مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏خدا کے نزدیک جاؤ“‏

‏”‏خدا کے نزدیک جاؤ“‏

‏”‏خدا کے نزدیک جاؤ“‏

‏”‏خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئیگا۔‏“‏ —‏یعقوب ۴:‏۸‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ انسان اکثر کیا دعویٰ کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یعقوب نے کیا نصیحت کی اور اسکی ضرورت کیا تھی؟‏

‏”‏خدا ہمارے ساتھ ہے۔‏“‏ یہ الفاظ قومی نشانات اور فوجی وردیوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔‏ جدید کرنسی کے بیشمار سکوں اور نوٹوں پر یہ عبارت کندہ کی گئی ہے کہ ”‏ہمارا توکل خدا پر ہے۔‏“‏ انسانوں کیلئے یہ دعویٰ کرنا بڑی عام سی بات ہے کہ وہ خدا کیساتھ بہت قریبی رشتہ رکھتے ہیں۔‏ تاہم،‏ کیا آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ حقیقت میں ایسے قریبی رشتے کیلئے محض نعرےبازی اور اشتہاربازی کافی نہیں ہے؟‏

۲ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ خدا کے ساتھ رشتہ رکھنا ممکن ہے۔‏ تاہم اس کیلئے کوشش درکار ہے۔‏ پہلی صدی کے بعض ممسوح مسیحیوں کو بھی یہوواہ خدا کیساتھ اپنے رشتے کو مضبوط بنانے کی ضرورت تھی۔‏ مسیحی نگہبان یعقوب کو جسمانی رغبتوں اور روحانی پاکیزگی کی کمی کی وجہ سے بعض کو تنبیہ کرنی پڑی تھی۔‏ اس مشورت کیساتھ اُس نے یہ اثرآفرین نصیحت بھی کی:‏ ”‏خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔‏“‏ (‏یعقوب ۴:‏۱-‏۱۲‏)‏ ”‏نزدیک جاؤ“‏ سے یعقوب کا کیا مطلب تھا؟‏

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ یعقوب کے پہلی صدی کے قارئین میں سے بعض کو ”‏خدا کے نزدیک جاؤ“‏ کے اظہار سے کیا یاددہانی کرائی گئی تھی؟‏ (‏ب)‏ ہم کیوں یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا تک رسائی ممکن ہے؟‏

۳ یعقوب نے ایک ایسی اصطلاح استعمال کی جس سے اُس کے بیشتر قارئین واقف تھے۔‏ موسوی شریعت نے کاہنوں کو خاص ہدایات دی تھیں کہ وہ لوگوں کی خاطر کیسے یہوواہ کے ”‏نزدیک آیا“‏ کریں یا اُس تک رسائی کِیا کریں۔‏ (‏خروج ۱۹:‏۲۲‏)‏ لہٰذا یعقوب کے قارئین کو یاددہانی کرائی گئی تھی کہ خدا کے نزدیک جانے کو کوئی معمولی بات خیال نہیں کِیا جانا چاہئے۔‏ یہوواہ کائنات کی بلندترین ہستی ہے۔‏

۴ اسکے برعکس،‏ جیسےکہ ایک بائبل عالم بیان کرتا ہے،‏ ”‏[‏یعقوب ۴:‏۸‏]‏ کی نصیحت اثرآفرین رجائیت کو آشکارا کرتی ہے۔‏“‏ یعقوب جانتا تھا کہ یہوواہ نے ناکامل انسانوں کو ہمیشہ اپنے نزدیک آنے کیلئے مشفقانہ دعوت دی ہے۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۵:‏۲‏)‏ یسوع کی قربانی نے پورے طور سے یہوواہ تک رسائی کرنے کی راہ کھول دی تھی۔‏ (‏افسیوں ۳:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ آجکل خدا تک رسائی کرنے کا راستہ لاکھوں لوگوں کیلئے کھول دیا گیا ہے!‏ تاہم،‏ ہم کیسے اس شاندار موقع سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟‏ مختصراً ہم تین ایسے طریقوں پر غور کرینگے جن سے ہم یہوواہ خدا کے نزدیک جا سکتے ہیں۔‏

