طور پر میدان میں جانے کا موقع دیا گیا۔‏ اس وقت کیرالی نے گلن‌انز جانے کیلئے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کِیا۔‏ مَیں وہاں جا کر اس سے ملا جب ہم نے یکم جنوری ۱۹۴۸ کو شادی کر لی۔‏ جب ہم نے اس تفویض کو چھوڑا تو وہاں ایک ترقی‌پذیر کلیسیا قائم ہو چکی تھی۔‏

ہماری اگلی تفویض راک‌ہمپٹن تھی مگر ہم وہاں کوئی رہائش حاصل نہ کر پائے۔‏ پس ہم نے وہاں دلچسپی لینے والے شخص کے کھیت کی کھلی جگہ میں ایک خیمہ تان لیا۔‏ اس خیمے کو اگلے نو ماہ کے لئے ہمارا گھر ہونا تھا۔‏ یہ دیر تک رہ سکتا تھا مگر جب بارش کا موسم آیا تو ایک گرم‌مرطوب طوفان نے خیمے کو تباہ کر دیا اور مون‌سون کی بارشیں اسے بہا لے گئیں۔‏ *

ہماری غیرملکی تفویض میں منتقلی

راک‌ہمپٹن میں رہتے ہوئے ہمیں مشنری تربیت دینے کی خاطر واچ‌ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی ۱۹ ویں کلاس میں حاضر ہونے کیلئے ایک دعوت‌نامہ موصول ہوا۔‏ چنانچہ ۱۹۵۲ میں فارغ‌التحصیل ہونے کے بعد،‏ ہمیں اس وقت کے جنوب‌مغربی افریقہ میں بھیج دیا گیا۔‏

بغیر کسی تاخیر کے دُنیائےمسیحیت کے پادریوں نے ظاہر کر دیا کہ وہ ہمارے مشنری کام کی بابت کیسا محسوس کرتے ہیں۔‏ ہر اتوار کو لگاتار چھ ہفتوں کیلئے،‏ اُنہوں نے پلپٹ‌فارم سے ہماری بابت اپنی کلیسیاؤں کو خبردار کرنا شروع کر دیا۔‏ اُنہوں نے لوگوں کو بتایا کہ ہمارے لئے اپنے دروازے نہ کھولیں اور نہ ہمیں بائبل سے پڑھنے دیں کیونکہ اس سے وہ ابتری میں پڑ جائینگے۔‏ ایک علاقے میں،‏ ہم نے کئی مطبوعات چھوڑیں لیکن پادری نے گھرباگھر ہمارا پیچھا کِیا اور ان مطبوعات کو واپس لے لیا۔‏ ایک دن ہماری بات‌چیت پادری کے مطالعہ کے کمرے میں ہو گئی اور ہم نے دیکھا کہ اس کے پاس ہماری کافی زیادہ کتابیں ہیں۔‏

کچھ ہی دیر میں مقامی حکام نے بھی ہماری سرگرمیوں کی بابت اپنی فکرمندی دکھانا شروع کر دی۔‏ اس میں کوئی شک نہیں کہ پادریوں کے اُبھارنے پر اُنہوں نے ہم پر شک کرنا شروع کر دیا کہ شاید ہمارے کمیونسٹوں سے روابط ہیں۔‏ پس ہماری انگلیوں کے نشان لئے گئے اور جن لوگوں کے پاس ہم گئے تھے ان سے بھی تفتیش کی گئی۔‏ اس سب مخالفت کے باوجود،‏ ہماری کلیسیا کی حاضری آہستہ آہستہ بڑھنے لگی۔‏

اپنے قیام کے آغاز ہی سے،‏ ہم نے اوآمبو،‏ ہیریرو اور ناما کی مقامی آبادی میں بائبل پیغام پھیلانے کی شدید خواہش پیدا کر لی۔‏ تاہم،‏ یہ آسان نہیں تھا۔‏ ان دنوں میں،‏ جنوب‌مغربی افریقہ،‏ جنوبی افریقہ کی نسلی امتیاز روا رکھنے والی حکومت کے اختیار کے تحت تھا۔‏ سفیدفام کے طور پر ہمیں سیاہ‌فام علاقوں میں گواہی دینے کی اجازت نہیں تھی۔‏ وقتاًفوقتاً،‏ ہم نے درخواست دی مگر حکامِ‌بالا نے ہمیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔‏

