مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یشوع نے کیا یاد رکھا

یشوع نے کیا یاد رکھا

یشوع نے کیا یاد رکھا

یہوواہ نے فرمایا،‏ ”‏میرا بندہ موسیٰؔ مر گیا ہے سو اب تُو اُٹھ اور ان سب لوگوں کو ساتھ لیکر اس یرؔدن کے پار اُس مُلک میں جا جسے مَیں اُنکو یعنی بنی‌اسرائیل کو دیتا ہوں۔‏“‏ (‏یشوع ۱:‏۲‏)‏ یشوع کے سامنے کتنا بڑا کام تھا!‏ وہ تقریباً ۴۰ برس سے موسیٰ کا خادم ہے۔‏ اب اُسے اپنے آقا کی جگہ لینے اور اکثر سرکشی کرنے والی قوم بنی‌اسرائیل کو موعودہ مُلک میں لیجانے کا حکم دیا گیا تھا۔‏

جب یشوع نے مستقبل کی تفویض پر غور کِیا ہوگا تو شاید اُس کے ذہن میں ماضی کی وہ مشکلات آئی ہوں جن کا اُس نے سامنا کِیا اور جن  پر وہ غالب بھی آیا تھا۔‏ بلاشُبہ،‏ یشوع نے جوکچھ یاد رکھا وہ اُس وقت اُس کے لئے بیش‌قیمت تھا اور آج مسیحیوں کے لئے بھی ایسا ہی ثابت ہو سکتا ہے۔‏

غلام سے پیشوا تک

یشوع کو یقیناً غلامی کے طویل سال بھی یاد تھے۔‏ (‏خروج ۱:‏۱۳،‏ ۱۴؛‏ ۲:‏۲۳‏)‏ اُس دوران یشوع کو کس قِسم کے تجربات ہوئے ہم اس کا صرف تصور ہی کر سکتے ہیں کیونکہ بائبل اس سلسلے میں زیادہ کچھ بیان نہیں کرتی۔‏ مصر میں اپنی خدمت کے دوران یشوع نے ایک اچھا منتظم بننا سیکھا ہوگا اور شاید عبرانیوں اور ”‏ایک ملی‌جلی گروہ“‏ کو نکالنے میں معاونت بھی کی ہوگی۔‏—‏خروج ۱۲:‏۳۸‏۔‏

یشوع کا تعلق افرائیم کے قبیلے سے تھا۔‏ اُس کا دادا الیسمع قبیلے کا سردار تھا اور غالباً ۱۰۰،‏۰۸،‏۱ مسلح اسرائیلی آدمیوں کے لشکر کا سردار تھا۔‏ (‏گنتی ۱:‏۴،‏ ۱۰،‏ ۱۶؛‏ ۲:‏۱۸-‏۲۴؛‏ ۱-‏تواریخ ۷:‏۲۰،‏ ۲۶،‏ ۲۷‏)‏ تاہم،‏ اسرائیلیوں کے مصر سے روانہ ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد جب عمالیقیوں نے اسرائیل پر حملہ کِیا تو موسیٰ نے یشوع کو لڑائی کے لئے جانے کا حکم دیا تھا۔‏ (‏خروج ۱۷:‏۸،‏ ۹الف‏)‏ لیکن یشوع ہی کو کیوں،‏ اُس کے دادا یا باپ کو کیوں  نہیں؟‏ ایک رائے یہ ہے:‏ ”‏افرائیم کے خاص قبیلے کا سردار ہونے اور منظم کرنے کی اُس کی مہارتوں اور اُس پر لوگوں کے اعتماد کو جانتے ہوئے موسیٰ  نے لڑنے کے لئے یشوع کا ہی ایک بہترین پیشوا کے طور پر انتخاب کِیا تھا۔‏“‏

اس کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو،‏ یشوع نے موسیٰ کے حکم کے مطابق کام کِیا۔‏ اگرچہ اسرائیلی جنگ کے سلسلے میں بالکل ناتجربہ‌کار تھے،‏ توبھی یشوع الہٰی مدد پر یقین رکھتا تھا۔‏ پس جب موسیٰ نے اُسے بتایا،‏ ”‏مَیں کل خدا کی لاٹھی اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا رہونگا“‏ تو یہ اُس کے لئے کافی تھا۔‏ یشوع کو یاد ہوگا کہ کچھ ہی عرصہ پہلے یہوواہ نے اُس وقت کی سب سے طاقتور فوج کو تباہ‌وبرباد کر دیا تھا۔‏ لہٰذا،‏ اگلے ہی دن جب موسیٰ نے سورج غروب ہونے تک اپنے ہاتھ اُٹھائے رکھے تو کوئی دُشمن اسرائیل کا مقابلہ نہ کر سکا اور عمالیقیوں کو شکست ہوئی۔‏ ”‏تب [‏یہوواہ]‏ نے موسیٰؔ سے کہا اِس بات کی یادگاری کے لئے کتاب میں لکھ دے اور یشوؔع کو سنا دے کہ مَیں عماؔلیق کا نام‌ونشان دُنیا سے بالکل مٹا دونگا۔‏“‏ (‏خروج ۱۷‏:‏۹ب-‏۱۴)‏ یہوواہ یقیناً اُنہیں سزا دیگا۔‏