خدا کو ”‏جانیں“‏

۵،‏ ۶.‏ نوعمر سموئیل کی مثال کیسے ظاہر کرتی ہے کہ خدا کو ’‏جاننے‘‏ میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۵ یوحنا ۱۷:‏۳ کے مطابق،‏ یسوع نے فرمایا:‏ ”‏ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِ‌واحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔‏“‏ اس آیت کے بیشتر ترجمے نیو ورلڈ ٹرانسلیشن کے ترجمے سے قدرے مختلف ہیں۔‏ یہ کہنے کی بجائے کہ خدا کا ”‏علم حاصل کریں“‏ وہ محض فعل خدا کو ”‏جانیں“‏ یا خدا کو ”‏جاننا“‏ استعمال کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ کئی عالم بیان کرتے ہیں کہ اصلی یونانی زبان میں استعمال ہونے والے لفظ کا مفہوم اس سے زیادہ ہے یعنی یہ ایک جاری عمل کو ظاہر کرتا ہے جو کسی دوسرے شخص کیساتھ قریبی رشتے پر منتج ہو سکتا ہے۔‏

۶ خدا کو قریب سے جاننے کا خیال یسوع کے زمانہ میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔‏ مثال کے طور پر،‏ عبرانی صحائف میں ہم پڑھتے ہیں کہ سموئیل نے اپنے لڑکپن میں ”‏ہنوز [‏یہوواہ]‏ کو نہیں پہچانا تھا۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۳:‏۷‏)‏ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ سموئیل خدا کی بابت بہت کم جانتا تھا؟‏ جی‌نہیں۔‏ یقیناً اُس کے والدین اور کاہنوں نے اُسے کافی تعلیم دی ہوگی۔‏ تاہم،‏ ایک عالم کے مطابق اس آیت میں استعمال ہونے والا عبرانی لفظ ”‏زیادہ قریبی شناسائی“‏ کو ظاہر کرتا ہے۔‏ سموئیل نے ابھی تک یہوواہ کو بہت قریب سے نہیں جانا تھا جیساکہ بعدازاں یہوواہ کے نمائندے کے طور پر خدمت انجام دینے کے دوران جانا تھا۔‏ جوں‌جوں سموئیل بڑھتا گیا اُس نے یہوواہ کیساتھ ذاتی رشتہ قائم کرنے سے واقعی اُس کو جان لیا۔‏—‏۱-‏سموئیل ۳:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

۷،‏ ۸.‏ (‏ا)‏ ہمیں بائبل کی گہری تعلیمات سے خوفزدہ کیوں نہیں ہونا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ خدا کے کلام کی چند گہری سچائیاں کیا ہیں جنکا ہمیں مطالعہ کرنا چاہئے؟‏

۷ کیا آپ یہوواہ سے قریبی شناسائی پیدا کرنے کے لئے اُس کا علم حاصل کر رہے ہیں؟‏ ایسا کرنے کیلئے آپکو اُس روحانی خوراک کا ”‏مشتاق“‏ رہنے کی ضرورت ہے جو خدا فراہم کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲‏)‏ بنیادی باتوں پر اکتفا نہ کریں۔‏ بائبل کی بعض گہری باتوں کو سیکھنے کی کوشش کریں۔‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۲-‏۱۴‏)‏ کیا آپ یہ جانکر بیدل ہو جاتے ہیں کہ یہ تعلیمات بہت مشکل ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو یاد رکھیں کہ یہوواہ ’‏عظیم مُعلم‘‏ ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۳۰:‏۲۰‏)‏ وہ ناکامل انسانوں کے ذہن میں گہری سچائیوں کو منتقل کرنا جانتا ہے۔‏ نیز وہ سمجھنے کیلئے آپکی کاوشوں کو بابرکت بھی بنا سکتا ہے۔‏—‏زبور ۲۵:‏۴‏۔‏