ہماری غیرملکی تفویض کے دو سال بعد،‏ ہمارے لئے ایک غیرمتوقع بات واقع ہوئی۔‏ کیرالی حاملہ تھی۔‏ اکتوبر ۱۹۵۵ میں،‏ ہماری بیٹی شارلٹ پیدا ہوئی۔‏ اگرچہ ہم اب مشنریوں کے طور پر خدمت نہیں کر سکتے تھے توبھی مَیں پارٹ ٹائم ملازمت حاصل کرنے کے لائق ہو گیا اور پائنیر کے طور پر اپنی خدمت جاری رکھی۔‏

ہماری دُعاؤں کا جواب

سن ۱۹۶۰ میں،‏ ہم نے ایک اَور چیلنج کا سامنا کِیا۔‏ کیرالی کو ایک خط موصول ہوا جس پر لکھا تھا کہ اس کی ماں بہت بیمار ہے اگر کیرالی نہ آئی تو شاید وہ اسے دوبارہ نہ دیکھ سکے۔‏ پس ہم نے جنوب‌مغربی افریقہ چھوڑ کر آسٹریلیا واپس آنے کی منصوبہ‌سازی کی۔‏ اسی ہفتہ میں جب ہم روانہ ہونے والے تھے کہ مجھے مقامی حکام کی طرف سے سیاہ‌فام ٹاؤن‌شپ،‏ کتوتورا میں داخل ہونے کا اجازت‌نامہ مل گیا۔‏ اب ہم کیا کرینگے؟‏ کیا اس اجازت‌نامے کو واپس کر دینگے جس کیلئے ہم نے سات سال تک جدوجہد کی تھی؟‏ یہ سوچنا آسان تھا کہ دیگر اس کام کو کر سکتے ہیں جو ہم نے شروع کِیا تھا۔‏ لیکن کیا یہ برکت یہوواہ کی طرف سے ہماری دُعاؤں کا جواب نہیں تھی؟‏

مَیں نے فوراً ارادہ کر لیا۔‏ مَیں مُلک کو نہیں چھوڑونگا مجھے اس بات کا بھی ڈر تھا کہ اگر ہم آسٹریلیا چلے جاتے ہیں تو یہاں پر ہماری مستقل رہائش خطرے میں پڑے جائے گی۔‏ اگلے روز مَیں نے اپنی بکنگ منسوخ کرا دی اور کیرالی اور شارلٹ کو لمبی چھٹی کیلئے آسٹریلیا بھیج دیا۔‏

جب وہ چلے گئے تو مَیں نے سیاہ‌فام ٹاؤن‌شپ میں گواہی دینا شروع کر دیا۔‏ بہت زیادہ دلچسپی دکھائی گئی۔‏ جب کیرالی اور شارلٹ واپس آئیں تو سیاہ‌فام ٹاؤن‌شپ سے کئی لوگ ہمارے اجلاسوں پر حاضر ہو رہے تھے۔‏

اس وقت تک،‏ میرے پاس ایک پُرانی کار تھی جس کیساتھ مَیں دلچسپی لینے والے اشخاص کو اجلاسوں پر لایا کرتا تھا۔‏ مَیں ہر اجلاس کیلئے پانچ چکر لگاتا اور ہر مرتبہ سات،‏ آٹھ یا نو لوگوں کو لے کر آتا۔‏ جب آخری شخص اُترتا تو کیرالی مذاقاً کہتی:‏ ”‏آپ کی سیٹ کے نیچے اَور کتنے ہیں؟‏“‏