موسیٰ کا خادم

عمالیق کے تجربے نے یقیناً یشوع اور موسیٰ کے مابین رشتے کو اَور زیادہ مضبوط کر دیا ہوگا۔‏ یشوع کو چھوٹی عمر ہی سے موسیٰ کی وفات یعنی کوئی ۴۰ برس تک اُسکا ”‏خادم“‏ رہنے کا اعزاز حاصل تھا۔‏—‏گنتی ۱۱:‏۲۸‏۔‏

اس خاص عہدے کا مطلب مخصوص استحقاق اور ذمہ‌داریاں تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب موسیٰ،‏ ہارون،‏ ہارون کے بیٹے اور اسرائیل کے ۷۰ بزرگ کوہِ‌سینا پر چڑھے اور یہوواہ کے جلال کا نظارہ دیکھا تو بہت اغلب ہے کہ یشوع بھی اِن میں شامل تھا۔‏ خادم کے طور پر،‏ وہ موسیٰ کیساتھ پہاڑ پر کافی آگے تک چلا گیا مگر جب موسیٰ یہوواہ کی حضوری کو ظاہر کرنے والے بادل میں داخل ہوا تو وہ تھوڑے فاصلے پر کھڑا رہا۔‏ حیران‌کُن بات ہے کہ یشوع ۴۰ دن اور رات پہاڑ پر ہی ٹھہرا رہا تھا۔‏ وہ وفاداری سے اپنے مالک کا منتظر تھا کیونکہ جب موسیٰ شہادت کی لوحیں لئے نیچے اُترا تو یشوع اُسکے ہمراہ تھا۔‏—‏خروج ۲۴:‏۱،‏ ۲،‏ ۹-‏۱۸؛‏ ۳۲:‏۱۵-‏۱۷‏۔‏

سونے کے بچھڑے کی پرستش کے واقعہ کے بعد بھی یشوع موسیٰ کیساتھ لشکرگاہ کے باہر لگائے گئے خیمۂ‌اجتماع میں خدمت انجام دیتا رہا۔‏ وہاں یہوواہ نے موسیٰ سے رُوبرو باتیں کیں۔‏ مگر جب موسیٰ لشکرگاہ میں واپس آتا تو یشوع ”‏خیمہ سے باہر نہیں نکلتا تھا۔‏“‏ خیمۂ‌اجتماع میں اُس کی موجودگی شاید اسرائیلیوں کو ناپاک حالت میں اندر آنے سے روکنے کیلئے ضروری تھی۔‏ یشوع نے کسقدر سنجیدگی سے اس ذمہ‌داری کو پورا کِیا!‏—‏خروج ۳۳:‏۷،‏ ۱۱‏۔‏

مؤرخ یوسیفس کے مطابق،‏ یشوع کی موسیٰ کیساتھ رفاقت جو اُس  سے ۳۵ برس بڑا تھا یقیناً اُسکے ایمان کی مضبوطی کا باعث بنی ہوگی۔‏ اُنکے رشتے کو ”‏رسیدگی اور نوعمری،‏ اُستاد اور شاگرد کا رشتہ“‏ کہا گیا ہے جو کہ یشوع کے ”‏ایک مضبوط اور قابلِ‌اعتماد شخص“‏ بننے کا باعث بنا تھا۔‏ ہمارے درمیان موسیٰ جیسے نبی تو نہیں مگر یہوواہ کے لوگوں کی کلیسیاؤں میں عمررسیدہ اشخاص ہوتے ہیں جو اپنے تجربے اور روحانیت کی وجہ سے تقویت اور حوصلہ‌افزائی کا حقیقی ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔‏ کیا آپ اُنکی قدر کرتے ہیں؟‏ نیز کیا آپ اُنکی رفاقت سے استفادہ کر رہے ہیں؟‏