۸ پس ”‏خدا کی تہ کی باتیں“‏ جاننے کے سلسلے میں کیوں نہ اپنا جائزہ لیں؟‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۰‏)‏ یہ ایسے غیردلچسپ موضوعات نہیں جن پر مذہبی عالم یا پیشوا بحث کرتے ہیں۔‏ یہ زندہ عقائد ہیں جو ہمارے شفیق باپ کے دل‌ودماغ تک رسائی کرنے کیلئے حیران‌کُن بصیرت فراہم کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ فدیہ،‏ ”‏بھید“‏ اور اپنے لوگوں کو برکت دینے اور اپنے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے یہوواہ کے مختلف عہود جیسے موضوعات ذاتی تحقیق اور مطالعہ کیلئے خوشگوار اور بااَجر ہیں۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۷‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏ا)‏ غرور کیوں خطرناک ہے اور کیا چیز ہمیں اس سے بچنے میں مدد دے گی؟‏ (‏ب)‏ جب یہوواہ کے علم کی بات آتی ہے تو ہمیں کیوں فروتن بننے کی کوشش کرنی چاہئے؟‏

۹ جب آپ گہری روحانی سچائیوں کے علم میں ترقی کرتے ہیں تو علم سے پیدا ہونے والے خطرے یعنی غرور سے باخبر رہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۸:‏۱‏)‏ غرور خطرناک ہے کیونکہ یہ انسانوں کو خدا سے دُور کر دیتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۶:‏۵؛‏ یعقوب ۴:‏۶‏)‏ یاد رکھیں کہ کسی کے پاس علم کی بدولت شیخی بگھارنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک کتاب کے تمہیدی الفاظ پر غور کریں جو حالیہ سائنسی کامرانیوں کی بابت بیان کرتے ہیں:‏ ”‏جتنا زیادہ ہم جاننے لگتے ہیں،‏ اُتنا ہی زیادہ ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارا علم کتنا محدود ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ جوکچھ ہم سیکھ چکے ہیں وہ اُس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو ہم نے ابھی تک نہیں سیکھا۔‏“‏ ایسی فروتنی واقعی تازگی‌بخش ہے۔‏ اب جب عظیم‌ترین مُعلم یعنی یہوواہ خدا کے علم کی بات آتی ہے تو ہمیں کتنا زیادہ فروتن ہونا چاہئے۔‏ مگر کیوں؟‏

۱۰ یہوواہ کی بابت بائبل کے چند بیانات پر غور کریں۔‏ ”‏تیرے خیال بہت عمیق ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۹۲:‏۵‏)‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے فہم کی انتہا نہیں۔‏“‏ (‏زبور ۱۴۷:‏۵‏)‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی حکمت ادراک سے باہر ہے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۸‏)‏ ”‏واہ!‏ خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے!‏“‏ (‏رومیوں ۱۱:‏۳۳‏)‏ صاف ظاہر ہے کہ ہم کبھی بھی یہوواہ کی بابت سب کچھ نہیں جان سکیں گے۔‏ (‏واعظ ۳:‏۱۱‏)‏ اُس نے ہمیں بیشمار حیران‌کُن باتیں سکھائی ہیں اور یقیناً ہمارے پاس علم کا ایسا بڑا خزانہ رہیگا جس سے ہم زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں گے۔‏ کیا ہم اس امکان کو ہیجان‌خیز اور عاجز کرنے والا نہیں پاتے؟‏ پس جب ہم سیکھتے ہیں تو آئیے اپنے علم کو یہوواہ کی قربت حاصل کرنے اور دوسروں کو ایسا کرنے میں مدد دینے کی بنیاد بنائیں اور کبھی بھی اس کی وجہ سے خود کو دوسروں سے بڑا نہ سمجھیں۔‏—‏متی ۲۳:‏۱۲؛‏ لوقا ۹:‏۴۸‏۔‏

یہوواہ کیلئے اپنی محبت کا اظہار کریں

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏ یہوواہ کی بابت حاصل‌کردہ علم کو ہم پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اس بات کا تعیّن کیسے کِیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص خدا سے حقیقی محبت رکھتا ہے؟‏