منادی کے کام میں اَور زیادہ مؤثر ہونے کے لئے،‏ ہم نے مقامی لوگوں کی زبان میں لٹریچر کی ضرورت محسوس کی۔‏ پس مجھے اشتہار لائف ان اے نیو ورلڈ کا چار مقامی زبانوں ہیریرو،‏ ناما،‏ نڈونگا اور کواناما میں ترجمہ کرنے کا انتظام کرنے کا شرف ملا۔‏ مترجمین تعلیم‌یافتہ لوگ تھے جن کے ساتھ مَیں بائبل مطالعہ کر رہا تھا لیکن مجھے ان کے ساتھ یہ یقین کرنے کے لئے کہ ہر جملے کا ٹھیک ترجمہ کِیا گیا ہے ان کے ساتھ بیٹھنا پڑتا تھا۔‏ ناما کی زبان میں ذخیرۂالفاظ بہت کم ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ مَیں یہ نکتہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا:‏ ”‏شروع میں آدم ایک کامل انسان تھا۔‏“‏ مترجم نے اپنا سر کھجا کر کہا کہ ”‏کامل“‏ کے لئے اُسے ناما میں کوئی لفظ یاد نہیں آتا ہے۔‏ ”‏آ گیا،‏“‏ اس نے بالآخر کہا۔‏ ”‏شروع میں آدم ایک پکے ہوئے آڑو کی طرح تھا۔‏“‏

اپنے تفویض‌کردہ مُلک میں مطمئن

تقریباً ۴۹ سال گزر چکے ہیں جب ہم اس مُلک میں آئے تھے جس کا نام اس وقت نیمبیا ہے۔‏ اب سیاہ‌فام علاقوں میں جانے کے لئے اجازت‌نامہ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ نیمبیا پر اب ایک نئی حکومت حکمرانی کر رہی ہے جس کی بنیاد غیرنسلی آئین پر ہے۔‏ آجکل،‏ ونڈہوک میں چار بڑی کلیسیائیں ہیں جو آرام‌دہ کنگڈم‌ہالوں میں جمع ہوتی ہیں۔‏

ہم اکثر ان الفاظ کی بابت سوچتے ہیں جنہیں ہم نے گلئیڈ میں سنا تھا:‏ ”‏اپنی غیرملکی تفویض کو اپنا گھر بناؤ۔‏“‏ جس طریقے سے یہوواہ معاملات کو عمل میں لایا ہے ہم اس سے قائل ہیں کہ یہ اس کی مرضی تھی کہ یہ پردیس ہمارا گھر بن جائے۔‏ ہمیں بھائیوں سے ان کی مختلف ثقافتوں سمیت محبت ہو گئی ہے۔‏ ہم ان کی خوشیوں میں ہنسے ہیں اور ان کے غموں میں روئے بھی ہیں۔‏ ان میں بعض نئے اشخاص جو ہماری کار میں بیٹھ کر اجلاسوں پر آتے تھے اب اپنی کلیسیاؤں میں ستونوں کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔‏ جب ہم ۱۹۵۳ میں اس وسیع مُلک میں آئے تھے تو اُس وقت خوشخبری کی منادی کرنے والے دس مقامی پبلشروں سے بھی کم تھے۔‏ اس مختصر سے آغار کے ساتھ ہماری تعداد ۲۰۰،‏۱ سے بھی بڑھکر گئی ہے۔‏ اپنے وعدے کے مطابق،‏ یہوواہ نے وہاں برکت دی ہے جہاں ہم اور دیگر نے ’‏لگایا اور پانی دیا ہے۔‏‘‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۶‏۔‏

جب ہم مڑ کر بہتیرے خدمتی سالوں کو پہلے آسٹریلیا اور اس وقت نیمبیا میں دیکھتے ہیں تو کیرالی اور مجھے گہری تسکین ملتی ہے۔‏ ہم اُمید رکھتے اور دُعا کرتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں اب اور ہمیشہ اپنی مرضی پوری کرنے کیلئے طاقت دیتا رہیگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 22 ایک ہیجان‌خیز گم‌نام سرگزشت کہ کیسے والڈرن نے اس مشکل تفویض کو برداشت کِیا اسے دی واچ‌ٹاور دسمبر ۱،‏ ۱۹۵۲ صفحہ ۷۰۷،‏ ۷۰۸ میں بیان کِیا گیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

راک‌ہمپٹن،‏ آسٹریلیا میں اپنی تفویض کیلئے جاتے ہوئے

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

گلئیڈ سکول کی طرف جاتے ہوئے بندرگاہ پر

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

نیمبیا میں گواہی دینا ہمیں کافی خوشی بخشتا ہے