کنعان میں ایک جاسوس

اسرائیل کے شریعت حاصل کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد یشوع  کی زندگی میں ایک اہم موڑ آیا۔‏ اُسے موعودہ مُلک کی بابت دریافت کرنے کے کام میں اپنے قبیلے کی نمائندگی کرنے کے لئے منتخب کِیا گیا۔‏ یہ واقعہ کافی مشہور ہے۔‏ بارہ کے بارہ جاسوس اس بات سے متفق تھے کہ جیسا یہوواہ نے وعدہ کِیا تھا اُس مُلک میں واقعی ”‏دودھ اور شہد“‏ بہتا ہے۔‏ تاہم،‏ دس نے بےاعتمادی کیساتھ یہ خدشہ ظاہر کِیا کہ اسرائیلی اُس مُلک کے باشندوں کو نہیں نکال سکیں گے۔‏ صرف یشوع اور کالب ہی نے لوگوں کو ہراساں نہ ہونے اور بغاوت نہ کرنے کی تاکید کی کیونکہ یہوواہ یقیناً اُن کے ساتھ ہوگا۔‏ اس بات پر ساری جماعت نے احتجاج کِیا کہ اِنہیں سنگسار کِیا جانا چاہئے۔‏ اگر یہوواہ نے اپنے جلال کے ذریعے مداخلت نہ کی ہوتی تو شاید وہ ایسا کر چکے ہوتے۔‏ اُن کے ایمان کی کمی کی وجہ سے خدا نے حکم دیا کہ ۲۰ سال سے اُوپر کی عمر کا کوئی اسرائیلی کنعان کے مُلک میں داخل نہ ہونے پائے گا۔‏ صرف یشوع،‏ کالب اور لاوی بچیں گے۔‏—‏گنتی ۱۳:‏۱-‏۱۶،‏ ۲۵-‏۲۹؛‏ ۱۴:‏۶-‏۱۰،‏ ۲۶-‏۳۰‏۔‏

کیا سب لوگ مصر میں یہوواہ کے عظیم کاموں کا مشاہدہ نہیں  کر  چکے  تھے؟‏ پس،‏ اکثریت کے شک کرنے کے باوجود،‏ کس چیز نے یشوع کو خدا کی طرف سے مدد پر یقین رکھنے کے قابل بنایا؟‏ یشوع نے وہ سب کچھ یاد رکھا جسکا وعدہ یہوواہ نے کِیا تھا اور پھر اس پر غوروخوض بھی کِیا۔‏ سالوں بعد وہ کہہ سکتا تھا کہ ’‏اُن سب اچھی باتوں میں سے جو یہوواہ نے تمہارے حق میں کہیں ایک بات بھی نہ چُھوٹی۔‏ سب تمہارے حق میں پوری ہوئیں اور ایک بھی رہ نہ گئی۔‏‘‏ (‏یشوع ۲۳:‏۱۴‏)‏ لہٰذا یشوع کو کامل اعتماد تھا کہ مستقبل کی بابت یہوواہ نے جتنے وعدے کئے ہیں وہ سب کے سب یقیناً پورے ہونگے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۶‏)‏ اس سے ایک شخص کو یہ پوچھنے کی تحریک مل سکتی ہے:‏ ’‏میری بابت کیا ہے؟‏ مَیں نے یہوواہ کے وعدوں کا مطالعہ اور غوروخوض کرنے کے لئے جتنا وقت مختص کِیا ہے کیا اُس نے مجھے اُن کے قابلِ‌بھروسا ہونے کا یقین دلایا ہے؟‏ کیا مَیں یہ ایمان رکھتا ہوں کہ آنے والی بڑی مصیبت کے دوران یہوواہ مجھے اپنے لوگوں کے ساتھ بچائے گا؟‏‘‏

یشوع نے نہ صرف ایمان بلکہ دلیری کا بھی مظاہرہ کِیا تھا۔‏ وہ اور کالب دونوں ایک طرف تھے جبکہ باقی ساری جماعت اُنہیں سنگسار کرنے پر اصرار کر رہی تھی۔‏ آپ نے کیسا محسوس کِیا ہوتا؟‏ کیا آپ ڈر جاتے؟‏ یشوع نہیں ڈرا تھا۔‏ کالب اور یشوع نے دلیری کیساتھ جو دیکھا وہ بیان کِیا۔‏ یہوواہ کے لئے وفاداری ہم سے بھی کبھی نہ کبھی ایسا کرنے کا تقاضا کر سکتی ہے۔‏