۱۱ موزوں طور پر،‏ پولس رسول نے علم اور محبت کے مابین تعلق قائم کِیا تھا۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏یہ دُعا کرتا ہوں کہ تمہاری محبت علم اور ہر طرح کی تمیز کے ساتھ اَور بھی زیادہ ہوتی جاۓ۔‏“‏ (‏فلپیوں ۱:‏۹‏)‏ غرور سے پھولنے کی بجائے،‏ یہوواہ اور اُسکے مقاصد کی بابت ہم جو بھی قیمتی سچائی سیکھتے ہیں اُسے ہمارے آسمانی باپ کیلئے ہماری محبت میں اضافہ کرنا چاہئے۔‏

۱۲ بِلاشُبہ،‏ خدا سے محبت کا دعویٰ کرنے والے بہتیرے لوگ درحقیقت ایسا نہیں کرتے۔‏ ممکن ہے وہ اپنے دلوں میں پیدا ہونے والے شدید جذبات کے سلسلے میں مخلص ہوں۔‏ اگر ایسے جذبات صحیح علم کے مطابق ہیں تو یہ واقعی عمدہ اور قابلِ‌تعریف ہیں۔‏ مگر یہ بذاتِ‌خود خدا کے لئے حقیقی محبت نہیں ہیں۔‏ کیوں نہیں؟‏ غور کریں کہ خدا کا کلام ایسی محبت کی تشریح کیسے کرتا ہے:‏ ”‏خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏)‏ لہٰذا یہوواہ کے لئے حقیقی محبت اطاعت‌شعاری سے ظاہر کی جاتی ہے۔‏

۱۳.‏ خدائی خوف ہمیں یہوواہ کے لئے محبت ظاہر کرنے میں کیسے مدد دیگا؟‏

۱۳ خدائی خوف ہمیں خدا کی فرمانبرداری کرنے میں مدد دیگا۔‏ یہوواہ کے لئے مؤدبانہ خوف اور احترام اُس کا علم حاصل کرنے،‏ اُس کی لامحدود قدوسیت،‏ جلال،‏ طاقت،‏ انصاف،‏ حکمت اور محبت کی بابت سیکھنے سے پیدا ہوتا ہے۔‏ خدا کے نزدیک جانے کیلئے ایسا خوف انتہائی ضروری ہے۔‏ غور کریں کہ زبور ۲۵:‏۱۴ کیا بیان کرتی ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے راز کو وہی جانتے ہیں جو اُس سے ڈرتے ہیں۔‏“‏ پس اگر ہم اپنے شفیق آسمانی باپ کو ناراض نہ کرنے کا خوشگوار ڈر رکھتے ہیں تو ہم اُس کے نزدیک جا سکتے ہیں۔‏ خدائی خوف ہمیں امثال ۳:‏۶ میں درج دانشمندانہ مشورت پر دھیان دینے میں مدد دیگا:‏ ”‏اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔‏“‏ اسکا کیا مطلب ہے؟‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ ہمیں روزمرّہ زندگی میں کونسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم خدائی خوف کی عکاسی کرنے والے فیصلے کس طرح کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ آپکو ہر روز چھوٹے بڑے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔‏ مثلاً،‏ آپ اپنے ساتھی کارکنوں،‏ ہم‌مکتبوں،‏ پڑوسیوں کے ساتھ کس قِسم کی گفتگو کریں گے؟‏ (‏لوقا ۶:‏۴۵‏)‏ کیا آپ اپنے کاموں کو انجام دینے کے لئے سخت جانفشانی کریں گے یا کم سے کم کوشش کریں گے؟‏ (‏کلسیوں ۳:‏۲۳‏)‏ کیا آپ یہوواہ سے برائےنام یا بالکل محبت نہ کرنے والے لوگوں کی قربت میں رہیں گے یا کیا آپ روحانی اشخاص کے ساتھ اپنے تعلقات اُستوار کرنے کی کوشش کریں گے؟‏ (‏امثال ۱۳:‏۲۰‏)‏ کیا آپ معمولی طریقوں سے بھی خدا کی بادشاہت کے مفادات کو ترقی دینے کی کوشش کریں گے؟‏ (‏متی ۶:‏۳۳‏)‏ اگر یہاں بیان‌کردہ صحیفائی اُصول آپ کے روزمرّہ فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں تو پھر آپ یقیناً ”‏اپنی سب راہوں میں“‏ یہوواہ کو پہچان رہے ہیں۔‏

۱۵ درحقیقت،‏ ہم جو بھی فیصلہ کرتے ہیں ہمیں اس بات کو مدِنظر رکھنا چاہئے:‏ ’‏یہوواہ مجھ سے کیا کرانا چاہتا ہے؟‏ کونسی روش اُسے سب سے زیادہ پسند آئیگی؟‏‘‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ اس طریقے سے خدائی خوف ظاہر کرنا یہوواہ کیلئے محبت ظاہر کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔‏ خدائی خوف ہمیں روحانی،‏ اخلاقی اور جسمانی طور پر پاک‌صاف رہنے کی بھی ترغیب دیگا۔‏ یاد رکھیں کہ اسی آیت میں جہاں یعقوب مسیحیوں کو ”‏خدا کے نزدیک جاؤ“‏ کی تاکید کرتا ہے وہیں وہ یہ بھی نصیحت کرتا ہے:‏ ”‏اپنے ہاتھوں کو صاف کرو اور اَے دو دلو!‏ اپنے دلوں کو پاک کرو۔‏“‏—‏یعقوب ۴:‏۸‏۔‏

۱۶.‏ یہوواہ کو دینے سے ہم کیا نہیں کر سکتے لیکن کیا کرنے میں ہمیشہ کامیاب ہو سکتے ہیں؟‏

۱۶ بِلاشُبہ،‏ یہوواہ کے لئے اپنی محبت ظاہر کرنے کے لئے محض بدی سے نفرت کرنا کافی نہیں ہے۔‏ محبت ہمیں نیکی کرنے کی تحریک بھی دیتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہوواہ کی بےپناہ فیاضی کے سلسلے میں ہم کیسا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں؟‏ یعقوب نے لکھا:‏ ”‏ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام اُوپر سے ہے اور نُوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۷‏)‏ سچ ہے کہ جب ہم اپنے اثاثوں میں سے کچھ یہوواہ کو دیتے ہیں تو وہ اِس سے مالدار نہیں ہوتا۔‏ وہ تو پہلے ہی دُنیا اور اُس کی معموری کا مالک ہے۔‏ (‏زبور ۵۰:‏۱۲‏)‏ نیز جب ہم اپنا وقت اور توانائی یہوواہ کو دیتے ہیں تو ہم اُس کی کوئی ایسی ضرورت پوری نہیں کرتے جو وہ بصورتِ‌دیگر پوری نہیں کر سکتا۔‏ اگر ہم خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی منادی بھی نہ کریں تو وہ پتھروں کو بولنے پر مجبور کر دے گا!‏ پھر یہوواہ کی راہ میں اپنے وسائل،‏ وقت اور قوت خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‏ اس لئےکہ ایسا کرنے سے ہم اپنے دل‌وجان اور اپنی ساری عقل اور طاقت سے اُس کے لئے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔‏—‏مرقس ۱۲:‏۲۹،‏ ۳۰‏۔‏

۱۷.‏ کیا چیز ہمیں یہوواہ کیلئے خوشی سے دینے کی تحریک دے سکتی ہے؟‏

۱۷ جب ہم یہوواہ کو کچھ دیتے ہیں تو ہمیں خوشی سے ایسا کرنا چاہئے کیونکہ ’‏خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔‏‘‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۹:‏۷‏)‏ استثنا ۱۶:‏۱۷ میں درج اُصول ہمیں خوشی سے دینے میں مدد دے سکتا ہے:‏ ”‏ہر مرد جیسی برکت [‏یہوواہ]‏ تیرے خدا نے تجھ کو بخشی ہو اپنی توفیق کے مطابق دے۔‏“‏ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہوواہ نے ہمارے لئے کتنی فیاضی دکھائی ہے تو ہم خوشی سے اُسے دینے کی تحریک پاتے ہیں۔‏ ایسی فیاضی اُسکے دل کو بالکل اُسی طرح شاد کرتی ہے جیسے بچے کی طرف سے چھوٹا سا تحفہ والدین کو خوشی بخشتا ہے۔‏ اس طریقے سے اپنی محبت کا اظہار کرنا ہمیں یہوواہ کے نزدیک جانے میں مدد دیگا۔‏