جاسوسوں کا واقعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ یشوع کا نام تبدیل کر دیا گیا تھا۔‏ اُس کے اصل نام ہوسیع بمعنی ”‏نجات“‏ کیساتھ موسیٰ نے الہٰی نام کو ظاہر کرنے کے لئے لفظی اضافہ کِیا اور اُس کا نام یشوع بمعنی ”‏یہوواہ نجات ہے“‏ رکھ دیا۔‏ سپتواُجنتا اُسکا نام ”‏یسوع“‏ بیان کرتا ہے۔‏ (‏گنتی ۱۳:‏۸،‏ ۱۶‏)‏ اس عظیم نام کے عین مطابق،‏ یشوع نے دلیری کیساتھ یہ اعلان کِیا کہ یہوواہ نجات ہے۔‏ یشوع کا نام محض اتفاقاً تبدیل نہیں کِیا جا سکتا تھا۔‏ یہ اُس عزت کو ظاہر کرتا ہے جو موسیٰ یشوع کے لئے رکھتا تھا اور یشوع کے متشرف کردار کی عکاسی کرتا ہے جو اُسے نئی نسل کو موعودہ مُلک میں لیجانے کے لئے ادا کرنا ہوگا۔‏

اسرائیلیوں کے آباؤاجداد کے وفات پانے تک اُنہیں بیابان میں پھرتے ہوئے ۴۰ برس گزر چکے تھے۔‏ اُس وقت کے دوران یشوع کی بابت ہم کچھ نہیں جانتے۔‏ تاہم،‏ اُس نے اس تمام سے بہت کچھ سیکھا ہوگا۔‏ اُس نے یقیناً سرکش قورح،‏ داتن اور ابیرام،‏ اُن کے پیروکاروں اور بعل‌فغور کی پرستش کرنے والے لوگوں کے خلاف یہوواہ کی سزا کا مشاہدہ کِیا ہوگا۔‏ بِلاشُبہ،‏ یشوع کو یہ جان کر انتہائی افسوس ہوا ہوگا کہ مریبہ کے چشمہ پر موسیٰ کے یہوواہ کی تقدیس کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے وہ بھی موعودہ مُلک میں داخل نہ ہو سکے گا۔‏—‏گنتی ۱۶:‏۱-‏۵۰؛‏ ۲۰:‏۹-‏۱۳؛‏ ۲۵:‏۱-‏۹‏۔‏

موسیٰ کا جانشین

جب موسیٰ وفات پانے کے قریب تھا تو اُس نے خدا سے درخواست کی کہ کسی کو اُسکا جانشین مقرر کر دے تاکہ اسرائیل ”‏اُن بھیڑوں کی مانند نہ رہے جنکا کوئی چرواہا نہیں۔‏“‏ یہوواہ نے جواب دیا کہ یشوع جس میں ”‏روح ہے اُسے ساری جماعت کے رُوبرو کھڑا کِیا جائے۔‏ اُنہوں نے اُس کی فرمانبرداری کرنی تھی۔‏ کیا ہی عمدہ سفارش!‏ یہوواہ یشوع کا ایمان اور قابلیت دیکھ چکا تھا۔‏ اسرائیل کی قیادت کرنے کے لائق اس سے بہتر کوئی نہیں تھا۔‏ (‏گنتی ۲۷:‏۱۵-‏۲۰‏)‏ تاہم،‏ موسیٰ جانتا تھا کہ یشوع کو بیشمار چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔‏ لہٰذا موسیٰ نے اپنے جانشین کو کہا کہ ”‏مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ“‏ کیونکہ یہوواہ اُسکے ساتھ رہیگا۔‏—‏استثنا ۳۱:‏۷،‏ ۸‏۔‏

خدا نے خود بھی یشوع کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہوئے فرمایا:‏ ”‏تُو فقط مضبوط اور نہایت دلیر ہو جا کہ احتیاط رکھ کر اُس ساری شریعت پر عمل کرے جسکا حکم میرے بندہ موسیٰؔ نے تجھ کو دیا۔‏ اُس سے نہ دہنے ہاتھ مڑنا اور نہ بائیں تاکہ جہاں کہیں تو جائے تجھے خوب کامیابی حاصل ہو۔‏ شریعت کی یہ کتاب تیرے مُنہ سے نہ ہٹے بلکہ تجھے دن اور رات اسی کا دھیان ہو تاکہ جو کچھ اس میں لکھا ہے اُس سب پر تو احتیاط کر کے عمل کر سکے کیونکہ تب ہی تجھے اقبالمندی کی راہ نصیب ہو گی اور تو خوب کامیاب ہو گا۔‏ کیا مَیں نے تجھ کو حکم نہیں دیا؟‏ سو مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ۔‏ خوف نہ کھا اور بیدل نہ ہو کیونکہ [‏یہوواہ]‏ تیرا خدا جہاں جہاں تو جائے تیرے ساتھ رہیگا۔‏“‏—‏یشوع ۱:‏۷-‏۹‏۔‏