دُعا کے ذریعے قربت پیدا کریں

۱۸.‏ اپنی دُعاؤں کے معیار کو بہتر بنانے پر غور کرنا کیوں ضروری ہے؟‏

۱۸ شخصی دُعا کے لمحات ہمیں اپنے آسمانی باپ کے ساتھ قریبی اور رازداری کی گفتگو کرنے کے شاندار مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔‏ (‏فلپیوں ۴:‏۶‏)‏ دُعا خدا کے قریب جانے کا سب سے اہم ذریعہ ہے اسلئے اچھا ہے کہ ہم اپنی دُعا کے معیار پر غور کریں۔‏ ہماری دُعاؤں میں بڑےبڑے الفاظ اور اعلیٰ انداز ہونا ضروری نہیں مگر ان میں ہمارے دلی جذبات ضرور شامل ہونے چاہئیں۔‏ ہم اپنی دُعاؤں کے معیار کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں؟‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ دُعا کرنے سے پہلے غور کرنا کیوں ضروری ہے اور غوروخوض کے لئے چند موزوں موضوعات کیا ہیں؟‏

۱۹ دُعا کرنے سے پہلے ہم اس پر غور کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‏ اگر ہم وقت سے پہلے اس پر غور کرتے ہیں تو ہم اپنی دُعاؤں کو مخصوص اور پُرمعنی بنا سکتے اور یوں ذہن میں آنے والے ایک ہی طرح کے خیالات کو باربار دہرانے سے گریز کر سکتے ہیں۔‏ (‏امثال ۱۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ یسوع نے اپنی نمونے کی دُعا میں جن موضوعات کا ذکر کِیا شاید اُن پر غور کرنا اور پھر یہ دیکھنا معاون ثابت ہو کہ ہمارے موجودہ حالات سے انکا کیا تعلق ہے۔‏ (‏متی ۶:‏۹-‏۱۳‏)‏ مثال کے طور پر،‏ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ زمین پر خدا کی مرضی پورا کرنے میں ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔‏ کیا ہم یہوواہ کے سامنے اس بات کا اظہار کر سکتے ہیں کہ ہم اُس کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں لہٰذا اُسے پورا کرنے کے لئے ہمیں اُس کی مدد درکار ہے؟‏ کیا ہم اپنی مادی ضروریات کے بوجھ سے پریشان ہیں؟‏ ہمیں کن گناہوں کی معافی چاہئے اور ہمیں کس کو زیادہ معاف کرنے کی ضرورت ہے؟‏ ہمیں کن آزمائشوں کا سامنا ہے اور کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سلسلے میں یہوواہ کے تحفظ کی فوری ضرورت ہے؟‏

۲۰ علاوہ‌ازیں،‏ ہم ایسے لوگوں کی بابت سوچ سکتے ہیں جنہیں یہوواہ کی مدد کی خاص ضرورت ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۱۱‏)‏ تاہم ہمیں شکرگزاری کے عمل کو بھولنا نہیں چاہئے۔‏ اگر ہم سوچیں تو ہمیں ضرور ایسی وجوہات مل جائیں گی جن کیلئے ہمیں ہر روز اُسکی نیکی کا شکرگزار ہونے کی ضرورت ہے۔‏ (‏استثنا ۸:‏۱۰؛‏ لوقا ۱۰:‏۲۱‏)‏ ایسا کرنے کا ایک اَور فائدہ یہ ہے کہ اس سے ہمیں زندگی کی بابت مثبت اور قدردانی کا نظریہ اختیار کرنے میں مدد ملیگی۔‏

۲۱.‏ یہوواہ سے دُعا کرنے کے سلسلے میں کونسی صحیفائی مثالوں کا مطالعہ ہمیں مدد دے سکتا ہے؟‏

۲۱ مطالعہ بھی ہماری دُعاؤں کو بہتر بنا سکتا ہے۔‏ خدا کے کلام میں ایماندار آدمیوں اور عورتوں کی غیرمعمولی دُعائیں درج ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ اگر ہمیں کوئی ایسا کٹھن مسئلہ درپیش ہے جو ہمارے اور ہمارے عزیزوں کیلئے خطرے کا باعث ہے تو ہم یعقوب کی اپنے انتقام‌پسند بھائی عیسو سے ملنے سے پہلے کی جانے والی دُعا کو پڑھ سکتے ہیں۔‏ (‏پیدایش ۳۲:‏۹-‏۱۲‏)‏ یا ہم آسا بادشاہ کی دُعا کا مطالعہ کر سکتے ہیں جو اُس نے کوشیوں کے دس لاکھ سپاہیوں پر مشتمل لشکر کے خدا کے لوگوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے پر مانگی تھی۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۴:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ اگر ہم کسی ایسے مسئلے سے پریشان ہیں جو یہوواہ کے نام پر بدنامی لا سکتا ہے تو پھر کوہِ‌کرمل پر بعل کے پجاریوں کے سامنے الیشع کی دُعا پر غور کِیا جا سکتا ہے،‏ نیز یروشلیم کی تباہ‌حالی کی بابت نحمیاہ کی دُعا بھی اس سلسلے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۸:‏۳۶،‏ ۳۷؛‏ نحمیاہ ۱:‏۴-‏۱۱‏)‏ ایسی دُعاؤں کو پڑھنا اور ان پر غور کرنا ہمارے ایمان کو تقویت بخشنے کیساتھ ساتھ ہمیں پریشان‌کُن حالات میں یہوواہ تک رسائی کرنے کے بہترین طریقے فراہم کر سکتا ہے۔‏

۲۲.‏ سن ۲۰۰۳ کی سالانہ آیت کیا ہے اور پورے سال کے دوران ہمیں وقتاًفوقتاً خود سے کیا پوچھتے رہنا چاہئے؟‏

۲۲ واضح طور پر،‏ ”‏خدا کے نزدیک جاؤ“‏ کی بابت یعقوب کی مشورت سے بڑھ کر کوئی نصب‌اُلعین نہیں ہو سکتا ہے۔‏ (‏یعقوب ۴:‏۸‏)‏ دُعا ہے کہ خدا کی بابت اپنے علم میں ترقی کرنے،‏ اُس کے لئے اپنی محبت کا زیادہ سے زیادہ اظہار کرنے اور اپنی دُعاؤں کے ذریعے اُس کی قربت حاصل کرنے سے ہم ایسا کرتے رہیں۔‏ سن ۲۰۰۳ کے دوران،‏ یعقوب ۴:‏۸ کو سالانہ آیت کے طور پر ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں مسلسل اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ آیا ہم واقعی یہوواہ کے نزدیک جا رہے ہیں۔‏ تاہم،‏ اس بیان کے اگلے حصے کی بابت کیا ہے؟‏ یہوواہ کس مفہوم میں ’‏ہمارے نزدیک آئے گا‘‏ اور اس سے ہمیں کونسی برکات حاصل ہوں گی؟‏ اگلا مضمون اسی موضوع پر بات کرے گا۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• یہوواہ کے نزدیک جانے کو سنجیدگی سے کیوں لینا چاہئے؟‏

‏• یہوواہ کا علم حاصل کرنے کے سلسلے میں ہم کونسے نشانے قائم کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہم یہوواہ کیلئے حقیقی محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہم دُعا میں کن طریقوں سے یہوواہ کیساتھ زیادہ قربت پیدا کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر عبارت]‏

سن ۲۰۰۳ کی سالانہ آیت:‏ ”‏خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئیگا۔‏“‏ —‏یعقوب ۴:‏۸‏۔‏

‏[‏صفحہ ۸،‏ ۹ پر تصویر]‏

سموئیل پُختہ ہونے کیساتھ ساتھ یہوواہ کو قریب سے جاننے لگا

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

کوہِ‌کرمل پر ایلیاہ کی دُعا ہمارے لئے اچھی مثال ہے