یہوواہ کے اِن الفاظ کی بازگشت اور پہلے سے حاصل‌کردہ تجربے کیساتھ یشوع کیسے شک کر سکتا تھا؟‏ مُلک کا فتح کِیا جانا یقینی تھا۔‏ بِلاشُبہ مشکلات پیش آنی تھیں جن میں سرِفہرست لباب‌لب بھرے دریائےیردن کو عبور کرنا تھا۔‏ تاہم،‏ یہوواہ کا حکم تھا:‏ ”‏اُٹھ اور ان سب لوگوں کو ساتھ لیکر اس یرؔدن کے پار .‏ .‏ .‏ جا۔‏“‏ پس مشکل کیا تھی؟‏—‏یشوع ۱:‏۲‏۔‏

یشوع کی زندگی میں آنے والے یکےبعددیگرے واقعات—‏یریحو کی فتح،‏ اپنے دُشمنوں پر بتدریج فتح اور مُلک کی تقسیم—‏ظاہر کرتے ہیں کہ اُس نے کبھی بھی خدا کے وعدوں کو معمولی خیال نہیں کِیا تھا۔‏ اپنی زندگی کے آخری ایّام میں،‏ جب یہوواہ نے اسرائیل کو اُنکے دُشمنوں سے آرام بخشا تو یشوع نے تمام لوگوں کو جمع کِیا تاکہ اُن سے نہ صرف خدا کے برتاؤ کی بابت گفتگو کرے بلکہ اُنہیں دل‌وجان سے اُس کی خدمت کرنے کی تاکید کرے۔‏ نتیجتاً،‏ اسرائیل نے سنجیدگی کیساتھ خدا کیساتھ اپنے وعدہ کو دہرایا اور بِلاشُبہ اپنے پیشوا کے نمونے سے تحریک پا کر ’‏اسرائیلی یشوع کے جیتے جی یہوواہ کی پرستش کرتے رہے۔‏‘‏—‏یشوع ۲۴:‏۱۶،‏ ۳۱‏۔‏

یشوع ہمارے لئے بھی عمدہ نمونہ فراہم کرتا ہے۔‏ آجکل مسیحیوں کو ایمان کی بیشمار آزمائشوں کا سامنا ہے۔‏ یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور انجام‌کار اُسکے وعدوں کی تکمیل دیکھنے کے لئے اِن آزمائشوں کا مقابلہ کرنا اشد ضروری ہے۔‏ یشوع کی فتح کا انحصار اُس کے مضبوط ایمان پر تھا۔‏ سچ ہے کہ ہم نے یشوع کی طرح یہوواہ کے عظیم کاموں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے لیکن یشوع کے نام سے منسوب بائبل کی کتاب یہوواہ کے وعدوں کی قابلِ‌بھروسا تصدیق کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتی ہے۔‏ یشوع کی طرح ہمیں بھی یقین‌دہانی کرائی گئی ہے کہ اگر ہم روزانہ خدا کے کلام کو پڑھتے اور اس پر احتیاط کیساتھ عمل کرتے ہیں تو ہمیں حکمت اور کامیابی حاصل ہوگی۔‏

کیا آپ کو کبھی‌کبھار ساتھی مسیحیوں کے چال‌چلن سے دُکھ  پہنچتا  ہے؟‏ ذرا  یشوع کی برداشت کا اندازہ لگائیں کہ وہ بےایمان ساتھیوں کی وجہ سے چالیس سال تک صحرا نوردی کرنے پر مجبور تھا۔‏ کیا آپ اپنے  ایمان کی خاطر ثابت‌قدم رہنا مشکل پاتے ہیں؟‏ ذرا یاد کریں کہ یشوع اور کالب نے کیا کِیا تھا۔‏ اپنے ایمان اور فرمانبرداری کا اُنہیں شاندار اَجر ملا۔‏ جی‌ہاں،‏ یشوع کا پُختہ ایمان تھا کہ یہوواہ اپنے تمام وعدے پورے کریگا۔‏ دُعا ہے کہ ہماری بابت بھی ایسا ہی ہو۔‏—‏یشوع ۲۳:‏۱۴‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

موسیٰ کیساتھ رفاقت نے یشوع کے ایمان کو مضبوط کِیا

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

یشوع اور کالب یہوواہ کی طاقت پر بھروسا رکھتے تھے

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

یشوع کی قیادت نے لوگوں کو یہوواہ کا وفادار رہنے کی  تحریک دی